Close

اسلام کی تاریخی حقیقت – قسط نمبر 1 مذہب اسلام کی کہانی،آثارِ قدیمه کی زبانی

قارئینِ کرام! اسلام کی تاریخ سے متعلق یہ سلسلہ انتہائی دلچسپ، حیرت انگیز اور چشم کشاء شواہد پر مبنی ہے، "اسلام کی تاریخی حقیقت” کے اس سلسلہ میں ہم جدید سائنسی طریقت و ٹیکنالوجی کے ذریعے اسلامی قرونِ اولیٰ میں جھانکنے کی کوشش کریں گے۔
اس سلسلہ میں اسلامی تواریخ کے معاملے میں دنیا کے صف اول کے تدریسی اداروں اور جامعات کے اساتذہ سمیت، ماہرین لسانیات، ماہرین آثار قدیمہ، تاریخ دانوں اوردانشواروں کی کاوشوں کو یکجا کر کے اس ابتدائی دور کی تصویر پیش کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ قدیم جغرافیہ دانوں اور فلسفیوں کے علم سے بھی استفادہ حاصل کیا جائے گا، جن میں بطلموس دوئم، ڈیوڈورس، اسٹربو، کلوڈئیس، پلینی اکبر، یاقوت احموی الرومی، ابن ہشام، طبری، بخاری، ابن ماجہ، امام مالک، واقدی، ابو الولید الزرقی، ڈاکٹر رابرٹ ہوئیلینڈ، ڈاکٹر یہودا ڈی نووا، آرکیالوجسٹ ڈین گبسن، گونٹر لولینگ، پروفیسر جیرارڈ آر پیون، وان بومر، پروفیسر کارل ہینز اولیگ ، پروفیسر جان وانزبرو ،جیرالڈ ہانٹنگ ، ڈاکٹر پٹریشیا کرون ، ڈاکٹر انڈریو ریپن ، مورخ ٹام ہالینڈ ، کارل ہینز ،پروفیسر فریڈ ڈونر اور البا فڈائلی شامل ہیں ، اسکے علاوہ دوران سلسلہ جہاں کسی اور تحقیق سے مدد لی جائے گی اس کا ریفرنس مہیا کر دیا جائے گا۔
سن آٹھارہ سو اکیاون میں فرانسیسی معلم ارنسٹ رینان اپنی کتاب "ولادتِ اسلام وسط التاریخ” میں لکھتے ہوۓ کہتے ہیں کہ، "دیگر مذاھب کے بانیان کی نسبت محمد کی پیدائش تاریخ کی روشنی میں ہوئی۔ یہی بات مسلمان علماء اور اسلامی عُذرجو(Apologist) بھی کہتے ہیں۔ جدید تحقیق نے اس موقف کے تابوت میں کیل ٹھونک دیے گیے ہیں، مگر اس میں ارنسٹ ریان کو قصور وار ٹھہرایا نہیں جا سکتا، کیونکہ ہمیں ابن ہشام کی سیرة النبی یا تاریخ طبری اور محمد حسين ہيكل‎‎ کی "حياة محمد” کو پڑھنے پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے آپ نبی کے ساتھ ان کے زمانے میں موجود ہیں۔ رسول اللہ کے پہننے، سونے، کھانے ٓان کی اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستری، حتیٰ کہ ان کی منی یعنی نطفے سے متعلق معلومات تک دستیاب ہیں۔ کون سی آیات کب اتریں، کیوں اتریں، کہاں اتریں ان سب کے بارے میں مکمل تفصیل کے ساتھ معلومات موجود دکھائی دیتی ہے۔ مسلمان مورخین یہی تاثر دیتے ہیں کہ سن چھ سو بائیس میں ہجرت کے ساتھ ہی عرب جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے، بلکہ فتح مکہ پر تو قبیلوں کے قبیلے دخولِ اسلام کا شرف حاصل کرنے لگے تھے۔ یہ نو مسلمین محمد کی محبت اور جذبہ ایمانی سے سرشار الله کے دین اور اس کی مکمل کتاب قرآن دنیا میں پھیلانے کے لئے چل نکلے، اور دیکھتے ہی دیکھتے عرب مسلمانوں نے ہندوستان کی دیواروں سے یورپ کے دروازوں تک الله اس کے رسول، قرآن اور اسلام کو پہنچا دیا۔
