Close

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

 

قدیم عقلی علوم میں انسان کی تعریف حیوان ناطق کے الفاظ کے ساتھ کی جاتی ہے، کیونکہ وصف حیوانیت میں انسان دیگر تمام حیوانات کے ساتھ شریک ہے، مگر جو وصف انسان کو دیگر حیوانات سے ممتاز کرتا ہے وہ  نطق ہے۔نطق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم بولنا ہے۔ اور انسان اپنے مافی الضمیر کا اظہار الفاظ کےسانچے میں ڈھال کر کرتا ہے۔ اسلئے اساس تو مافی الضمیر ہے اور  نطق اس مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے   کا ایک ذریعہ ہے۔

اس تمہید کا مقصد انسانی حیات میں نطق کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہےکہ اس کرّہٴ ارض پر دیگر مخلوقات کے ہجوم میں نوع انسانی کا تعارف ہی اس کا وصفِ نطق ہے۔ گویا  ہر انسان اس دنیامیں بولنے اور اظہار رائے کا بنیادی حق  لے کر پیدا ہوتا ہے۔ انسانی زندگی میں بولنے اور اظہار رائے کی اس قدر اہمیت کے باوجود ہم  تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے اس پیدائشی حق کے حصول کیلئے انتہائی تگ و دو اور مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ استحصالی قوتوں نے آزادئ اظہار رائے کو اپنے اقتدار کے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس کی بیخ کنی ہے، اوراپنے استحصال کو دوام دینے کیلئے، انسانی شعور کی ترقی کی راہ میں ہر ممکنہ رکاوٹ کھڑی کرکے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بنی نوع انسانی کے اجتماعی مفاد کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا۔

آزادئ اظہار رائے کے راستے میں آنے والی ان تمام تر پابندیوں اور مشکلات کے باوجود کوئی نہ کوئی جویائے حق گاہے بگاہے  علم بغاوت بلند کرتا رہا، اور اپنے سچ کے اظہار کیلئے ان تمام تر پابندیوں کو چیلنج کرتے ہوئےاپنے اس حق سے دستبردار ہونے سے انکار کرتا رہا۔ آج جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں تاریخ کے سنہرے اوراق پر افلاطون،  ابن رشد،گیلیلیو، مارٹن لوتھر،جیسے عظیم درخشاں ستارےتو جھلملاتے نظر آتےہیں مگران استحصالی طاقتوں کا ذکر صرف اسلئے تاریخ کا حصہ ہے کہ تاریخ کے ان تاریک کرداروں نے ان روشن ستاروں کے چہروں پر چمکنے والی روشنی کو نوچنا چاہا تھا۔ بہرحال آزادی کے متوالوں اور جابروں کے درمیان یہ رسہ کشی ہنوز جاری ہے اور جدید تہذیب کے اس دور میں بھی اس کشمکش کا خاتمہ نہیں ہو سکا، جبر اور پابندی کا نقش کہن اپنی بقاءکیلئے ابھی تک کوشاں ہے حالانکہ وہ اپنا وجود کا منطقی جواز کھو بیٹھا ہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اور پروہت ﴿مولوی ، پنڈت، پادری، ربی﴾ کا ہمیشہ گٹھ جوڑ رہا ہے، اور پروہت نے حصولِ حق کے لئے اٹھنے والی ہر آوازکو دبانے کی خاطر شاہ کا ساتھ دیا۔  پروہت نے شاہ کے خلاف عموماً اسی وقت آواز بلند کرنے کی ہمت کی جب خود پروہت کا مفاد خطرہ کے شکار ہوا۔مذہبی رہنماؤں نے بسا اوقات خود بھی آزادئ اظہار رائے کی پابندیوں کا سامنا کیا، اور پابندی لگانے والوں پر شدید نقطہ چینی بھی کی، لیکن حیرت انگیز طور پر جب انہی مذہبی پیشواؤں یا ان کے متبعین کو اقتدار اور غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے بھی آزادئ اظہار رائے پر پابندیاں عائد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ان مذہبی پیشواؤں کا یہ رویہ انتہائی ناقابل فہم ہے کہ اپنے مفاد و مقصد کیلئے جب ان کی آزادی پر پابندی لگے تو یہ احتجاجی رویہ اختیار کرتے ہیں، مگر جب یہ خوداقتدار پا کر اس قسم کی پابندیاں عائد کرتے ہیں تو انہیں اپنی بقاء اسی جبر اور پابندی میں مضمر نظر آتی ہے۔حالانکہ اگر اظہار رائے کی راہ میں عائد تمام رکاوٹوں کا خاتمہ کرکے اسے آزا د اور حوصلہ افزا ماحول میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جائے تو انسانی شعور کے ارتقاء کی رفتار اپنی قدرتی گنجائش کے مطابق ترقی پذیر ہوسکتی ہے۔

