Close

نمرودی بے وقوفی

 

جب اہلِ عراق نے شاہ نمرود بن کنعان کو یہ شکایت کی کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سارے بت توڑ دیے ہیں تو نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بلوا کر کہا کہ:

نمرود: تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟

ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا: استغفر اللہ کچھ نہیں…

نمرود نے کہا: یہ کون سا خدا ہے جس کا تم دعوی کر رہے ہو؟

ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا: اللہ میرا خدا ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے..

نمرود انہیں کونے میں لے گیا اور کہا: زندگی اور موت میں دیتا ہوں..

پھر نمرود نے دو آدمی بلائے، ایک کو مار دیا اور دوسرے کو معاف کردیا…

ابراہیم (علیہ السلام) کو کچھ جھٹکا لگا، لیکن وہ گویا ہوئے کہ: میرا خدا سورج کو مشرق سے لاتا ہے تم اسے مغرب سے لاکر دکھا دو !!

اب نمرود کو جھٹکا لگا..

پھر کسی وقت ایک آیت نازل ہوئی:

( أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّي الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) سورہ گائے… میرا مطلب ہے سورہ بقرہ

اگر نمرود کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قصہ درست ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل غیر منطقی تھی بلکہ نمرود گدھا تھا (نمرود بھائی سے معذرت کے ساتھ کہ آپ یقیناً بڑے طاقتور بادشاہ رہے ہوں گے مگر آپ بے وقوف تھے)

ابراہیم (علیہ السلام) کی حجت تھی کہ ان کا خدا سورج کو مشرق سے لاتا ہے آپ اسے مغرب سے لاکر دکھائیں…

ویری گڈ…

نمرود بھائی… آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ کیا آپ کا خدا اسے ابھی اسی وقت مغرب سے لاسکتا ہے!!؟

ٹینشن ہوگئی نا…

یو مسڈ اٹ مسٹر نمرود…

اب کوئی فائدہ نہیں… ڈائریکٹر یہی چاہتا تھا کہ: فبہت الذی کفر.

26 Comments

    1. قبلہ میں نے کسی کو کیا کہا ہے؟ کیا میں نے کسی کی ذات پر حملہ کیا ہے؟ یہ میرا بلاگ ہے اور میں یہاں کچھ بھی لکھنے کے لیے آزاد ہوں اب اگر کچھ لوگوں کو اس سے ٹینشن ہوتی ہے تو میری بلا سے، میں ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتا.. وہ ٹینشن نا لیا کریں… نفسیاتی مریضوں کے لیے میرے پاس کوئی علاج نہیں.. ویسے بھی یہ لوگ کب تک میرا پیچھا کر سکیں گے!؟ 🙂

  1. طاقت اور عقل میں فرق تو ہے ہی .

    ہوسکتا ہے اس وقت نمرود مزید اپنی طاقت بڑھانے پر عقل خرچ کرڈالی ہو!

    فرض کرلیا جائے اگر نمرود نے ابرھیم سے پوچھ بھی لیا کہ تمھارے خدا کو مغرب سے سورج طلوع کرنے کو کہو؟ پھر بھی ابراھیم کے جواب سے پہلے سٹوری ختم ہوجاتی .

  2. "مکھی صاحب کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جو وہ بک رہے ہیں اس کو درست مانا جائے .
    اختلاف کے جواب میں ان کا انداز طنزیہ ہوتا ہے نا کہ ایک عالم کا”.
    لوگ کچھ ایسا ایسا محسوس کر رہے ہیں.
    کچھ
    اندازِ بیاں کا عجیب ہونا محسوس ہورہا ہے.
    جیسا کہ………………………
    سلیم کے سامنے ایک شخص نے جاوید کے باپ کو کمینہ اور ذلیل کہا.
    (اب سلیم دو طرح سے بات کو بیان کرسکتا ہے.)
    جاوید صاحب آپ کے والد کو فلاں شخص نے گالیاں دیں.
    یا
    جاوید تیرے باپ کو فلاں شخص نے کمینہ اور ذلیل کہا.
    اور
    .
    .
    شاید کہ تیرا اندازِ بیاں اور ہے……………………..

