Close

میں تو آئینہ ہوں

کتے اور گھر کے مکینوں میں بنیادی فرق تو یہ ہوتا ہے کہ کتا گھر کے باہر کھڑا، بیٹھا ہر آتے جاتے پہ بھونکتا رہتا ہے، اس کا کام ہر نا معلوم شخص پر بھونکنا ہوتا ہے چاہے وہ اس گھر کی چھت مرمت کرنے آیا ہو یعنی گھر کے فائدے کے واسطے، اب مکینوں کا کردار کتے کے کردار سے بلکل مختلف ہوتا ہے، گھر کے مکین دل وجان سے گھر کو صاف رکھتے ہیں، پودوں کو پانی دیتے ہیں الغرض اگر سینکڑوں میل دور جا کر نوکری بھی کرنی پڑ جائے تو اس سے بھی نہیں کتراتے۔

یہ بات سوچنے والی ہے کہ کہیں ہم گھر کے باہر بیٹھنے والے اور ہر اس شخص پر زبان کھولنے والے تو نہیں بن گئے جو اس گھر کی اچھائی چاہتا ہو؟ ہم کھانے پینے اور دوسروں پر تنقید کرنے والی مشین بن چکے ہیں اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر اس ذات پر لپکتے ہیں جو ہمیں ناگوار گزرنے والی بات کہہ ڈالتا ہے۔

پچھلی پانچ دہائیوں سے ہماری ذات کو ایک مخصوص پروپگنڈے کے ذریعے امید کے لحاف میں ایسا لپیٹا جا چکا ہے کہ ہم ما سوائے اپنے کسی دوسرے کو خاطر میں ہی نہیں لا پاتے، نماز، روزے، تسبیح، بھارت، اسرائیل، امریکا، کرکٹ، جنت، جہنم اور کئی دوسرے ایسے نفسیاتی بیج ہیں جو ہمارے ذہنوں کو پستی سے بلندی کی طرف کے سفر کو روکنے کے لیے بو دیے گئے ہیں، ایک عام پاکستانی کے ذہن میں اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے زیادہ بھارت سے جنگ کرنے کو جی چاہتا ہوگا یا پھر بچوں کو کپڑے پہنانے سے زیادہ مسجد کے لیے نئی صفوں کی خریداری ذہن میں آتی ہوگی، جنت اور جہنم کے کھیل نے ایسا آ دبوچا ہے کہ انسانیت کو چھوڑ کر حیوانیت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بات قابل فکر ہے کہ جنت یا جہنم میں اگر کوئی جاتا بھی ہو تو اس کا کم از کم انسان ہونا تو لازمی شرط ہے۔

متذکرہ بالا بیج اپنا پھل لے آئے ہیں، آج اگر کوئی بھی تمہیں تمہاری غلطی بتاتا ہے تو تم اس بیچارے کی پچھلی سات نسلوں تک کو گالیوں سے نوازتے ہو، اس کی بات کا جواب تمہارے پاس صرف اس کی ذات پر تنقید ہی ہوتا ہے، تمہارے منہ سے لفظ نہیں آگ نکلتی ہے، جو ایک بات کی دلیل ہے کہ تمہارے اندر کا صبر جنت، جہنم، اسرائیل، بھارت، امریکا، نماز، روزے اور نیکی جیسے بیجوں نے تلف کر ڈالا ہے اور تم کیونکہ ایک بیمار ہو اسی لیے اپنے اندر کی بیماری ختم کرنے والے کی باتوں تک کو بلا جواز بکواس کہہ دیتے ہو، بالکل اس بوڑھے کی طرح جو کہ دمے کا مریض ہے لیکن پھر بھی حقہ پینے کے واسطے ڈاکٹر کے سارے کیے دھرے پہ دو گالیاں جڑ کے مٹی ڈالتا ہے۔

