ایک عام مسلمان قرآن کے بارے میں محض اپنے علماء کرام سے کچھ بیانات سن کر یا قرآن کی شان میں بیان کردہ کچھ قصائد سن کر یہ گمان کرنے لگ جاتا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ، قرآن پڑھنے سے انسان کو ہدایت مل جاتی ہے اور قرآن انسان کو اللہ کی پہچان کراتا ہے، لیکن ایک عام مسلمان کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کرتا کہ وہ خود قرآن کو پڑھے ،سمجھے، اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ اس قرآن میں خود اس کی ذات کیلئے کیا پیغام موجود ہے۔ اسی طرح یہ عام مسلمان پنے علماء سے قرآن کی شان میں سنے ہوئے قصیدوں کو کبھی علمی کسوٹی اور تشکیک کے معیار پر پرکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا، اور اپنے علماء کے بیان کردہ دعؤوں کو محض اپنی عقیدت کی وجہ سے ان پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوئے اپنے ایمان کا جزو لاینفک بنا لیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کو پڑھ کر ایک معمولی سمجھ بوجھ کا حامل فرد بھی بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے بھی یا نہیں؟۔
اس سلسلے میں”کیا قرآن اللّٰه کا کلام ہے؟“ اور ”قرآن اور اس کے تضادات“ کے عنوان سے میں دو تحریریں قارئین کی نظر کر چکا ہوں، آج کی اس تحریر میں بھی قرآن کے ایک اور تضاد کو واضح کرکے یہ ثابت کرنا چاہوں گا کہ خود قرآن نے اپنے کلام الٰہی ہونے یا نا ہونے کے بارے میں جو معیار مقرر کیا ہے کیا قرآن خود اپنے ہی وضع کردہ معیار پر بھی پورا اترتا ہے یا نہیں؟میں یہاں قرآن کے بیان کردہ معیار کا اجمالی ذکر کر دیتا ہوں تاکہ قارئ کے ذہن میں قرآن کے بیان کردہ معیار کا اعادہ ہو جائے۔
قرآن کہتا ہے کہ:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿سورۃ النساء:82﴾
ترجمہ: بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے ۔
چنانچہ اب اگر قرآن سے صرف ایک تضاد ہی نہیں بلکہ متعدد تضادات نکال کر دکھا دئیے جائیں تو قرآن کے کلام الٰہی نا ہونے کا دعویٰ خود قرآن کے اپنے مقرر کردہ معیار سے ہی ثابت ہو جائے گا۔ اس ثبوت کے بعد بھی اگر کوئی شخص قرآن کو اللہ کا کلام ماننے پر مصر ہوتو بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، ہر شخص اپنے درست اور صحیح فیصلے کا خود ذمہ دار ہے، اور بحیثیت سیکولر ہونے کے ہم اس کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر اپنے لئے کوئی عقیدہ اختیار کرناچاہے تو اسے پورا حق ہے، لیکن ہمیں اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اس قدر واضح ثبوت کے بعد اگر کوئی شخص قرآن کے کے بیان کردہ معیار اور اصول کے تحت قرآن میں تضادات دیکھ کر اس کے کلام الٰہی ہونے سے انکار کر دے تو ایسے شخص کو کیسے واجب القتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لئے کنویں میں گرنا پسند کر لیا ہے تو یہ آپ کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے، ہم آپ کے اس حق کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کے فیصلہ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تو آپ کو کیسے اختیار حاصل ہو گیا کہ آپ دوسروں کو بھی اسی کنویں میں گرنے کی دعوت دیتے پھریں، اور جو اس کنویں میں گرنے سے انکار کر دے تو آپ اسے زبردستی اس کنویں میں دھکیلنے پر مصر ہوں۔
اب آپ قرآن میں موجود تضاد ملاحظہ فرمائیں:
قیامت کے دن کی طوالت کو بیان کرتے ہوئے قرآن سورۃ الحج میں بیان کر رہا ہے کہ:
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿47﴾
ترجمہ: اور (یہ لوگ) تم سے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں اور خدا اپنا وعدہ ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ اور بےشک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔
سورۃ السجدۃ میں بیان ہے کہ:
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿سورۃ السجدۃ:5﴾
وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا۔
ان دونوں آیات کے مقابلے میں اب ایک اور آیت ملاحظہ فرمائیں:
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (سورۃ المعارج: 4)
فرشتے اور اہلِ ایمان کی روحیں اس کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں (اور وہ عذاب) اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے.
