ماضی کی تہاذیب کو سمجھنے کے لئے ان کے زمان و مکان، جغرافیہ، معاشیات، سماجت، مذہب، روایات سے متعلق ثبوت و شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس معاملے میں مرقوم تواریخ کے ساتھ ساتھ عمارتوں پر کی گئی کندہ کاری، عبادت گاہوں میں موجود مورتیاں اور تصاویر، علاقے کی سڑکیں، پانی کی دستیابی و نکاسی، دستاویزات، ملحقہ علاقوں سے تجارتی تعلقات ، قدیم نقشوں میں ذکر، متصل و غیر متصل ممالک و تہاذیب کی تواریخ میں ذکر شامل ہے۔ لہٰذا اسلام کی تاریخی حقیقت کو جاننے کے لیئے ہمیں اس سے متعلق ان تمام امور کا جائزہ لینا ہو گا، بانیِ اسلام کی جائے پیدائش، ان کی زندگی کے زمان و مکاں سے متعلق حقیقتوں سے پردہ اٹھانا ہو گا۔ اس معاملے میں شہر مکہ کی تاریخی حیثیت پر جرح ایک امرِ لازم ہے۔
بظاہر موجودہ اسلام کی تاریخ میں کوئی سُقم نظر نہیں آتا، مگر باریک بینی سے حقائق کی چھان بین کرنے سے مسلمان مورخین کی مرتب کردہ بارہ سو سال پر محیط تاریخ جھوٹی دکھائی دیتی ہے، ثبوت و شواہد کی روشنی میں انکشاف ہوتا ہے کہ اسلام باقائدہ ایک فلم کی طرح فلمایا گیا ہے۔ یعنی اسلام کہانی کا سکرپٹ ایک منظم طریقے سے مرتب کی گئی دھوکہ دہی کا نتیجہ ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطابق اسلام کی ابتدا حجاز کے عظیم شہر مکہ سے ہوئی۔ مندرجہ ذیل آیت کے مطابق:
وَكَذٰلِكَ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّـتُـنۡذِرَ "اُمَّ الۡقُرٰى "وَمَنۡ حَوۡلَهَا وَتُنۡذِرَ يَوۡمَ الۡجَمۡعِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِؕ فَرِيۡقٌ فِى الۡجَنَّةِ وَفَرِيۡقٌ فِى السَّعِيۡرِ … ٤٢:٧ القرآن
اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ شہروں کی ماں مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں …
مصنفِ قرآن اس آیت میں ایک عظیم شہر یعنی شہروں کی ماں مکہ کا ذکر کرتا ہے۔ جس سے مکہ کے ایک انتہائی قدیم شہر ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایسا شہر جس کی بہتر معاشیات کی وجہ سے لوگوں نے اردگرد آباد کاری کر رکھی ہے۔
اس سلسلے میں تاریخ طبری میں درج "عطا بن ابی رباح سے روا یت ہے کہ جب آدم کو اللہ نے زمین پراتارا تو ان کے پاؤں زمین پر اور سر آسمانوں میں تھا اور وہ اہل آسمان کے کلام و منا جات سنا کرتے تھے ، اور اس سے وہ اپنی تنہائی میں سکوں پاتے تھے، فرشتے آدم کے قد سے خوف کھانے لگے اور اس کے علاوہ انہوں نے اپنی عبادت و مناجات کے سنے جانے اور ان میں دخل اندازی کی شکایت کی۔ چنانچہ اللہ نے ان کا قد زمین کی طرف پست کر دیا ، جب آدم کو فرشتوں کی آوازیں آنا بند ہو گئیں تو آپ کو گھبراہٹ ہوئی اور اپنی عبادت و مناجات کے بارے میں اللہ سے شکایت کی پس اللہ تعالٰی نے ان کا رخ مکے جانے والے راستے کی طرف کر دیا ،آدم جس جگہ قدم رکھتے وہاں آبادی ہو جاتی اور ان دو قدموں کے درمیان ن بیابان یا جنگل پیدا ہو جاتا ،یہاں تک کہ آپ مکہ پہنچ گیے، اللہ نے جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت کو نیچے اتارا اس کو کعبہ کی جگہ رکھا گیا پس آدم اس کا مسلسل طواف کرتے، اور جب طوفان نوح آیا تو اس یاقوت کوواپس اوپر اٹھا لیا گیا ، اور بعد میں ابراہیم کوبھیج کر کعبہ تعمیر کروایا گیا ،” طبری "