  3. مڈل ایسٹ کی کہانیاں عجب ہی منطق ہیں سمجھنے کے نا سمجھانے کے .
    ان کی کہانیاں بھی ایسی کہ عقیدہ ہے تو یقین مانو یا پھر الف لیلہ کی کہانیاں سمجھ لو.
    ان کی سبھی کہانیاں خون خرابوں سے آلود ہیں. (اس کی وجہ جنت وارث ہونا بیان کرتے ہیں)

  4. نمرود اگر اسے مِس نہ بھی کرتا تو بھی ابراہیمّ کا خُدا اس بات کی قدرت رکھتا تھا کہ وہ سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دیتا. بالکل ویسے ہی جیسے اُس نے آگ کو ابراہیمّ کے لیے گلزار بنا دیا، بالکل ویسے ہی جیسے اُس نے محمد ﷺ کے اشارے پر چاند کو دو ٹکڑے کردیا، بالکل ویسے ہی جیسے محمدﷺ کے ادنی غلام بلال ؓ کے اذان نہ دینے پر سورج کو نکلنے سے روک دیا۔
    پر مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب بھی قصے کہانیاں ہی ہیں، مڈل ایسٹ والی۔ بات تو یقین کرنے کی ہے۔

  5. محمد شاکر صاحب، یہ جو چاند کو دو ٹکڑے کرنے والی روایت ہے اور حضرت بلال کی ازان والی روایت، یہ دونوں ہی ضعیف روایات ہیں اور بالکل بھی مصدقہ نہیں ہیں. اس میں آپ جا کر اگر خود دینی لٹریچر کو چیک کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی.
    کیا آجکا انسان اگر یہ سوچے کہ نمرود نے جو سوال کیا تھا وہ دراصل صحیح نہیں تھا اگر وہ یہ سوال اس طرح کرتا تو حضرت ابراہیم کو لاجواب کیا جا سکتا تھا. تو سوچ کے اس رخ پہ آپ کیوں پابندی لگانا چاہتے ہیں.
    دنیا بھر میں مذاہب کے اوپر تحقیق کرنے والے اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں اور وہ علم کے مختلف ذراءع استعمال کر کے جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف قصے کہانیاں جو مختلف مذاہب میں رائج ہیں وہ کس طرح وجود میں آئیں ہیں. مثلآ وہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطی میں جنم لینے والے مذاہب میں زیتون کو اہمیت ہے، دوزخ ایک گرم ترین جگہ ہے، شہد اوردودھ کی نہریں ہیں. لیکن ایک اسکیمو کو دوزخ کی گرمی سے خوف نہیں آتا، وہ برفیلی سردی سے گھبراتا ہے. ملائیشیاء میں رہنے والے کو زیتون سے کیا دلچسپی انہیں اپنے علاقے کے پھل اور میوے پسند ہیں، ڈنمارک اور سوئیڈن میں رہنے والے دودھ کی نہروں سے متائثر نہیں ہوتے. اسی طرح ایک پدر سری معاشرے میں حور اہمیت رکھتی ہے مگر مدر سری معاشرے میں حور کی کیا اہمیت. جبکہ اس دنیا میں ایسے معاشرے موجود ہیں جہاں عورت سربراہ ہوتی ہے یا جہاں عورت اور مرد بالکل برابر ہیں. آپ جب دین کی تبلیغ ان علاقوں میں کریں گے تو لازمآ یہ سوال سر اٹھائیں گے. اس وقت آپ کیا کریں گے. یقین کرو اس لئے کہ میں یقین کرتا ہوں.
    آپ یا کوئ شخص بے شک ان پہ یقین کرے، میں بھی کرتی ہوں. مگر آپ ڈنڈے کے زور پہ مقام یقین سے کیوں گذارنا چاہتے ہیں. جبکہ دین میں زبردستی نہیں.
    نمرودی بے وقوفی یہ اصطلاح مجھے تو پسند آئ. لیکن سوچتی ہوں اسے تھوڑا اور واضح ہونا چاہئیے.سو جیسے ہی اسے استعمال کیا جائے مقام استعمال ایک دم اجلا ہو جائے.

