Close

برمنگھم میں اسلام ترک کرنے والوں کا اجتماع

برمنگھم کے علاقے موزلے میں گزشتہ ہفتے برمنگھم اور قریبی شہروں سے تعلق رکھنے والے سابقہ مسلمانوں (مبینہ مرتدین) کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 27 افراد شریک تھے۔ جن میں 9 خواتین بھی شامل تھیں۔ ذرائع کے مطابق شرکاء میں پاکستان نژاد، برطانوی شہری بھی شامل تھے جن میں پانچ پاکستان نژاد خواتین کے علاوہ 3 بھارت نژاد اور ایک بنگلہ دیش خاتون بھی موجود تھیں۔ موزلے ایکسچینج ریستوران میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں سابقہ مسلمانوں نے مسلمان گھرانوں میں پروان چڑھتے ہوئے اپنے تجربات، احساسات اور مذہب کے بنیادی (فنڈامینٹل) اصولوں کے بارے میں اپنے اختلافات، مسائل اور مشکلات پر اظہار خیالات کیا اور مرتدین کے اجلاس میں شریک ہونے والے نئے اراکین کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔

اجلاس میں شریک ایک خاتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں ایک پاکستان نژاد نوجوان نے بتایا کہ وہ سخت گیر مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا خاندان اسے ایک مذہبی عالم (مسلم سکالر) بنانا چاہتا تھا اس کے لئے اس نے (ایسٹ مڈلینڈ) کے ایک شہر میں واقع ایک دینی مدرسے میں چند برس تعلیم بھی حاصل کی۔ نوجوان جس کا نام عثمان بتایا گیا ہے اس نے کہا کہ عالم دین بننے کے لئے وہ جوں جوں اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کرتا رہا اس کے دل و دماغ میں یہ احساس پروان چڑھتا رہا کہ وہ آزادی فکر اور خودمختاری کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے سے محروم ہورہا ہے۔ نوجوان نے کہا کہ مجھے ایسے لگا جیسے میں دن بہ دن اپنے آپ سے بھی دور ہوتا جارہا ہوں اور جو کچھ دیکھ اور محسوس کر رہا ہوں اس کے بارے میں اپنی رائے اور اپنے فیصلے کا انحصار بھی اب اپنی بجائے دوسروں پر کر رہا ہوں۔ یہ بات میرے لئے نہایت تکلیف دہ اور ناقابل قبول تھی۔ عثمان نے کہا کہ گو دیگر کئی مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کچھ اچھی باتیں موجود ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اسلام میں فکر و خیال اور انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے سوالات کے جواب ایک ناممکن بات ہے اور یہی وجہ ہے کہ میرے دل میں اپنے مذہب سے آزاد ہونے اور ایک خودمختار سوچ کا حامل انسان بننے کا رجحان ایک ایسی شکل اختیار کر گیا جس سے آخر کار میں اپنی مذہبی شناخت اور مسلمان ہوکر رہنے کی بجائے ایک آزاد اور سچائی کے حصول کے لئے مکمل طور پر ایک خودمختار انسان رہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ عثمان نے کہا کہ میں خوش ہوں کہ ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہوں جہاں میں کسی بھی قسم کی پابندی، رکاوٹ اور حقوق کے بغیر آزادانہ طور پر بات کر رہا ہوں۔

اجلاس میں پہلی مرتبہ قریبی شہر سے شریک ہونے والے نوجوان محمد عاصم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر ہے اپنے آبائی وطن پاکستان اور خاص طور پر اپنے آبائی علاقے سے بے حد محبت کرتا ہے۔ عاصم نے کہا کہ میں نے گزشتہ دس برس میں یہ محسوس کیا ہے کہ مذہب اور اس میں موجود تضادات انسانی ترقی اور جدید ترقی یافتہ معاشرے کی ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ عاصم نے کہا کہ برطانیہ میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے میں خود ایک سخت گیر اور انتہا پسند نوجوان تھا اور مذہب کے بارے میں کوئی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا تھا۔ لیکن میرے خیال میں میرا طرز عمل درست نہ تھا اور ایسا طرز عمل رکھنے والے نہ صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں بلکہ اِرد گرد اپنے ہزاروں ہم مذہب لوگوں کو بھی اندھیروں اور مایوسیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ عاصم نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ میری طرح دیگر کئی لوگ بھی میرے ہم خیال ہیں اور میرے جیسے ہی تجربات سے گزر رہے ہیں۔