مزید بمطابقِ قرآن
"ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے قرآن ٢:١٢
مندرجہ بالا آیت کی رُو سے کعبہ ابراہیم کے زمانے سے قائم تھا، اور مکہ شہر بھی یقیناً اس کے بعد سے آباد ہونا چاہیے۔ محققین کی رائے میں ابراہیم رسول اللہ سے تقریباً 2400 سے 2600 سال قبل بلاد انہریں یعنی عراق(Mesopotamia) کے شہر اُر میں پیدا ہوئے، اس حساب سے شہر مکہ کا وجود رسول اللہ کی پیدائش سے تقریباً 2000 سال قبل لازم ہے۔ اسلامی مورخین نے بارہا لکھا ہے کہ ابراہیم کے زمانے سے مکہ زائرین حج کی منزل رہا ہے، انبیا نے یہاں حج کی سعادت حاصل کی، یہ اہم تجارتی مرکز تھا، اور مختلف عرب قبائل نے یہاں تین سو ساٹھ بتوں کو اکٹھا کر رکھا تھا۔ انتہائی طویل زمانی وہ مکانی تاریخ کے باعث یقیناً مکہ ایک اہم شہر کی حیثیت کا حامل شہر ہونا چاہیے۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس مشہور معروف، اہم تجارتی و مذہبی مرکز کا ذکر کسی قدیم نقشے، کندہ کاری، دستاویز، اور تاریخی ریکارڈ میں موجود نہیں۔
آثار قدیمہ سے معمولی شغف رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ خطہِ عرب آثار قدیمہ سے حاصل کیے گئے شواہدات سے لیس ہے، حتی کہ محمد کی پیدائش سے 1400 سال قبل ہی تاریخ رقم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، مرقوم تاریخ کی موجودگی کے ساتھ ساتھ کندہ کاریوں اوردوسرے شواہدات(عمارات، کرنسی، نقشے) کے ذریعے بادشاہوں اور شہروں سے متعلق مکمل تفصیلات باآسانی دستیاب ہیں۔ سلاطین کے درمیان لڑی گئی جنگوں کے زمان و مکان سے سلاطین کی خدمت میں پیش کیے گئے تحائف تک کی تفصیلی تاریخ دستیاب ہے۔ مشہور ماہر آثار قدیمہ مانٹگمری(Montomery) کے مطابق "عرب کندہ کاریاں، اشوری کندہ کاریوں کے مقابلہ میں زیادہ تفصیلات مہیا کرتی ہیں”۔
حجاز محمد کی پیدائش سے سینکڑوں سال قبل یونان اور فارس کی عظیم سلطنتوں کے سرحدی ٹکراؤ کا علاقہ ہونے کے باعث انتہائی اہم تھا۔ دونوں سلطنتوں نے مقامی عرب قبائل کو مختلف طریقے سے جنگی صفِ اول میں استعمال کیا، بعد ازاں یہی علاقہ بابلی اور مصری علاقوں کے درمیان قوت کی رسہ کشی کا مرکز رہا۔ یونانیوں کے نقشوں اور تواریخ میں یمن سے شام جانے والے قدیم تجارتی راستوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ان میں نجران، طائف، یثرب، تبوک اور کئی اور شہروں کے مقامات اورآپسی فاصلوں ہے لیکن موجودہ شہر مکہ کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔
یونانی مورخ تھیفراسس(Theophrastos) نے چوتھی صدی قبلِ مسیح میں حجاز کے متعلق انتہائی تفصیل سے لکھا، سبائی(Sabians) کے متعلق لکھتے ہوئے اس نے ان کے بحری و بری تجارتی راستوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں، لیکن اس نے کہیں بھی مکہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اراتوستن(Eratosthenes) عرصہ حیات 195 تا 275 قبل مسیح، جو کہ ایک مشہور جغرافیہ دان تھا اپنی دستاویزات اور کندہ کاریوں کے ذریعے خطہِ عرب سے متعلق انتہائی تفصیلی معلومات فراہم کرتا ہے، مگر اس کی تحاریر میں بھی مکہ کا کوئی ذکر نہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح کے کئی مصنفین نے بحیرہِ احمر سے متعلق تفصیلاً لکھا ہے، ان میں فیثاغورس، بطلمیوس دوم، دالیو، باسیلسک، سولو کے جیو، ارسٹوکریون، سیمونیدس اور فیلون نمایاں ہیں۔ ان تمام مصنفین کی کتب اسکندریہ کے عظیم کتب خانے میں دستیاب تھیں۔ سٹربو کی جغرافیہ پر کتاب دوم 1:5 کے مطابق”ارسٹوکریون بتاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اس علاقے میں مہم جوؤں، محققین اور تجزیہ نگاروں کو تفصیلات اکٹھی کرنے کے لئے بھیجا”۔ سٹربو کے مطابق ارسٹوکریون نے ان محققین کی تحاریر کوایک مجموعے کی شکل میں جمع کیا تھا۔
278 قبل مسیح میں بطلمیوس دوم کی مہمات سے ملنے والی معلومات بحیرہ احمر اور افریقی ساحل کے جنوبی اور مشرقی علاقوں سے متعلق تفصیلات کا سمندر مہیا کرتی ہیں۔ یہ علاقہ ہندوستان سے یمن کے ذریعے آنے والے مصالحہ جات کے تجارتی راستے پر گرفت کے لئے انتہائی اہم تھا۔ اس علاقے میں ہمیں ہاتھیوں کے استعمال کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یاد رہے کے بطلمیوس اول و دوم نے ہاتھیوں کو سلوکیدوں(Seleucids) کے خلاف فتح شام کے دوران استعمال کیا تھا۔ تجارتی اہمیت اور فتح شام کی وجہ سے بحیرہ احمر، افریقی و عرب ساحل کا جغرافیہ انتہائی منظم طریقے سے محفوظ کرنے کا سہرا اراتوستن(Eratosthenes ) کے سر جاتا ہے۔ اراتوستن نے شمال بحیرہ قلزم پر اسرائیلی بندرگاہ سے جنوب میں عقبہ کے متصل علاقے کی پیمائش کی، اس نے بحری و بری تجارتی راستوں کا مکمل سروے کیا، شمال میں واقع ایلات کے علاقے سے شروع کر کے تمام باشندوں کے مذاہب اور مذہبی مراکز سے متعلق تفصیلی جان کاری فراہم کی۔ اس نے حجاز یعنی موجودہ شہر مکہ کے علاقے سے متعلق عبادتگاہوں اور مقدس مراکز و مقامات کو تفصیل سے بیان کیا، مگر اس کی تحریر میں کہیں بھی مکہ کا ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اراتوستن کی تحریر(مکہ اور متصل) اس علاقے میں کسی بھی خاطر خواہ آبادی کا انکار کرتی ہے۔