  6. محترمہ پہلے تو یہ شکریہ ادا کرنا چاہوں‌گا کہ آپ نے آگ کو گلزار بنا دینے والی بات کو بھی ضعیف نہیں‌کہہ دیا. اگرچہ ان روایات کے ضعیف یا صحیح ہونے کے بارے میں کسی اور دوست سے تصدیق یا تردید کا منتظر ہوں.
    مزید یہ کہ جنت میں‌حور کی "گرانٹ”‌ملنے کا جو وعدہ ہے اس میں مرد حور بھی ہیں‌اور عورت حور بھی. ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مطابق حور سے ہر دو اصناف مراد لی جاسکتی ہیں. مزید یہ کہ اسلام صرف اُخری incentive نہیں دیتا بلکہ دنیا میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے جنت جیسے حالات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ آخری مزید یہ کہ یہاں دین میں کوئی زبردستی پیدا نہیں کی جارہی، ایک بات کے جواب میں بات کی جارہی ہے تاکہ لوگوں کے دل میں شک پیدا نہ ہو۔ آپ ماشاءاللہ صاحب علم ہیں، میرے جیسے کئی بھی ہیں جن کی کھوپڑیا میں بھُس بھرا ہے انھیں سمجھ نہیں لگتی کہ اگر نمرود ایسا نہ کہتا بلکہ ویسا کہہ دیتا والی بات سچ ہوجاتی تو کیا ہوتا؟ ان کے ریمائنڈر کے لیے یہ آن دی ریکارڈ ہونا چاہیے کہ نمرود کو کاؤنٹر کرنے والی ذات موجود ہے اور اگر وہ ایسا کرتا، تو اس کے علاج کا شافی بندوبست موجود تھا۔ اب اس کی بدنصیبی کہ اس نے آپشن کو اوےل نہیں کیا اور چار ہزار سال بعد ایک انسان کو خیال آیا اوہ شِٹ ہی مسڈ اٹ۔

  7. ابراھیم کا آگ میں‌تھنڈا بیٹھ جانا
    چاند کو اشاروں میں کہنا کہ دو تکڑے ہوجاؤ
    آسمان سے دسترخوان اتارلینا
    وغیرہ وغیرہ
    یہ سب اب کیوں نہیں‌؟

    ————————————

    سیب اور انگور کے باغات
    شہد اور دودھ!
    خوبصورت حوریں
    یعنی جنت میں بھی یہی دنیاوی چیزیں؟

    —————————————–

    قبر کا عذاب
    قبر کا تنگ ہوجانا
    سانپ اور بچھو کا ڈسنا
    تا قیامت عذاب میں مبتلا رہنا!!!!
    کس مْردے نے دوبارہ زندہ ہوکر اپنے واقعات بیان کئے؟

    ——————————————–

    جس نے خدا کا انکار کیا اس کے خلاف جہاد
    پیٹ پر پتھر باندھ لئے
    جوتیاں خون میں‌ڈوب گئی
    دانت تڑوالئے
    پاگل بھی قرار دے دیئے
    شادیوں میں کنجوسی نہیں‌کی
    نابالغ کو بھی بالغ کردیا
    اور کہتے ہیں‌سب خدا کا حکم ہے!
    ہم آخر ہیں باقیوں‌کو اس کی اجازت نہیں!!!!

