Close

وما مسنا من لغوب

بیشتر مذاہب کا اپنا ہی ایک قصہء تخلیق ہے تاہم تخلیق سے پہلے کیا صورتحال تھی یہ بتانے میں انہیں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے.

قوموں کے فرق سے ان تخلیق کے قصوں میں بھی فرق رہا، ہر قوم کا قصہء تخلیق اس کے اپنے ماحول کی پیداوار تھا، سب نے خدا کی تصویر کشی اپنے تصور کے حساب سے کی، مثال کے طور پر جن قوموں کا انحصار شکار پر تھا ان کے قصہء تخلیق کا شکار سے گہرا تعلق تھا.

یہودیوں نے اپنے زمانے میں رائج قصہء تخلیق میں اپنے ذوق کے حساب سے تبدیلیاں کر کے اسے اپنایا، چنانچہ ان کا قصہء تخلیق یوں شروع ہوتا ہے کہ خدا موجود تھا اور اس نے کائنات کو سات دنوں میں بنایا، ہر دن کائنات کا ایک حصہ تخلیق کیا، یہودیوں کے بعد جب عیسائیوں کی باری آئی تو انہوں نے یہودیوں کے اس قصہء تخلیق کو ایک مسلم حقیقت کے طور پر اپنایا، اسلام نے بھی عیسائیوں کی طرح یہودیوں کے اسی افسانوی قصے پر انحصار کیا کہ خدا نے یہ کائنات چھ دنوں میں بنائی.

ان توحیدی مذاہب میں کائنات کو چھ یا سات دنوں میں تخلیق کرنے کا یہ افسانوی قصہ صدیوں تک ایک مسلم حقیقت رہا، مگر جب علوم اور دریافتوں نے ترقی کی اور علم زمین اور کائنات کی عمر دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان مذاہب کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں جو یہ سمجھتے تھے کہ تخلیق کا عمل عین اسی طرح ہوا تھا جیسا کہ ان کے مذہبی افسانوں میں درج ہے، یوں ان توحیدی مذاہب کے مولوی دفاعی پوزیشن پر آگئے اور مقدس کلام کی وہ تاویلیں نکالنی شروع کردیں جو اس سے پہلے ان کے کسی وڈے وڈیرے نے نہ تو کبھی کی تھی اور نا ہی کبھی خواب میں ہی سوچا تھا، یوں اچانک دنوں کو زمانوں میں بدل دیا گیا اور کہا گیا کہ خدا کا مقصد زمینی دن نہیں تھا بلکہ یہ "کوئی اور” ہی دن ہے! اب خدا کا دن ہمارے دنوں کا ایک ہزار یا پچاس ہزار گنا طویل ہوگیا، اگر ہم اسلام کی بات کریں اور حدیث سے رجوع کریں تو یہ ثابت کرنا چنداں مشکل نہیں کہ یہ دن وہی عام دن ہیں جو ہمارے جانے پہچانے ہیں ناکہ ہزاروں سالوں پر مشتمل دن جیسا کہ زغلولی وہارونی ٹولہ لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا پھرتا ہے.. الواحدی کی اسباب النزول میں سورہ ق کی أیت 38 کے اسباب نزول میں یوں درج ہے:

769 – أخبرنا أحمد بن محمد التميمي قال : أخبرنا عبد الله بن محمد بن جعفر الحافظ قال : أخبرنا إبراهيم بن محمد بن الحسن قال : أخبرنا هناد بن السري قال : حدثنا أبو بكر بن عياش عن أبي سعد البقال ، عن عكرمة عن ابن عباس : أن اليهود أتت النبي – صلى الله عليه وسلم – فسألت عن خلق السماوات والأرض فقال : ” خلق الله الأرض يوم الأحد والاثنين ، وخلق الجبال يوم الثلاثاء [ وما فيهن من المنافع ] ، وخلق يوم الأربعاء [ الشجر والماء ] ، وخلق يوم الخميس [ السماء ] ، وخلق يوم الجمعة النجوم والشمس والقمر ” . قالت اليهود : ثم ماذا يا محمد ؟ قال : ” ثم استوى على العرش ” . قالوا : قد أصبت لو تممت ثم استراح . فغضب رسول الله – صلى الله عليه وسلم – غضبا شديدا . فنزلت : ( ولقد خلقنا السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام وما مسنا من لغوب فاصبر على ما يقولون )

حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور زمین وآسمانوں کی تخلیق کے بارے پوچھا تو فرمایا کہ: اللہ نے زمین اتوار وپیر کے دن بنائی، اور پہاڑ منگل کے دن بنائے اور بدھ کے دن درخت اور پانی بنایا اور جمعرات کے دن آسمان بنایا اور جمعہ کے دن ستارے سورج اور چاند بنایا، تو یہودیوں نے کہا: پھر کیا اے محمد؟ فرمایا: پھر وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا، یہودیوں نے کہا: درست کہا اور اگر آپ پورا کریں تو پھر آرام فرمایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت غصہ آگیا تو آیت نازل ہوئی کہ: اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو مخلوقات ان میں ہے سب کو چھ دن میں بنا دیا اور ہمکو ذرا بھی تھکن نہیں ہوئی۔ – سورہ ق آیت 38.

