Close

الکلام الفرقان فی خزعبلات الدکتور جواد خان

لگتا ہے اس پانچویں فیل سے بڑے بڑے مومنین کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ میری ہر تحریر پر کوئی نہ کوئی مومن لمبا چوڑا رد لکھ مارتا ہے، شروع میں رد بڑے سادہ اور روایتی تھے، لیکن میرے سمجھانے پر کچھ فرق پڑا ہے، خصوصاً میرے عزیز دوست ڈاکٹر جواد خان صاحب کو اب ” ردود ” لکھنے کا سلیقہ آگیا ہے اور اب وہ صرف قرآن سے ہی نہیں بلکہ سابقہ مقدس کتابوں کی بھی خوب ورق گردانی کر کے دلائل پیش کرتے ہیں، پہلے کی طرح میری ” قرآن اور اسرائیلیات ” پر بھی دو عدد ردود منظرِ عام پر آئے، پہلا رد اگرچہ اچھا قرار دیا جاسکتا ہے مگر روایات سے ہٹ کر اس میں کوئی نیا پن نہیں تھا اس لیے میں نے بھی اسے درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، تاہم ڈاکٹر جواد خان صاحب کا رد اتنا کمال کا تھا کہ میں اسے نظر انداز نہ کر سکا، مجھے یہ اعتراف کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انہوں نے ” رد ” کا حق ادا کردیا، مگر افسوس کہ انہوں نے میری جس تحریر کا رد لکھا اس کے اصل مقصد کو سمجھا ہی نہیں اور بات کسی اور نہج پر لے گئے، اگر وہ مضمون کے ” مضمون ” پر رہتے ہوئے بات کرتے اور اصل مدعے کو رد کرتے تو شاید میری بھی کچھ اصلاح ہوجاتی.

بہرحال جو بھی ہے، میرے عزیز جراح کو یقین تھا کہ میں ان کے ” رد ” کا ” رد ” ضرور لکھوں گا کیونکہ اپنی تحریر میں وہ جا بجا مجھ سے ٹیڑھے میڑھے سوالات کر کے مجھے ” رد ” لکھنے پر اکسا رہے تھے، اور مجھے یقین ہے کہ عوام کو بھی اس رد کے رد کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوگا، اور اتنی عوام کو مایوس کرنا میں گناہِ کبیرہ سمجھتا ہوں 🙂

تو چلیے دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی زنبیل میں کیا کیا معجزات ہیں..

پہلا سوال یا اعتراض وہ یوں اٹھاتے ہیں:

” مکّی صاحب نے اپنے مضمون کی ابتدا قرانی آیات سے کی. طرفہ تماشہ یہ کہ انکے مضمون میں قرآن کی آیات جو کہ کفّار کے اظہار لاتعلقی کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں، موصوف نے انھیں کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام بنا دیا.  سورہ الانعام کی  آیات ٢٥ یا سورہ الانفال کی  آیت ٣١ میں الزام یہ نہیں تھا کہ قرآن کریم کوئی الہامی کتاب نہیں ہے اوریہودیوں کی کتاب کا چربہ ہے ( نعوذ و باللہ ) بلکہ کفّار مکّہ کا یہ اظہار لاتعلقی تھا کہ جس میں وہ کہتے تھے کہ یہ تم کیا گئے گزرے زمانوں کی باتیں کرتے ہو اور کیا پرانی داستانیں سناتے رہتے ہو ”

کیا مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں کفار نے یہ الزام نہیں لگایا کہ قرآن پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اس طرح کا کلام وہ خود بھی کہہ دیں؟ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ یہ کہانیاں انہوں نے پہلے بھی سن رکھی تھیں اور جب قرآن نے آکر وہی کہانیاں دوبارہ دہرادیں تو انہیں اس میں کوئی نیا پن نظر نہیں آیا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کہا کہ یہ ” اساطیر الاولین ” پر مشتمل ہے جنہیں وہ خوب جانتے ہیں، یہ بات میرے فاضل دوست بھی مان رہے ہیں اور میرا مقصد بھی اسی بات کی طرف توجہ دلانا تھا.

