Close

اسباب و حقائقِ غزوۂ بدر

عام روایتی مسلمان بہت سادے اور بھولے ہوتے ہیں، اسلام پر ان کا غیر متزلزل ایمان صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے دینی علم کا اہم ترین ذریعہ اپنے گھر سے حاصل ہونے والی دینی معلومات اور جمعہ کے دن عربی خطبے سے قبل خطیب کی تقریر ہوتا ہے۔ غیر مسلموں سے نفرت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ معصوم ناپختہ ذہنوں میں بچپن سے ہی بٹھا دی جاتی ہے، جو عموماً مسخ شدہ تاریخ کی صورت میں انہیں ازبر کرائی جاتی ہے۔ ان مسلمان بچوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ اسلام کی شروعات سے ہی کافروں نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، اور ان پر ہر طرح سے عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ یہ بات ان بچوں کی ذہن میں اس قدر راسخ ہوجاتی ہے کہ ذہن اس کے برعکس کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ بچپن کی یہ معلومات اس قدر پختہ ہوتی ہیں کہ دلائل کے انبار بھی بچپن سے نقش، اِن نقوش کو دھندلانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ مسلمان کبھی اس رخ پر نہیں سوچتے کہ جن ذرائع سے انہیں یہ معلومات فراہم کی گئیں آیا وہ ذرائع ”معتبر“ ہونے کے معیار پر پورا بھی اترتے ہیں یا نہیں؟ ان کی معلومات ”علم“ کا درجہ رکھتی بھی ہیں یا وہ مغالطوں کا شکار ہیں؟

ایسا ہی ایک مغالطہ ”غزوۂ بدر“ ہے، کسی بھی مسلمان سے پوچھ لیں کہ کفر و اسلام کا سب سے پہلا معرکہ کیسے ہوا؟ فٹ سے جواب آئے گا، ”کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا“۔ بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے ”غزوۂ بدر“ کی تمام تر ذمہ داری مکہ کے کافروں پر ڈال دی جاتی ہے کہ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو کافروں کو مسلمانوں کا چین کی نیند سونا ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے اپنی شرارتوں کا دائرہ کار مکہ سے بڑھاتے ہوئے مدینہ تک پھیلا دیا، اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں،کیونکہ بچپن سے یہی گھٹی پلائی گئی ہے کہ کافر ہمیشہ ظالم اور جارح ہوتا ہےاور مسلمان ہمیشہ مظلوم اور دفاع کرنے والا ہوتا ہے۔

مسلمان علماء بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ ”غزوۂ بدر“ کے اسباب کیا تھے اور جارح کون تھا؟ لیکن پھر بھی اصل صورت حال اس لئے پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ حقیقت سامنے آنے سے معصوم ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، اور 1400 سال سے مسلمانوں کی مظلومیت کی جو تصویر ہر مسلمان کے ذہن میں نقش کر دی گئی ہے وہ دھندلا سکتی ہے۔ اس لئے عموماً واقعات کو تفصیل اور تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے حقیقی اسباب پر روشی ڈالے بغیر بدر کے میدان میں دونوں فوجوں کو ہاہم ٹکرا دیا جاتا ہے، اور پھر قوت ایمانی کے باعث 313 مجاہدین اسلام کی ایک ہزار کفار پر فتح مبین کے نقارے بجا دیئے جاتے ہیں۔