الفاظ کے معنی نہیں بدلا کرتے، ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الفاظ اپنے نفسیاتی اثرات بدل ڈالتے ہیں، الله اکبر کا نعرہ تمہارے اندر کی نفسیاتی گندگی سے اٹھنے والی بدبو کا ایسا سپرے بن چکا ہے کہ ہر وہ بات جس کا مناسب جواب تمہارے پاس نہیں ہے، تم اگلے کو یہود و نصاری کہہ کر یہ نعرہ بلند کر ڈالتے ہو، تم الله کو بلند نہیں کرتے بلکہ اپنے اندر کے نفسیاتی بھوت کی لٹکی ہوئی گردن کو اونچا کرنے کی بے ہودہ کوشش کرتے ہو، مذہب کو تم نے سچائی سے بچانے والی دوائی بنا کر اپنی ذات پر چھڑک ڈالا ہے، تم ہم ادھ مووئے ہو چکے ہیں، جو جوئے شیر ہماری منتظر تھی اس سے دوسرے کب کے لطف اندوز ہو چکے، اب تمہیں، ہمیں خود پسندی کے آسیب سے نکلنا ہے اور نئی جوئے شیر اپنی نسلوں کو لا کر دینی ہے۔

تم تحفظ ختم نبوت کے لیے گلے پھاڑتے ہو لیکن کسی کی سات سال کی بیٹی کی ردا تار تار ہونے پہ تمہیں موت پڑ جاتی ہے اور تم اسی طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نمازیں پڑھ کے درود کے ورد میں مصروف ہوجاتے ہو، وہ انسان اپنی ماں کی کیسے عزت کر سکتا ہے جو دوسروں کی بیٹی کو کپڑے دھونے، برتن مانجھنے اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھے، یہ ادھ موئی غیرت ابنائے آدم اگر کھوپڑی کو اس کے اصل کام پہ لگا دیں تو یقین جانیں پورا مغرب منہ میں انگلیاں لیے حیرانیت کی حدوں کو چھوئے۔

میں تو آئینہ ہوں، میرا کام تمہیں یہ دکھانا ہے کہ تمہارے ماتھے پر سیاہی لگی ہے، اور دامن پر داغ، اب اس داغ کو دھونا اور سیاہی کو صاف کرنا تمہارا اپنا عمل ہے، لیکن اس سے پہلے کہ تم میری بات کو سمجھو تمہاری خود پسندی تمہیں سیاہی صاف کرنے اور داغ پہ توجہ دینے سے پہلے تمہیں مجھے گالیاں دینے پہ اکساتی ہے جس کا نتیجہ تو یہ ہے کہ تم اپنی اصلیت دکھا کر ویسے ہی جینا پسند کرتے ہو جیسا کہ آئینہ دیکھنے سے پہلے۔

میں تو آئینہ ہوں، توڑ ڈالو گے تو تمہیں تمہارے اصل روپ کے سینکڑوں حصے نظر آنے لگیں گے، میں تو آئینہ ہوں ٹوٹ کر بھی تمہارے وجود کا عذاب بن جاؤں گا، تمہارے وجود کی خباثت تمہارے علاوہ سینکڑوں کو دکھا ڈالوں گا، میں تو آئینہ ہوں میرے کام کو سمجھو نہ کہ توڑنے کی تدبیر۔

میں تو آئینہ ہوں ٹوٹ کے بکھر جاؤں گا
تمہارا چہرہ ہزار آنکھوں کو پھر دکھاؤں گا

4 Comments

  1. ہمارے معاشرے کے بہترین تصویر.
    میں، سب سے پہلے اس طرح کی ایک عظیم تحریری طور پر فراہم کرنے کے لئے آپ کا شکریہ کہنا چاہوں گا
    ہمارے معاشرے، تحریروں اس قسم کی ضرورت ہے
    لوگوں کو منطقی طور پر سوچ شروع کر دینا چاہئے.
    لیکن مذہبی غلبہ لوگ صرف بھارت، امریکہ اور Israeal سے کہہ ساتھ منطق کو مسترد کرتے ہیں

جواب دیں

4 Comments
scroll to top