” پتہ نہیں فاضل مضمون نگار کے یہاں درستگی اور اور خطا کا کیا مفہوم ہے مگر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ موجودہ الہامی کتب تحریف شدہ ہیں اور ان کتابوں میں تحریف ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ عیسائی علما بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے. بائبل شاید دنیا کی واحد کتاب ہے جس پر اتنی بار نظر ثانی ہو چکی ہے کہ جس کی نظیر کسی بھی الہامی کتاب کے لئے نہیں ملتی. یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کے حضرت مکّی جیسے فاضل شخص کی علم سے باہر ہوسکتی ہے ”

میں نے اس پورے مضمون میں کہاں کہا ہے کہ موجودہ الہامی کتابیں تحریف شدہ نہیں ہیں؟ کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے؟

پھر میرے فاضل دوست تفسیر ابن کثیر سے اسرائیلیات کے حوالے سے کچھ اقتباس کر کے فرماتے ہیں:

” یہاں تفسیر ابن کثیر کے اقتباسات پیش کرنے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ اسرائیلیات کا دین اسلام میں کہاں تک دخل ہے اور اسکے نقل کرنے میں کن اصولوں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے ”

یہ میرے دوست کی تسلی کے لیے کافی ہوگا میرے لیے نہیں، کیونکہ اسرائیلیات کا دخل اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ میرے فاضل دوست سمجھتے ہیں، میرے مضمون میں جن اسرائیلیات کا تذکرہ کیا گیا تھا میرے فاضل دوست نے ان میں سے ایک کا بھی تسلی بخش جواب دینا ضروری نہیں سمجھا، مثلاً میں نے کہا تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ شاہ سرجون الاکادی کا ہے، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ سورہ مائدہ کی آیت 45 میں وارد قانون در حقیقت حمورابی کے قوانین سے آیا ہے، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا قانون جاہلیت میں بھی موجود تھا، میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حج جاہلیت کی ایک رسم تھی اور ایسے کئی دیگر الزامات لگائے تھے جن پر سارے مضمون کا دار ومدار تھا مگر میرے فاضل دوست کا یا تو تجاہل عارفانہ کمال کا ہے یا پھر وہ رد کرنے سے قاصر تھے.

اس سے آگے وہ فرماتے ہیں:

” مصدر اور خدائی پیغام ایک ہی ہے لہٰذا واقعات کا ایک جیسا نا ہونا زیادہ اچھنبے کی بات ہے بجائے واقعات کے ایک جیسا ہونے کے ”

نہیں جناب ان دونوں سے زیادہ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ واقعات کے مقامات اور کردار کہیں اور ثابت ہو رہے ہوں..

ڈاکٹر صاحب خاتم الانبیاء پر جہالت کا الزام لگاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

” یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے ”

یہ دنیا کا سب سے بڑا مذاق ہے، ایک طرف جس نبی کی شان میں دن رات قصیدے گائے جاتے ہیں اسی نبی کو ان پڑھ جاہل قرار دے کر اسے معجزے کا نام دے دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں انہیں جاہل کہنے والے خود سب سے بڑے جاہل ہیں (تعمیم ہے تخصیص نہیں)، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص نے لمبی چوڑی تجارت سنبھال رکھی ہو اور اسے پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو؟ اور کیا ” اُمی ” کا مطلب ان پڑھ ہے؟ کیا نبوت کا دراومدار وحی پر ہے یا پڑھنے لکھنے پر؟ جائیے اور ان کے ان پڑھ ہونے کے قوی ترین ثبوت جو آپ کو مل سکیں ڈھونڈ کر لائیے، پھر اس کے بعد میں آپ کو ثابت کردوں گا کہ وہ ان پڑھ جاہل نہیں تھے پھر بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ گستاخِ رسول کون ہے اور اس کے معیارات کیا ہیں..!؟

اس کے بعد میرے فاضل دوست کچھ بائبلی خرافات نقل کر کے فرماتے ہیں:

” اگر قرآن کریم کسی بھی کتاب کی نقل ہے تو یہ خرافات قرآن کریم میں کیوں نقل نہیں ہوئیں؟کیوں یہ کتابیں خدا کا ایک اعلیٰ و ارفع اور منطقی تصور پیش کرنے میں قرآن کریم کے برعکس ناکام ہیں؟ ”

میں نے کب کہا کہ میں ان کتابوں پر یقین رکھتا ہوں؟ اور کیا کسی کتاب میں خرافات کا نہ ہونا اسے مقدس بنا دیتا ہے؟ عجیب منطق ہے..!! اور کیا آپ کے خیال میں قرآن میں خرافات نہیں ہیں؟ اگر آپ کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو ایک نمونہ پیش کرنا چاہوں گا:

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ۙ﴿۸﴾ وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ۙ﴿۹﴾ سورہ جن، آیت 8 اور 9
اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسکو مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہوا پایا۔- اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ اب کوئی سننا چاہے تو اپنے لئے انگارہ تیار پاتا ہے۔

اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبِ ۙ﴿۶﴾ وَ حِفۡظًا مِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ ۚ﴿۷﴾ لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی وَ یُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ کُلِّ جَانِبٍ ٭ۖ﴿۸﴾ دُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ۙ﴿۹﴾ اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ ﴿۱۰﴾
بیشک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے سجایا۔ اور ہر شیطان سرکش سے اسکی حفاظت کی۔ کہ اوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے ان پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔یعنی وہاں سے نکال دینے کو اور انکے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ ہاں جو کوئی فرشتوں کی کسی بات کو چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگارہ اسکے پیچھے لگ جاتا ہے۔

وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ وَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابَ السَّعِیۡرِ ﴿۵﴾
اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی اور انکو شیطانوں کے مارنے کا آلہ بنایا اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

چلیے کسی فلکیات دان کے پاس چلتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ ہمارا قرآن کہتا ہے کہ ستارے اور شہابیے محض شیطانوں کو مار بھگانے کے آلوں کے سوا کچھ نہیں ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ ہمیں کتنے جوتے پڑتے ہیں..!؟ (ہم سے مراد میں بھی جوتے کھانے والوں میں شامل ہوں)

رہی بات کہ ” کیوں یہ کتابیں خدا کا ایک اعلیٰ و ارفع اور منطقی تصور پیش کرنے میں قرآن کریم کے برعکس ناکام ہیں ” تو قرآن کون سا کامیاب رہا؟ ایک پتھر کے گرد چکر لگانے اور اسے چومنے چاٹنے میں اور کرشن بھگوان اور گائے ماتا کے آگے سرنگوں ہونے میں کیا فرق ہے؟ اور کیا اس صورت میں گائے ان پتھروں سے زیادہ فائدہ مند نہیں؟

پھر میرے فاضل دوست نے بائبل سے بقول ان کے کچھ ” فحش ” اقتباسات پیش کر کے فرمایا:

” کیا فاضل مضمون نگار کو انبیا علیھم صلواۃ السلام سے منسوب گھناؤنی ، بیہودہ اور انتہائی فحش داستانیں، ( معاذ الله) قرآن مجید میں نظر آتی ہیں ”

کیا آپ واقعی ایسا سمجھتے ہیں؟ یا آپ کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی اس قدر کس کے بندھی ہے کہ آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؟ آپ کی اجازت سے ایک اور نمونہ پیشِ خدمت ہے:

وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۷﴾ قَالَ اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ ضَیۡفِیۡ فَلَا تَفۡضَحُوۡنِ ﴿ۙ۶۸﴾ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لَا تُخۡزُوۡنِ ﴿۶۹﴾ قَالُوۡۤا اَوَ لَمۡ نَنۡہَکَ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۷۰﴾ قَالَ ہٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیۡۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ ﴿ؕ۷۱﴾
اور آئے شہر کے لوگ خوشیاں کرتے [۵۶] لوط نے کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں سو مجھ کو رسوا مت کرو [۵۷] اور ڈرو اللہ سے اور میری آبرو مت کھوؤ [۵۸] بولے کیا ہم نے تجھ کو منع نہیں کیا جہان کی حمایت سے [۵۹] بولا یہ حاضر ہیں میری بیٹیاں اگر تم کو کرنا ہے [۶۰] (سورہ الحجر)

یہ کیسے نبی ہیں جو لونڈوں کو بچانے کے لیے اپنی بیٹیاں اجتماعی آبرو ریزی کے لیے مسٹنڈوں کو پیش کر رہے ہیں؟ کیا یہ بے ہودہ اور انتہائی فحش داستان نہیں؟ مجھے پتہ ہے کہ آپ سورہ حجر کی آیت نمبر 71 کی کیا تاویل پیش کریں گے، میں چاہتا ہوں کہ آپ وہ تاویل پیش کریں کیونکہ لغوی، منطقی، اور سیاقی لحاظ سے اس احمقانہ تاویل کی دھجیاں بکھیرنے میں تبھی مزہ آئے گا.. اور ہاں یہ کہانی سابقہ مقدس کتابوں کے عین مطابق ہے.