جنگ بدر اور 1965ء کی پاک وہند کی جنگ میں اس لحاظ سے کافی مماثلت ہے کہ ہماری نصابی کتابوں میں ہمیں ان دونوں جنگوں کے اصل محرکات کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہماری نصابی کتابوں میں درج ہے کہ 6 ستمبر 1965ءکو ہندوستان نے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اعلانیہ طور پر یک طرفہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے لاہور پر حملہ کر دیا تھا، لیکن یہ بات کہیں ذکر نہیں کی جاتی کہ 65ء کی جنگ کا اصل محرّک ”آپریشن جبرالٹر“ تھا، اسی طرح جنگ بدر کے بارے میں بھی اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسلام کا نام تک مٹا دیا جائے، اور جنگ بدر کے اصل اسباب و محرّکات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا۔حالانکہ غزوہ بدر کا اصل محرّک کفار مکہ کا مدینہ پر حملہ آور ہونا نہیں تھا، بلکہ ہجرت کے بعد سے یکے بعد دیگرے مسلسل ایک سال سے مسلمانوں کی جانب سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کتنے مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ غزوہ بدر سے قبل پیغمبر اسلام نے تقریباً آٹھ بار قریش مکہ کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی کوششیں کیں؟ اور لوٹ مار کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر جنگ بدر کا میدان کارزار گرم ہوا۔

مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے مکہ سے یثرب ہجرت کی، کیونکہ پیغمبر اسلام کی 13 سالہ شب و روز کوششوں سے صرف 83 افراد شمع اسلام کے پروانے بن پائے تھے، پیغمبر اسلام مایوس ہوچکے تھے کہ مکہ کے مزید لوگ ان کی دعوت پر کان دھریں گے، نیز خدیجہ اور ابو طالب کے انتقال کے باعث پیغمبر اسلام کی پشت پناہی کرنے والا کوئی مضبوط سہارا بھی اب میسر نہ تھا، اس لئے اب مکہ کو خیرباد کہنے میں ہی عافیت تھی۔ سردارانِ قریش نے مسلمانوں سے ہرگز مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مسلمان مکہ چھوڑ کر کسی اور علاقے کی طرف منتقل ہو جائیں، بلکہ سرداران قریش نے پوری کوشش کی مسلمان مکہ چھوڑ کر نا جائیں، اس لئے جس کا جس پر بس چل سکا اسے ہجرت سے روکنے کی اپنی بھرپور کوشش بھی کی۔اس بات کی تصدیق کیلئے سیرت کی اولین کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے، میں طوالت کے اندیشے کے باعث اسے ذکر نہیں کر رہا۔

مسلمانوں کے یثرب ہجرت کر جانے کے بعد مسلمان مؤرخ یہ تو لکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد بھی کفار مکہ نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور مدینہ میں بھی انہیں نقصان پہنچانے کے در پے رہے، لیکن کوئی ایک واقعہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کوئی ایک جارحانہ کاروائی سرانجام دی ہو ! ! ! جی ہاں کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ہجرت کے بعد کسی ایک مسلح کاروائی کا ذکر نہیں ملتا،میں نے حتی المقدور تحقیق کی کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ کی جانب سے کوئی ایک ایسا فعل مل جائے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہو کہ کفار مکہ نے ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رکھا، اور انہیں مدینہ میں بھی سکون کا سانس نہ لینے دیا، لیکن مجھے اسلامی تاریخ کے مصادر میں سے کوئی ایک ایسی روایت نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر یہ مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہو۔

