Close

اور خدا نے عورت کو بنایا

مگر کیا خدا مرد ہے؟

سنۃ 1956ء میں فرانسیسی فلم اور خدا نے عورت کو بنایا ریلیز ہوئی.. اسی فلم سے بریجٹ بارڈو نامی قاتل حسینہ پہلی بار عالمی سینما میں متعارف ہوئی اور ساٹھ کی دہائی کی جنسی علامت (sex symbols) کے طور پر ابھری.. صرف یہی نہیں بلکہ اس فلم نے امریکی سینما کا رخ ہی بدل دیا جس نے میرلین مونرو کو متعارف کرا کر فرانسیسیوں کو بھرپور جواب دیا.

اس فلم پر کیتھولک چرچ نے کافی شور مچایا، دراصل یہ فلم کسی بھی طرح سے فرانسیسی سینما کی نمائندگی نہیں کرتی تھی، نہ کہانی اور نا ہی اس کا انداز تاہم بارڈو کا شوہر راجر ویڈیم جو فلم کا ڈائریکٹر تھا اس فلم میں اپنی بیوی کا حسن اچھی طرح نمایاں کرنے میں کامیاب رہا، اس خوش قسمت آدمی نے یکے بعد دیگرے دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں سے شادی کی، بریجیٹ بارڈو کے علاوہ اس نے جین فونڈا اور کینڈی ڈارلنگ سے بھی شادی کی اور کئی سال کیتھرین ڈینیو کے ساتھ مفت میں گلچھرے اڑاتے ہوئے گزارے.

بہرحال موضوع کی طرف واپس آتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر خدا نے عورت کو بنایا ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مرد ہے؟

تاریخ میں زیادہ تر مذاہب نے خدا کو تمام تر مردانہ خصوصیات سمیت ایک بھرپور مرد کے طور پر پیش کیا، اس خدا کی داڑھی تھی، مسل تھے اور بعض اوقات جنسی اعضاء بھی، ابراہیمی یا توحیدی کہلائے جانے والے مذاہب جن میں یہودیت، اسلام اور عیسائیت شامل ہیں خدا ہمیشہ ایک مرد سے ملتا جلتا رہا.

مذہبی فکر خدا کی جنس کے حوالے سے کافی خلفشار کا شکار رہی ہے خاص طور سے یہ ابراہیمی مذاہب جب ان کا سامنا کلاسیکی یونانی فلسفے سے ہوا، یونانیوں کے ہاں خدا مرد وزن پر مشتمل تھے اور ہر ایک کا اپنا ایک کام تھا مگر ان ابراہیمی مذاہب نے ان سب خداؤوں کو ایک ہیرو میں مدغم کرنا چاہا.. مرد وزن، خیر وشر حتی کہ وہ مسخ شُدہ شکل سامنی آئی جو اب ہمارے سامنے ہے.. توحید یا یکجائی کے خیال کی کنفیوزن میں ان تینوں مذاہب نے خدا کو بیچ والا بنا کر بے جنس کردیا یعنی نا مرد اور نا ہی عورت.

عیسائیوں کی اس ویب سائٹ پر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے:

سوال: کیا خدا مرد ہے یا عورت؟

جواب: مقدس کتاب میں غور کرنے سے ہم پر دو حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں: پہلی حقیقت یہ ہے کہ خدا روح ہے، اس کی کوئی صفات یا بشری حدود نہیں ہیں، دوسری حقیقت یہ ہے کہ تمام دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خدا نے خود کو انسانیت کے سامنے ایک مرد کی شکل میں ظاہر کیا، شروع میں ہمیں خدا کی حقیقی نیچر کو سمجھنا چاہیے، خدا ایک شخص ہے، یہ واضح ہے کہ اس کے پاس ایک شخص کی سی صفات ہیں جیسے عقل، ارادہ سمجھداری اور جذبات، اور خدا انسانوں سے رابطہ میں رہتا ہے اور ان سے تعلقات قائم رکھتا ہے اور یہ کہ خدا کے ذاتی اعمال مقدس کتاب کے ذریعے واضح ہیں.

اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عیسائیت خدا کو مرد سمجھتی ہے کیونکہ اس کی تجلی مرد کی صورت ہوئی نہ کہ عورت کی صورت میں.. ایک اور جگہ کسی نے سورہ اخلاص کا یہ پوسٹ مارٹم کیا ہے:

خدا نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ اس نے ولادت نہیں کی (لم یلد) اور نا ہی اس کی ولادت ہوئی (لم یولد) ولادت عورت کی خصوصیات میں سے ہے چنانچہ خدا عورت کی صنف میں سے ہے کیونکہ وہ قابلِ ولادت ہے اور چونکہ اس نے ابھی تک ولادت نہیں کی (لم یلد) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں ولادت نہیں کرے گا خاص طور سے سورت کا خطاب ماضی میں ہے.

بہرحال مسلمان خدا کی جنس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ہی (یا شی) نا مرد ہے اور نا ہی عورت اور اس کے جیسا کچھ نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر خدا کے تمام ننانوے نام مذکر کی صفت میں کیوں آئے ہیں اگر وہ مرد نہیں ہے تو؟ کیا سوواں نام مؤنث تھا اور ہمیں نہیں بتایا گیا؟

ریت کے خدا کی جنس کے تعین میں یہ تضاد اور انکار کیوں ہے؟ میں نے اس مدعے کے تضادات پر کافی غور وخوض کیا ہے، کیا اس لیے کہ خدا کامل اور پرفیکٹ ہے اور کمال مرد کی صفات میں سے ہے کیونکہ عورت کا کمال آدھا ہے اور وہ مرد کی نصف ہے؟

میرا خیال ہے کہ محمدی دعوت کے آغاز میں خدا واضح طور پر ایک مرد تھا مگر یونانی فلسفے کے اثر کی وجہ سے مؤمنین خدا کی مردانہ حیثیت سے دستبردار ہوگئے اور اسے ایک ❞بے جنس❝ ہستی بنا دیا گیا تاکہ اس کے کمال کو بغیر تضادات کے مکمل کیا جاسکے.. مگر کیا اس سے مسئلہ حل ہوگیا؟

سورۃ الانعام کی آیت 101 میں فرمایا گیا ہے کہ:

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾
وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔

تو صاحبو ❞اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں❝ کا کیا مطبل ہے؟ یہی کہ وہ مرد ہے اور اگر وہ کوئی بیوی اختیار کر کے اس کے ساتھ سیکس کرے تو اس کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے! یوریکا.. وہ یقیناً مرد ہی ہے، سورہ اخلاص میں ❞لم یلد❝ سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ مرد ہے اس لیے اس کے ہاں ولادت نہیں ہوتی مگر وہ ابھی تک کنوارہ ہے اور اس نے شادی نہیں کی ہے.. لہذا جب وہ شادی کرے گا تب اس کے ہاں اولاد ہونا عین ممکن ہے.

مؤمنین جب خدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو ہمیشہ مذکر ضمائر کا ہی استعمال کرتے ہیں، وہ اسے ہمیشہ ❞ہو❝ کہتے ہیں ناکہ ❞ہی❝ اور اگر خدا بغیر جنس کے ہے تو کبھی مذکر (ہو) اور کبھی مؤنث (ہی) کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ یا لغت میں ایک اور ضمیر شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟

یقین کریں اگر کوئی خدا کے لیے مذکر کی بجائے مؤنث کا ضمیر استعمال کرے تو مؤمنین کو سخت غصہ آجائے گا، مگر کیوں؟ اس کی صرف دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں:

اول: یہ غصہ اس بات کی دلیل ہے کہ مؤمنین خدا کو مرد سمجھتے ہیں اور اسے مؤنث ضمیروں سے مخاطب کرنے کو اس کی توہین سمجھتے ہیں.

