Close

کائنات اور ابن رشد

شاید میری یہ پوسٹ پڑھ کر کافی لوگوں کو جھٹکا لگا ہوگا کہ اس کا دماغ "” سٹک "” گیا ہے، دل ہی دل میں ملحد تو قرار دیا ہی ہوگا، کفر کا فتوی لگانے کے لیے بھی کچھ لوگوں نے کمر کس لی ہوگی، کچھ کرم فرماؤں نے تو ای میل بھیج کر اپنے ایسے خیالات کا باقاعدہ اظہار بھی کیا، لیکن یہ کوئی نئی بحث نہیں ہے بلکہ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان پرانا ہے، ہماری اسلامی تاریخ بھی ان مباحث سے خالی نہیں ہے، غزالی، ابن سیناء، ابن رشد، الفارابی ودیگر نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے بلکہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے بھی لگائے ہیں، میں نے اپنی مذکورہ پوسٹ میں کہا تھا کہ:

اقتباس:

"” یاد رہے کہ قدیم فلاسفروں بشمول مسلمانوں کے ہمیشہ یہی رائے رہی ہے اور انہوں نے دنیا کے قدیم ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن مذہبی تعصب کی وجہ سے وہ بات کو گھماتے رہے "”

لیکن شاید میرے اس نکتے پر کسی نے غور نہیں کیا، اور کریں بھی تو کیسے کریں، کچھ پتہ ہو تو کریں، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ پورے بلاگستان میں کسی نے امام غزالی کی تہافت الفلاسفہ اور ابن رشد کی تہافت التہافت پڑھی ہو؟ ان کتابوں میں خدا پر ایسے ایسے مباحث ہیں کہ سن کر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کے بال سفید ہوجائیں، میری وہ تحریر تو کچھ بھی نہیں، بلکہ میں نے تو ان کے مطالعے سے اخذ کردہ نتائج پر ہی اپنی بات کی تھی، مجھے اندازہ تھا کہ ایسی بات یہاں کسی کو ہضم نہیں ہوگی کیونکہ ہمارے ہاں مذہب کو روایتی انداز میں پڑھنے اور سمجھنے کا چلن ہے جو صدیوں سے ایسے ہی چلا آرہا ہے، ایسے میں اگر کوئی اس ڈگر سے ہٹ کر کوئی بات کہہ دے تو وہ اور اس کی بات دونوں چبھنے لگتے ہیں، ہمارے ہاں صرف ندویوں، تھانویوں، کروڑویوں، ہزارویوں، نانوتویوں، عطاریوں، قادریوں، بریلویوں، چشتیوں، ملنگیوں اور نقویوں کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں، ہمارے بچوں تک کو ان غداروں کے نام ازبر ہیں، کسی بچے سے ابن بطہ کے بارے میں پوچھ لیں، العز ابن عبد السلام کے بارے پوچھ لیں انہیں ککھ نہیں پتہ ہوگا، چنانچہ ایسے وراثتی مسلمانوں سے مجھے بھی کسی طرح کی کوئی امید نہیں ہے، اب چاہے کفر کے فتوے لگائیں یا آکر گولی ماردیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں وہی لکھوں گا جو میرا دل چاہے گا کیونکہ میں آزاد پیدا ہوا تھا اور آزاد ہی مروں گا، میں بلاگنگ صرف اس لیے کرتا ہوں کہ میں بلاگنگ کرنا چاہتا ہوں، میں لوگوں کے لیے نہیں لکھتا، اگر کسی کو میرے خیالات پسند نہیں ہیں تو وہ یہاں تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کی زحمت نہ کیا کریں.

تو دنیا کے قدیم ہونے کا خیال کوئی نیا نہیں ہے، ابن رشد کا بھی یہی خیال ہے کہ دنیا قدیم ہے یعنی اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور یہ ازل سے خدا کے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے جیسے سورج اور روشنی کا ساتھ، اور وقت میں اس سے (یعنی خدا) پرانی نہیں ہے، خدا کا کائنات سے برتر ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ علت کا معلول سے برتر ہونا جو کہ ذات اور رتبے کی برتری ہے ناکہ زمان کی اور اس کے لیے ان کی دلیل ہے:

1- اگر خدا وقت کے لحاظ سے کائنات سے پرانا ہوتا تو وقت سے پہلے بھی وقت ہوتا جو ناممکن ہے.
2- مطلق قدیم سے کوئی واقعہ رونما ہونا ناممکن ہے.
3- دنیا کا امکان موجود تھا چنانچہ دنیا ابھی تک ممکن الوقوع ہے.
4- ہر واقعے سے پہلے مادہ ہوتا ہے کیونکہ کوئی واقعہ مادے کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوسکتا چنانچہ مادہ قدیم ہے سو دنیا بھی قدیم ہے.