میرے دوست مزید فرماتے ہیں:

” ان الزامات کو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے نہایت خوبصورت اور محکم دلائل کے ساتھہ رد کیا ہے. ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر آپ قرآن اور بائبل کا جائزہ لیں تو کی مقامات پران میں یکسانیت پائی جاتی ہے. لیکن اگر آپ انکا گہرائی سے تجزیہ کریں تو ان میں خفیف سا فرق نظر آئے گا. اس فرق کو اگر آپ سائنسی معلومات کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ٢ باتیں ثابت ہو جائیں گی . ایک قرآن کریم نے قصّوں کو نقل نہیں کیا ہے اور دوسری سائنسی معلومات کی روشنی میں قرآن کریم کی حقانیت بھی کھل کر ثابت ہو جاتی ہے ”

ڈاکٹر ذاکر نائک کی میں عزت کرتا ہوں، لیکن جہاں بات قرآن سے سائنس کشیدنے کی آتی ہے تو ان میں اور ہارون یحیی جیسے جعلساز میں کوئی فرق نہیں رہتا، ایسے لوگ ہمہ وقت ہر جدید سائنسی دریافتوں کو کیچ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اور پھر اپنا سارا زور قرآن میں ایسی کسی آیت کی تلاش میں لگا دیتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ قرآن میں یہ جدید ترین علمی دریافت اگر ازل سے نہیں تو کم سے کم چودہ سو سال پہلے سے ضرور موجود تھی!! میرے خیال سے ماہرینِ علومِ ارض (Geology) حضرت موسی علیہ السلام کے سمندر کو اپنے عصا سے چیر دینے کے عمل کو سائنسی طور پر بیان کر کے انتہائی راحت محسوس کریں گے، نا ہی طبیعات دانوں اور کیمیاء دانوں کو سائنسی طور پر یہ سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ اچانک ” برد وسلام ” کیسے ہوگئی، نا ہی فلکیات دانوں کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی پش وپیش ہوگا کہ شہابیے اور دمدار ستارے دراصل شیطانوں کو مار بھگانے کے لیے کام آتے ہیں تاکہ وہ فرشتوں اور خدا کے درمیان ہونے والی گفتگو نہ سن سکیں..!؟

ہر جدید سائنسی دریافت منظر عام پر آنے کے بعد ہی قرآن سے کیوں برآمد ہوتی ہے؟ اسے دن رات طوطے کی طرح رٹنے والے ایسی سائنسی دریافتیں کیوں نہیں کر سکے؟ کیا سائنسدان قرآن کو پڑھ کر یہ سائنسی دریافتیں کرتے ہیں؟ نہیں جناب وہ تو قرآن کو مانتے ہی نہیں، تو پھر وہ ایسے کارنامے کیسے انجام دے لیتے ہیں؟ کیونکہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں جو اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے پاس نہیں ہے، جب انسان نے ترقی کی منزلیں اپنی عقل کے استعمال سے ہی طے کرنی ہیں تو مقدس کتابوں میں سائنس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہندو بھی اپنی مقدس کتابوں سے سائنس برآمد کرلیتے ہیں تو کیا آپ مان لیں گے کہ یہ خدا کی اتاری ہوئی کتابیں ہیں؟ یہودی اور عیسائی بھی اپنی اپنی مقدس کتابوں سے سائنس برآمد کرتے ہیں تو پھر آپ انہیں کیوں نہیں مانتے؟

ڈاکٹر صاحب مزید فرماتے ہیں:

” بائبل ( پیدائش ١ : ٣-٥ )  کہتی ہے کہ خدا نے دن اور رات کی تخلیق پہلے دن کی.دوسری طرف  بائبل کے ہی مطابق ( پیدائش – ١ : ١٤-١٩ )  ستارے چوتھے دن تخلیق کے گئے. جو کہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہے. اگر ستارے نہیں ہوں تو دن اور رات کا ہونا ممکن نہیں. دن اور رات کا ہونا سورج کے بغیر ممکن نہیں. قران کریم اس کے برعکس اس طرح کا کوئی بیان دیتا نظر نہیں آتا. اگر فاضل مضمون نگار کو اس طرح کے کسی بیان کا علم ہوتا تو مجھے قوی یقین تھا کہ وہ ایک لمحہ ضایع نہیں کرتے اپنا فیصلہ سنانے میں. سوال پھر وہیں آجاتا ہے کہ اگر قران کریم کسی کتاب کی نقل ہے تو یہ مضحکہ خیزیاں قران میں کیوں نہیں؟ ”

بھئی دوسرے کی آنکھ میں تنکا بھی ہو تو نظر آ جایا کرتا ہے، اور اپنی آنکھ میں شہتیر بھی ہو تو نظر نہیں آتا، چلیے میں آپ کو ایسی ہی ایک مضحکہ خیزی قرآن سے نکال کر دیتا ہوں:

