Close

نامعقولیت

مسلمانوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو قرآن و حدیث کو بغیر کسی چوں و چرا کے سند مانتے ہیں، اور دوسری قسم وہ جو احادیث کا مکمل یا جزوی انکار کرتی نظر آتی ہے۔ اس دوسری قسم پہ مشتمل گروہ ان مسلمانوں کا ہے کہ جو قرآن کے واضح معنوں کی (بسا اوقات بالکل الٹ) تاویل کرتے ہیں تاکہ کسی طرح یہ ایک معقول ذہن کے لئے قابلِ قبول بن جائے۔

تقریباً "1200 سال سے بخاری کا ذخیرہء حدیث جمہور مسلم امہ کے لئے قرآ ن کے بعد مستند ترین درجہ رکھتا چلا آرہا ہے۔” مسلمان، خصوصاً سنی مسلمان، قرآن کے علاوہ احادیث کو بھی راہنمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ احادیث محمد کی زندگی کی کہانیاں ہیں جو محقیقین نے دو سو سے تین سو ہجری کے درمیان جمع کی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور اور معتبر وہ ہیں جو بخاری اور اس کے شاگرد مسلم نے اکٹھی کیں اور یہ احادیثِ صحیحہ کہلاتی ہیں۔ جس کا مطلب ہے درست،محکم اور مستند۔ ان کے صحیح کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ ان احادیث نے "علم الحدیث” کی سخت کسوٹی سے گزر کر یہ مقام پایا ہے۔
آج کل مسلمانوں میں انکارِ حدیث کے ایک نئے رجحان کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ احادیث کی صحت کا یکلخت انکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس انکار میں یہ حضرات اس حد تک گزر جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی میجارٹی کے نزدیک انتہائی قابلِ احترام سمجھے جانے والے ان مولفینِ حدیث کو جھوٹا اور "مسلمان کے روپ میں مجوسی” تک کہہ ڈالتےہیں کہ جنہوں نے سخت جانفشانی سے تدوینِ حدیث کا یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ان مولفین نے یہ احادیث "ایجاد” نہیں کی تھیں کہ ان کو اس قدر برا بھلا کہا جائے۔ انہوں نے تو ان احادیث کو اکٹھا کر کے ان کی جانچ پرکھ اور تدوین کی اور ان احادیث کی محمد اور اس کے صحابہ تک کے راویان کی فہرست (عنعنہ) مرتب کی۔
ابتدائی مسلم محقیقن نے حدیث کو صحیح تبھی قرار دیا کہ جب وہ فنِ روایت اور فنِ درایت کے اصولوں پہ پوری اترتی ہو اور اس کے علاوہ وہ قرآن و سنت کے خلاف بھی نہ جاتی ہو۔
آج کے دور میں کوئی بھی فنِ روایت کی بنیاد پہ کسی حدیث کو قبول یا رد کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کیونکہ ان کی روایت کرنے والوں کو مرے ہوئے بھی ہزار سال سے زائد عرصہ بیت گیا اور ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم ان راویان کی جانچ کر سکیں۔ اس وقت ہمارے پاس احادیث کی مصداقیت کا پیمانہ فقط فنِ درایت اور ان کا قرآن کے ساتھ موازنہ ہے۔ مسلم اسکالر آصف افتخار کہتے ہیں کہ: "حدیث کو کسی موضوع کے متعلق اسلامی تعلیم کا مصدقہ مصدر تبھی تسلیم کیا جائے گا کہ جب وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو یا مروجہ انسانی فطری قوانین و عقل کو مطمئن کرتی ہو اور ان کے خلاف نہ جاتی ہو”۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ: "امام ابنِ علی جوزی نے کہا اگر تمھیں کوئی حدیث عقلِ سلیم یا کائناتی حقائق کی نفی کرتی نظر آئے تو اس کو جعلی (من گھڑت) سمجھو، اس کے راویان کی معتبریت پر گفتگو بے معنی ہے۔ ایسی احادیث بھی مشکوک ہیں جو نہایت چھوٹے سے عمل کے بہت ہی بڑے بدلہ کا وعدہ کرتی ہیں یا وہ کہ جو بے سروپا ہیں”۔