ہجرت کے بعد مسلمانوں اور کفارِ مکہ میں باہمی رابطہ ختم ہو گیا۔ مسلمان مکہ سے تقریبا ڈھائی سو میل دور مدینہ ہجرت کر گئے۔ مسلمانوں کو انصار کی شکل میں نئے ہمدرد اور حمایتی دستیاب ہو گئے اور ایک محفوظ جائے پناہ دستیاب ہوگئی جہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اب کفار مکہ اور مہاجرین مدینہ کے درمیان امن قائم ہو جانا چاہئے تھا۔ اور لكم دينكم و لي دين کے اصول پر کاربند رہنا چاہئے تھا، فریقین کو ایک دوسرے کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔ غیر جانبدارانہ رائے تو یہی ہونی چاہئے تھا کہ ہجرت کے بعد جس نے بھی نقص امن اور زیادتی کی طرف پہلا قدم اٹھایا اسے ہی قصور وار ٹھہرایا جائے۔ خواہ وہ کفار مکہ ہوں یا مسلمانان مدینہ۔
BadarMapاس کے برعکس ہجرت کے بعد وہی مظلوم، مسکین، بے یار و مددگار مسلمان ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں، امن و سلامتی کے داعی، ظلم کی مخالفت پر کمر بستہ مسلمان اب تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جانے والی اسی تجارتی شاہراہ پر آمد و رفت رکھتے تھے جسے قرآن لإيلاف قريش إيلافهم رحلة الشتاء والصيف (سورۃ قریش) کہہ کر اس تجارتی شاہراہ کے پرامن ہونے کو قریش پر اللہ کے احسان کے طور پر ذکر کرتا ہے،لیکن اب رسول اللہ بذات خود قرآن کے احسان کو حرفِ غلط ثابت کرنے کیلئے میدان عمل میں اترتے ہیں۔ شجاعت اور بسالت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر کفار مکہ سے کوئی انتقام لینا مقصود تھا تو کفار مکہ سے اعلان جنگ کرتے ہوئے مکہ پر حملہ کیا جاتا، لیکن یہاں دنیا دیکھتی ہے کہ اللہ کی رسالت کے ایک مدّعی، اپنے دین کی وسعت کیلئے ایک انوکھا راستہ اختیار کرتے ہوئے، ایک پرامن شارع تجارت کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ تمام مہذب اقوام تجارتی شاہراہوں کو محفوظ بنانا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتی ہیں، کیونکہ ایسی شاہراہوں سے انسانی ضروریات وابستہ ہوتی ہیں، لیکن اب ایسی صورت حال میں کیا کہا جائے جب یہ سب کچھ اخلاقیات کے نام پر ہی برپا کیا جا رہا ہو، اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والا بھی کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کے نظام کی ”اصلاح“ کیلئےمامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی ذات خود ہو۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا اصل مقصد مسلمانوں کیلئےپر امن خطے کا حصول نہیں بلکہ مکہ پر حملہ آور ہونے کیلئے ایک محفوظ چھاؤنی کا حصول تھا۔رسول اللہ نے جہالت کے سر پر قائم اس دور کے قبائلی نظام کو ختم کرنے کے بجائے، اسی جاہلانہ نظام کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

محدثین، سیرت نگار، اور مؤرخین اسلام، غزوہ بدر سے قبل کل آٹھ مہمات کا ذکر کرتے ہیں، میں اختصار کے ساتھ ان کا یہاں ذکر کر رہاہوں، یہ آٹھ جنگی مہمات اس بات کا پول بہت طرح کھول کر رکھ دیتی ہیں کہ غزوہ بدر کے اصل محرّکات اور اسباب کیا تھے۔مسلمان محققین کوچیلنج ہے کہ ان آٹھ مہمات سے قبل، کفار مکہ کی طرف سے کسی ایک اشتعال انگیزمسلح مہم کا ذکر اپنی ہی کتابوں سے نکال کر دکھا دیں، تاکہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ سچا ثابت ہو سکے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینے نہ دیا، اور یہ کہ غزوہ بدر دفاعی جنگ تھی نا کہ اقدامی۔

(نوٹ: جہاں جہاں بھی تجارتی قافلوں کے ”لوٹنے“ کا ذکر ہے، لوٹنے کا لفظ میں نے اپنی جانب سے شامل نہیں کیا ہے، بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتابوں میں بھی ان مقامات پر یہی لوٹنے کا لفظ ہی استعمال ہو اہے۔)