قُلۡ اَئِنَّکُمۡ لَتَکۡفُرُوۡنَ بِالَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ تَجۡعَلُوۡنَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ ذٰلِکَ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۚ﴿۹﴾ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ ﴿۱۱﴾ فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا ؕ وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ﴿۱۲﴾
کہو کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ اور بتوں کو اس کا مدمقابل بناتے ہو۔ وہی تو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت رکھی اور اس میں سامان معیشت مقرر کیا سب چار دن میں۔ اور تمام طلبگاروں کے لئے یکساں۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں۔ پھر اس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اسکے کام کا حکم بھیجا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں یعنی ستاروں سے سجایا اور شیطانوں سے محفوظ رکھا۔ یہ اسی زبردست باخبر کے مقرر کئے ہوئے اندازے ہیں۔

یہاں پتہ چلتا ہے کہ پہلے زمین دو دن میں بنائی گئی، پھر پہاڑ اور سامان معیشت چار دن میں بنائے گئے، (یعنی وہ دو دن جو زمین کو بنانے میں صرف ہوئے ان میں حیرت انگیز طور پر پہاڑ شامل نہیں تھے!!)، پھر سات آسمان دو دن میں بنائے، یعنی زمین، پہاڑ اور سامانِ معیشت چھ دن میں بنائے گئے جبکہ سات آسمان دو دن میں بنائے گئے، کیا یہ معقول بات ہے کہ زمین جیسا ادنی سا سیارہ جس کی اس کائنات کی وسعت کے سامنے کوئی وقعت نہیں کو بنانے میں چھ دن صرف ہوئے جبکہ سات آسمان بشمول اپنی وسعتوں اور کہکشاؤں کے صرف دو دن میں بنا لیے گئے!؟ اور اگر زمین اور تمام طلبگاروں (مخلوقات) کے لیے سامانِ معیشت آسمانوں سے پہلے بنائے گئے تو بغیر سورج کے وہ کیسے زندہ تھے!؟ چلیے اسی تناظر میں ایک اور تضاد دیکھتے ہیں:

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾ رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا ﴿ۙ۲۸﴾ وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾ وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا ﴿ؕ۳۰﴾ اَخۡرَجَ مِنۡہَا مَآءَہَا وَ مَرۡعٰہَا ﴿۪۳۱﴾ وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا ﴿ۙ۳۲﴾ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِاَنۡعَامِکُمۡ ﴿ؕ۳۳﴾
بھلا تمہارا بنانا مشکل ہے یا آسمان کا؟ اللہ نے اسکو بنایا۔ اس کی چھت کو اونچا کیا پھر اسے برابر کر دیا۔ اور اسی نے رات تاریک بنائی اور دن کو دھوپ نکالی۔ اور اسکے بعد زمین کو پھیلا دیا۔ اسی نے زمین میں سے اسکا پانی نکالا اور چارہ اگایا۔ اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ رکھ دیا۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے کیا۔

اب یہاں آسمان زمین سے پہلے بنایا گیا!! مگر مجھے یقین ہے کہ یہ کھلے تضاد ان شاء اللہ میرے جراح کے ایمان کو قطعی متزلزل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ الحمد للہ وراثتی مسلمان ہیں، اور عقل استعمال کرنے سے خدا نے سختی سے منع کر رکھا ہے.

” چاند اور سورج دونوں روشنی دیتے ہیں ” کے عنوان کے ذیل میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:

” بائبل کے مطابق ( پیدائش – ١ : ١٦ ) ” خدا نے دو روشنیاں تخلیق کیں. بڑی روشنی دن میں اجالا کرتی ہے اور چھوٹی روشنی رات میں ” جبکہ سائنسی طور پر یہ بات صاف ہے کہ چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں لہٰذا اسکی روشنی کے بارے میں تخلیق کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے.کیا فاضل مضمون نگار جانتے ہیں کہ قران کریم چاند اور سورج کی روشنیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ قرآن کریم سورہ نوح میں کہتا ہے کہ :

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ( ٧١ : ١٦ )
اور چاند کو ان میں (زمین) کا نور بنایا ہے اور سورج کو چراغ ٹھیرایا ہے.