اسکندریہ کا أغاثارشيدس(AGATHARCHIDES) اس وقت کا اہم ترین جغرافیہ دان ہے اس نے 132 تا 145 قبل مسیح میں قدیم مصر اور متصل علاقوں کے سیاسی حالات کو تفصیل سے بیان کیا، بطلمیوسی شاہی خاندان سے قرابت کی وجہ سے اس کو گزرے ہوئے محققین اور جغرافیہ دانوں کی تحاریر تک مکمل رسائی اور عبور حاصل تھا۔ آغاثارشیدس نے اپنے سے پہلے آنے والے مہم جوؤں کے کام پر از سرِ نو تحقیق کی، وہ تاجروں، سفیروں، مہم جوؤں، محققین اور ان لوگوں سے ملتا جو اس علاقے کے مشرق اور مغرب کے ساحل میں مقیم رہ چکے تھے، اور ان کے علم سے مستفید ہوتا۔ بدقسمتی سے آغاثارشیدس کا نصف سے زائد کام نویں صدی عیسوی میں ضائع ہو گیا۔ مگر خوش قسمتی سے اس کی کتب اور باقی کام اس کے بعد آنے والے تین مصنفین یعنی ڈیوڈورس ساکس، اسٹربو اور فتوس نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیا جو آج بھی دستیاب ہے۔ آغاثارشیدس کی تحاریر کا سب سے زیادہ حصہ فتوس نے اپنی کتاب بائبلوتا(Bibliotheca) میں محفوظ کیا۔ آغاثارشیدس کے سروے کو دنیا بھر کے سکالر انتہائی اہمیت کا حامل تصور کرتے ہیں۔ اس کا بیان کردہ سمندری پانی کا رنگ، بیان کردہ مختلف علاقوں کے درمیان فاصلے، عرب کے ساحل سے نکلنے والے مختلف راستوں سے متعلق آغاثارشیدس کی فراہم کردہ جان کاری اور پیمائشیں اس بات کی گواہ ہیں کہ اس کا سروے انتہائی تفصیلی اور درست تھا۔ آغاثارشیدس کا سروے بطلمیوسحکومت کے لئے تجارتی راستوں اور ان سے متصل علاقوں کے باشندوں پر قابو رکھنے کی وجہ سے انتہائی اہم تھا۔ بحری قزاقوں کی ایک بڑی تعداد عربوں پر مشتمل تھی، اس خطرے سے نمٹنے کے لئے عقبہ سے یمن کے قبائل اور باشندوں سے متعلق معلومات انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ آغاثارشیدس نے ان کی آبادیوں، بستیوں، دیوتاؤں، مذہب، طور طریقے، رہن سہن، عبادت گاہوں، زبان حتی کہ پہاڑوں اور وادیوں تک کا تفصیلی ذکر اپنی تحاریر میں کیا ہے۔ اس نے ہر علاقے کے دیوتاؤں بلکہ ان دیوتاؤں کی اصل(Origin) تک تفصیل سے بیان کی ہے، موجودہ مکہ اور متصل علاقے پر لکھتے ہوئے اس نے اس علاقے کو آباد کاری سے خالی قرار دیا ہے، یہاں اس نے کسی بھی عبادت گاہ کا ذکر نہیں کیا۔ جبکہ آغاثارشیدس ہمیشہ آبادیوں میں موجود عبادت گاہوں اور ان کی اہمیت کو انتہائی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ مثال کے طور پرصحرائے نیگو میں ایک مندر کو بیان کرتے ہوئے پتھر پر کی ہوئی کندہ کاری کو اپنی تحریر میں یوں بیان کرتا ہے:
"وہاں پر سخت پتھر کی بنی ہوئی ایک قدیم الطار ہے جس پر ایک ناقابل فہم قدیم عربی رسم الخط کی ایک عبارت کندہ ہے، اس مندر کے نگران ایک مرد اور عورت ہیں، جن کی زندگیاں اس مندر کے لئے وقف ہیں”
آغاثارشیدس کنیدوسی، کتاب پنجم، متعلق بحر الأرتيري، الاقتباس الفتوس،بائبلوتا
یونانی ان مندروں اور ان کے کارفرماؤں سے متعلق علم رکھنا انتہائی اہم سمجھتے تھے، جس کا اندازہ ان کی تواریخ پڑھنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
آیے اب مسلمانوں کے جھوٹے کلیم کی طرف چلتے ہیں ؟؟؟؟؟؟
آغاثارشیدس ایک اور بہت اہم عبادت گاہ کا ذکر کرتا ہے، اس عبادت گاہ کی تصدیق فتوش اور ڈیوڈورس دونو ں نے اپنی کتب میں بھی بیان کرتے ہیں