1- سریۂ حمزہ
رسول اللہ نے سب سے پہلے ہجرت کے سات مہینے بعد رمضان المبارک 1 ھ ؁میں تیس مہاجرین کی جمیعت کو حضرت حمزہ کی سرکردگی میں سیف البحر کی طرف روانہ فرمایا تاکہ قریش کا قافلہ جو ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے مکہ کی طرف واپس آ رہا تھااس کا تعاقب کریں۔ ہجرت کے بعد یہ پہلا سریہ تھا، اس سریہ کیلئے رسول اللہ نے باقاعدہ ایک پرچم بنا کر حضرت حمزہ کے حوالے کیا تھا، جسے اسلام کا سب سے پہلا پرچم قرار دیا جاتا ہے۔جب حضرت حمزہ سیف البحر پہنچے اور قافلے پر حملہ آور ہونا چاہا تو مجدی بن عمرو جہنی نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرایااور لڑائی کی نوبت نہ آنے دی، اس طرح ابو جہل قافلہ لے کر مکہ روانہ ہوا اور حضرت حمزہ کو خالی ہاتھ مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔

2- سریۂ عبیدہ بن حارث
ہجرت کے آٹھ ماہ بعد ماہ شوال 1ھ ؁میں رسول اللہ نے مہاجرین کے ساٹھ یا اسی سواروں پر عبیدہ بن حارث کو امیر بنا کر رابغ کے مقام کی طر ف روانہ کیا، وہاں پہنچ کر قریش کے قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو سو کی جمعیت پر مشتمل تھا، اس بار بھی لڑائی کی نوبت تو نہ آسکی البتہ سعد بن ابی وقاص نے ایک تیر چلایا ، یہ پہلا تیر قرار دیا جاتا ہے جو اسلام میں چلایا گیا۔ جس کا اعزاز بھی ایک ”مظلوم مسلمان“ کو حاصل ہوتا ہے۔ افسوس اوّلین جارحیت کا یہ اعزاز بھی کسی کافر کو نصیب نہ ہوسکا۔

3- سریۂ سعد بن ابی وقاص
پھر ماہ ذی قعدہ (واضح رہے کہ ذی قعدہ کے مہینے کا شمار ”اشہر حرم“ میں ہوتا ہے، جن میں اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی جنگ کی ممانعت ہے) میں بیس مہاجرین پر مشتمل ایک مہم سعد ابن ابی وقاص کی سرکردگی میں مقام خرّار کی طرف روانہ کی۔ یہ لوگ دن میں تو چھپ جاتے اور رات میں قافلہ کو تلاش کرتے، خرّار پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش کا قافلہ تو نکل چکا ہے، اس لئے ناکام و نامراد مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔

4- غزوہ ابواء
عام طور پر مسلمانوں کو یہی معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر وہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ نے خود شرکت کی تھی، لیکن سیرت کی تمام تر معتبر کتابوں کے مطابق غزوہ ابواء کو رسول اللہ کا پہلا غزوہ ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے، صفرھ ؁ میں ساٹھ مہاجرین کے ہمراہ قریش کے ایک قافلے کی آمد کی خبر پاکر رسول اللہ اسے لوٹنے کی غرض سے روانہ ہوئے، افسوس جب آپ ابواء پہنچے تو قریش کا قافلہ نکل چکا تھا ۔ اس لئے مال غنیمت حاصل کئے بغیر ہی مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔ اسی غزوہ کو غزوہ ودّان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ابواء اور ودّان قریب قریب مقام ہیں، جن کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے۔یہ مہم پندرہ روز پر مشتمل تھی۔

5- غزوہ بواط
اگلے ماہ یعنی ربیع الاول ۲ ھ ؁ رسول اللہ کو پھر وحی کے ذریعے اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکہ جا رہا ہے، اس لئے آپ دو سو کا لشکر لے کر اس قافلے پر حملے کی غرض سے بواط کی طرف روانہ ہوئے، قریش کے اس قافلے میں ڈھائی ہزار اونٹ تھے، اور امیہ بن خلف اس قافلے میں موجود تھے، قافلے کے کل شرکاء کی تعداد سو تھی، بواط پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ تو رسول اللہ کے بواط پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے آگے روانہ ہو چکا ہے، اس لئے بغیر جدال و قتال واپس مدینہ لوٹنا پڑا۔