دوم: انہیں واقعی یقین ہے کہ خدا بے جنس ہے، مگر اس کی تانیث کو وہ اس کی توہین سمجھتے ہیں، ان کے لیے خدا کا مذکر ہونا ایک اچھی اور مثبت بات ہے مگر اس کی تانیث ان کے ہاں منفی اور نا قابلِ قبول ہے.

جو بھی ہو، دونوں صورتیں اپنے اندر عورت کی تذلیل اور توہین لیے ہوئی ہیں، اور اس سے مؤمنین کا یہ دعوی کہ ❞اسلام نے عورت کو عزت دی ہے❝ پاش پاش ہوجاتا ہے.

عقل مندوں کو سلام!

12 Comments

  1. بہت عمدہ تحریر، تحسین کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، عورت کو اسلام نے کیا مقام دیا ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق معروف مرتدہ ڈاکٹر وفا سلطان نے اسلام کے اس چہرے سے انتہائی خوبی کے ساتھ نقاب اتارا ہے، مومنین و غیر مومنین سب کی دلچسپی کا باعث ہے، ملاحظہ فرمائیے http://www.youtube.com/watch?v=ough-e6ThWE

  2. ””’بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۰۱﴾
    وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اسکے اولاد کہاں سے ہو جبکہ اسکی بیوی ہی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔””
    یہ تو واضح قرآنی دلیل ہے کہ خدا مرد ہے۔

  3. – بہت عمدہ تحریر، تحسین کئے بغیر کوئی چارہ نہیں،
    – شکریہ
    – یہ تو واضح قرآنی دلیل ہے

    ایسا لگتا ہے کسی شاہی دربار دربار میں آ گیا ہوں اور خوشامدی ، بادشاہ کی تعریفوں کو پل باندھ رہے ہیں
    ملا صاحب اپ بھی آئین اور داد و تحسین کے مزید پل باندھیں ، کہیں ایسا نہ ہو ظل الہی ناراض ہو جائیں .

    مانا کے اپ کو اختلافات ہیں ، لکن اپ کی تحریروں سے یہ ظاہر ہونے لگ گیا ہے ، یہ نظریاتے اختلافات نہی بلکہ ہر چیز کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے اور اس میں سے برائی ڈھونڈھنے اور ذلیل کرنے روش کو اپنانا ہے

    بیٹیوں کو زندہ گاڑنے سے بھی روکنے میں ورقہ بن نوفل اور عبدللہ ابن سرح کا کوئی ہاتھ ہو گا

    بریجٹ بارڈو اور اس جیسے تمام عورتوں کو تو ہم نے عزت کی بلندیوں پر بٹھایا ہوا ہے نہ ، کیا یہ عزت اپ اپنی بہو بیٹیوں کے لئے پسند کریں گے .

    یہ اس کی ننگی تصویر اور فلمیں اپنے بہو بیٹیوں کو دکھا سکتے ہیں ……… شائد …………….

    1. عمران بھائی،
      ایک بات اچھی لگے تو اسکی تعریف بھی ممنوع ہو گئی؟ مقصد کسی عقیدے کی تذلیل کرنا یا کسی مذہب کے ماننے والوں کے دل دکھانا نہیں بلکہ ایک بے لاگ تجزیہ پیش کرنا ہے۔ جب مذہب یہ حق اپنے ماننے والوں کو دیتا ہے تو اپنے نہ ماننے والوں کو کیوں محروم کرتا ہے اس حق سے؟
      بتوں کی پرستش کرنے والے بتوں سے اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں کہ جتنی ایک عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ایک مسلم حضرت محمدﷺ سے محبت کرتا ہے یا اللہ کی عقیدت و احترام کرتا ہے۔ جب ہم اسلام کے نام پر بنی ریاست میں کھلے عام ایک مذہب کے بانی (قادیانی) کو گالیاں دینے کے مجاز ہیں، بتوں کو خرافات کا پلندہ کہتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے سے انکار کرتے ہیں اور برملا کرتے ہیں، کتابیں لکھتے ہیں، بلکہ تلاوت کرتے ہیں، لاؤڈ سپیکر میں چلاچلا کر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں تو پھر ایسے بندے کو اپنے اس حق سے کیوں محروم کرتے ہیں کہ جو ان باتوں سے اختلاف کرتا ہے۔ وہ بھی تو جو جانتا ہے اسکو حق اور سچ سمجھتا ہے۔ اس پر پابندی کیوں؟