ان تینوں آیات میں قیامت کے دن کا ذکر ہے، جس کی تائید متعدد احادیث صحیحہ اور مفسرین کے بیانات سے بھی ہوتی ہےکہ قرآن ان آیات میں ایک ہی دن کی کیفیت کا بیان کر رہا ہے، اور ان آیات کا موضوع ایک ہی دن ہے کوئی الگ الگ دن نہیں ہیں، جیسا کہ نفس مضمون سے بالکل واضح ہے ۔ اب آپ یہ ملاحظہ کریں کہ سورۃ الحج اور سورۃ السجدۃ کی آیات میں تو قیامت کا دن ایک ہزار برس کا قرار دیا جا رہا ہے لیکن سورۃ المعارج کی آیت میں قیامت کی طوالت پچاس ہزار سال کے برابر بیان کی جارہی ہے،گویا قیامت کے دن کو قرآن کو ایک مقام (سورۃ الحج: 47، اور السجدۃ:5) پر ایک ہزار سال کے برابر بیان کر رہا ہے اور دوسرے مقام (سورۃ المعارج: 5) پر پچاس ہزار سال کے برابر قرار دے دیا۔ یہ بالکل دو اور دو چار کی طرح بالکل واضح اور روشن بات ہے کہ قرآن کے اپنے بیان میں تضاد پایا جا رہا کیونکہ قرآن ایک ہی دن(قیامت کا دن) کی مقدار ایک مقام پر دنیاوی ایک ہزار برس کے برابر بیان کر رہا ہے اور ایک دوسرے مقام پر اپنے ہی بیان کی تردید کرتے ہوئے اسے پچاس ہزار سال کا قرار دے رہا ہے۔
میں نے اپنی مقدور بھر کوشش صرف کرکے تمام اہم تفاسیرکو کنگھالا کہ شاید کسی مفسر نے اس مقام پر کوئی ایسی عقلی اور قابل قبول توجیہ بیان کی ہو کہ جس سے یہ تضاد رفع ہو سکتا ہو، لیکن مجھے تمام اہم تفاسیر کے مصنفین اس مقام پر انتہائی مشکل میں گرفتار نظر آئے، اور ان کے بیانات سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس تضاد کو رفع کرنےمیں ناکام نظر آتے ہیں، اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اللہ یا قرآن کے مصنف کی اس غلطی کو درست کرنے کی ناکام کوشش کے بعد “واللہ اعلم بالصواب” کا سہارا لے کر دوبارہ سارا ملبہ اللہ پر ڈال کر اپنے دامن جھاڑتے ہوئے اگلی آیات کی مرمت میں جت جاتے ہیں۔
ایک بات کی مزید وضاحت بیان کردوں کہ میری پچھلی تحریروں پر بعض کرم فرماؤں نے تبصروں میں مختلف مفسرین کی تفسیروں سے ان کے بیانات کاپی پیسٹ کرکے اپنا دینی فریضہ انجام دینے کی کوشش کی کہ شایدمیں ان مفسرین کی وضاحت سے ناواقف ہوں اور اسی ناواقفیت کی بنیاد پر میں قرآن کی آیات کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکا اور اسلئے مجھے ان آیات میں تضاد نظر آ رہا ہے، ایسے کرم فرماؤں کی خدمت میں عرض ہے نہ صرف میں بلکہ “جرات تحقیق” کی پوری ٹیم ایک ایک تحریر لکھنے میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیتی ہے اور متعلقہ مواد کی پوری تحقیق کرنے کے بعد اپنے قارئین کی خدمت میں پورے اعتماد کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
اس وضاحت کے باوجود کسی قاری کو لگتا ہے کہ کسی مفسر نے اس تضاد کو بہترین انداز میں رفع کیا ہے تو براہ کرم کاپی پیسٹ کے بجائے اُس مفسر کے بیان کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے بحث کا آغاز کریں، کاپی پیسٹ کرنا اس امر کی دلالت ہوگی کہ قارئ خودمعاملہ کو پوری طرح نہیں سمجھتا ہے اور نا سمجھنے کے موڈ میں ہے، اور مفسر پر اندھا اعتقاد رکھتے ہوئے کہ مذکورہ مفسر نے ضرور اس مسئلہ کو حل کردیا ہوگا ، مفسر کا بیان تبصرہ میں کاپی پیسٹ کردیا ہے۔
کیا یہ قرآن کا کھلا تضاد نہیں؟