جرات تحقیق

سابق مسلموں کے اجلاس میں شریک ایک مسلم لڑکی نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی ایک بچپن کی سہیلی کو اس کے شوہر نے مار پیٹ کے بعد طلاق دے دی، جب معاملہ آگے بڑھا تو معلوم ہوا کہ اسلامی احکامات کے حساب سے اب دونوں میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوگیا ہے۔ اب اس خاندان کو دوبارہ جوڑنے کے لئے حلالہ ضروری ہے۔ جب مجھے حلالہ کے بارے میں علم ہوا تو میں نے اندازہ کیا کہ حلالہ ایک توہین آمیز اور قابل نفرت بات ہے جو کوئی بھی باشعور اور باعزت خاتون برداشت نہیں کرسکتی۔ ہم نے اپنی سہیلی کا حلالہ رکوانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس سلسلے میں ہم نے جس بھی مولوی صاحب سے بات کی انہوں نے یہی جواب دیا کہ حلالہ تو شریعہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ جب تک حلالہ نہیں ہوگا خاتون اپنے شوہر کے پاس نہیں جاسکتی۔ میں اور میری دیگر دو سہیلیوں نے بھی اس سلسلے میں اپنے طور پر جستجو اور تحقیق شروع کردی۔ ہمیں یہ جان کر دکھ ہوا کہ کچھ لوگ دبے لفظوں میں خود ’حلالہ‘ نکالنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور مذہبی تعلیمات کی آڑ میں ہماری سہیلی کو مجبور کر رہے ہیں۔ لڑکی نے کہا کہ کم از کم میرے علم کے مطابق ہمارے ہاں عورتوں کو لونڈی بنانے کا توہین آمیز تصور موجود ہے اور بعض مذہبی رہنماؤں کے نزدیک لونڈیوں (خواتین) سے جنسی تعلقات استوار کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی آزادی، احترام، حرمت اور عزت نفس کے مطابق انتہائی گھٹیا اور ظلم کے مترادف ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کے ہیومن رائٹس کی بھی توہین اور خلاف ورزی ہے۔

بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے کہا کہ کیا یہ بات موجودہ دور میں قابل قبول ہوسکتی ہے کہ مذہبی تعلیمات کے مطابق عورت کی گواہی اور ووٹ آدھے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا کے مہذب معاشروں میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں، جائیداد میں لڑکی اورلڑکا (بھائی اور بہن) دونوں کو آدھا آدھا حصہ ملتا ہے لیکن بنگلہ دیش میں اسلامی عائلی قوانین کے تحت خاتون کو تیسر احصہ دیا جاتا ہے اور شوہر کے مر جانے کے بعد خاتون خانہ جس کی تمام زندگی خاوند کی خدمت کرنے، بچے پیدا کرنے اور دن رات جانوروں کی طرح خدمت کرتے گزرتی ہے اسے صرف آٹھواں حصہ دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی طالبہ نے کہا کہ کیا یہ بات ظلم نہیں ہے۔ مذہبی رہنما ایک 14 سالہ لڑکی کا ایک 75 سال کے بوڑھے سے نکاح پڑھوا دیتے ہیں۔ مذہب نے انسان کو حق دینے کی بجائے تمام حقوق مجرموں، ظالموں اور طاقتوروں کو دے رکھے ہیں اور اگر حقیقت کو دیکھا جائے تو ہمارا مذہب عیاشیوں اور استحصال کرنے والوں کو قانونی اور مذہبی تحفظ مہیا کرتا ہے جو ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ا

جلاس میں لندن، برسٹل، بریڈفورڈ اور نیوکاسل سے آئے ہوئے ایران، ترکی اور مراکش سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی موجود تھے۔ اجلاس کے بارے میں نہ تو کوئی پیشگی خبر دی گئی اور نہ ہی اراکین کے علاوہ کسی کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ ذرائع کے مطابق سابقہ مسلمانوں کا باہمی رابطہ صرف سوشل میڈیا پر ہوتا ہے اور اراکین گروپ ای میلز پر ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے رکھتے ہیں۔ اراکین مذہبی گروپوں کی جانب سے دھمکیوں کے باعث اپنے پروگرام خفیہ طور پر یا اپنے گھروں میں رکھتے ہیں یا پھر کالجوں، یونیورسٹیوں اور صنعتی اداروں میں اپنے ذاتی تعلقات اور رابطوں سے اپنا پیغام آگے بڑھاتے ہیں۔

