Close

کیا محمد کو تمام انسانوں کیلئے بھیجا گیا تھا؟

مولویانِ اسلام کا دعوی ہے کہ محمد اللہ کی طرف سے تمام بنی نوع انسان کیلئے بھیجا گیا آخری نبی تھا، مگر کیا یہ بات سچ ہے؟ شاید اس دعوی کی وجہ بعض قرآنی آیات ہیں جو "الناس” یعنی لوگوں کے بارے میں ہیں جیسے (مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا – اے آدم زاد تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ اور اے نبی ہم نے تم کو لوگوں کی ہدایت کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اس بات کا اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ النساء 79) اگر آیت کو ظاہری طور پر لیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کیلئے بھیجا گیا ہے مگر قرآن میں لفظ "الناس” کا استعمال عام استعمال سے مختلف ہے، اگر ہم دوسری قرآنی آیات کو لیں تو معلوم پڑے گا کہ "الناس” سے مراد لوگوں کا ایک مخصوص گروہ ہے ناکہ تمام بنی نوع انسان:

(زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ – لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے بڑے بڑے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی بڑی زینت دار معلوم ہوتی ہیں مگر یہ سب دنیا ہی کی زندگی کے سامان ہیں۔ اور اللہ کے پاس بہت اچھا ٹھکانہ ہے۔ آل عمران 14) یہاں واضح ہے کہ قرآن نے لفظ "الناس” کا استعمال صرف مردوں کیلئے کیا ہے کیونکہ عورتیں انہیں ہی دی جائیں گی اور وہی گھڑ سواری اور کھیتی باڑی سے رغبت رکھتے ہیں ناکہ عورتیں اس لئیے یہاں الناس سے صرف مرد مقصود ہیں.

(وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ اَغۡرَقۡنٰہُمۡ وَ جَعَلۡنٰہُمۡ لِلنَّاسِ اٰیَۃً ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ عَذَابًا اَلِیۡمًا – اور نوح کی قوم نے بھی جب پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا اور انکو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیا۔ اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ – الفرقان 37) نشانی آیت یا معجزہ کا اثر اسے دیکھنے والوں پر پڑتا ہے لیکن زمین پر ساری قوم نوح کو غرق کردیا گیا تھا اور صرف نوح اور ان کے اہلِ بیت ہی زندہ بچے تھے اس کے باوجود قرآن انہیں "الناس” کہتا ہے جبکہ وہ صرف ایک خاندان کے افراد ہیں یعنی صرف کچھ لوگ ہیں کیونکہ ان کے بعد آنے والے لوگوں نے طوفان کا معجزہ نہیں دیکھا تھا اسے دیکھنے والے صرف نوح کے خاندان کے ہی لوگ تھے جنہیں قرآن "الناس” سے مخاطب کرتا ہے.

(فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ – وَّ قِیۡلَ لِلنَّاسِ ہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّجۡتَمِعُوۡنَ – آخر جادوگر ایک مقررہ دن کی معیاد پر جمع ہو گئے۔ – اور لوگوں سے کہدیا گیا کہ تم سب کو اکٹھے ہو جانا چاہیے۔ – الشعراء 38-39) یہاں قوم فرعون کی بات ہو رہی ہے جنہیں جادو دیکھنے کیلئے جمع کیا گیا ظاہری بات ہے کہ یہ تماشہ دیکھنے آنے والے مصر کے تمام لوگ نہیں تھے کجا یہ کہ دنیا کے تمام لوگوں کی بات کی جائے اس کے با وجود قرآن کہتا ہے "اور لوگوں سے کہدیا گیا”.

( وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ – اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسٰی کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ – القصص 43) موسی جیسا کہ سب جانتے ہیں صرف بنی اسرائیل کے لیے بھیجے گئے تھے اس کی دعوت تو اہلِ مصر تک کیلئے نہیں تھی اس کے باوجود قرآن کہتا ہے کہ موسی کی کتاب لوگوں کے لیے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے. یہاں "الناس” سے صرف بنی اسرائیل کا گروہ ہی مقصود ہے.