"خلیج لاوی کے گرد ہمیں بہت سے نام نہاد نباتی(Nabtean) عربوں کے گاؤں ملتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ساحلی پٹی میں آباد ہیں، مگر متصل اندرونی غیر ساحلی علاقے زیادہ تر دوسرے شاندار لوگوں، اور جانوروں کے بے شمار گلے کا مسکن ہیں۔ قدیمیت میں یہ لوگ اپنے جانوروں کی پیداوار پر مبنی ایک نیک زندگی گزارتے تھے، مگر بعد ازاں، جب سلاطینِ اسکندریہ نے خلیجِ لاوی کو تجارتی و بحری سفر کے لئے موزوں قرار دیا، تو یہ تباہ ہونی والی کشتیوں کے مسافروں پر حملے کرنے لگے۔ انہوں نے قزاق کشتیاں بنائی اور ملاحوں کو لوٹنے میں توریوں(Tauri) اور پونسیوں(Pontus) کی مانند ہو گئے۔ مگر بعد ازاں ان کو سمندر پر کادریریم(quadriremes) کی مدد سے گرفتار کر کے سخت سزائیں دی گئیں۔ خلیج لاوی کے بعد، بتھمان(Bythemaneas) کا علاقہ آتا ہے۔ اس ساحلی علاقے کے بعد ایک خلیج زمین کے اندرون کی جانب 500 سٹیڈ(Stades ایک سٹیڈ ایک میل کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے) تک جاتی ہے۔ اس علاقے کے شکاری باسیوں کو بتمزومنی(Batmizomaneis) کہا جاتا ہے۔ ان کے علاقے میں ایک انتہائی اہم مقدس مندر قائم ہے، جو تمام عربوں کے لئے انتہائی محترم ہے۔ "
آغاثارشیدس کنیدوسی، کتاب پنجم، متعلق بحر الأرتيري، الاقتباس ڈیوڈورس – کتب خانہِ تاریخ، بحوالہ برسٹن، صفحہ 153 – ٹکڑا 92b
مندرجہ بالا متن پر غور کرنے سے ہمیں بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ ڈیوڈورس جن لوگوں کی بات کر رہا ہے ان کو بتمزومنی کہا جاتا ہے، یہ لوگ خلیج عقبہ کے شمال میں ساحل سمندر سے تقریباً 63 میل اندر رہتے تھے، یہ مقام مکہ سے ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے۔ یہ علاقہ ایک انتہائی اہم گزر گاہ تھا، جس کے بارے میں بہت سے قدیم محققین، جغرافیہ دانوں اور تاجروں نے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ رومیوں کی فتحِ مصر کے بعد بحیرہ احمر کے دونوں کنارے انتہائی اہمیت کے حامل ہو گئے(کیونکہ رومی مصر سے اناج کی تجارت کرتے تھے)۔ لیکن کبھی کسی بھی تحریر یا کندہ کاری میں موجودہ مکہ کے مقام پر کسی عبادت گاہ کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ جبکہ حجاز کے علاقے میں رومی فوجی ایک بڑی تعداد میں موجود رہیں، یہ علاقہ بڑے پیمانے پر رومی نکل و حرکت کا مرکز رہا ، مگر اس کے باوجود رومیوں کی مرتب شدہ تاریخ میں مکہ یا اس میں موجود کعبہ جیسے اہم مقدس مذہبی مقام کا کہیں بھی کوئی ذکر موجود نہیں۔ پلینی، پرپلس، اسٹربو حتی کہ کسی بھی اور رومی یا غیر رومی مصنف و محقق نے کعبے اور مکے کا ذکر تک نہیں کیا۔
رومی و یونانی تواریخ و تحقیقات کے علاوہ مکہ ارامی، شامی، اتھوپین، کپتیک(Coptic) سبھی کی تاریخ سے غائب ہے۔ تحریر کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سے مزید مصنفین، جغرافیہ دانوں، مہم جوؤں اور تاجروں کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا۔
بطليموس (Ptolemy )کا مکورابا یا مکہ ؟