6- غزوہ عشیرہ
جمادی الاولیٰ ۲ ھ ؁ میں آپ نے دو سو مہاجرین کو لے کر قریش کے قافلہ پر حملہ کرنے کیلئے عُشَیرہ کی طرف خروج کیا، جو ینبوع کے قریب ہے، اس مہم میں تیس اونٹ ہمراہ تھے، اس بار پھر حسب سابق رسول اللہ کے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی کئی روز پیشتر قافلہ آگے نکل چکا تھا، چنانچہ مشیت ایزدی کے خلاف بغیر مال غنیمت حاصل کئے مدینہ واپس لوٹ آنا پڑا۔

7- غزوہ سفوان (غزوہ بدر صغریٰ یا بدر اولیٰ)
غزوہ عشیرہ سے واپسی کے بعد تقریباً دس روز رسول اللہ نے مدینہ میں گزارے ہوں گے کہ کُرز بن جابر فہری نے مدینہ سے باہر ایک چراہ گاہ پر حملہ کیا اور اونٹ اور بکریاں لوٹ کر لے گیا۔ رسول اللہ یہ خبر سن کر اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور مقام سفوان تک گئے، مگر آپ کے اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی کرز یہاں سے نکل چکا تھا، اس لئے مدینہ واپس لوٹتے ہی بنی۔سفوان نامی یہ مقام بدر کے قریب ایک جگہ ہے، اس لئے اس غزوہ کو بدر اولیٰ یا بدر صغریٰ بھی کہتے ہیں۔

کُرز بن جابر فہری کی جانب سے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ ایک واحد مہم ہے جس کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ کفار مکہ کی جانب سے مدینہ کے خلاف رونما ہوئی، لیکن اول تو یہ اہل مکہ کی قیادت کی طرف سے باقاعدہ کوئی مہم نہیں تھی، دوسری بات یہ کہ کُرز بن جابر فہری ، مسلمانوں کی جانب سے قریش کے قافلے کے بار بار تعاقب سے سخت سیخ پا تھا۔ اس نے اپنی جانب سے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کی کہ اگر قریش کے قافلوں کا تعاقب جاری رکھا گیا تو قریش بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا حق رکھتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ اسے کُرز بن جابر فہری کا غصے میں ذاتی اور انفرادی فعل قرار دیا جا سکتا ہے، اس سے زائد کچھ اور نہیں۔

8- سریۂ عبد اللہ بن جحش
اس غزوہ کی تفصیل میری گذشتہ تحریر قرآن میں انسانی تصرف کی نشاندہی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، اختصار کے ساتھ ذکر ہے کہ غزوہ سفوان سے واپسی پر ماہ رجب 2 ہجری میں رسول اللہ نے عبد اللہ بن جحش کو گیارہ مہاجرین کے ہمراہ مقام نخلہ کی طرف روانہ کیا، یہ رجب کا مہینہ بھی ”اشہر حرم“ یعنی حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے جس میں جنگ کی سخت ممانعت ہے، روانگی کے وقت عبداللہ بن جحش کو رسول اللہ نے ایک خط دیا اور کہا کہ دو دن کی مسافت طے کرنے بعد اسے کھول کر دیکھنا۔ چنانچہ دو رو ز کا فاصلہ طے کر نے کے بعد خط کھول کر دیکھا تو لکھا تھا ”مکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر اترو، وہاں سے قریش کا ایک تجارتی قافلہ گذرنے والا ہے، اس قافلے کی خبرگیری رکھو، اور اس قافلے کی خبروں سے مطلع کرتے رہو“ عبداللہ بن جحش نے خط پڑھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا جس کو شہادت عزیز ہو وہ میرے ساتھ چلے، اور سب نے ان کے ساتھ جانا قبول کرلیا۔ جب قریش کا تجارتی قافلہ اس مقام سے گذرا تو حرمت کا مہینہ ہونے کے باوجود واقد بن عبداللہ تمیمی نے قافلہ کے سردار عمرو بن الحضرمی کے ایک تیر مارا جس سے وہ مر گیا، اس کے مرتے ہی قافلے والے پریشان ہو کر بھاگ اٹھے اور مسلمانوں نے قافلے کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کرلیا، اور اہل قافلہ میں سے عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو گرفتار کر لیا۔ عبداللہ بن جحش نے اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے غانمین کو دیئے اور ایک حصہ(خمس) رسول اللہ کیلئے رکھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ :”یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور عمرو بن حضرمی پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان پہلے قیدی تھے جو مسلمانوں نے گرفتار کئے“ ابن ہشام کے الفاظ پر غور کر لیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ جارحیت میں پہل کس نے کی۔

قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا کہ ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے مسلسل قریش کے تجارتی قافلوں کا تعاقب کرکے انہیں ہراساں کیا، جب کہ اس دوران سوائے کرز بن جابر فہری والےانفرادی واقعہ کے قریش مکہ کی طرف سے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی مسلح مہم جوئی نہیں کی گئی، اور کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے اجتناب برتا گیا، اس تمام تر تفصیل کو جاننے کے بعد مسلمان کس طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اہل مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، اور مسلمانوں کی تمام تر مہمات دراصل ”دفاعی“ نوعیت کی تھیں۔

اب غزوۂ بدر کی حقیقت بھی جان لیجئے تاکہ یہ واضح ہو کہ جنگ بدر مسلمانوں کی طرف سے اہل مکہ کی جارحیت کے مقابلے کیلئے کوئی ”دفاعی“ اقدام تھا یا مسلمانوں کی جانب سے اہل مکہ کے خلاف خالصتاً جارحانہ جہادی کارروائی تھی۔

غزوہ بدر
ابن اسحاق کہتے ہیں:
”پھر یہ خبر رسول اللہ کے گوش گذار ہوئی کہ ابوسفیان ملک شام سے قریش کا بہت بڑا قافلہ لے کر آ رہا ہے، جس میں قریش کا بہت کثیرمال تجارت ہے اور تیس یا چالیس قریش کے آدمی ہیں ……….. جب رسول اللہ نے ابو سفیان کے شام سے آنے کی خبر سنی تو مسلمانوں سے فرمایاکہ قریش کا قافلہ ملک شام سے بہت سے مال کے ساتھ آ رہا ہے تم اس سے جنگ کے واسطے چلو کہ خدا ان کا مال تم کو دلوا دے………..ابو سفیان جب مدینہ کے قریب پہنچا تو ہر ایک آتے جاتے شخص سے رسول اللہ کا حال دریافت کرتا تھا، کیونکہ اس کو رسول کریم کی طرف سے فکر لگا ہوا تھا۔ چنانچہ ایک شخص سے اس کوخبر پہنچی کہ آپ صلعم نے اس قافلے کیلئے ساتھیوں کو نکلنے کی دعوت دی ہے۔ چنانچہ اسی وقت اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو کچھ مزدوری دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ قریش کو بہت جلد اپنے قافلے کی حفاظت اور حمایت کیلئے بھیج دے۔ چنانچہ ضمضم بن عمرو فوراً نہایت سرعت کے ساتھ مکہ کو روانہ ہوا۔“………. ضمضم بن عمرو غفاری ابو سفیان کا فرستادہ آیا تھا (یعنی مکہ پہنچا) اور اس نے غُل مچایاتھا اور اپنے اونٹ کاکجاوہ الٹا کرکے اور کرتا پھاڑ کے کہہ رہا تھا: ”اے گروہ قریش! اللطيمة اللطيمة تمہارے مال ابوسفیان کے ساتھ ہیں اور محمد نے ان کے لوٹنے کا ارادہ کیا ہے، تم جلد ابو سفیان کی مدد کو پہنچو“