اب اگر کچھ احادیث کو عقلِ سلیم (کامن سینس) سے پرکھیں اور ابنِ علی جوزی کی بات کو بھی ذہن میں رکھیں تو ہمیں ایسی بہت ساری احادیث نظر آتی ہیں کہ جو "صحیح” کہلائے جانے کے باوجود بھی اوپر بیان کئے گئے ٹیسٹ پہ پوری نہیں اترتیں، مثال کے طور پر:
صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب
باب: اس کا ثواب جس نے شاخ یا کوئی اور تکلیف دینے والی چیز راستے سے ہٹائی
حدیث نمبر 2472
حدثنا عبد الله،‏‏‏‏‏ أخبرنا مالك،‏‏‏‏‏ عن سمى،‏‏‏‏ عن أبي صالح، ‏عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏”بينما رجل يمشي بطريق،‏ وجد غصن شوك فأخذه، فشكر الله له، فغفر له‏”‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ڈالی دیکھی۔ اس نے اسے اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کر دی۔

یہاں اجر کی مقدار عمل سے کہیں زیادہ ہے، اور اگر ہم ابنِ علی جوزی کی محکم بات کو مدِ نظر رکھیں تو یہ حدیث جھوٹی نظر آتی ہے۔
یہ مثال بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ محض ایک صحیح حدیث کو غیر صحیح ثابت کر کے (یا مشکوک ٹھہرا کے) ہم نے ان تمام احادیث کے مستند ہونے کو بھی مشکوک ٹھہرا دیا ہے کہ جو "صحیح” کا درجہ رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہاں پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ 90 فیصد مسلمان بخاری اور مسلم کے ذخیرہء حدیث پر ایمان رکھتے ہیں، اور باوجود اس کے کہ یہ احادیث قرآن کے بعد مستند ترین کا درجہ رکھتی ہیں، بہرحال اس قدر قابلِ اعتبار بھی نہیں ہیں۔
آئیے اب ایک اور حدیث لیتے ہیں اور اس کا کامن سینس کے ساتھ تجزیہ کرتے ہیں کہ آیا یہ کامن سینس کے میعار پہ پوری اترتی ہے یا نہیں۔لیکن اس سے پہلے لگے ہاتھوں کامن سینس کی تعریف بھی بیان کر لیتے ہیں۔ کیونکہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ: "کامن سینس وہ سینس ہے کہ جو زیادہ کامن نہیں ہے”۔ اور چونکہ مذہبی لوگ جو واقعات کو عقائد کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں ان کے کامن سینس کے میعارات مختلف ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک درست عقلِ سلیم کہتی ہے کہ مرد و زن کی ذہنی استعداد ایک سی ہے۔ یقیناً مردوں میں بھی اور خواتین میں بھی کم عقل افراد پائے جاتے ہیں لیکن اس کا تعلق ان کی جنس سے نہیں ہے۔ کسی بھی سنجیدہ سائنسی تحقیق سے کبھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ مرد و عورت کے بیچ ذہانت کی مقدار میں کوئی فرق پایا جاتا ہے۔ ہر منطقی شخص یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ تمام مرد ایک جیسی ذہنی صلاحیتیں نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آئن سٹائن کی گواہی کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے کہ جتنی نذیر خان کی گواہی کی۔ سائنس، قانون اور عقلِ سلیم سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ عورت اور مرد کے حقوق برابر کے ہونا چاہئیں۔
جعلی اور غلط عقائد کی بنیاد پر عقلِ سلیم کو جھٹلا دیا جاتا ہے۔ اسلام میں کامن سینس کی تعریف مختلف ہے۔ حیرت اور قدرے افسوس کی بات ہے کہ کچھ مسلم خواتین بخوشی اپنے حقوق کی سلبی کے لئے جد وجہد کر رہی ہیں اور اس کو آزادی سے تعبیر کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حجاب سے ان کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور خاوند کے تہ نگین ہو کے اس کی سزا سہہ کر زندگی گزارنا ہی ان کے لئے بہتر ہے۔ ان کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ ذہانت میں مرد سے کمتر ہیں اور یہ بھی کہ ان (عورتوں) کی زیادہ تعداد جہنم میں جائے گی کیونکہ محمد نے ایسا کہا تھا۔