      اب بھی فیس بک پہ دیکھ لیجئے، دوسری ویب سائٹوں پہ دیکھ لیجئے، اللہ کی شان سے متعلق یا نبی ﷺ سے متعلق یا قرآن کی حکمت کے متعلق کوئی پوسٹ شئیر ہوگی۔ بس آپ خالی گنتی کیجئے کہ کتنوں نے سبحان اللہ، واہ، شکریہ، جزاک اللہ، واقعی حق ہے وغیرہ جیسے کمنٹ موجود ہیں۔ کتنوں نے تائید کی ہے بغیر تحقیق کئے، وہاں آپ کو یا مجھے ایسے بادشاہ کے دربار جیسا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ جہاں خوشامدی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہوں؟

      جہاں تک ننگی تصاویر بہو بیٹیوں کو دکھانے کی بات ہے، یا انکے کپڑے مختصر کرنے کی یا آزادی کی۔ تو میرے بھائی، اپنا اپنا کلچر ہوتا ہے اپنی اپنی تہذیب ہوتی ہے، کیا ایک بندہ جو اللہ پر اور محمدﷺ پر ایمان نہ رکھے کیاآپ اسکے لئے یہ لازم کرتے ہیں کہ وہ اپنی ماں بیٹیوں کے کپڑے بھی اتارے کہ یہ اخلاقیات اسلام ہی کا خاصہ ہیں؟۔ عورت کی عزت یا آزادی سے مراد اسکا ننگا ہونا کب سے ہوگیا؟ عورت کی عزت یہ ہے کہ اسکو دوسری جنس یعنی مرد سے کمتر نہ سمجھا جائے، صرف مذہب کی آڑ میں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق نہ بنایا جائے۔ یہ مرد کے ذہن کی گندگی اور عورت سے خوف ہے کہ جب بھی انکی برابری اور حق کی بات کی جائے وہ فورا عورت کے جسم کو نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹیوں کو زندہ گاڑنے کی بات کرتے ہیں آپ؟ آج بھی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا ہے، مردوں کی پنچائتیں بیٹھ کر مشترکہ طور پر اجتماعی عصمت دری کے فیصلے صادر کرتی ہیں، غیرت کے نام پر زندہ جلائی اور قتل کی جاتی ہیں۔ اصل موضوع کو گول کر کے عورت کی آزادی کو اسکی بےلباسی پر محمول کرنا مرد معاشرے کی پرانی عادت ہے۔
      دوسری یہ بات کہ یہ مضمون عورت کی ذات کی بجائے اللہ کی جنس کے بارے میں ہے، اس بات پر گفتگو نہیں کی گئی کہ عورت کی عزت کا میعار کیا ہے بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ اللہ یا گاڈ کو مرد ہی کی شکل میں شعوری یا لاشعوری طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر اسکی ذات کا تذکرہ بطور مرد کیا جائے تو ٹھیک اگر بطور عورت کیا جائے تو برا منایا جاتا ہے جو کہ عورت کی توہین ہے۔
      اگر کومنٹ سے پہلے موضوع کی نوعیت بغور پڑھ لیتے تو شاید آپکا کومنٹ مختلف ہوتا۔

