یہ معاشرہ درحقیقت مرد کا معاشرہ ہے، مشرق ہو یا مغرب، دونوں ہی معاشروں میں عورت مردوں کے زیرِ تسلط ذلت و خواری کی زندگی جی رہی ہے۔ حقوق کے نام پر کبھی اسکو شٹل کاک برقعے میں محبوس کیا جاتا ہے، کبھی اسکے کپڑےنوچ اتارے جاتے ہیں۔ کہیں یہ مرد کی تفریح کا سامان بنی دکان میں سجی بیٹھی ہے اور کہیں یہ ساری زندگی گھر کی چاردیواری میں قیدِبامشقت کاٹتے کاٹتے بوڑھی ہو جاتی ہے اور اس پر ستم یہ کہ اسکو اسکی آزادی اور تعظیم کہا جاتا ہے۔
اسلامی سکالرز بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں کہ اسلام نے آکر عورت کو ذلت کےگڑھے سے نکالا اور عظمت کی رفعتوں پہ بٹھا دیا۔ اسلام نے شایدکسی دور میں ایسا کیا ہو، لیکن موجودہ معاشرے کو دیکھتے ہوئے اور اگر اسے اسلام مانیں تو یہ دعویٰ مجھے غلط نظر آتا ہے۔
عورت اور مرد میں مساوات کیسے ہے۔ عورت گھر ہی میں رہے، باہر محرم کے بغیر نکلنا ممنوع، جب نکلے تواچھی طرح پردہ کر کے نکلے کہ مرد اسے دیکھ کر شہوت محسوس نہ کریں(مردوں کو اپنی غلیظ نظریں جھکانے کی ضرورت نہیں)، شوہر اسے ہمبستری کے لئے بلائے اور وہ رغبت نہ ہونے پر انکار کر دے تو اللہ ناراض، خاوند کی خدمت اور بچوں کی پرورش، مجازی خدا کا ہر حکم بجالانا، ہر ضرورت یا خواہش کے لئے مجازی خدا کی اجازت لازمی ۔ گھر کے فیصلے مجازی خدا ہی کرے گا اسنے صرف ان پر عملدرامد کرنا ہے۔
مساوات کہتے ہیں برابری کو کہ دونوں فریقین بالکل برابر ہو جائیں ، یہ کیسی مساوات ہے کہ جسمیں ایک فریق دوسرے کے ماتحت ہو رہا ہے اور اسکو حکمت کا نام دیا جا رہا ہے۔
"مرد حاکم ہیں عورتوں پر ، اسلئے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی"۔(4:34 القرآن)
مساوات اسکو کہتے ہیں کہ "ایک کو ایک پر فضیلت بخشی” یا "عورتوں پر حاکم” کا نام برابری رکھا گیا ہے؟
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہمارا کھیت سانجھا ہے، مگر تقسیم ہے ایسی
کہ ساری مولیاں میری ہیں، سارے مونگرے تیرے ہیں
عزت و عفت صرف عورت ہی کا خاصہ ہے؟ مرد اس سے بالاتر کیوں؟ اب کہنے والے کہیں گے کہ مردوں کی بھی عزت و عفت ہے۔ ۔ ۔ تو بھائی میرے مرد کی عزت کیوں نہیں لٹتی؟ ہمیشہ عورت ہی کی عفت کیوں خطرے میں رہتی ہے۔ ۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہ مرد معاشرہ ہے۔
کیسی تکریم ہے کہ اسے کتے سے بھی بدتر قرار دیا اور سور، گدھے کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا ہے؟
"عورت گدھا اور کتا نماز کو قطع کر دیتا ہے ہاں اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کے برابر سترہ ہو تو نماز باقی رہتی ہے۔” (صحیح مسلم)
کم و بیش ایسا ہی بیان ایک اور جگہ بھی ہے، بس فرق یہ ہے کہ عام کتوں کو عورت پہ ترجیح دی ہے اور سیاہ کتے (جسمیں شیطان ہوتا ہے) کے برابر گردانا ہے۔
"نماز کے دوران سترہ نہ ہونے کی صورت میں کتا، گدھا، سور، یہودی ، مجوسی یا عورت کا ایک پتھر پھینکے سے کم فاصلے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے” (ابو داود)
"عورت، گھوڑے اور گھر میں نحوست ہے” (صحیح بخاری) منحوس قرار دے کے کونسی عزت کی بلندی پہ بٹھا رکھا ہے عورت کو؟
"اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو، اور نہ ناپاکی کی حالت میں بے نہائے مگر مسافری میں، اور اگر بیمار ہو یا سفر میں یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا اور پانی نہ پایا تو پاک مٹی سے تیمم کر و۔ ۔ ۔ (4:43 القرآن)
کیسی تعظیم ہے کہ اسے چُھونا غلاظت اور گندگی چھونے کے مترادف ہے؟