محمد سے مخاطب ہوتے ہوئے قرآن اس سے بھی کہیں زیادہ واضح تھا (وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ – اور ویسی ہی یہ کتاب جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور جو اس لئے نازل کی گئ ہے کہ اے نبی تم مکے اور اسکے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کردو۔ – الانعام 92) یہاں محمد کی ذمہ داری روزِ روشن کی طرح عیاں ہے یعنی اس کا کام مکے اور اسکے آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے زمین کے تمام لوگوں کو نہیں.

پھر اس سے کہا کہ (فَلَا تَدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُعَذَّبِیۡنَ – وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ – تو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا ورنہ تمکو عذاب دیا جائے گا۔ – اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو۔ – الشعراء 213-214) صاف ظاہر ہے کہ محمد کی ذمہ داری یہی تھی کہ وہ اپنے قریب کے رشتہ داروں یعنی قریش اور آس پاس کے اعراب کو متنبہ کرے.

مزید وضاحت کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے (وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ – اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر اسکے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی۔ اے نبی تم تو صرف خبردار کرنے والے ہو اور ہر ایک قوم کے لئے راہنما ہوا کرتا ہے۔ – الرعد 7) اس سے زیادہ وضاحت اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ قرآن محمد سے کہتا ہے کہ تم صرف کافروں یعنی قریش کو خبردار کرنے آئے ہو کیونکہ باقی ہر قوم کا اپنا ایک مخصوص راہنما ہوتا ہے.

شاید اسلام کے شیخوں کو اس آیت سے غلط فہمی ہوگئی ہے (وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ – اور اے محمد ﷺ ہم نے تمکو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ – سبا 28) لفظ "کافہ” جو "الناس” سے پہلے آیا ہے کا مطلب جمع ہوسکتا ہے مگر اسی وقت اس کا مطلب "الکف” یعنی روکنا بھی ہوسکتا ہے یعنی لوگوں کو وہ جس کفر میں ہیں اس سے روکنا جیسا کہ قرطبی اپنی تفسیر میں بیان کرتا ہے، بہر حال یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن میں لفظ "الناس” کا مطلب قریش یا قوم فرعون یا لوگوں کا کوئی بھی چھوٹا سا گروہ ہوسکتا ہے، اس آیت کا منطقی معنی یہی بنتا ہے کہ اللہ نے محمد کو مکہ کے گرد تمام عربوں کیلئے اور انہیں اپنے کفر سے روکنے کیلئے بھیجا.

اس بات کی قرآن تصدیق بھی کرتا ہے (وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ – اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں احکام الٰہی کھول کھول کر بتا دے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ رہنے دیتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ – ابراہیم 4) یعنی یہ لازم ہے ہر رسول اس قوم کی زبان جانتا ہو جن کیلئے وہ بھیجا گیا ہو تاکہ انہیں اللہ کا پیغام احسن طریقہ سے پہنچا سکے اس معنی کی قرآن مزید تصدیق بھی کرتا ہے (نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ – عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ – بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ – اس کو امانتدار فرشتہ لے کر اترا ہے۔ – یعنی اسنے تمہارے دل پر اسکا القا کیا ہے تاکہ لوگوں کو خبردار کرتے رہو۔ – اور القا بھی فصیح و بلیغ عربی زبان میں کیا ہے۔ – الشعراء 93-94-95) محمد کی ذمہ داری عربوں کو انہی کی عربی زبان میں خبردار کرنا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا اسے عربی زبان میں چینیوں کو خبردار کرنے بھیج دے!!.

اس معنی کی مزید تاکید بھی قرآن کرتا ہے (وَ لَوۡ نَزَّلۡنٰہُ عَلٰی بَعۡضِ الۡاَعۡجَمِیۡنَ – فَقَرَاَہٗ عَلَیۡہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ مُؤۡمِنِیۡنَ – اور اگر ہم اس کو کسی عجمی پر اتارتے۔ – اور وہ اسے ان لوگوں کر پڑھ کر سناتا تو یہ اسے کبھی نہ مانتے۔ – الشعراء 198-199) کیا کسی کو اس سے زیادہ وضاحت درکار ہے؟ قرآن خود کہہ رہا ہے کہ عربی زبان میں اتارے گئے قرآن کا مقصد عجم نہیں تھے جو عربی نہیں سمجھتے بلکہ عرب ہی مقصود تھے جن کی زبان عربی ہے اگر اللہ اسے عجمیوں پر اتارتا جنہیں عربی نہیں آتی تو کبھی اس پر ایمان نہ لاتے، یقینا اللہ لوگوں کو اسلام کے شیخوں سے زیادہ جانتا ہے.

