Close

حماقت کا دائرہ کار (حصہ اول)۔

ایک محترم دوست نے جسٹس (ر)مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریر "عقل کا دائرہ کار” بذریعہ ای میل ارسال کی۔ مفتی صاحب پاکستان کی ایک مشہور و معروف شخصیت اور کئی اسلامی کتب کے مصنف ہیں چنانچہ انکی تحریر کو دلجمعی سے پڑھا ۔ مطالعے کے دوران کچھ عجیب ہی کیفیت طاری رہی، یقین نہیں آرہا تھا کہ امتِ مسلمہ کی معروف اور کلیدی عہدوں پہ تعینات شخصیات ایسی سطحی اور غیر منطقی اپروچ رکھتی ہیں۔ ۔ ۔ خواص کا یہ حال ہے تو عوام بیچاری کیا بیچتی ہوگی؟

"عقل کےدائرہ کار” کا سرسری احاطہ بھی کم از کم تین قسطوں کا متقاضی ہے۔ پیشِ خدمت ہے پہلی قسط۔

حصہ اول

تمہید میں ہی جسٹس (ر) صاحب ایک بات واضح کر دیتے ہیں کہ بنیاد پرستی کوئی گالی نہیں بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ قانون، معیشت، سیاست اور زندگی کے ہر شعبے کو اسلامائز کر دینا اور اسکو ایک ہزار چار سو سال پرانے اصولوں کے تحت چلانا اور ریاست کے نظام کا دینِ اسلام کے تابع ہونا۔ اکثر روشن خیال قسم کے سکالر یا تو کھل کر یہ بات نہیں کہتے ، یا پھر اسلام کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بات کرتے ہیں۔اب یہ ایک الگ گفتگو ہے کہ اسلام نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔اسلئے ہم یہاں صرف مفتی تقی عثمانی صاحب ہی کی بات پہ توجہ مرکوز کئے رکھیں گے۔ انکا یہ کھل کر ببانگِ دہل کہنا کہ” ریاست، قانون، سیاست، معیشت اور ہر شعبہِ زندگی کو چودہ صدی پرانے اصولوں کے تحت چلانا ہی دراصل اسلامی نظام کا قیام ہے” لائق تحسین ہےکہ کم از کم انہوں نےکوئی لگی لپٹی تو نہیں رکھی۔ وسیع تر مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے اور سچائی کو شوگر کوٹ کرنے سے اجتناب کر کے ایک تو انہوں نے ہمیں خواہ مخواہ کی کوفت سے بچایا اور پھر اپنی سیدھی ، کھری اور بے لاگ شخصیت کا بھی اظہار کیا۔

طالبان کیا کر رہے تھے؟ وہ یہی تو کر رہے تھےجو جسٹس(ر) تقی عثمانی صاحب نے ارشاد فرمایا ہے۔ یعنی اسلام کا نفاذ بعینہ اسی شکل میں جس شکل میں یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے نافذ ہوا تھا۔ عورت کو مرد کے دستِ نگر کرنا، انسان کے بنیادی حقوق سلب کرنا، عدم برداشت ، تشدد اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کی تفریق ہی وہ ڈیڑھ ہزار سال پرانا اسلامی نظام ہے جسکا عملی مظاہرہ طالبان نے کر کے دکھایا اورجسٹس ریٹائرڈ مفتی تقی عثمانی صاحب جیسے افراد جس نظام کے نفاذ کے لئے جانے یا انجانے میں کوشاں ہیں۔