لیکن کیا ایسا ہی ہوا ؟
بظاہر ہمیں پچھلے بارہ سو سال کی اسلامی تاریخ سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے۔ یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بارہ سو سال کیوں؟ تاریخ اسلام تو چودہ سو سال پر محیط ہے، پھر بارہ سو سال کیسے؟ وہ اس لیے کہ آج ہم رسول اللہ، قران اور اسلام کو جس وجہ یا ذریعے سے جانتے ہیں وہ ذریعہ ابن ہشام کی لکھی ہوئی کتاب سیرۃ الرسول اللہ ہے، جو رسول الله کی موت کے دو سو آٹھ سال بعد لکھی گئی۔ اس کتاب سے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن اسحاق کی کتاب میں کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد دوبارہ سے تحریر کی گئی، اور ابن اسحاق کی کتاب کا سنِ تحریر رسول کی موت کے ایک سو تیس سال بعد کا سمجھا جاتا ہے، لیکن ابن ہشام نے ابن اسحاق کی موت کے ساٹھ سال بعد اس کی کتاب میں حسب منشاء کانٹ چھانٹ کیوں کی؟ اگر کانٹ چھانٹ کی تو اس کانٹ چھانٹ کی تصدیق کن ذرائع سے کی گئی؟ اور اگر واقعتاً ابن اسحاق کے کام کی کانٹ چھانٹ کی گئ تھی تو پھر اسحاق کا حقیقی متن کہاں گیا؟ آخر اتنا قیمتی لٹریچر کیوں اور کیسے غائب ہو گیا؟ آج ہما رے پاس ابن اسحاق کا حقیقی کام تقریباً نا ہونے کے برابر ہے
دوستو اسلام کی تاریخ میں ہر وہ تاریخی طور پر تمام اہم تبرکات(relics) یعنی تحاریر، کندہ کاری وغیرہ جو کسی بھی طرح سے سائنسی طریقت کے ذریعے محمد کے زمانے کے ساتھ جوڑی جا سکتی ہے مکمل طور پرغائب ہے، ان چیزوں کے غائب ہونے کے پیچھے ایک باقاعدہ منظم منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے، قرآن کو اکٹھا کرنے کی عجیب و غریب کہانی پھر عثمان کا اپنے تدوین شدہ قران کے علاوہ تمام قرآنی نسخوں کے جلانے کا حکم، حالانکہ وہ تمام متن رسول اللہ اور خلفائے اولین کے دور کے تھے، دوبارہ عثمان کے قرآن کے سوا دیگر قرآنی نسائخ کا حجاج بن یوسف کے حکم پر ایک بار پھر جلوایا جانا، جبکہ پہلے ہی عثمان یہ کام کر چکے تھے، (تفصیلات آئندہ حصص میں پیش کی جائیں گی).محمد سے منسوب کچھ خطوط پر ایک مہر بھی موجود ہے اس کی نقل بھی کئی جگہ دستیاب ہے، بیان کیا جاتا ہے اصل مہر جو کہ ایک انگوٹھی کی شکل میں تھی، عثمان ہی کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر کر کھو گئی۔
آج انٹرنٹ پر آپ کو رسول الله کے ہاتھ کے لکھے خط بھی مل جائیں گے بلکہ پورے ہاتھ کا نقش بھی دستیاب ہے، لیکن ان میں سے ایک بھی اصل نہیں ہے ، سب کے سب کاپی یعنی نقل تسلیم کیے جاتے ہیں، ایک ہی خط چھ چھ مختلف جگہ پر دستیاب ہے، اور اصل کا کہیں نام و نشان نہیں ہے، ان کے اندر استعمال شدہ خطاطی حتیٰ کہ رسول اور مخاطبین کے زمانوں میں فرق ہے، ان میں سے آج تک ایک بھی خط کی کاربن ڈیٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی گئ، ان خطوط کو اور ان کے پیچھے کی کہانی بھی دو سو آٹھ سال بعد ابن ہشام ہی سے سننے کو ملیا۔ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ یہ خطوط جو کہ سینکڑوں میل دور کافروں کو لکھے گئے، زیادہ تر مسلمانوں کے پاس سے ہی برآمد ہوئے ہیں۔