مسلمان عُزر جو آج بطلمیوس کے نقشے میں موجود مکروبا کو مکہ ثابت کرنے کی ناکام سعی کرتے ہیں۔ یہ موقف کم علمی پر مبنی ہے۔ قدیم مکروبا شہرآج کے یمن میں واقع ہے، جسے آپ مغربة الهريش یا المحابشہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر اسی مکروبا کو مکہ مان لیا جائے تو یہ شہر بطلمیوس کے وقت میں ایک نومولود شہر تھا، یعنی یہ ابراہیم کے دور سے کسی صورت بھی منسوب نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے کو ڈاکٹر رفعت عماری اپنی کتاب میں تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہروں کے نام تبدیل ہو جاتے ہیں، بہت سے قدیم شہر آفات کی وجہ سے تباہ و برباد ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن دریاؤں کی گزرگاہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں سال بعد بدلتی ہیں، چند ہزار سال کے وقت میں ایک دریا انتہائی تبدیلی کے باعث اپنے راستے میں چند سو میٹر کی تبدیلی تو کر سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک علاقے سے دریا ہزاروں میل کوچ کر کے غائب ہی ہو جائے۔ فرض کریں اگر دریا ایسا کوئی ہوش رُبا معجزہ کر بھی لے تو جیالوجی اور سٹلائیٹ ٹکنالوجی سے بآسانی دریا کی گزشتہ گزرگاہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بطلمیوس کے نقشے پربیان کردہ بہت سے شہر اور مقامات آج بھی اپنے قدیم ناموں ہی سے جانے جاتے ہیں، اس نے یمن ادنین اور کنعان کے علاوہ یمنی بندرگاہوں تک کی نشاندہی کی ہے، یہ نقشہ ہمیں چار دریاؤں اور ساحلی شہروں کے نام بھی بتاتا ہے، جن کی شناخت آج بآسانی ہو جاتی ہے۔ اگر بطمیوس کے نقشے میں موجود مکروبا کو آج کا مکہ مان لیا جائے تو اس نقشے پر موجود باقی کے تمام مقامات یعنی مدائن صالح، تیماء وغیرہ جن کی نقشے میں نشان دہی پر ذرا برابر بھی شک نہیں، یمن کے یہ تمام ساحلی شہر سمندر میں پہنچ جاتے ہیں۔ اور شمال میں موجود تمام شہر شمال کی طرف بہت ہی دور نکل جاتے ہیں۔
مگر جب ہم بطلمیوس کے نقشے میں موجود مقامات اور دریاؤں کو ان کی حقیقی جگہ پر رکھتے ہیں، تو تمام قدیم مقامات اپنی جگہوں پرٹھیک بیٹھتے ہیں، بطلمیوس کے نقشے پر بیان کردہ سینسوروز گاؤں آج جیزان ہیں، تبی اللحیہ ہے، سعودت جدید صنعاء ہے، سپفر ظفر کہلاتا ہے، شمال میں موچورا ینبعد ہے، بحر ہند کے ساحل پر پطروس آج کا صلالتہ ہے، موبہو آج قدیم سمرام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ مکروبا آج المحاشبہ کے طور پر موجود ہے۔ بطلمیوس کے نقشے میں مکروبا دریا سے چند میل کے فاصلے پر واقع تھا، جبکہ مکہ کے آس پاس دور دور تک کوئی دریا نہیں، نہ ہی کسی قدیم دریا کے گزرنے کے نشانات ہیں۔ اس لئے مسلمان عُزر جو(apologist) کا وہ موقف کے مکروبا ہی مکہ ہے مکمل طور پر غلط ہے۔ اور ہم باوسوق طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مکہ قدیم حجاز میں موجود ہی نہیں تھا۔
(جاری ہے)
تحریر و تدوین: حاجی مست علی، غالب کمال
پیشکش: پاکستانی و ساؤتھ ایشئین فریتھنکرز