اسلامائیزیشن کیوں؟ اس عنوان کے تحت وہ اس بات کا جواب دیتے نظر آتے ہیں کہ ہم ملکی قوانین کو چودہ سو بلکہ بعض کیسز میں ہزارہا سال پرانی مذہبی تعلیمات کے سانچے میں کیوں ڈھالنا چاہتے ؟ سیکولر یا لادین ریاست کے پاس نظامِ حکومت کا کوئی اصول موجود نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عقل، مشاہدہ اور تجربہ موجود ہے جسکی بنیاد پہ ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے دور کی ضروریات، تقاضے اور مصلحتیں کیا ہیں، چنانچہ ہم انکے مطابق اپنے قوانین ڈھال سکتے ہیں اور بدلتے حالات میں ہم اسکے اندر تبدیلی لا سکتے ہیں اور ترقی کر سکتے ہیں، لیکن کیا عقل آخری معیار ہے؟ اللہ کے عطا کئے گئے دیگر حواس کی طرح عقل بھی آخری معیار نہیں ہے، جسطرح دیگر حواس کی ایک حد ہے کہ جس سے آگے وہ کام نہیں کر پاتے اسی طرح عقل کی بھی حد ہے کہ جس سے آگے اسکا استعمال ناممکن ہو جاتا ہے اور یہی وہ حد ہے جہاں سے ہماری راہنمائی کی خاطر "وحی الٰہی” یعنی علومِ الٰہیہ کا دائرہ کار شروع ہوتا ہے۔

یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب ایک بہت ہی بنیادی سوال کا جواب دئیے بغیر ایک غیر ثابت شدہ مفروضے پر اپنے مقدمہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔یعنی یہ فرض کرتے ہوئے کہ ایک قادرِ مطلق ہستی (اللہ / گاڈ) موجود ہے جو انسان کو بذریعہ "وحی” ایسے علوم سے آگاہ کرتا ہے جہاں عقلِ انسانی پہنچنے سے قاصر ہے۔ ایک آسمانی ہستی کو علم کا ماخذ و منبع تصور کرنے سے قبل کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا وجود ثابت کیا جائے؟ آپ عوام الناس پر ایک ایسا نظام ِ حکومت اور ضابطہء حیات لانا چاہ رہے ہیں کہ جو وحی کے تابع ہے اور جسکا عقلی و منطقی تجزیہ ناممکن ہے لیکن آپ اس وحی کے منبع اور ماخذ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کس قادرِ مطلق ہستی کی بات ہو رہی ہے یہاں؟ گاڈ، بھگوان، خدا، اللہ۔ ۔ ۔ بیشمار مذاہب اور مکاتبِ فکر بکھرے ہوئے ہیں، کس کے خدا کی بات ہو رہی ہے؟ کونسا مذہب حق ہے اور کونسا باطل؟ ایک مذہب کی تعلیمات آپ پوری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں تو آپکا یہ فرض بنتا ہے کہ پہلے اپنے مذہب کی حقانیت اچھی طرح واضح کر دیں اور اسکے سورس (منبع) کی ثبوت کے ساتھ وضاحت کریں۔ جب پوری دنیا پر ایک نظامِ حکومت مسلط کرنے کی بات ہو رہی ہے تو خالی کہہ دینا کافی نہیں ہوگا۔

بہرحال چلیں شک کا فائدہ دیتے ہوئے وقتی طور پر یہ تسلیم بھی کر لیتے ہیں کہ اللہ یا گاڈ کا وجود ہے، اس نے انسان بھی بنائے ، جنات بھی فرشتے بھی شیطان بھی ۔ اب ہم مولانا صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ اس قادرِ مطلق ہستی کی "وحی” کی تصدیق کس طرح ہوگی؟ اگر شیطان کسی فرشتے کے بھیس میں آکر یہ دعویٰ کر دے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ ہے اور انسانیت کی راہنمائی کے لئے ایک نسخہء ہدایت لے کر آیا ہے یا ڈائریکٹ غیبی آواز کے واسطے سے ہمکلام ہو کر یہ چال چلے تو ہم کس طرح اسکے جال سے نکلیں گے؟ ہمیں اسکے لئے عقل کا سہارا لینا ہوگا یا نہیں؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ وحی کا ماخذ رحمانی ہی ہے نا کہ شیطانی۔

چنانچہ انکے یہاں تک کے بیان میں دوبنیادی ایرر ہیں

نمبر ایک : خدا کا ثبوت پیش کئے بغیر اسکی وحی کو علمِ کامل کا ماخذ قرار دینا۔

نمبر دو: وحیِ رحمان اور وحیِ شیطان میں امتیاز بغیر عقل کے کس طرح ہوگا۔ چونکہ وحی احاطہ ہی ان مسائل کا کرتی ہے کہ جنکا ادراک بقول مفتی صاحب ،عقلِ انسانی کے بس سے باہر ہے۔