کیا عربی میں مہارت رکھنے والے مکّی صاحب بتانا پسند کریں گے کے قرآن کریم میں سورج اور چاند کی روشنیوں کے حوالے سے الگ الگ الفاظ کیوں استعمال ھوۓ؟  چاند کے لئے قران کریم میں قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسکی روشنی کے لئے “منیر ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ عکسی روشنی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. کیا فاضل مضمون نگار بتانا پسند کریں گے کہ نبی کریم صلی الله علیھ وسلم کو چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت کس نے بتائی تھی کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے ؟ پھر وہی سوال کہ اگر قرآن کریم نقل ہے تو یہ کیسی نقل ہے کہ جو سائنسی غلطیوں کو نقل نہیں کرتی ؟ ”

یہاں جراح صاحب نہ صرف مجھے چونا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اپنی ہی باتوں میں تضاد کا شکار ہیں، آیت کے ترجمہ میں وہ کہتے ہیں کہ چاند زمین کا نور ہے تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ ” اسکی روشنی کے لئے “منیر ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے "، کوئی مجھے بتائے گا کہ مذکورہ آیت میں لفظ ” منیر ” کہاں ہے؟

اور چونا مجھے یوں لگا رہے ہیں کہ ترجمہ میں قوسین میں لفظ ” زمین ” فٹ کر رہے ہیں جو کہ سیاق وسباق کے لحاظ سے بالکل غلط ہے، یہ تو وہی بات ہوگئی کہ "فویل للمصلین ” کہ نمازیوں کی خیر نہیں 🙂 ، اس آیت کا مفہوم پچھلی آیت کے بغیر ناقص ہے، دیکھیے:

اَلَمۡ تَرَوۡا کَیۡفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ جَعَلَ الۡقَمَرَ فِیۡہِنَّ نُوۡرًا وَّ جَعَلَ الشَّمۡسَ سِرَاجًا ﴿۱۶﴾ (سورہ نوح)
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں۔ – اور چاند کو ان میں روشن بنایا ہے اور سورج کو چراغ بنا دیا ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ جو اوپر تلے سات آسمان بنائے گئے ہیں چاند کو ” ان میں ” (فِیۡہِنَّ) روشن بنایا ہے اور سورج کو چراغ، یعنی یہاں جو چاند اور سورج ہیں وہ ان ساتوں آسمانوں کے درمیان کہیں پر واقع ہیں اور انہیں روشن اور منور کر رہے ہیں!! یہ ہمارے جانے پہچانے چاند اور سورج نہیں ہیں، سو یہ قرآنی تضادات میں سے ایک اور تضاد ہے، روشنیوں کے حوالے سے الگ الگ الفاظ کے استعمال کو تو رہنے ہی دیجیے.

ڈاکٹر صاحب ” آدم پہلے انسان تھے جو ٥٨٠٠ سال پہلے دنیا میں تھے ” کے عنوان کے ذیل میں فرماتے ہیں:

” جبکہ علوم آثار قدیمہ اور ارضیات کے مطابق ١٠ ہزار سال یا اس سے بھی پہلے تک انسان کی اس زمین پر موجودگی کے شواہد موجود ہیں. بائبل کے اس بیان کے برعکس قرآن کریم میں اس طرح کا کوئی بیان نہیں جس میں انبیاء کے درمیان زمانوں کا درست وقت بتایا گیا ہو. کیا فاضل مضمون نگار یہ بتانا پسند کریں گے کہ کیا چیز تھی جسے قرآن کریم کو اس بظاھر دلچسپ تاریخ کو نقل کرنے سے روکا ؟ ”

بڑا ہی سادہ سا جواب ہے، یقیناً بائبل کی کاربن کاپی بنانا مقصود نہیں تھا… ہے نا..! اور کیا پتہ اس وقت یہ باتیں بائبل میں ہوں ہی نا، بعد میں ڈالی گئی ہوں!

ڈاکٹر صاحب کا ایک اور قابلِ غور اعتراض کہ:

” تلمودی اور مدراشی اسرائیلیات کے ذیلی عنوان میں حضرت مکّی نے سورہ نمل کی آیت ١٨  کے حوالے سے ابن کثیر سے متعلق آدھی بات نقل کی ہے حالانکہ اگر پوری تحریر کا حوالہ دیتے تو بات صاف ہوجاتی کہ ابن کثیر نے کیا بات اور کیوں کی. آگے چل کے ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

” نوف بکالی کہتے ہیں یہ بھیڑیے کے برابر تھی.ممکن ہے کہ اصل لفظ ذباب ہو یعنی مکھی کے برابر اور کاتب کی غلطی سے وہ ذیاب لکھہ دیا گیا ہو یعنی بھیڑیا “ ”

پہلی بات تو یہ ہے کہ کتابت کی یہ غلطیاں کہاں کہاں واقع ہوئی ہیں؟ کوئی اس کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اس طرح جملہ تفاسیر واحادیث اپنے آپ ہی مشکوک ہوجاتی ہیں کہ ان میں کتابت کی غلطیوں کی کوئی ضمانت نہیں، دوسری بات یہ کہ جہاں ڈاکٹر صاحب کا منقولہ بیان موجود ہے وہیں پر یہ بھی لکھا ہے کہ:

ومن قال من المفسرين : إن هذا الوادي كان بأرض الشام أو بغيره ، وإن هذه النملة كانت ذات جناحين كالذباب ، أو غير ذلك من الأقاويل ، فلا حاصل لها .
” مفسرین میں سے کچھ نے کہا: کہ یہ وادی شام کی زمین یا کہیں اور تھی، اور یہ کہ اس چیونٹی کے مکھیوں کی طرح پر تھے، اور اس طرح کی دیگر باتیں، تو یہ باتیں غلط (لا حاصل) ہیں.