اس بات کی مزید توثیق کیلئے کہ محمد صرف عربوں کیلئے ہی نبی بنا کر بھیجا گیا تھا قرآن کہتا ہے (وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا اَعۡجَمِیًّا لَّقَالُوۡا لَوۡ لَا فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ ؕ- اور اگر ہم اس قرآن کو غیر عربی زبان میں نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اسکی آیتیں ہماری زبان میں کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں – فصلت 44) اگر اللہ محمد کو قریش پر عجمی قرآن دے کر بھیجتا یعنی کسی دوسری زبان میں تو وہ کہتے کہ اس کا ترجمہ کر کے ہمیں بتاؤ کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا، اگر اللہ نے قریش پر قرآن ان کی اپنی زبان میں ہی نازل کیا جبکہ وہ ساری دنیا کی آبادی کے حساب سے اقلیت تھے کیونکہ دوسری صورت میں وہ پیغام کو ہی نہ سمجھ سکتے تو کیا یہ معقول بات ہے کہ اللہ ایک عربی رسول کو عربی قرآن کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کیلئے بھیجے گا جو چھ ہزار سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں؟

اسلامی پیغام میں زبان کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے جہاں سابقہ انبیاء کے معجزے طبعی نوعیت کے تھے جیسے سمندر کو چیرنا من وسلوی اتارنا اور مردوں کو زندہ کرنا وہاں محمد کو قرآن کے علاوہ کوئی معجزہ نہیں دیا گیا جس کی فصاحت وبلاغت پر قرآن کا خدا فخر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور مشرکین کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورت لاکر دکھا دیں کیونکہ اس کی زبان بلاغت کے لحاظ سے معجزہ قرار دی گئی ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خدا جو سب کچھ جانتا ہے عربی زبان میں لغوی معجزوں پر مشتمل ایک ایسی کتاب بھیجے جسے اہلِ عرب تک اچھی طرح نہ سمجھ سکے اور انہیں اس کی تفسیر کی ضرورت پڑی پھر وہ خدا تمام اہلِ ارض سے جو یہ زبان نہیں جانتے ان سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس قرآنی لغت کی خوبصورتی کے قائل ہوجائیں اور بغیر کوئی معجزہ دیکھے (جیسے موسی کا معجزہ) ایمان لے آئیں؟

اللہ یا قرآن کا مصنف اس بات پر بہت فخر کرتا تھا کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے:

(اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ – ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھ سکو۔ – یوسف 2)
(کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ – ایسی کتاب جسکی آیتیں جدا جدا بیان کی گئ ہیں یعنی قرآن عربی ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔ – فصلت 3)
(اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ – کہ ہم نے اسکو قرآن عربی بنایا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو۔ – الزخرف 3)
(وَ مِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ ہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ وَ بُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ – اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب تھی لوگوں کے لئے رہنما اور رحمت۔ اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اسکی تصدیق کرنے والی تاکہ ظالموں کو خبردار کرے۔ اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنائے۔ – الاحقاف 12)
(وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ اَوۡ یُحۡدِثُ لَہُمۡ ذِکۡرًا – اور ہم نے اسکو اسی طرح کا قرآن عربی نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح کے ڈراوے بیان کر دیئے ہیں تاکہ لوگ پرہیزگار بنیں۔ یا اللہ انکے لئے نصیحت پیدا کر دے۔ – طہ 113)
(فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الۡمُتَّقِیۡنَ وَ تُنۡذِرَ بِہٖ قَوۡمًا لُّدًّا – ے پیغمبر ﷺ ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اس سے پرہیزگاروں کو خوشخبری پہنچا دو اور جھگڑالوؤں کو ڈر سنا دو۔ – مریم 97)
(فَاِنَّمَا یَسَّرۡنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ – ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ – الدخان 58)
(وَ لَقَدۡ ضَرَبۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ – اور ہم نے لوگوں کے سمجھانے کے لئے اس قرآن میں ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ – الزمر 27)