اسلامی تاریخ پچھلے بارہ سو سال سے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں رقم ہوئی اور سختی سے انہی کے ہاتھوں میں رہی۔ اس عرصہ کے دوران مسلسل موجودہ قرآن کو عثمان کا مرتبی و مقطعی(final compilation) قرآن قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن ہم پہلے ہی "قرآن سے متعلق ارکیالوجیکل حقائق” میں ثابت کر چکے ہیں کہ موجودہ قرآن جس کا آغاز نبوتِ رسول کے ساتھ چھ سو دس عیسوی میں ہوتا ہے، آثارِ قدیمہ کی تحقیقات میں اگلے نوے سال تک کہیں بھی نہیں ملتا، اور نوے سال بعد ظاہر ہونے والا قرآن آہستہ آہستہ ارتقائی منازل طے کرتا اور بڑھتا ہوا مزید دو سو سال بعد ایک جامد شکل میں پہنچتا ہے۔
سائنس نے انسان کو مسقتبل میں جھانکنے کی طاقت دی ہے وہیں ماضی سے متعلق حقائق جاننے میں بھی انسان کو کمال حاصل ہوا ہے۔ انٹرنیٹ اور مواصلاتی انقلاب نے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ دنیا کی ہر خبر اور کتاب دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی آنکھوں کے سامنے موجود ہوتی ہے، انیسویں صدی میں مغرب کے کئی سیکولر اور مذہبی ماہرینِ آثارِ قدیمہ، ماہرین بشریات(Anthropologists)، ماہرینِ لسانیات اور مورخین نے یہودیت و مسیحت کی ارتقائی تولید پرموثر تحقیق کر رکھی ہے۔ علم کی ترسیل و اشاعت کی غرض سے ان دونوں مذاہب کے قرونِ اولیٰ سے متعلق ہر قسم کے ادب، تحاریر، دستاویزات اور کتب کا ترجمہ کیا گیا ہے، دنیا کے قدیم ترین کُتب خانے کھنگال دئیے گئے ہیں۔ مذہب اسلام پر بھی ایسی ہی تحقیق کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ تحقیق کسی مسلمان ملک کے بجائے برلن جرمنی میں جاری ہے۔ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاسی گرما گرمی میں مذہب اسلام بھی اس چھان بین کی زد میں آ گیا، ستر کی دہائی میں جامعہ لندن کے پرو ڈائریکٹر پروفیسر جان وانزبرو نے دو کُتب میں اپنی تحقیق کو سپردِ قلم کیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے مغرب کے تدریسی حلقوں میں ان دو کتابوں نے کبھی نہ بند ہونے والا پنڈورا باکس کھول دیا ،ان دو کتابوں کے نام "مطالعہِ قران(Quranic Studies) اور فرقہ بندی کا ماحول(Sectarian Milieu)” ہیں
پروفیسر جان وانزبرو نے قرآن کی عبارت اور حدیثوں کے موازنے کے ذریعے ایسی تکنیکی باتوں کو نوٹ کیا جن کو بعد کے آنے والے لوگوں نے کسی نہ کسی طرح توڑ مروڑ کر اپنے مذہبی یا سیاسی عزائم کے لئے استمعال کیا. ان کی کھوج کے ذریعے سامنے آنے والا اہم ترین نکتہ حدیثوں اور قرآن کی عبارت کی تشریح میں تضاد کی نشاندہی ہے۔ احادیث کے مطابق قرآن چھ سو ساٹھ میں کا مکمل و فیصلہ کُن کتابی صورت میں موجود ہونا لازم ہے لیکن حدیثوں میں بیان کردہ اس قرآنی مقطع(Finalized Version of Quran) کے برعکس اس دور کے دریافت شدہ قرانی نسائخ کی عبارت زیر ارتقاء دکھائی دیتیا ہے۔ ڈاکٹر وانزبرو نے اس معاملے میں اس نکتہ کی نشاندہی بھی کی کہ، ساتویں صدی کی مقامی عربی زبان کے بولے اور سمجھے جانے اور آٹھویں صدی کے بولے اور سمجھے جانے میں نمایاں فرق موجود ہے۔ جس کی بنا پر قرآنی کے موجودہ متن کو ساتویں صدی سے منسوب نہیں کیا جا سکتا، جس کی بنا پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قران واسلام آٹھویں سے نویں صدی عیسوی کے اواخر تک زیر تعمیر رہے۔
انیس سو چھہتر میں پروفیسر جان اپنی کتاب سیکٹیرین میلیو "فرقہ بندی کا ماحول ” میں اسلام کی صدیِ اول پر روشنی ڈالتے ہیں، وہ محمد کے موت کے اڑہائی سو سال بعد لکھی گئی کہانیوں میں چھپے جھوٹ و سچ پر جرح کرنے کے لئے سن چھ سو سے نو سو عیسوی کے دستیاب لٹریچر یا مواد کا ترجمہ کیا، یہ مواد ابتدائی عرب فاتحین کے ساتھ میل جول رکھنے والے یہودیوں اور عیسائیوں کا تحریر کردہ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق موجودہ اسلام کا آغاز آٹھویں صدی میں ہوا اور اگلے دو سو سال تک یہ مذہب بتدریج ارتقاء کے عالم میں رہا۔ دنیا کے ایک عظیم مذھب کے بارے میں یہ ایک بہت بڑا دعوی تھا، صدیوں سے حقیقت کے مرتبے پر فائز مذہب کی بنیادوں کو ہلا دینے والی یہ تحقیق فوراً اعتراضات کا شکار ہو گئی، خاص طور پر مسلم تدریسی حلقوں میں اس پر کڑی تنقید کی گئی، پروفیسر وانزبرو کو بے وقوف اور جاہل جیسے القابات سے نوازا گیا اور حسب معمول مذہبی تعصب کا الزام بھی دھر دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس وقت ثبوتوں کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے مغربی اسکالرز میں بھی پروفیسر صاحب کی تحقیقق پر کچھ تحفظات موجود رہے۔ گو کہ پروفیسر جان وانزبرو کی تحقیق متنازعہ رہی لیکن کچھ نئے چونکا دینے والے حقائق کے سامنے آئے اور پھر چھان بین و تحقیق کے اس طریقے نے آنے والے محققین کے لئے نئے راستے کھولے۔ مزید شو مئی قسمت انٹرنیٹ کی ایجاد نے دنیا میں ادھر ادھر بکھرا ہوا مواد اور لٹریچر بھی ایک ہی جگہ پر اکٹھا کر دیا عرب کے علاقوں میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے انتھک کام نے بھی رنگ دکھایا اور یکے بعد دیگرے مختلف محققین نے ایسی بہت سی حیرت انگیز چیزیں سامنے لائیں ہیں جن کی وجہ سے پچھلے بارہ سو سال سے موجود اسلام مذہب کی بنیادیں مکمل طور پر ہل گئیں ہیں۔
آج کل کے جدید زمانے کے شعوری و تدریسی حلقوں میں جب کسی گزرے زمانے، کسی تاریخی ہستی یا واقعے سے متعلق سائنسی طریقت پر مبنی چھان بین کی جاتی ہے تواس تحقیق کی بنیاد ٹھوس ثبوتوں کی تلاش پر ہوتی ہے، ان ٹھوس ثبوتوں میں، آثار قدیمہ سے ملنے والے شواہد، قدیم لسانی ادب، کندہ کاری(Inscriptions)، دستویزاتی ثبوت ، سکے(Coins)، متبادل تاریخی ذرائع(Alternate Historical Sources) و ذریعہ جاتِ اخبار(Sources of News and Information)، گواہان کے فوراً ریکارڈ کئے گئے بیانات جغرافیائی تعیبن(Geographical Setting)، حالات و واقعات کی زمانی ترتیب یعنی ٹائم لائن ، اور تاریخ لکھنے والے کی نظریاتی نسبت و تعصب وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے اہم اور لازم جزو سائنسی ریڈیومیٹرک ڈیٹنگ ہے۔ جب ایسا سائنسی طریقہِ تحقیق اسلام پر آزمایا جاتا ہے تو اسلام کے اڑھائی سو سال بعد کئے جانے والے دعوے مکمل طور پر جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں، اور حیرت انگیز اور آنکھیں کھول دینے والے حقائق سامنے آتے ہیں:
١:- اسلام نامی مذہب کا نام یا اس سے منسوب عبادات محمد کے مرنے کے تقریباً پچپن سے ساٹھ سال بعد تک گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے۔
٢:- مسلمان نامی قوم کا ذکر سن چھ سو اکانوے سے قبل بلکل بھی نہیں ملتا۔
٣:-اسلام کی اپنی تاریخ سے سن پانچ سو ستر عیسوی میں پیدا ہونے والے اسلام کے بانی محمّد کا نام اگلے ایک سو سولہ سال یعنی اس کے مرنے کے چون سال بعد تک ایسے غائب جیسے محمد کبھی موجود ہی نہیں رہا۔
٤:- دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی موجودہ شہر "مکہ” کا ذکر محمد کی موت کے تقریباً ایک سو نو سال بعد تک نہیں ملتا۔
٥:- اسلام کے پہلے سو سال میں بننے والی تمام مساجد کے قبلے کا رخ غیر مکہ یعنی موجودہ مکہ کی جانب نہیں ہے۔
(یہاں یاد رہے، مبینہ طور پر نبی کی موت کے ساتھ ہی ان کے قریبی ساتھی، رشتے دار اور جانثار طاقت میں آ گئے تھے اور اس وقت سے موجودہ دور تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیرِ حکومت ہی رہا ہے)
موجودہ مسلمانوں کا دعوی ہے کہ "چودہ سو سال قبل عرب بدو محمد کا مذھب، حجاز میں موجود مکہ سےنکل کر دنیا میں پھیلانے لگے” سراسر جھوٹ ہے، تا وقتِ تحریر دریافت شدہ ثبوتوں کی روشنی میں ہم وسوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ سن چھ سو بتیس عیسوی میں حجاز سے نکلنے والے عرب بدوؤں نے اسلام یا محمد کے نام پر دنیا فتح کرنی شروع نہیں کی بلکہ، اپنے مفتوحہ علاقوں پر گرفت مضبوط کرنے کی خاطر اسلام نامی مذہب کو بوجہِ ضرورت ایجاد کیا، اس مذہب میں جمع، خرچ، کٹوتی و بڑھوتی نویں صدی عیسوی کے اواخر تک جاری رہی، یعنی ایک مربوط اور منظم طریقت کے تحط اس مذہب کی ریاستی پرورش کی گئی۔ قرآن بھی ذیر ارتقاء رہا، آخرِکارمختلف اسلامی حکومتی ادوار گزرنے کے بعد اسلام ایک مقطعی، منجمد و مربوط مذہب کے طور پر سامنے آیا۔
نوٹ :-مسلمان دوستوں سے اپیل ہے کہ وہ یہ ریسرچ غیر جانبداری سے ملاحضہ فرما یں اور ثبوتوں پر توجہ مرکوز رکھیں ، مجھے امید ہے کہ آپ سب دوست اس سلسلے میں ہونے والی گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے
(جاری ہے )
تحریر و تدوین : حاجی مست علی، غالب کمال
پیشکش: پاکستانی و ساؤتھ ایشین فریتھنکرز

جواب دیں

0 Comments
scroll to top