یعنی ابن کثیر خود ہی دیگر مفسرین کی اس تفسیر کو کہ یہ چیونٹی مکھی کے برابر تھی مسترد کر رہے ہیں اور بھیڑیے والی بات پر قائم ہیں، اس طرح میں نے درست ترین تفسیر پیش کی جسے میرے فاضل دوست ناقص بیان نقل کر کے قاری کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ثبوت کے طور پر تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر دیکھیے.

ڈاکٹر صاحب اسی طرح کا ایک اور الزام بھی لگاتے ہیں کہ:

” پھر آگے چل کر صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ھوۓ گول مول  بات کی ہے کاش جناب مکّی اس حدیث کا حوالہ بھی دے دیتے تو کتنا اچھا ہوتا؟ ”

شاید میرے فاضل دوست کو حدیث کے آخر میں بارہ (12) کا عدد نظر نہیں آیا جو حوالے کے لیے تھا، خیر جب آپ جانتے ہی ہیں کہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے تو پھر اعتراض کس بات کا؟ اس طرح تو حدیث اور قوی ہو رہی ہے اور میری بات کو مزید اثبات مل رہا ہے.

حضرت نوح کی عمر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب گویا ہیں کہ:

” میرا سوال جناب مکّی سے سائنس کے ادنیٰ طالبعلم کی حثیت سے یہ ہے کہ عقل ٩٥٠ سال زندہ رہنے کو کیوں تسلیم نہیں کرتی ؟ کیا انکے پاس کچھ ایسے سائنسی حقائق ہیں جن کی مدد سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ ٩٥٠ سالہ زندگی نا ممکنات میں سے ہے ”

یہی سوال میرا ان سے ہے کہ کیا آپ ایسے سائنسی دلائل پیش کر سکتے ہیں کہ کسی انسان کا 950 سال زندہ رہنا ممکن ہے؟ جہاں تک عقل کے تسلیم کرنے کی بات ہے تو آپ قرآن میں آئی کس کس چیز کو عقلیا سکتے ہیں؟

اب ڈاکٹر صاحب کے سب سے بڑے ایمان افروز جھوٹ کی طرف آتے ہیں جسے وہ ” فرعون اور اسکے لشکر کی غرقابی ” کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں اور جسے وہ بقول ان کے ” رعمسيس دوئم ( Merneptah ) کی لاش کی دریافت اور اسکی موت کے سلسلے میں ہوئی جدید طبّی تحقیقات ” قرار دیتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رمسیس دوم کی ممی ہی دراصل موسی (علیہ السلام) کا فرعون ہے اور یہ کہ رمسیس دوم کی لاش فرانس لے جائی گئی جہاں ڈاکٹر موریس بوکلے نے جو مسلمان ہوگئے تھے لاش پر تحقیق کر کے یہ ثابت کیا کہ ” اسکی موت کھوپڑی اور گردن کی ہڈیاں ٹوٹنے سے ہوئی ہے.لاش پر نمک کی تہہ اس بات کا ثبوت تھی کہ اسکی موت ڈوبنے اور پانی کے انتہائی شدید دباؤ کا نتیجہ تھی ” جس سے علمی طور پر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نہ صرف رمسیس دوم ہی فرعون ہے بلکہ سورہ یونس کی آیت نمبر 92 کی حقانیت بھی ثابت ہوجاتی ہے چنانچہ یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ قرآن بالیقین اللہ تعالی کی ہی اتاری ہوئی کتاب ہے.

جس کسی نے بھی یہ ” ایمان افروز ” قصہ گھڑا اسے داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمان اندھا ہوتا ہے، اور جب انسان کی بنیاد ہی خرافات کے یقین پر کھڑی ہو تو ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح الزام نہیں دیا جاسکتا کہ جب ان کا خدا ہی عقل سے فارغ ہو تو اس کے ” عباد ” پر کوئی حرج نہیں اگر وہ اپنی عقل استعمال نہ کریں..!!