    ———————————

    رات شروع ہوئی
    عرش تک پہنچ گئے
    پھر فجر سے پہلے واپس آگئے
    سینکڑوں صفحات کی کہانی سنائے
    جہنم اور جنت کی سیاحت سے لبریز
    کھڑی کہانی سنائے
    نا ماننے والوں کو جہنم کا ڈیمو دکھایا
    ———————————-

    حد ہوگئی
    بہت سے نکمے آئے
    پتہ نہیں کیا کیا بکواس کرگئے
    مگر یقین کرلو
    یہ آخری بکواس ہے کہ
    ہم آخر ہیں
    جنت میں‌حوروں سے کھیلنا ہے تو
    ہمیں آخر سمجھو
    ورنہ تمہاری مرضی
    —————————-

    مطلب کیسے کیسے لوگ آئے اور موجاں کرگئے ، اور آج بھی ایسے ہی قسم کے کچھ لوگ ہیں جن کی موجاں‌ہی موجاں اور ویسے ہی لوگ یعنی اندھے عقیدتمند

  8. شاکر صاحب یہ شق القمر والے واقعے پہ سیارہ پہ پہلے بھی کہیں بات ہو چکی ہے آج نیا تذکرہ نہیں۔ کسی کا انتظار کرنے سے بہتر یہ ہے کہ آپ خود سے چھان پھٹک شروع کریں۔ آپ نے آگ کے گلزار ہونے کی بات کی ہے۔ میرے خیال میں قرآن میں آگ کا گلزار ہونے کا تذکرہ نہیں بلکہ اسکے ٹھنڈے ہونے کا تذکرہ ہے۔ میں نے اسکا تذکرہ پہلے اس لئے نہیں کیا کہ میں اسکا حوالہ دیکھنا چاہ رہی تھی۔ آپ بھی جا کر دیکھئیے گا کہ قرآن میں یہ واقعہ بالکل صحیح الفاظ میں کس طرح بیان کیا گیا ہے۔
    یہ نتیجہ ڈالٹرنائک نے نکالا ہوگا۔ مجھے سورہ رحمن میں حوروں کی جو خصوصیات یاد آرہی ہیں ان میں انکی آنکھوں کا خوبصورت ہونا اور انکا پہلے کسی بھی مرد کے تصرف میں نہ ہونا ہے۔ میں اور آپ مل کر سورہ رحمن دیکھتے ہیں۔ اسکے لئے ڈاکٹر ذاکر نائک کی مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
    ڈاکٹر نائک نے اسکی شدت کم کرنے کے لئے کہاہوگا۔ کیونکہ میں کئ علماء کا اس سلسلے میں بیان پڑھ چکی ہوں کہ ایک پاکباز عورت کو ایک سے زائد مرد نہیں چاہئیے ہوتے۔ اس لئے جنتی عورتیں اپنے شوہروں سے خوش رہیں گی جبکہ پاکباز مرد کے ساتھ ایسی کوئ شرط نہیں اس لئے انہیں حوریں ملیں گی۔
    اگر خدا نے ڈیڑھ ہزار سال کے بعد کے انسان کے ذہن کو سامنے نہ رکھا ہوتا تو قرآن کے بجائے رسول اللہ کو بھی موسی کے اژدھے جیسی چیز دی ہوتی۔ اور اسے ببانگ دہل یہ کہنے کی قطعاً ضرورت نہ پڑتی کہ ہم اس کتاب کا قیامت تک تحفظ کریں گے۔ کس لئے کریں گے قیامت تک تحفظ۔ اسی انسان کے لئے جو ہزاروں سال بعد پیدا ہوگا اور سوال کرے گا۔ ورنہ اسے نبی کے سینے میں دفن ہو جانا چاہئیے تھا۔ جیسے گوتم بدھ کی کوئ کتاب نہیں۔ پھر بھی بدھ مذہب زندہ ہے۔

  9. عنیقہ ناز صاحبہ!
    آپ نے کہا کہ ” محمد شاکر صاحب، یہ جو چاند کو دو ٹکڑے کرنے والی روایت ہے اور حضرت بلال کی ازان والی روایت، یہ دونوں ہی ضعیف روایات ہیں اور بالکل بھی مصدقہ نہیں ہیں. اس میں آپ جا کر اگر خود دینی لٹریچر کو چیک کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی.”
    آپکا یہ خیال غلط ہے. شق القمر ایک ایسا معجزہ تھا جس کی گواہی خود قرآن کریم میں دی گئی ہے. دیکھیےسورہ القمر(54) آیت 1-2 :
    اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ (2 )
    قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا – اور اگر وہ کوئی معجزہ دیکھ لیں تو اس سے منہ موڑ لیں اور کہیں یہ تو ہمیشہ سے چلا آتا جادو ہے