ابن اسحاق کی اس عبارت سے کئی باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں کہ :
1- غزوہ بدر کا اصل سبب مسلمانوں کی طرف سے قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی منصوبہ بندی تھا، نا کہ قریش مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی عسکری کارروائی۔
2- مسلمان بڑے کرّوفرّ سے کہتے ہیں کہ 313 نے 1000 کو شکست دی، مزید تفصیل آگے بیان کروں گا، یہاں یہ جان لیں کہ یہ 313 اصل میں تیس یا چالیس افراد پر مشتمل ایک تجارتی قافلے کو لوٹنے کیلئے نکلے تھے، نا کہ کسی عسکری قوت کے خلاف۔وہ تو چونکہ ابو سفیان اپنا تجارتی قافلے اپنی دانشمندی سے بچا کر مکہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ورنہ ان 313 کا اصل منصوبہ تو تیس یا چالیس لوگوں پر مشتمل تجارتی قافلے پر شب خون مارنا تھا۔
3- رسول اللہ کا یہ فرمان”تم اس سے جنگ کے واسطے چلو کہ خدا ان کا مال تم کو دلوا دے“ غزوہ بدر کے تمام اغراض و مقاصد بہت اچھی طرح بیان کر دیتا ہے کہ ؏
غنیمت تھا مقصود و مطلوبِ مومن
ناشوقِ شہادت، نا خوفِ جگ ہنسائی
4- قریش مکہ، ضمضم بن عمرو غفاری کی اطلاع پر اپنے اموال بچانے اور ابوسفیان کی مدد کیلئے مکہ سے روانہ ہوتے تھے نا کہ مدینہ پر یلغار کرنے کیلئے۔جبکہ مسلمانوں کی طرف سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ قریش مکہ براہ راست مدینہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔

ابن ہشام کہتےہیں کہ:
”پھر آپ صلعم نے سب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! جس کی رائے ہووہ بیان کرو، اور اس سے آپ کا منشأ انصار کی رائے لینا تھا . . . . . . . . . حضور اکرم کو یہ اندیشہ تھا کہ انصار شائد میری اس مدد پر کفایت کریں گے کہ جو دشمن میرے اوپر مدینہ میں چڑھ کر آئے اس سے مجھے بچائیں اور جب میں اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے کیلئے نکلوں تو یہ اس میں شریک نہ ہوں“۔

یہاں دیکھ لیں خود رسول اللہ دشمن پر حملہ آور ہونے کا ذکر کر رہے ہیں، نا کہ کسی قسم کے دفاع کا۔نیز رسول اللہ کو یہ اندیشہ تھا کہ انصار نے تواس بات پر بیعت کی تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر چڑھ آئے گا تب رسول اللہ کی حفاظت کریں گے، لیکن یہاں تو خود رسول اللہ ہی دشمن پر چڑھ دوڑے تھے تو اندیشہ ہوا کہ اس صورت میں نا جانے انصار ساتھ دیں گے یا نہیں۔ کیا اب بھی غزوۂ بدر کی بابت ایک جارحانہ اقدام ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی رہ جاتا ہے ؟

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ:
”جب ابو سفیان اپنے قافلے کو لے کر نکل گیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اب میں غازیان اسلام کی دست برد سے بچ گیا، اس نے قریش کو کہلا بھیجا کہ جس قافلے کی مخالفت اور حمایت کے واسطے تم آئے تھےوہ قافلہ اب دشمن کی زد سے محفوظ نکل گیا۔ لہذا تم بھی واپس مکے چلے جاؤ، ابوجہل نے کہا ”ہم ابھی مکہ نہ جائیں گے، ہم بدر میں چل کر خوب اونٹ ذبح کریں گے اور تین روز وہاں رہ کر خوب کھانے کھائیں گے، اور شرابیں اڑائیں گے، اور ناچ رنگ دیکھیں گے تاکہ ہمارے اس کرّ و فرّ کے ساتھ آنے کو دیکھ کر تمام عرب ہم سے خوف کریں اور جانیں کہ ہاں قریش ایسے ہیں“ کیونکہ ان دنوں میں میں بدرکے میدان میں بازار لگتا تھا اور عرب کے ہر ایک شہر کے لوگ یہاں آ کر جمع ہوتے تھے اور خرید و فروخت کرتے تھے۔“