کیا قرآن کی حقانیت کے ثبوت کے لیے فرعون کی لاش کا دریافت ہونا لازمی تھا؟ اگر لاش دریافت نہ ہوتی تو کیا قرآن پر شبہات کے سائے منڈلاتے رہتے؟ اور اگر اب یہ ثابت ہوجائے کہ رمسیس دوم موسی (علیہ السلام) کا فرعون نہیں ہے تو کیا آپ قرآن کو مسترد کردیں گے؟

میرے جراح کا دعوی ہے کہ وہ سائنس کے طالب علم ہیں مگر اس جھوٹ کو داغتے اور لوگوں میں جہالت تقسیم کرتے وقت انہوں نے اس بات کی تصدیق کرنے کی ذرا بھی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ ایمان ہی کافی ہے بھلے وہ جھوٹ پر کھڑا ہو..

چلیے اس ایمان افروز جھوٹ کا بھی پردہ فاش کیے دیتے ہیں:

لندن سے شائع ہونے والے سعودی عرب کے مشہور اخبار الشرق الاوسط کی 5 فروری 2005 کی خبر کے مطابق مصر کے وفاقی وزیر برائے آثارِ قدیمہ ڈاکٹر زاہی حواس نے کہا ہے کہ:

” واضاف انه بحسب دراسة القرآن الكريم، يتبين ان فرعون الخروج هو «رمسيس الثاني»، بالرغم من النتيجة التي توصل اليها الفرنسيون، عندما قاموا بفحص المومياء في الثمانينيات، والتي اشارت الى انه ليس فرعون الخروج، لعدم وجود آثار للغرق في موميائه. ”
” انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ قرآنِ کریم کے مطابق فرعون «رمسیس دوم» ہے تاہم اسی کی دہائی میں فرانسیسیوں کی جانب سے ممی کی جانچ سے یہ پتہ چلا کہ وہ فرعون نہیں ہے کیونکہ اس کی ممی میں ڈوبنے کے کوئی آثار نہیں پائے گئے تھے ”

یہی خبر عربیک نیوز آرکائیو میں دیکھیے

ڈاکٹر زاہی حواس علوم آثار قدیمہ کے مایہ ناز عالم ہیں، مصریات کے حوالے سے کوئی بھی دستاویزی فلم ان کی موجودگی کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے، نیشنل جیوگرافک پر انہیں اکثر دیکھا جاسکتا ہے، اور میرے خیال سے وہ ڈاکٹر موریس بوکلے جیسے جعلساز سے زیادہ قابلِ اعتبار ہیں، یہ جعلسار کتنا بڑا مسلمان تھا، کتنے حج کیے، کتنے عمرے کیے، کتنی نمازیں پڑھیں یہ ایک الگ موضوع ہے جسے یہاں زیرِ بحث لانا بے محل ہے، تاہم ڈاکٹر زاہی حواس کے الفاظ قابل غور ہیں کہ قرآن کے مطابق فرعون رمسیس دوم ہی بنتا ہے لیکن درحقیقت وہ فرعون ہے ہی نہیں، اب یہاں مومنین کی قرآن کی حقانیت کے بارے میں کیا رائے ہوگی؟

عقیدے پر پڑنے والی اس ضربِ کاری کے لیے معافی چاہتا ہوں مگر سچ سچ ہوتا ہے اور سر چڑھ کر بولتا ہے.

مجھے احساس ہے کہ یہ تحریر انتہائی قابلِ اعتراض ہے، مقصد کسی کے جذبات یا عقیدے کا مذاق اڑانا نہیں تھا، اگر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو تو میں دلی طور پر ان سے معذرت چاہتا ہوں، میرا مقصد محض میرے محترم دوست ڈاکٹر جواد خان کی ” بحث برائے بحث ” کے لیے شروع کی گئی تحریر کا جواب دینا تھا جس میں انہوں نے بجائے سابقہ تحریر کے ” مضمون ” کا رد کرنے کے بے وجہ اور بے دلیل الزامات لگائے اور میری تحریر کے مقصد کو نہیں سمجھا، مزید یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ اگر کیڑے ہی نکالنے ہوں تو انسان خدا میں بھی کیڑے نکال سکتا ہے، میری ڈاکٹر صاحب سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے، وہ میرے لیے اب بھی محترم ہیں، مجھے یقین ہے وہ دل پر نہیں لیں گے.

وما علینا الا البلاغ

نوٹ: میں نے اس تحریر میں موجود کسی بھی قرآنی آیت کا خود سے ترجمہ نہیں کیا ہے، سارا ترجمہ یہاں سے لیا گیا ہے.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top