امام غزالی ابن رشد کے دلائل کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر ابن رشد اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے بڑی مہارت سے ان کے دلائل کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ (امام غزالی) دراصل معاملے کو شکوک وشبہات سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہے اور خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر فلکیاتی اجسام (سیارے وستارے وغیرہ) کسی ازلی موجود (خدا) کا کام ہے جس کا وجود ماضی کے وقت میں داخل نہیں ہے تو اس کے افعال بھی ماضی کے وقت میں داخل نہیں ہونے چاہئیں!!.

اسی نہج پر چلتے ہوئے ابن رشد کہتے ہیں کہ جس طرح کائنات یا دنیا ازلی ہے جس کا کوئی آغاز نہیں ہے اسی طرح یہ ابدی بھی ہے جس کا کوئی آخر یا خاتمہ نہیں ہے، وہ اس کے خراب اور فناء ہونے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ قائم رہے گی، وہ کائنات کی ازلیت پر مندرجہ بالا دلائل اس کی ابدیت پر بھی لاگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کائنات کی علت معلول ہے اور یہ ازلی ابدی ہے یعنی علت معلول کے ساتھ رہے گی اور یہ کہ اگر علت تغیر پذیر نہ ہو تو معلول بھی نہیں بدلے گا.

اب ایک روایتی مولوی کو ابن رشد کی ایسی باتیں مجذوب کی بڑ لگیں گی کیونکہ وہ یہ ثقیل باتیں ہضم نہیں کر پائے گا، یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا اور کائنات ہمیشہ سے ایک ساتھ چلے آرہے ہوں؟ دنیا قدیم کیسے ہوسکتی ہے؟ وقت کیا بلا ہے؟ چنانچہ مولوی پہلا کام یہی کرے گا کہ ابن رشد پر کفر کا فتوی لگا دے گا اور یہی ہوا بھی، ابن رشد پر کفر کے فتوی لگائے گئے، انہیں ملحد اور واجب القتل قرار دیا گیا.

لیکن ابن رشد ایک سچا مسلمان تھا، اس کے فلسفے کی بنیاد صرف منطق پر ہی نہیں کھڑی تھی بلکہ اسے مذہب کا بھی سہارا تھا، اس نے اپنے فلسفے کو قرآن سے بھی ثابت کیا:

(وهو الذي خلق السماوات والأرض في ستة أيام، وكان عرشه على الماء) (سورہ ہود آیت 7)
(اور وہی ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں اور تھا اس کا تخت پانی پر)
صاف ظاہر ہے کہ اس وجود سے پہلے بھی کوئی وجود تھا جو کہ عرش اور پانی ہے چنانچہ وقت بھی موجود ہے.

(يوم تبدّل الأرض غير الأرض والسماوات) (سورہ ابراہیم آیت 48)
(جس دن بدلی جائے اس زمین سے اور زمین اور بدلے جائیں آسمان)
یہاں بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وجود کے بعد بھی کوئی وجود ہوگا.

(ثم استوى إلى السماء وهي دخان) (سورہ فصلت آیت 11)
(پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا)
یہاں پتہ چلتا ہے کہ آسمان کو کسی چیز سے بنایا گیا جس کے لیے مادے کا پہلے سے موجود ہونا لازم ہے

یہ اور ایسی کئی قرآنی دلیلوں سے ابن رشد دنیا کے قدیم ہونے کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ شریعت میں ایسا کوئی متن موجود نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ خدا مطلق عدم میں موجود تھا!! چنانچہ ابن رشد کے خیال میں دنیا کا قدیم ہونا شریعت کے عین مطابق ہے مخالف نہیں.

مزید برآں وہ یہ تک کہتے ہیں کہ خدا کلیات جانتا ہے جزئیات نہیں جانتا جو بہرحال اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے.

اس ضمن میں میرا موقف صرف اتنا عرض کرنا تھا کہ جب دنیا قدیم ہے اور مادہ ازل سے موجود ہے تو پھر یہاں خدا کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟

جواب دیں

0 Comments
scroll to top