چنانچہ جب ہم کامن سینس کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد مذہبی افراد کی کامن سینس نہیں، بلکہ وہ کامن سینس ہے کہ جو "اصل” سائنس کے مطابق ہے اور جس کے وضع کرنے والے "اصلی” سائنسدان ہیں۔ یہاں لفظ "اصلی” پہ زور اس لئے ہے کہ تمام مذاہب نے اپنے جعلی فلسفی، جعلی سائنسدان اور اپنی اپنی جعلی سائنس بھی وضع کر رکھی ہے۔ مورس بوکائی اور کیتھ مُور جیسے فراڈیوں نے قرآن سے جو سائنس نکال رکھی ہے یہ سائنس نہیں ہے۔ یہ فقط اپنے بینک اکاؤنٹ بھرنے کے لئے گھڑی گئی جہالت کی چُوسنی ہے جو مسلمان بخوشی چُوستے پھر رہے ہیں کہ وہ یہی کچھ سننا چاہتے ہیں جو یہ نوسر باز انہیں سناتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ درج ذیل حدیث سائنسی اور کامن سینس کے معیار پہ پوری اترتی ہے یا نہیں:
صحیح بخاری، کتاب التوحید والرد علی الجہیمۃ
باب: سورۃ ہود میں اللہ کا فرمان ”اور اس کا عرش پانی پر تھا“ ”اور وہ عرش عظیم کا رب ہے“۔
حدیث نمبر 7418
حدثنا عبدان، عن أبي حمزة، عن الأعمش، عن جامع بن شداد، عن صفوان بن محرز، عن عمران بن حصين، قال إني عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه قوم من بني تميم فقال ‏”اقبلوا البشرى يا بني تميم‏”‏‏.‏ قالوا بشرتنا فأعطنا‏.‏ فدخل ناس من أهل اليمن فقال ‏”اقبلوا البشرى يا أهل اليمن إذ لم يقبلها بنو تميم‏”‏‏.‏ قالوا قبلنا‏.‏ جئناك لنتفقه في الدين ولنسألك عن أول هذا الأمر ما كان‏.‏ قال ‏”كان الله ولم يكن شىء قبله، وكان عرشه على الماء، ثم خلق السموات والأرض،‏ وكتب في الذكر كل شىء‏”‏‏.‏ ثم أتاني رجل فقال يا عمران أدرك ناقتك فقد ذهبت فانطلقت أطلبها، فإذا السراب ينقطع دونها، وايم الله لوددت أنها قد ذهبت ولم أقم‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا ان سے ابوحمزہ نے ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے جامع بن شداد نے، ان سے صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ۔ ہم آپ کے پاس اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ آپ سے اس دنیا کی ابتداء کے متعلق پوچھیں کہ کس طرح تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تھا اور کوئی چیز نہیں تھی اور اللہ کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اس نے آسمان و زمین پیدا کئے اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھ دی (عمران بیان کرتے ہیں کہ) مجھے ایک شخص نے آ کر خبر دی کہ عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو وہ بھاگ گئی ہے۔ چنانچہ میں اس کی تلاش میں نکلا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اور اس کے درمیان ریت کا چٹیل میدان حائل ہے اور خدا کی قسم میری تمنا تھی کہ وہ چلی ہی گئی ہوتی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سے نہ اٹھا ہوتا۔

یہ کہانی کس طرح عقل کے مطابق ہے؟ اگر کچھ بھی موجود نہ تھا تو اللہ نے اپنا تخت پانی پہ کس طرح رکھا؟ پانی کس چیز پہ قائم تھا؟ زمین و آسمان پانی کے بعد کیونکر بنے، اگر زمین نہ تھی تو پانی کو کس نے تھاما ہوا تھا؟ اور جس چیز نے پانی کو تھاما ہوا تھا کیا اس کو بھی تھامنے کے لئے آسمان کی ضرورت نہ تھی؟