ابن اسحاق کے اس بیان سے مزید اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ قریش مکہ کا جنگ وجدال کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا، ابو سفیان نے خود پیغام بھیجا کہ قافلہ بحفاظت مدینہ پہنچ گیا ہے اس لئے واپس آجاؤ، اور عمرو بن ہشام(ابوجہل) کا بدر جانے کا مقصد صرف بدر کے بازار میں شرکت اور ناؤ و نوش کی محفلیں منعقدکرنا تھا، تاکہ قریش کی دھاک باقی عرب پر جم جائے، ناکہ جنگ کے ارادے سے بدر کا قصد کیا تھا۔

ڈھول کا پول
ابو جہل کی یہ گفتگو سن کر اخنس بن شریق بن عمرو بن وہب ثقفی نے جو بنی زہرہ کا حلیف تھا مقام حجفہ میں اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی زہرہ اللہ تعالی نے تمہارے مال اور تمہارے آدمی یعنی مخرمہ بن نوفل کو جو ابوسفیان کے ساتھ تھا نجات دے دی، اب تمہیں کیا ضروری ہے کہ تم خوامخواہ پریشان ہو، جس کام کی خاطر تم آئے تھے، وہ کام ہوگیا، میرے نزدیک یہی مناسب ہے کہ تم اس (ابوجہل) کے کہنے میں نہ آؤ اور اپنے گھر کو چل دو، چنانچہ بنو زہرہ کے تمام لوگ اور بنی عدی بن کعب کے سب لوگ مکہ کو واپس ہوگئے، بدر میں ان میں سے ایک بھی شریک نہ ہوا۔ اسی طرح طالب بن ابی طالب بھی چند لوگوں ساتھ مکہ کو واپس ہوگئے، کیونکہ قریش نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی ہاشم! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے ہو مگر تمہارا دل محمد ہی کی طرف ہے۔ باقی قبائل قریش بدر کی طرف ابوجہل کی سرکردگی میں روانہ ہوئے۔

سیرت ابن ہشام کی مذکورہ بالا عبارت کی روشنی میں خود فیصلہ کیجئے کہ مسلمانوں کی طرف سے کس قدر شدّ و مدّ سے یہ کہا جاتا ہے کہ قریش مکہ کے ایک ہزار(ایک اور قول کے مطابق 900) کے مقابلے میں مسلمان محض 313 تھے، لیکن یہ بیان نہیں کیا جاتا کہ جنگ سے قبل ہی قریش کے قافلے سے بنو زہرہ ، اوربنی عدی بن کعب کے تمام لوگ، اور طالب بن ابی طالب اپنے ساتھیوں ہمراہ جنگ سے قبل ہی مکہ واپس لوٹ گئے تھے، اب ابن ہشام نے ان واپس لوٹ جانے والوں کی تعداد تو ذکر نہیں کی،(طبقات ابن سعد میں بنو زہرہ کے افراد کی تعداد ایک سو تا تین سو ذکر کی گئی ہے، اسی طرح بنو عدی بن کعب کی تعداد بھی قیاس کی جا سکتی ہے) لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی بن کعب کے تمام لوگوں کی واپسی کے ذکر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ گنتی کے چند افراد تو نہیں ہو سکتے، جیسا کہ طالب بن ابی طالب کے ساتھ کے ساتھیوں کیلئے ”چند افراد“ کا ذکر کیا۔اس لئے دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس جنگ کو ایک ہزار (یا 900) بمقابلہ 313 قرار نہ دیا جائے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قریش مکہ کی تعداد مسلمانوں کے برابر یا ڈیڑھ گنا زیادہ ہوگی۔نیز مسلمانوں کو تو کم از کم غزوۂ بدر کو 313 بمقابلہ ایک ہزار نہیں کہنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق غزوہ بدر میں پانچ ہزار فرشتے بھی مسلمانوں کی جانب سے شریک قتال تھے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top