  10. ایک عرب مسیحی شاعر امریء القیس جو اسلام کی آمد سے تیس سال پہلے مر چکا تھا کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:

    دنت الساعۃ وانشق القمر
    عن غزال صاد قلبی ونفر

    اب اگر پہلے شعر سے قرآن کی آیت ” اقتربت الساعۃ وانشق القمر ” کا موازنہ کیا جائے تو مطلب اور وزن میں کوئی فرق نہیں ہے:

    دنت الساعۃ وانشق القمر
    اقتربت الساعۃ وانشق القمر

    دنی: نزدیک آنا
    اقترب: نزدیک آنا

    شاید اس نے بھی چاند کے دو ٹکڑے کیے ہوں گے کیا معلوم..

    اس پر پھر کبھی بات ہوگی کہ اسلام کی آمد کے تیس سال پہلے مرجانے والے ایک شاعر کا کلام قرآن میں من وعن کیا کر رہا ہے!؟

  11. شکریہ اینڈرسن شا بھائی. اس سلسلے میں مزید معلومات یقینا دلچسپی کا باعث ہوں گی. مجھے یاد پڑتا ہے کہ احمد دیدات کے ساتھ ایک مناظرے میں ایک عیسائی مشنری انیس شوروش نے بھی اسی قسم کی مثالیں پیش کی تھیں. میرا عربی زبان کا علم معمولی سا ہے اور زمانہ جاہلیت کی شاعری کے بارے میں بھی کم ہی جانتا ہوں. لیکن یہ یقیناً ایک دلچسپ موضوع ہے. زمانہ جاہلیت کی شاعری سے واقفیت سے قران کا اسلوب سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے. مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا امین حمد اصلاحی نے اپنی تفسیر تدبر القران میں بھی اسی بات کا ذکر کیا یوا ہے.

  12. جوادخان صاحب اس آیت کے ترجمے سے تو یہ لگ رہا ہے کہ قیامت کے قریب آنے پہ یہ واقعہ ہوگا اور اس سے یہ ثبوت کہاں مل رہا ہے کہ یہ شق القمر کے واقعے پہ ہے. ورنہ اسے اس طرح ہونا چاہئیے تحا کہ انگلی کا اشارہ کیا اور چاند پھٹ گیا. یا کم از کم قیامت کا لفظ نہیں ہونا چاہئیے تھا. کیونکہ اصل واقعے میں جو روایت کیا جاتا ہے. وہ ایک عام دن تھا. اگر اس آیت سے یہ مطلب نکالا جائے تو میں تو اسے مطلب برآوری نکالنا سمجھونگی ہونا نہیں. یہ معجزہ میں نے دیکھا نہیں سنا ہے. آپ نے بھی دیکھا نہیں سنا ہے. اگر دیکھتی، تب بھی آجکے عہد انسان کی طرح سوچتی ضرور کہ اس شخص نے یہ کیا کیسے تھا.
    خیر اس واقعے پہ مواد موجود ہے. چونکہ ماضی میں ، میں‌ نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسی گفتگو میں بھی حصہ لینا پڑے گا اس لئے نہ حوالے یاد رکھے اور نہ انکے ذریعے مھفوظ رہے. لیکن بہر حال چونکہ پڑھا ہے اس لئے کہیں نہ کہیں تو اسے موجود ہونا چاہئیے. حضرت بلال کا واقعہ بھی ایک قوالی میں سنا تھا. کیا نام ہے انکا مقبول میاں قوال. اسکے علاوہ میں نے کسی معتبر کتاب میں پڑھا نہیں.

  13. ویسے تو سب کچھ کہا ہی جا چکا ہے لیکن اس پوسٹ میں آپ نے بھی منطق کی کمر میں لات دے ماری ہے لیکن جس مہارت سے آپ نے مقدم کے انکار کا منطقی مغالطہ(Denying the antecedent fallacy) استعمال کیا ہے وہ قابل تحسین ہے..