اسکے ہاتھ کی پکی روٹیاں تو شوق سے ٹھونسنی ہیں لیکن اسے چھوئیں تو طہارت حاصل کرنا پڑتی ہے عبادت سے پہلے۔ کبھی اسے عقل میں مرد سے آدھا قرار دے کر اسکی توہین کی جاتی ہے، کبھی اس کی تخلیق کا مقصد آدم کی تنہائی دور کرنا اور اسکی تسکین کرنا بتا کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ہماری تمام معلوم انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہہ ہمیشہ عورت مرد کو جنم دیتی ہے، انبیاء تک نے عورت سے جنم لیا، جبکہ دوسری طرف مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ عورت نے آدم سے جنم لیا۔ ۔ ۔ واٹ لگا دی عورت کی ساری تخلیق کی اذیت برداشت کرنے کی جو وہ ہزاروں سال سے کر رہی ہے تاکہ نسلِ انسانی باقی رہے۔ مرد کے لئے ایک سے زاید بیویوں کی اجازت اور جنت میں ستر ستر حوریں۔ اپنا شریکِ حیات شئیر کرنے پر مجبور کون ہے؟ عورت۔ جنت میں حوریں کس لئے ہیں؟ مرد کے لئے ۔ (عورت کیا چاٹے گی حوروں کو؟)
برابری اور مساوات کی کیا ہی عمدہ مثال ہے کہ جو عورتیں پسند ہوں، دو دو، تین تین، چار چار نکاح کرو ان سے اور پھر انکے درمیان مساوات اور عدل سے کام لو۔
اب یہ نہ کہیئے گا کہ ملا ملحد بیویوں کو بھی چار خاوند رکھنے کا فتویٰ جاری کر رہا ہے۔ مقصد یہاں مساوات کا ہے کہ مرد کو بھی چاہئے کہ ایک شریف انسان کی طرح ایک بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارے اور ایک کے ہوتے ہوئے دوسری بیوی جیسے غیرانسانی و غیر اخلاقی فعل کو ذہن میں بھی جگہ نہ دے نہ بیوی کے بڑھاپے کا بہانہ بنا کر اور نہ اولاد کا (تاوقتیکہ کہ وہ یہ حق عورت کو بھی دینے پر تیار نہ ہو جائے)۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عورت پر دہری ذمہ داری لاد دی جائے کہ بچے بھی پالے اور سالن روٹی بھی کرے اور پھر باہر جا کے پیسے بھی کمائے۔ نہیں۔ میری ذاتی رائے (جس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے ) یہ ہے کہ ٹھیک ہے زندگی کی کی دوڑ میں آدھا میدان عورت سنبھالے اور آدھا مرد، بھلے عورت گھر کانظم و نسق، بچوں کی تعلیم و تربیت وغیرہ میں مشغول رہے اور خاوند محنت مشقت کر کے پسینہ بہا کے چار پیسے کماکر لائے، اسمیں میرے نزدیک کوئی عیب نہیں، دونوں کا اپنا اپنا میدانِ عمل ہے۔ لیکن صرف اسکو بنیاد بنا کر مرد کو عورت پر حاکم سمجھنا سراسر غلط ہے۔ عورت کو اگر گھر گرہستی سونپی ہے تو پھر گھر میں عورت کا فیصلہ فائنل ہونا چاہئے۔ باہر کے معاملات کیسے طے کئے جائیں گے یہ مرد فیصلہ کرے اور گھر کے معاملات کیسے چلائے جائیں گے یہ عورت طے کرے۔
لیکن ساتھ میں یہ بھی کہ اگر کوئی عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ مقابلے کی دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتی ہے اور اسمیں ایسی صلاحیتیں ہیں کہ وہ دنیا کو کچھ دے سکتی ہے اور دینا چاہتی بھی ہے تو اسکو اسکے اس حق سے محروم نہ کیا جائے۔یہاں پھر خاوند کو اسکی گھریلو ذمہ داریوں میں برابری کی سطح پر ہاتھ بٹانا لازم ہے۔ اسکی راہ میں روڑے نہ اٹکائے بلکہ اسکی حوصلہ افزائی کرے۔ ہر معاشرے میں خبیث الفطرت لوگ موجود ہوتے ہیں کہ جنکی نظر میں عورت ایک "شے” ہے کہ جس کا مصرف صرف اس سے تسکین اور مزہ حاصل کیا جانا ہے، انکی حوصلہ شکنی کرنا، انکی نظریں جھکانا مسئلے کا حل ہے نہ کہ عورت کوکپڑے کی دبیز تہوں میں لپیٹ لپاٹ کر مرد کا طفیلی بنا دینا۔ آپ گھر سے باہر نکلیں اور آپ کے راستے میں کچھ زہریلے سانپ رہتے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ ساری زندگی گھر میں رہیں گے یا سانپوں کو کچلیں گے؟
عورت ایک آبجیکٹ نہیں، یہ بھی مرد کی طرح گوشت پوست سے بنی انسان ہی ہے۔ اسے انسانوں کی طرح برتیں، یہ صرف جسم نہیں جو آپکی تفریح طبع کا سامان ہے بلکہ اسمیں چھپی صلاحیتوں کو بھی نشو نما کا موقع دیں۔ اسکو ناقصل العقل قرار دے کر معاملات سے الگ کرنے کی بجائے اس کو موقع دیں کہ یہ انسانیت کو درپیش مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ مختلف ہونے اور کمتر ہونے میں فرق ہے۔ اگر مرد جسمانی ساخت اور تقاضوں میں عورت سے کچھ مختلف ہے تو اسکا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بہتر ہے۔ مرد اور عورت دو ٹکڑے ہیں کہ جنکے ملنے سے انسان بنتا اور مکمل ہوتاہے۔کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دوسرے کا وجود ممکن نہیں ۔