کیا اتنے زور اور تاکید وعربی زبان پر فخر کرنے کے بعد یہ ہوسکتا ہے کہ خدا نے محمد کو کرہ ارض کے تمام لوگوں کیلئے بھیجا ہو اور ان سے ایسی زبان میں کلام کیا ہو جسے نہ وہ جانتے ہیں اور نا ہی سمجھتے ہیں؟ یقینی طور پر اللہ کا قرآن کے پیغام سے ساری انسانیت مراد نہیں تھی، اس بات کا ثبوت آج کی دنیا میں بھی نظر آتا ہے، عرب مسلمانوں کی تعداد جو عام عربی بولتے ہیں اور قرآن کی فصیح عربی نہیں سمجھتے تقریبا سو ملین ہے جن میں عورتیں اور بچے سب شامل ہیں ان میں سے آدھے تو سرے سے ان پڑھ ہیں اور قرآن کو نہیں سمجھتے جبکہ دنیا کے باقی مسلمان جن کی تعداد کوئی ایک ارب ہے وہ تو سرے سے عربی جانتے ہی نہیں اگرچہ بعض نے پورا قرآن حفظ کر رکھا ہوتا ہے تاہم یہ صرف رٹا ہی ہوتا ہے اور انہیں اس کے ایک لفظ کے مطلب تک کا نہیں پتہ ہوتا اس طرح وہ قرآن کے اس قول کی زندہ مثال ہوتے ہیں: کمثل الحمار یحمل اسفارا (انکی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں) ایسے لوگوں کی بہترین مثال پاکستان کے مسلمان ہیں جو اپنے اسلام میں دیگر مسلمانوں سے زیادہ متعصب اور متشدد ہیں جس کی وجہ ان کا عربی قرآنِ مبین کو نہ سمجھنا ہے. کیا اللہ کا محمد کو قرآن کے پیغام کے ساتھ بھیجنے کا یہی مقصد تھا کہ لوگ اسے بغیر سمجھے حفظ کر لیں؟

اور پھر خدا نے جو ساری دنیا کا حال جانتا ہے 124000 پیغمبر بھیجے جیسا کہ بعض اسلامی مصادر میں مذکور ہے، اگر ایک نبی کرہ ارض کے تمام لوگوں تک اس کا پیغام پہنچا سکتا تھا تو پھر اتنے پیغمبر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ وہ بھیجے بھی زمین کے صرف ایک محدود حصے میں تھے جو چند سو کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے اور جہاں باقی زمین کے مقابلے میں صرف چند قومیں ہی رہتی ہیں؟ کیا وہ تمام انسانوں کو بغیر انبیاء کے اپنے ہی دین پر پیدا کر کے خود کو اور ہمیں مذاہب کے اس جنجال اور قتل وغارت گری سے نہیں بچا سکتا تھا؟

2 Comments

  1. بظاہر ایسا لگتا ہے کہ درج بالا تحریر بالآخر عیسائی تعلیمات کو آفاقی سچ ثابت کرنے پر منتج ہونگی، مگر یہاں ذہن میں جو بنیادی سوال سر اٹھاتا ہے وہ یہ ہے کہ محمد کو کس نے بھیجا؟ اگر عیسی کو اللہ نے بھیجا ہے تو لازم ہے کہ محمد کو بھی اسی نے بھیجا ہے مگر آیا اللہ نے واقعی کسی کو بھیجا۔ اگر محترم چنگیز خان قرانی آیات کے حوالے سے بات کرتے ہیں یقینا وہ قران کو منجانب اللہ تسلیم کرتے ہیں جبکہ ایسا منطقی اعتبار سے ناممکن ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ ذہن سے کام لیا جائے تو جرات تحقیق کا حق ادا کرنے کے لئے پورا زور اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے انسان ایسے تمام دعووں کو رد کرنے پر کام کرے جن میں کوئی فانی انسان خود کو اللہ کا نمائندہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہو۔ اس تناظر میں دقت نظر سے جمع کی گئی درج بالا تفصیل قطعی بے مقصد ثابت ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں پیش کئے گئے تمام مذاہب ہر دور کے کچھ مفاد پرست انسانوں کے پرفریب ذاتی افکار و نظریات کے مجموعوں کے سوا کچھ نہیں۔

جواب دیں

2 Comments
scroll to top