    آپ مقدم کا اقرار کرسکتے ہیں(Affirming the antecedent)… اکرم بہت سست ہے. وہ 100 میٹر کی دوڑ ہار جائے گا (Modus Ponens)
    آپ مؤخر کا انکار کرسکتے ہیں(Denying the consequent)… نمرود سورج مغرب سے نہیں نکال سکا چناچہ وہ خدا نہیں ہوسکتا.(Modus Tollens )

    لیکن آپ مقدم کا انکار نہیں سکتے کہ یہ ایک منطقی مغالطہ اور بڑا خوشنما معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں تمام ممکنہ نتائج پر بات نہیں جاتی مثلا آپ کا یہ کہنا کہ "اگر نمرود ابراہیم کے خدا سے سورج مغرب سے نکالنے کا کہتا.. تو ابراہیم کا خدا سورج مغرب سے نہیں نکال سکتا”… اگر نکال دیتا تو؟ دوسرا ممکن نتیجہ 🙂 یہاں تو آپ بھی یقین کی قوت اور ہماری لاعلمی کا فائدہ اٹھاگئے اور صرف اپنے پسندیدہ ممکنہ نتیجہ (Outcome) کو یہ مد نظر رکھا 🙂

    1. یہاں بھی مقدم کی کامیابی کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنا کہ اکرم کے سو میٹر کی دوڑ جیتنے کی، اگرچہ اکرم کی ہار جیت کا قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر اس کے سست ہونے کو مدِ نظر رکھا جائے تو اس کے جیتنے کے کتنے امکانات ہیں؟ اور کیا اس صورت میں آپ اکرم پر شرط لگانے کے لیے تیار ہوں گے؟ 🙂

      1. اکرم کی مثال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور پری کنڈیشن سے جھول دور کیا جاسکتا لیکن اس سے آپ کی منطق کا مغالطہ دور نہیں ہوگا.. یہ میری رائے نہیں بلکہ ٹیکسٹ بک کلاسک کیس ہے.. اور آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں 🙂

  14. جواد اھمد خان صاحب، کفار مکہ قیامت کو جادو سمجھتے تھے یا نہیں. یہ مجھے نہیں معلوم، کیونکہ جہاں تک میرا علم ہے اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوئ تھی. میں تو صرف آپ سے یہ جاننا چاہ رہی ہوں کہ اس آیت میں قیامت کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے. حالانکہ شق القمر کے واقعے میں انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بیان کیا جاتا ہے. اور اس میں اسکے نتیجے میں بپا ہونے والی کسی قیامت کا تذکرہ نہیں آتا.
    دوسری بات جو میں اپنی دانست میں کرنا چاہ رہی ہوں وہ یہ کہ اس واقعے پہ اکابرین علماء کا اجماع نہیں ہے. اور اس روایت سے متعلق شہادتیں پوری نہیں ہیں. یہ حضرت بلال والے واقعے پہ آپ نے کچھ نہیں کہا.
    رسول اللہ کا معجزہ، قرآن پاک کو کہا جاتا ہے. اور ہم تواتر سے اس کتاب کی افضلیت اور علم و حکمت کے بارے میں سنتے ہیں.
    راشد کامراں صاحب، اس منطقی استدلال سے الگ.جب یہ بات نمرود کی بقاء کا مسئلہ تھی تو اسے زیادہ مظبوط دلیل پیش کرنی چاہئیے تھی. جیسے اس مثال میں ، ہم روز ہی دیکھتے ہیں کہ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں ڈوبتا ہے. مختلف لوگ یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ دراصل یہ کام انکا خدا کرتا ہے. جیسے ہندوئوں نے اسکے لئے اپنے کسی دیوی دیوتا کو مقرر کیا ہوگا. قدیم انسان بھی اسے کسی خدا کا کام سمھتا ہوگا.
    ہم میں سے کچھ لوگ اسی وزن پہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے کوئ فرشتہ مقرر ہوگا. اس مرھلے پہ ایک نیا موضوع چھڑ سکتا ہے. میں اس سے اجتناب کرتی ہوں. نمرود کو کوئ ایسی دلیل سامنے لانی چالئیے تھی جو کہ عام ھالات میں ممکن نہ دکھائ دیتی. چاہے ہزار سال بعد کا انسان اس میں سے منطق نکال لہتا. یہ ایک سامنے کی بات تھی. لیکن اس نے ایسا نہیں کیا.
    میرا خیال ہے کہ اس وقت، انسانی عقل اس ترقی پہ نہیں تھی. اس لئے نمرود نے یہ بات تسلیم کر لی. لوگ سادہ ہوا کرتے تھے.
    انسانی عقل کی ترقی کا سفر مذاہب سے بھی ظاہر ہے. اس لئے کفار مکہ نے نمرودی بے وقوفی نہیں دکھائ. یوں رسول اللہ کو زیادہ چیلینجنگ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا.