آزائ اظہاررائے کے حوالے سے جب ہم مذہب کا رویّہ دیکھتے ہیں تو انتہائی حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ایک طرف تو مذہب کا یہ دعویٰ ہے کہ مذہب خدا کی جانب سے انسانی رہنمائی کا ذریعہ ہے، اور یہ رہنمائی خدا کی وضع کردہ ہے اور دوسری جانب مذہب ہی آزادئ اظہار رائے سے سب سے زیادہ خوف زدہ بھی نظر آتا ہے۔یقیناً یہ خوف کسی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے ورنہ جب ایک مذہبی نظریہ خدا کی جانب سے پیش کردہ ہے تو یقیناً  اسے کسی بھی طور پر ردّ کرنا آسان نہیں ہونا چاہئے، اور جب رد کرنا ایک مشکل امر ہو تو اٹھنے والے سوالات پر پریشانی بھی لاحق نہیں ہونی چاہئے اور نہ کوئی خوف لاحق ہونا چاہئے۔  جو نظریہ جس قدر قطعیت کے ساتھ اپنے حق اور سچ ہونے کا دعویٰ کرے گا اسے اسی قدر تنقید کی سخت کسوٹی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔آزمائش کی اس بھٹی میں سے گذرنے سے کندن ہونے کی صلاحیت رکھنے والے نظریہ کو کیوں انکار ہو سکتا ہے؟۔ اس آزمائش سے یقینی طور پر وہی گھبرائے گا جسے اپنے کھوٹے ہونے کا یقین یا شک ہوگا۔اگر میں کوئی نظریہ پیش کروں اور مجھے اسکی صحت پر کامل یقین ہو تو مجھے تشکیکی سوالات پر کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔مجھے پریشانی صرف اسی وقت ہی لاحق ہو سکتی ہے جب مجھے اپنا نظریہ کا وجود خطرے میں نظر آئے اور میں دیانت داری کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے حقانیت اور سچائی کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے نظریہ کے بچاؤ کی تگ و دو میں لگ جاؤں،اور ہر وہ سوال جس سے میرے بیان کردہ نظریہ کو خطرہ لاحق ہو دبانے کی کوشش کروں ۔ میں تو ایک انسان ہوں جس کے نظریہ میں خطا اور صواب کے امکانات برابر ہیں ۔ مگر مذہب کو کیا پریشانی لاحق ہے کہ اسکی پشت پناہی پر تو خود خدا موجود ہے جب انسان کو پیدا کرنے کا دعویٰ کرنے والی ذات انسان کے جذبہٴ تشکیک کو مطمئن نہیں کرسکتی تو یہ صورت حال خود تخلیق انسان کی دعوے دار ذات کے وجود کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔

طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایک طرف مذہب یہ وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان اور دنیا کا وجود کس طرح ظہور پذیر ہوا، اور ان کی تخلیق کا مقصد و منشاٴ کیا ہے۔ اور دوسری جانب جب مذہب کی بیان کردہ وضاحتوں کا انسان اپنے علم اور تجربہ کی روشنی میں مطالعہ کرتا ہے اور اس ضمن میں ان وضاحتوں پر جو سوالات اٹھتے ہیں مذہب ان کی حوصلہ شکنی کرتا نظر آتا ہے، اور انسانی جذبہٴ تشکیک کو مطمئن کرنے میں نہ صرف ناکام رہتا ہے بلکہ اس جذبہ کو سرد کرنے کیلئے نامعقول پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جن پابندیوں کو انسانی فطرت ہمیشہ سے رد کرتی نظر آتی ہے۔

انسانی شعور و ادراک آزادئ اظہار رائے کی قدر و قیمت جان چکا ہے، پابندیوں کا دور اب لَد چکا ہے،بجھتے ہوئے چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی لَو کی مانند اربابِ جبر آخری سانس لے رہیں ہیں۔ اب اس نئی اور بدلتی ہوئی دنیا میں اپنا کوئی مقام اور کردار متعین کرنا ہے تو وقت کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا، اور اقوام عالم میں عزت و سرفرازی کے جینے کی تمنا ہے تو نئے عہد کے پیمانوں کو اپنانا ہوگا۔