اس حدیث میں کھلی سائنسی جہالت اور ناقص ترتیبِ تخلیق ہے۔
کیا زمین نظامِ شمسی کا رکن نہیں؟ نظامِ شمسی کہ جو بجائے خود کائنات میں موجود اربوں کہکشاؤں میں سے ایک درمیانے درجے کی کہکشاں کا ایک معمولی۔ ۔ ۔ انتہائی معمولی سا حصہ ہے۔ کیا کوئی شخص، بشمول مورس بوکائی کے جس نے اپنا بینک اکاؤنٹ بھرنے کے لئے قرآن میں سے بہت ساری سائنس دریافت کی (لیکن مسلمان ہونے سے اجتناب ہی برتا) ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کا کون سا حصہ سائنسی ہے؟
پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ حدیث چونکہ کامن سینس اور مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے لہٰذا من گھڑت ہے۔ لیکن ٹھہرئیے، یہاں ایک دوسرا مسئلہ اٹھ کھڑا ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
"یہاں تک کہ جب وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچا اسے ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا پایا اور وہاں ایک قوم ملی۔ ہم نے فرمایا اے ذوالقرنین یا تو تُو انہیں عذاب دے یا ان کے ساتھ بھلائی اختیار کرے”
"پھر ایک سامان کے پیچھے چلا، یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ پہنچا اسے ایسی قوم پر نکلتا پایا جن کے لئے ہم نے سورج سے کوئی آڑ نہیں رکھی” (القرآن 18:86،89،90)
مگر سورج تو "ہر جگہ” نکلتا ہے یا اگر مزید تکنیکی نظر سے دیکھیں تو کہیں سے بھی نہیں نکلتا۔ سورج طلوع ہونے کی جگہ کا مشاہدہ کرنے کے لئے کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ اس بات سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ محمد کو واقعتاً زمین کے چپٹا ہونے کا یقین تھا اور یہ کہ سورج زمین کے ایک سرے سے طلوع ہوتا ہے اور دوسرے سرے پہ غروب۔ ایک حدیث سے ہمیں اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔
صحیح بخاری، والیوم 4، کتاب 54، نمبر 421
ابو دہر سے روایت ہے:
رسول نے غروبِ آفتاب کے وقت مجھ سے پوچھا، "کیا تم جانتے ہو کہ (غروبِ آفتاب کے وقت) سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ اس نے کہا "یہ چلتا جاتا ہے حتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، جو کہ اسے مل جاتی ہے (اور ایک وقت آئے گا کہ جب) وہ اجازت طلب کرے گا اور اسے نہ ملے گی بلکہ اسے حکم دیا جائے گا کہ جہاں سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جائے، اور پھر یہ مشرق سے نکلے گا۔یہ اللہ کے اس بیان کی تشریح ہے:
"اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لئے، یہ حکم ہے زبردست علم والے کا” (القرآن 36:38)۔
یہاں ہمارے پاس ایک حدیث قرآن کے مطابق ہے اور دوسری حدیث اس کی تصدیق بھی کر رہی ہے۔ یہ حدیث سائنس اور کامن سینس کے تو خلاف ہے لیکن قرآن کے خلاف نہیں۔ اگر ہمارے ذہن میں اب بھی کوئی شبہ ہے کہ محمد کے خیال میں زمین چپٹی نہیں تھی تو درج ذیل آیات سے وہ شبہ رفع ہو جانا چاہئے۔
"کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ کیا اور پہاڑوں کو میخیں” (القرآن 78:6،7)
بچھونا، یا پھیلانے سے کسی چپٹی چیز ہی کا تصور ہی قائم ہوتا ہے۔ عربی لفظ مھد کا مطلب بستر ہے اور بستر چپٹے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بیضوی نہیں ہوتے۔ اور اس کے علاوہ پہاڑوں کا کردار بھی میخوں کی طرح زمین کو ہلنے سے روکنا نہیں ہے۔