    1. سینیورا انیقہ.. آپ نے شاید میرا تبصرہ غور سے نہیں پڑھا.. مجھے اس بات میں دلچسپی ہے ہی نہیں کہ نمرود کا کیا اثرو رسوخ تھا اور نا مجھے اس بات میں دلچسپی ہے کہ یہ واقعات کہانیاں ہیں یا اصل واقعات.. میری عرض تو صرف اتنی تھی کہ جب "لاجیکل فیلاسی” آپ کے مقدمہ کا اہم ستون ہو تو ذیلی واقعات محض مبصرین کو لبھانے کا ذریعہ ہوتے ہیں..

  15. .اینڈرسن شا صاحب . آپکے بلاگ پر تبصرے کیلئے لاگ ان ہونا ایک انتہای تکلیف دہ امر ہے. کم از کم پندرہ منٹ صرف لاگ ان پر ضایع ہوجاتے ہیں.اوپر سے بار بار مسئلہ دیتا ہے. لھذا گزارش ہے کہ تبصرے کیلئے لاگ ان ہونے کا شرط ختم کریں .شکریہ.

    دروش خُراسانی

    ابھی کمنٹس بھیجنے میں بار بار مسئلہ کر رہا ہے

  16. درویش خُراسانی

    محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ:
    قران میں سورہ القمر کی پہلی ایت اقتربت الساعۃ وانشق القمر کے بارے سلسلے میں اکثر مفسرین اسکا شان نزول یہی واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ۔ لیکن بعض مفسرین اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور وہ یہی بات کہتے ہین کہ یہ واقعہ قیامت کے دن ہوگا۔کیونکہ اس ایت میں قیامت کے قریب ہونے کا ذکر بھی ہے۔ لیکن یہ صرف چند حضرات کا قول ہے اور جمہور مفسرین نے اسکا رد اس طرح کیا ہے کہ چونکہ اس ایت کے بعد ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَإِنْ يَرَوْا آَيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (2) وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دوسری ایت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر یہ کفار مکہ نشانی (معجزہ ) دیکھیں تو اعراض کرتے ہیں اس معجزے کو سحر کا نام دے دیتے ہیں۔اب کفار مکہ کو نشانی دکھانا اور انکا اس معجزے کو سحر قرار دینا قیامت کے دن تو نہیں ہوگا ۔ کیونکہ قیامت کا دن تو حساب کتاب کا دن ہے۔ لھذا جمھور مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس ایت سے قبل ضرور نشانی بتائی گئی ہے۔ ورنہ مابعد ایت میں کفار مکہ کا ان نشانیوں سے اعراض کا ذکر نہ ہوتا۔

    رہی قیامت کے قربت کی بات تو اسکا ایک جواب تو یہ ہے کہ عربی کا مقولہ ہے کہ (کل ما آت فھو قریب) یعنی ہر آنے والی چیز قریب ہوتی ہے۔اور قیامت بھی آنے والی ہے۔لھذا یہ بھی قریب ہوئی ۔