    2. عمران بھائ جان ! بہو بیٹیوں کو تو روز ھی گلی محلوں میں بندھے ھوۓ گدھوں اور گھوڑوں کے فربہ اور ایستادہ عضوھاۓ تناسل کا ھوش ربا نظارہ کرنا پڑتا ھے ۔۔۔ مزید یہ کہ کتوں کے طویل اور” انتہائ فحش ” جنسی عمل کا مشاھدہ بھی ان کے لۓ عام اور مفت دستیاب ھے ۔۔۔ اس کے علاوہ دیھات کی ھماری غریب مائیں بہنیں اور بہو بیٹیاں اپنے مویشیوں کے جنسی عمل میں اپنے ھاتھ سے مدد فراھم کرتی ھیں تاکہ نشانہ چوک نہ جاۓ اور وہ جلد سے جلد روزی روٹی کا وسیلہ ( نیا مویشی ) حاصل کر سکیں۔۔۔ کبھی چڑیا گھر جانا ھو تو غورکیجیۓ گا کہ ھمارے بچے بچیاں اور بہو بیٹیاں ھاتھی اور چمپینزی وغیرہ کے جسم کےکن حصوں کا ذیادہ دلچسبی اور ذوق و شوق سے مشاھدہ کر رھی ھوتی ھیں ۔۔۔ ھم چاھے جیسی سخت سے سخت پابندیاں لگا لیں لیکن ان کو ان کے اپنے ننگے جسم کے مشاہدے اوراپنے جنسی اعضاء سے چھیڑچھاڑ سے ہرگز ہرگز روک نھیں سکتے ۔۔۔ جسم کے فطری تقاضے اپنی تسکین کا سامان بحر صورت کر لیتے ھیں اور ھم تمام عمر اس خوش فہمی میں مبتلا رھتے ھیں کہ ھماری عورتوں جیسا ” شریف ” اور کوئ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک Anderson Shaw جیسے لوگوں کا تعلق ھے، بس اللہ ان پر رحم کرے ، یہ حقیقت ناآشنالوگ ھیں ۔۔۔ دیکھ لیجیۓ کا یہ اس تحریرکے جواب میں یہی کہیں گے کہ کیا عریانیت، فواحش اور بدکاری پر شدید غذاب کی وعید دینے والا قادر مطلق خدا جانوروں کا جسم ڈھانپنے پر قادر نہ تھا (نعوذبااللہ)۔۔۔اللہ انھیں ھدائت دے ۔۔۔ آمین۔۔۔

  4. the rights given to women in islam are not discussed anywhere in this column, however the main focus here is to degrade islam and the Almighty. If the writer is so intelligent, as he always shows to be, then why he has not put up a scientific theory or invented something, obviously this is not possible for him as it needs lots of hard work and intelligence, however degrading islam and Almighty comes handy to him, by copying stuff scatered all over the internet.

  5. عرب اللہ مکمل مرد ہے. معراج کے وقت محمد کے شانوں پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھے تھے..
    اور اللہ بذات خود ابوبکر کی آواز میں محمد سے مخاطب ہوا..
    خدیجہ کی آواز میں کیوں نہیں؟
    محمد نے معراج کے وقت نامور پیغمبروں کو تو دیکہا مگر کسی عورت کو کیوں نہیں؟ اور تو اور حوا کو بھی نہیں دیکہا…

  6. یہ بات بالکل درست ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر شخص کو حاصل ہے۔ لیکن ایسی آزادی جو خلجان میں مبتلا کرے یا شکوک و شبہات کو جنم لے اور سنجیدہ بحث کی بجائے اُوٹ پٹانگ خیالات ،استہزا اور مضحکہ خیزی پر مشتمل ہو ، سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات کی بالکل سمجھ نہیں آئی کہ اللہ تعالیٰ کے جنس کی تحقیق کیوں ضروری ہے کیا اس سے دنیا کے کسی مسئلے کا حل نکل آئے گا؟
    مضمون نگار کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسئلہ اللہ کے ’’جنس‘‘ کے تعین کا ہے اور ساتھ میں ایک برہنہ خاتون کی تصاویر لگائی جا رہی ہیں۔

جواب دیں

12 Comments
scroll to top