کیا یہ احادیث قرآن کے مطابق نہیں ہیں؟ جو صریحاً یہ بیان کر رہی ہیں کہ زمین چپٹی ہے اور سورج ایک کنارے سے طلوع ہو کر دوسرے کنارے پر ایک کیچڑ والے پانی میں غروب ہوجاتا ہے۔ کیا آسمان پہ کوئی تخت بھی موجود ہے کہ سورج جس کے نیچے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا ہے؟ یہ تصور احمقانہ سا لگتا ہے۔ قدیم زمانے میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ زمین پانیوں پہ تیر رہی ہے۔ پانیوں کے کناروں پہ اونچے پہاڑ ہیں جن کے پار لا متناہی خلا ہے۔ محمد کی کائنات کے بارے میں تصویر کشی اس دورِ جاہلیت میں ضرور عقل کے مطابق ہوگی لیکن آج کے سائنسی دور میں ہرگز نہیں۔
کائنات کا یہ غلط تصور محمد کی اپنی دریافت ہرگز نہ تھا بلکہ یہ اس دور کی روایات کے عین مطابق تھا۔
آئیے ایک اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری، کتاب الانبیاء
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ البقرہ میں یہ فرمانا، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں۔
حدیث نمبر 3333
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس،‏ عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”إن الله وكل في الرحم ملكا فيقول يا رب نطفة،‏ يا رب علقة، ‏‏‏‏يا رب مضغة، فإذا أراد أن يخلقها قال يا رب، أذكر أم يا رب أنثى يا رب شقي أم سعيد فما الرزق فما الأجل فيكتب كذلك في بطن أمه‏”‏‏.
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زیدنے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی بکر بن انس نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ماں کے رحم کے لئے ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے وہ فرشتہ عرض کرتا ہے اے رب یہ نطفہ ہے، اے رب یہ مضغفہ ہے، اے رب یہ علقہ ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے رب، یہ مرد ہے یا عورت۔ اے رب، یہ بند ہے یا نیک، اس کی روزی کیا ہے اور اس کی مدتِ زندگی کتنی ہے۔ چنانچہ اسی کے مطابق ماں کے پیٹ ہی میں فرشتہ سب کچھ لکھ لیتا ہے۔

یہ حدیث ایک مذاق معلوم ہوتی ہے۔ خالی اس ننھے سے فرشتے کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے کہ جو عورت کے رحم کے سامنے کھڑا مرد عورت کے اختلاط کا منظر دیکھتے ہوئے اللہ سے نطفے کی استدعا کر رہا ہوتا ہے۔ کیا ہم اس حدیث کو بھی جعلی قرار دے کر رد کر دیں؟ یہ واضح طور پر گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور کامن سینس کے بھی خلاف ہے۔
مگر یہ ان کے کامن سینس کے خلاف کیوں نہیں گئی کہ جنہوں نے اسکو 1200 سال پہلے روایت کیا۔ ہمارے لئے یہ احمقانہ بات ہے لیکن ان کو یہ احمقانہ کیوں معلوم نہ ہوئی جو بارہ سو سال سے اس کو پڑھے اور مانے چلے آرہے ہیں۔ چند سو سال پہلے کامن سینس سمجھتی تھی کہ زمین چپٹی ہے۔ تمام فلسفی اور پیغمبر بھی اسی بات پر متفق تھے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ کیوں؟
کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جو احادیث ہمارے جدید کامن سینس سے متصادم ہیں وہ جعلی ہیں؟ جبکہ یہی احادیث گزشتہ ادوار کے کامن سینس کے مطابق سچ سمجھتی جاتی تھیں۔ ہمارا نقطہ یہ ہے کہ ہم احادیث کو محض اس بنیاد پہ رد نہیں کر سکیں گے کہ یہ ہمارے کامن سینس کے خلاف جاتی ہے۔ مسلمانوں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ چونکہ محمد اللہ کا رسول ہے چنانچہ وہ غلط نہیں ہو سکتا چنانچہ وہ احادیث کو دوبارہ پرکھتے ہیں اور جو جو ان کو موجودہ سائنس اور کامن سینس سے متصادم نظر آتی ہیں ان کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ طریقہ کار انتہائی جانبدارانہ ہے۔ ہم ان ثبوتوں کو کیونکر رد کر سکتے ہیں جن سے محمد کا جھوٹا ہونا ثابت ہو رہا ہو؟ کیا محض اس لئے کہ ہم نے اس کا سچا ہونا فرض کر لیا ہے؟ ایک حقیقی عدالت کو تمام ثبوتوں خواہ وہ اچھے ہوں یا برے، ان کا تجزیہ کرنا چاہئے۔
محمد کے دعوے کی سچائی جاننے کے لئے پہلے ہمیں اس بات کا فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ہم کون سی طرف ہیں؟ آیا ہم جیوری ہیں یا پھر ملزم کے وکیل ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یقیناً وکالت ہی کا انتخاب کرے گی۔ وہ یہ جاننا ہی نہیں چاہیں گے کہ محمد واقعتاً نبی تھا بھی یا نہیں کیونکہ یہ سوال ان کے ذہن میں اٹھتا ہی نہیں۔ انہوں نے اس کو اللہ کا پیغمبر جو مان لیا ہے۔ وہ اس موضوع کے حوالے سے جانبدار ہیں ان کا مقصد محمد کے بارے میں سچائی جاننا نہیں بلکہ کسی بھی طریقے سے، دھونس دھاندلی سے اسے بے گناہ قرار دلوانا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے پڑھے لکھے مسلمان احادیث میں موجود خرافات دیکھتے ہیں تو ان کی مصداقیت کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں۔ چونکہ بیشتر احادیث عجیب و غریب ہیں چنانچہ تمام احادیث کا یک بیک انکار کرنے کا آسان حل ان کو یہی نظر آتا ہے کہ بخاری و مسلم ہی کو بدنام کر دیا جائے نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ وہی بخاری و مسلم کہ جو سینکڑوں سالوں سے مسلمانوں کے ہاں مکرم و محترم ہیں۔
یہ سراسر نا انصافی اور جانبدارانہ تعصب ہے۔ بخاری، مسلم اور دیگر محدثین نے احادیث نہیں "گھڑیں”، انہوں نے محض ان کو جمع کیا ہے۔ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے کہ ان اسکالرز اور محقیقن کی محنتِ شاقہ کو بیک بینی و دو گوش جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا جائے محض اس بنیاد پر کہ اس سے محمد کی شان پہ حرف آتا ہے اور محض اس وجہ سے کہ یہ آج ان کی "کامن سینس” میں نہیں سما رہیں۔
کچھ احادیث یقیناً من گھڑت ہیں، لیکن بہت ساری حقیقی ہیں۔ اگر آپ کے پاس موجود کرنسی نوٹوں میں کچھ جعلی نوٹ شامل ہو جائیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تمام رقم پھینک دی جائے محض اس وجہ سے کہ اصل و نقل کا امتیاز مشکل ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ مسلمان محض احادیث ہی پہ بھروسہ نہ کریں کیونکہ یہ محض اسلام کی تاریخ ہے، ان سے البتہ ہم محمد اور اس کی زندگی کے بارے میں ضرور جان سکتے ہیں۔ اگر ہم احادیث اور تاریخ کا سرے سے انکار کر دیں تو محمد نامی شخص کی نبوت کو کیسے ثابت کریں گے؟ اگر سب کی سب (یا بیشتر) من گھڑت ہیں کہ جو کسی شیطانی شخص یا گروہ کی کارستانی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسی شیطانی گروہ نے قرآن بھی نہیں گھڑا ہے اور اسلام سارے کا سارا ہی ایک من گھڑت داستان نہیں ہے؟
حدیث کے بغیر ہم محمد، اس کی زندگی اور اس کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے۔ ان کے بغیر مسلمان یہ تک نہیں جان سکتے کہ نماز کس طرح ادا کرنی ہے اور روزہ کیسے رکھنا ہے۔ احادیث پر تو اسلام کی بنیادیں استوار ہیں۔