    دوسرا جواب یہ کہ کئی احادیث صحیحہ میں خود حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلی الہٰ وصحبہ وسلم نے قیامت کو انتہائی قریب کہا ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں تو اسطرح کہا ہے کہ قیامت اور میری بعثت میں اتنا قرب ہے جتنا کہ شھادت کی انگلی اور درمیانی انگلی۔ نیز ایک دوسرے صحیح حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام کو حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلی الہٰ وصحبہ وسلم وعظ فرما رہے تھے اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا تو حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلی الہٰ وصحبہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کا اکثر وقت گذر چکا ہے اور صرف اتنا وقت باقی ہے جتنا کہ سورج کے غروب ہونے کا ابھی باقی ہے۔ مراد یہ کہ دن کا بھی اکثر حصہ گذر کر سورج غروب ہونے کو ہے اسی طرح دنیا کا اکثر وقت گذر چکا ہے صرف تھورا وقت باقی ہے۔

    لھذا یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ جناب یہاں قربت کا قیامت کے ذکر کے سبب شق القمر ناممکن ہے۔

    چناچہ اسی لئےجمہور مفسرین یہ کہتے ہیں کہ یہ انشقاق قمر واقعہ ہوچکا تھا اسی لئے اس دوسرے ایت میں مشرکین مکہ کا انکار اور اعراض کی حالت بیان کی گئی۔

    بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے کہ آیا اس ایت اقتربت الساعۃ وانشق القمر میں اسی طرف اشارہ ہے کہ قبل از ہجرۃ انشقاق قمر ہوا ہے کہ نہیں۔

    لیکن انشقاق قمر کا واقعہ خود حد تواتر تک پہنچا ہوا ہے۔ اور ایک متواتر حدیث سے انکار آدمی کو اسلام سے خارج کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔لھذا اس طرح کے مسائل میں احتیاط کرنا لازم ہے ۔
    ہاں چند شاذ اقوال اس بارے میں بھی ہیں کہ نہیں شق القمر والا واقعہ مشہوری کے حد تک تو پہنچا ہے لیکن حد متواتر تک نہیں پہنچا، اور مشہور کے انکار پر آدمی فاسق تو ہوتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا۔

    پھر بعض علماء کرام نے اسکے درمیان یہ تطبیق کی ہے کہ اگرچہ شق القمر کا واقعہ لفظی متواتر تو نہیں ہے لیکن معنوی متواتر ضرور ہے۔ ان باتوں سے معلوم ہوا کہ شق القمر کے واقعے کا نکار کرنا کوئی ایسا بھی اسان بات نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

    دوسرے بات یہ کہ حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلی الہٰ وصحبہ وسلم نے انگلی کے اشارے سے اسکو دو ٹکڑے کرایا تو یہ انگلی والی بات کسی حدیث میں نظر نہیں آئی ، لھذا اس انگلی والے قول کو اکثر محدثین و مفسرین ضعیف قرار دیتے ہیں۔

    شق القمر کے واقعے پر جو اعتراضات ہوئے ہین تو انکو مفسرین نے ذکر کیا ہے اور یہ تمام اعتراضات قدیم فلاسفہ یونان کی طرف سے ہیں ۔جو ہر چیز میں لاجک (منطق) کا دخول لازم مانتے ہیں۔(حالانکہ صرف منطق بغیر وحی کبھی کبھی انسان گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ،کیونکہ صغری و کبری میں سے حد اوسط نکال کر نتیجہ نکالنے میں انسان اس وقت غلطی کرجاتا ہے جب وہ درست صغری و کبری نہیں بنا پاتا اور اس جگہ کی سہو سے نتیجہ غلط نکلتا ہے)۔بہر حال ان اعتراضات کا دوبدو جواب ان تفاسیر میں دیا گیا ہے ۔ اسکے علاوہ فتح الباری شرح بخاری میں بھی اس واقعے پر تفصیلی روشنی ڈال کر اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ اگر شوق ہو تو وہاں ملاحظہ کیجئے گا۔

    رہی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی بات تو اسکی تحقیق فی الحال نہیں کرسکا۔ اگر یہ کوشش آپ کرلیں تو اچھا ہوگا۔

جواب دیں

26 Comments
scroll to top