آگے "عقل دھوکہ دینے والی ہے” کے عنوان کے تحت مولانا صاحب نے فرمایا کہ آجکل عقل پرستی کا بڑا زور ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو عقل کے میزان میں رکھ کر اور تول کر اختیار کریں گے لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا ضابطہ اور اصول نہیں ہے جو عالمی حقیقت رکھتا ہو اور جسکو ساری دنیا کے انسان تسلیم کر کے اچھائی برائی کا معیار تجویز کر سکیں۔

ایک عالمگیر یا آفاقی (یونیورسل) قائدہ اور اصول ہے جسے سنہری اصول کہا جاتا ہے۔ اگر مولانا صاحب مذہبی تعلیمات کے عین مطابق، عقل کو اکثر معاملات میں ایک طرف رکھ دینے کی عادت کی وجہ سے اس آفاقی اصول سے لاعلم ہیں تو اسمیں کسی دوسرے کی خطا ہر گز نہیں۔سنہری اصول اچھائی اور برائی ناپنے کا ایک انتہائی مؤثر پیمانہ ہے ، جسکے مطابق”کسی دوسرے کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو آپ نہیں چاہتے کہ آپ کے ساتھ کیا جائے۔ اور آپ جس طرح کے سلوک کا مستحق خود کو سمجھتے ہیں، دوسروں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھیں”۔ اس اصول کو پیمانہ بنائیے اور آپ اچھائی اور برائی میں باآسانی تمیزکر پائیں گے۔

انکا یہ اعتراض کہ "عقل کوئی ایسا عالمگیر اور متفقہ اصول پیش کرنے سے قاصر ہے جس سے اچھائی اور برائی میں تمیز کی جاسکے"، یہاں ختم ہو جاتا ہے اور تکنیکی اعتبار سے انکا پورا مقدمہ ہمارے اوپر پوچھے گئے دو سوالوں اور یہاں عقل کے حق میں دی گئی مسلمہ دلیل پیش کرنے کے ساتھ ہی ڈھیر ہو جاتا ہے ۔ بہرحال آگے دیکھتے ہیں کہ مولانا صاحب مزید کیا ارشادفرماتے ہیں۔

فرماتے ہیں آپ تاریخ اٹھا کے دیکھتے جائیے اسمیں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھوکے دئیے ہیں جسکا کوئی شمار اور حدو حساب ممکن نہیں، اسکے لئے میں تاریخ سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

ان بےشمار اور بےحدو حساب مثالوں میں سے چند مثالیں پیش کرنے کا وعدہ کر کے وہ بمشکل ایک ہی مثال پیش کر پائے ہیں۔ یقینا” مزید بھی ہوں گی اور ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ایسی انفرادی غلطیاں ڈھونڈ سکتے ہیں۔ عقل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ وسعت پذیر ہے، یہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھتی ہے، اپنے اور دوسروں کے تجربوں سے سبق حاصل کرتی ہے اور بطورِ مجموعی ، بہتر سے بہترین کی طرف گامزن رہتی ہے۔انفرادی عقل اور اجتماعی معاشرے کی عقل میں امتیاز ضروری ہے۔ عقل اور سنہری اصول کی بنیاد پر جو قوانین مرتب کئے جاتے ہیں وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی عقل ہوتی ہے اور اسکے پیچھے ہزاروں سال کا تجربہ اور سبق پہناں ہوتا ہے۔ مذہبی تعلیمات اسکے برعکس جامد ہیں، انسان چونکہ یہ فرض کر لیتا ہے کہ یہ الہامی تعلیمات ہیں اسلئے انکا بدلنا ناممکن ہے، خواہ وہ تعلیمات سرے سے الہامی ہوں ہی نا بلکہ کسی مالیخولیا کے مریض کی غیر منطقی خرافات ہوں یا پھر نوسرباز بہروپیے کی ذاتی فائدے کے حصول کے لئے گھڑی گئی من چاہی خواہشات جن کو وحی کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا ہو۔

جاری ہے

 

حصہ دوم

 

جواب دیں

0 Comments
scroll to top