Close

معرکہ بلاط الشہداء

10 اکتوبر 732 کے روز مسلمان فوجیں فرانس کے شہر بورڈو کو فتح کرنے کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں ، مال غنیمت چھکڑوں میں بھرا ہوا تھا۔ اس فتح مند لشکر کا توغ کے مقام پر فرانسیسی جرنیل چارلس مارٹل سے سامنا ہوتا ہے۔ مسلمان لشکر کی کمان عبدالرحمٰن غافقی کے پاس تھی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا، اورمسلمان یہ جنگ جیتے ہی والے تھے کہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمان جو مال غنیمت بورڈو سے لوٹ کر لائے ہیں، اُسے کفار کے لشکر نے پیچھے سے لوٹنا شروع کر دیا ہے۔
مسلمان اپنا مال غنیمت بچانے کے لیے واپس بھاگے جس سے مسلمان لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس بھگدڑ کے نتیجے میں مسلمانوں کو نہ صرف بہت بری شکست ہوئی بلکہ اُن کا سپہ سالار عبدا لرحمٰن غافقی بھی مارا گیا۔ اس شکست کے بعد مسلمانوں کو یورپ کی طرف منہ کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔
اس جنگ کو مسلمان معرکہ بلاط الشہداء کے نام سے یاد کرتے ہیں ، جب کہ انگریزی میں اسے Battle of Tours کہا جاتا ہے۔
کہنے کو یہ صرف ایک جنگ تھی جسے مسلمان اپنے لالچ کی وجہ سے ہارے، لیکن اس جنگ کی اہمیت کو تاریخ دان ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب میں یوں واضح کیا ہے۔
The Rhine is not more impassable than the Nile or Euphrates, and the Arabian fleet might have sailed without a naval combat into the mouth of the Thames. Perhaps the interpretation of the Koran would now be taught in the schools of Oxford, and her pulpits might demonstrate to a circumcised people the sanctity and truth of the revelation of Mahomet.
دریائے رائن نیل یا فرات سے زیادہ گہرا نہیں ہے۔ عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفورڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی۔
ذرا تصور کریں کہ اگر مسلمان اُس روز مال غنیمت سے اس قدر محبت کا مظاہرہ نہ کرتے تو آج میکرون ہمارے نبی کے خاکے دکھانے کی بجائے کسی مسجد کا مؤذن ہوتا۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top