یہاں اظہر من الشمس ہے کہ دنوں سے مراد وہی عام دن ہیں جو ہم جانتے ہیں، خدا نے بھی اس واقعے پر جو آیت نازل کی اس میں اس نے اپنے پیغمر کی بات کی تائید ہی کی اور ایسی کوئی تصحیح نہیں فرمائی کہ جناب آپ نے جو دن بتائے ہیں وہ آپ کے عام دن نہیں ہیں بلکہ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہیں وغیرہ، چنانچہ یہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خدا قادر مطلق نہیں ہے بلکہ ایک مادی چیز ہے.. کیوں؟

کیونکہ اگر یہ وہ خدا ہوتا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کن کہتا ہے اور سب کچھ ہوجاتا ہے تو اسے زمین وآسمان کو بنانے میں چھ دن جتنا طویل وقت لگانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی، یوں منطقی طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ خدا ایک عاجز خدا ہے جسے ایک معمولی سی تخلیق کے لیے اتنا وقت لگانا پڑا، اس طرح وہ اپنی قدرت کھودیتا ہے، اگر وہ کوئی آدمی ہوتا تو بات سمجھ میں آنے والی تھی مگر خدا اتنا وقت لگائے یہ یقیناً نا ممکن ہے..؟؟

اس کے علاوہ وہ آیات جو یہ کہتی ہیں کہ خدا نے زمین وآسمان چھ دن میں بنائے یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ خدا ایک مادی چیز ہے اور "دن” کے زمان کا پابند ہے… دن کی تعریف کیا ہے؟ دن ایک زمانی مدت ہے جو ہر سیارے پر مختلف ہوتی ہے، زمین پر اس کا دورانیہ 24 گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں ایک دن اور ایک رات شامل ہوتی ہے جو زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کی وجہ سے متواتر رہتے ہیں، مختصراً یہ کہ ایک دن کسی ستارے کے تابع کسی سیارے کی اپنے محور کے گرد گردش کے ایک چکر پر مشتمل ہوتا ہے، اگر ہم اس اصول کو خدا پر لاگو کردیں تو کیا ہوگا؟ خدا اپنی ہی بنائی ہوئی ایک مصیبت میں پھنس جائے گا کیونکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے خدا کسی وقت کا پابند ہو؟ یعنی کائنات کو تخلیق کرتے وقت وہ کس حرکت کا پابند تھا؟ کیا اس کائنات کے اس سورج کا جسے ہم روز دیکھتے ہیں؟ مگر قرآن کے مطابق زمین آسمانوں سے پہلے بنائی گئی تھی اور جب آسمان بشمول ان کے ستاروں کے موجود ہی نہیں تھے تو وہ کس دن کی پابندی کر رہا تھا؟ زمین کی تخلیق کے وقت وہ کس حرکت کا پابند تھا؟.. عجیب بات یہ ہے کہ زمین کو بنانے میں اسے چار دن لگے جبکہ سورج چاند اور کھربوں کھربوں ستاروں اور سیاروں کو بنانے میں اسے محض دو دن لگے..؟! تخلیق کی اس نا معقول ترتیب اور مدت سے اگر صرف نظر بھی کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ خدا کا کسی سیارے کی حرکت کا پابند ہونا کس قدر معقول ہے؟ اگر ہم یہ بھی تسلیم کر لیں کہ جناب زمین وآسماںوں کو تخلیق کرنے سے پہلے بھی "کچھ” موجود تھا تب بھی سوال برقرار رہتا ہے؟ خدا کا کسی وقت کا پابند ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک مادی چیز ہے اور مکان میں جگہ گھیرتا ہے، یہ وہ خدا نہیں ہے جس کے جیسا اور کوئی نہیں.. کیا خدا کا اپنی مخلوقات کی حرکت کا پابند ہونا معقولیت کے دائرے میں آتا ہے؟ اور کیا واقعی اس خدا جیسی کوئی چیز نہیں ہے جبکہ وہ میری طرح کچھ بنانے کے لیے دنوں کا پابند ہے؟؟

مصیبت یہ ہے کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں!؟

4 Comments

  1. یہ بھی تو ممکن ہے کہ خدا نے زمان و مکان کی یہ حدیں خود قائم کی ہوں. اس نے خود ہی چھ دن کا قصہ نکالا ہو.اس نے جان بوجھ کر یہ ابہام پیدا کئے ہوں تاکہ ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں. اس شرارتی خدا نے ایک طرف ہمارے لئے گاجریں رکھی ہیں اور دوسری طرف چھڑیاں اور اب اس ساری کامیڈی سے لطف اندوز ہوتا ہو.اب کوئ سوال کر سکتا ہے کہ کیا خدا کو کامیڈی کی ضرورت ہے.میرا خیال ہے کہ خدا اتنا سنجیدہ نہیں ہے جتنا کہ ہم نے اسے بنا رکھا ہے.دنیا کے بیشتر مسائل تو بس اس تصور خدا کو درست کر لینے سے ہی حل ہو جائیں گے. کیا خیال ہے؟

  2. عجیب بات یہ ہے کہ زمین کو بنانے میں اسے چار دن لگے جبکہ سورج چاند اور کھربوں کھربوں ستاروں اور سیاروں کو بنانے میں اسے محض دو دن لگے.
    mera kheyal hai Soraj zameen se kafi barra hai…agar Allah ne zameen ko 4 din main paida keya tu usy soraj tu aik mahena main paida karna chaheya tha. lakin us waqt Arab main ye concept tha k zameen soraj s barra hai

جواب دیں

4 Comments
scroll to top