اس سلسلے میں برمنگھم میں علمائے کرام اور مسلم رہنماؤں نے سابقہ مسلمانوں کے مبینہ اجلاس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس صورت حال کو ایک چیلنج قرار دیا ہے۔ علمائے کرام نے کہا ہے کہ کیونکہ ہم ایک غیر اسلامی ملک میں رہتے ہیں اس لئے برطانیہ یا یورپ میں ہمیں ایسے لوگوں کومرتد قرار دے کر ان کی اسلامی سزاؤں پر زور نہیں دینا چاہئے۔ برمنگھم کے ایک مسلم رہنما نے ایک غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ میرے خیال میں مرتد کے بارے میں سزائے موت کے حکم پر اب نظرثانی ہونی چاہئے۔ لیکن برمنگھم کے معروف عالم دین اور مفتی نے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرتد کی سزائے موت ایک قرآنی حکم ہے اور قرآنی حکم سے انحراف یا ترمیم کرنے والا بھی ایک منکر اور مرتد ہی سمجھا جائے گا۔ علامہ سید ظفر اللہ شاہ نے اس سلسلے میں کہا کہ کیونکہ کہ مملکت برطانیہ ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کے نہ ماننے والوں کو بھی مذہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق اور تحفظ حاصل ہے اس لئے یہاں جذباتی یا غیر قانونی طریقے اختیار کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے بدنصیب لوگوں کو نظر انداز اور مسترد کیا جائے اور انہیں اہمیت دے کر بلاوجہ مقبول نہ بنایا جائے۔ اسلام کوئی کمزور یا چھوٹا دین نہیں ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو پوی دنیا میں دن بدن پھیل رہا ہے اور اللہ کے فضل سے مسلمانوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں تین ہزار کے قریب مسلمانوں نے اپنا مذہب ترک کر دیا ہے۔ ان میں اکثریت ایسی ہے جومذہب تو چھوڑ چکی ہے مگر اس نے کسی دوسرے مذہب کو بھی قبول نہیں کیا۔ ان میں زیادہ تر افراد انتہائی پڑھے لکھے ہیں۔ تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یورپ اور مغربی دنیا میں لوگوں کی بھاری تعداد مسلمان ہورہی ہے اور اس وقت اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔ مسلمان ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر چند افراد دماغی خلل کی وجہ سے اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں تو اس سے اسلام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہورہے ہیں۔

(بشکریہ: جنگ 11 مئی 2013)

5 Comments

  1. افسوس ہے کہ آج کا so called پڑھا لکھا انسان اتنا کندذہن کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے جو تھوڑے سے واقیات پڑھے ہیں ان میں تو مجھے مذہب پر نہیں بلکے لوگوں کو مذہب سمجھنے پر اعتراض ہو رہا ہے جس میں سافٹ وئیر انجینٗر صاحب اور وہ لڑکی حلالہ والی جو بات بتاتی ہے، دونوں ہی بے توکے اعتراض ہیں، سافٹ وئیر انجینیر صاحب کا یہ کہنا کہ ترقی مذہب کو چھوڑے بنا حاصل نہیں کی جا سکتی تو اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا۔ آج کتنے سائینس دان بے دین ہیں اور کتنے دیندار ہیں اگر یہی موازنہ کر لیا جائے تو موصوف کی آنکھیں کھل جائیں گی، اور اسلام نے کب تعلیم حاصل کرنے سے روکا ہے بلکہ اس نےتو تعلیم فرض قرار دی ہے، یہ تو آج کا مسلمان ہے جو غافل ہے، اور قرآن نےتو بار بار زمین ، آسمان اور رات ، دن اور چاند اور سورج پر فکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیوں کا ذکر بھی کیا ہے، کہ اگر خدا کو دیکھنا ہے تو ان پر تحقیق کرو، معلوم نہیں کون سا مذہب ہے جو ان کو ترقی کرنے سے روکتا ہے، ہاں اگر فحاشی ترقی کرنے کا نام ہے تو ایسی ترقی سے خدا اس زمین کو محفوظ ہی رکھے،
    اور دوسری بات جو حلالے والی ہے یہ مولوی کی کم علمی ہے اس مولوی کے گناہوں کی سزا کس کو دی جا رہی ہے، سمجھ نہیں آتی، ہر فرقہ میں حلالہ یا طلاق کا مسٗلہ ایک جیسا نہیں ہے، طلاق غصے میں آ کر کچھ کہ دینے سے نہیں ہوتی اس کی ایک عدت ہوتی ہے اگر اس میں رجوع نہ ہو تو طلاق ہوتی ہے، اور اگر طلاق ہو جائے تو حلالہ کسی معاہدے کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کی شادی اگر کسی اور سے ہو رہی ہےتو وہ پرماننٹ شادی ہونی چاہئے نہ کہ پلانینگ سے، اور حلالہ اتفاقیہ ہوتا ہے نہ کہ پلاننگ سے، اگر دوسری شادی میں بھی اتفاقاٗ طلاق ہو جائے تو دوبارہ شادی پہلے جوڑے کی ہو سکتی ہے، لیکن نہ طلاق غصے میں ہوتی ہے نہ حلالہ پلاننگ سے ہوتا ہے، جب کسی مرد یا عورت کو چھ ماہ تک ایک دوسرے کی یاد نہیں آئی تو پھر دوبار ملنے کی اتنی کیا اہمیت ہے کہ حلالے کرواٗے جائیں؟

  2. واہ جی واہ بہت بڑا مجمع تھا 27 افراد کا لکھ دی لعنت
    دوسرایہ جو اپنے آپکو علامہ کہلواتا ہے ایاز نظامی اس سے میں کہنا چاہتا ہوں جب بندہ زیادہ بڑھ جائے یا اپنی عقل ہی کو سب کچھ سمجھنا شروع کردے تو پھر اسے گمراہ ہونے سےکوئی نہیں روک سکتا جیسے کے تم گمراہ ہوچکے ہو

جواب دیں

5 Comments
scroll to top