کامن سینس اور معقولیت کی بنیاد پر احادیث کا انکار کرنے سے ایک دوسرا بڑا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہو رہا ہے۔ وہ یہ کہ پھر قرآن کی ایسی اوٹ پٹانگ آیات کا کیا کیا جائےگا؟ کیا ہم قرآن کی ان آیات کا انکار بھی کر پائیں گے کہ یہ بھی احادیث کی طرح غیر منطقی ہیں؟
اور یہ وہ لکیر ہے کہ جس کو مسلمان کبھی عبور نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ یہ کرتے ہیں کہ ان کی باطنی تشریح کردیتے ہیں۔ ان کی تاویلیں نکالتے ہیں۔ اگرچہ غور کیا جائے تو صرف تاویل اور باطنی تفسیر کی ضرورت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آیات مبہم (یعنی نامکمل) ہیں اور ان کے مطالب واضح نہیں ہیں۔
معتزلین کو سب سے پہلے اس چیز کا احساس ہوا۔ تصوف کی بنیاد بھی قرآن کے ساتھ باطنی معنی منسلک کرنے پر ہے، مثلاً یہی وجہ ہے کہ معراج بھی ان کے نزدیک ایک باطنی واقعہ ہے۔
مسلمانوں کے دو طبقے ہیں۔ پہلا وہ ہے جو کہ ہر قسم کے قاعدے قانون، عقل و انصاف سے بالاتر ہو کر محمد کے ہر فعل کو درست جانتے ہیں۔ وہ اپنے پیغمبر کی ایک نو سالہ بچی سے شادی کا انکار نہیں کرتے، نا ہی اس کے مکاری سے اپنے دشمنوں کے قتل کرنے کی یا قبائل کی نسل کشی کی پردہ داری کرتے ہیں۔ اس کے زناء بالجبر، اس کی شہوت پرستی اور دیگر غیر اخلاقی حرکات کا انکار نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک وہ انسانیت کا مکمل نمونہ ہے اور اس کے اعمال پہ انگلی اٹھانے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد کے اعمال ہی اخلاقیات مرتب کرتے ہیں نہ کہ اخلاقیات کو محمد کا کردار جانچنے کا پیمانہ بنانا چاہئے۔
دوسرا طبقہ محمد کے بارے مندرجہ بالا شرمناک تاریخی حقائق کا انکار کرتا ہے اور فراہم کردہ ثبوتوں کو یا تو یکسر مسترد کر دیتا ہے یا ایسی تاویلیں پیش کرتا ہے تاکہ موجودہ جدید معاشرے کو وہ قابلِ اعتراض نظر نہ آئیں۔ اور یہ طبقہ اعتدال پسند مسلمان کہلاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، مسلمانوں کا اعتدال پسند گروہ وہ ہے کہ جو محمد کے بارے میں کڑوے سچ کو جھٹلاتا ہے بالکل ریت میں سر دئیے شتر مرغ کی مانند۔
پہلے طبقے کی ایمانداری کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہے۔ بہت سے بزعم خود اعتدال پسند مسلمان قرآن میں موجود جبر و بہیمیت کو دوسرے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اس وقت کی آیات کو پیش کرتے ہیں کہ جس وقت محمد کمزور تھا اور اس کی تعلیمات میٹھی تھیں جبکہ وہ مدینہ میں بیان کی گئی سخت آیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جب محمد نے اپنے قدم جمانے شروع کر لئے تھے۔
چنانچہ اعتدال پسند کہلانے والا گروہ نا معقولیت کی حد تک ان چیزوں کا انکار کرتا ہے کہ جو آج تک امتِ مسلمہ کے نزدیک بالکل درست تھیں۔ اور ایسا کرنے کے لئے وہ ہر طرح کی جانبداری برتتا ہے، سچ جھوٹ ملا کر کسی نہ کسی طرح اسلام کو مذہبِ حق ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہے خواہ اس کے لئے اس کو ڈیڑھ ہزار سال سے رائج اسلام اور اسلامی قوانین، عبادات و شریعت کی نفی کر کے نئے سرے سے اسلام مرتب ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ خواہ اسے فراڈیوں کی مرتب کردہ جعلی سائنس ہی کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔
بشکریہ علی سینا

جواب دیں

0 Comments
scroll to top