13 Comments

  1. Dear Ayaz Nizami Sb, Again first of all sorry for writing in English, and the reason is because I don’t know how to type in Urdu, or u can say I am not good in Urdu typing,
    Anyway I have read few articles on these pages, and the above one is really one of the excellent no doubt about it.
    But I have only few questions regarding this article specially regarding Islam although you did not mention any religion so article is open and no one can say that you addressed / attack the Islam.
    Did Islam really restrict the follower not to ask the question, if yes how and where,
    Because I do agree with you with the character of "Mulla” in our society.
    So finally the question is only one that where Quran says about this,
    Regards
    Majid Janjua

    1. محترمی ماجد جنجوعہ صاحب!
      قرآن کہ یہ دو آیات ملاحظہ فرمائیں:
      (1) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ (سورۃ المائدۃ آیت 101
      ترجمہ: اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں
      (2) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ (سورۃ الاسراء آیت 36)
      ترجمہ: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں۔
      ان دونوں آیات سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ قرآن میں "سوال” کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ احادیث کی تو ایک لمبی چوڑی لسٹ ہے جس میں سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
      اس کے علاوہ قرآن اختلاف رائے کی صورت میں مخالفین سے کیسے خطاب کرتا ہے ایک نمونہ پیش کردیتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ مصنف قرآن اخلاقیات کے کس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں:
      وَلَوْ شِئْنَا لَرَ‌فَعْنَاهُ بِهَا وَلَـٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْ‌ضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُ‌كْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿الاعراف: ١٧٦﴾
      اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں سے اس (کے درجے) کو بلند کر دیتے مگر وہ تو پستی کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا۔ تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یونہی چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ان سے یہ قصہ بیان کردو۔ تاکہ وہ فکر کریں ۔

    1. حضرت ڈاکٹر افضل صاحب!
      آداب عرض ہے۔
      ذرہ نوازی کا بے حد مشکور ہوں، صرف آپ نے ہی نہیں میں نے بھی آپ کو پہچان لیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے مذہب پر میرے جو اعتراضات ہیں ان کے جواب کی شکل میں آپ کی جانب سے دلائل کی آمد ہوتی ہے یا کسی گولی اور خودکش حملے کی۔
      حسن اتفاق دیکھئے کہ آپ نے تبصرہ بھی فرمایا تو میری کس پوسٹ پر 😀

  2. ayaz sahab quran ki jo ayaat apne pesh ki hein wo sawal uthane walo par nai hein blke jhutlane walo par hein aur jis chez ka apko ilm nai he uskeliye mat pocho matlab khuda ki zaat jiske bare me sawal karne se kiya jawab hosakhta he ilawa iske ki wo alim e gaib me hein jisko duniya me reh kar ap nai samjh sakhte ..to uske bare me sawal pochna ki wo kesa he kahan hein .kiya manye rakhta he ?

    1. محترمی ماجد رضا صاحب!
      جو آیات میں نے پیش کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں تو مومنین سے ہی خطاب ہے، اس لئے اس آیت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ جھٹلانے والوں کیلئے ہے، درست نہ ہوگا۔ دوسری آیت میں خطاب عام ہے، مومن و غیر مومن کیلئے، کیوں کہ آیت میں جب کوئی تخصیص موجود نہیں ہے تو اسلامی فقہ کا ہی قاعدہ ہے کہ "المطلق یطلق علی اطلاقہ” یعنی جو چیز مطلق ہو اسے مطلق ہی رکھا جائے گا، اگر آپ اس کو جھٹلانے والوں کیلئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں تو اس تخصیص کیلئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہونی چاہئے۔ اگر دلیل ہے تو سامنے لائیے ورنہ آپ کی تخصیص کو خود مسلمان علماء تفسیر بالرائے قرار دے کر رد کر دیں گے۔

  3. مثال کے طور پر
    يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
    اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے
    [arabic]الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ [/arabic] وہ ذات جس نے تم کو بنایا ایک زندہ اکائی سے ۔۔۔ ۔۔ ؟؟؟
    یہ زندہ اکائی کیا ایک سنگل سیل تھا؟‌ یا ایک مکمل انسان تھا؟ کیا ایک زندہ اکائی یعنی سنگل سیل کا ارتقا ہوتا رہا اور وہ سنگل سیل سے بڑھ کر کئی سیل والا ایک مکمل انسان سے پچھلا ماڈل بن گیا؟ اور پھر اس سے انسان بنایا گیا؟

    ]وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَااور اس سے (‌سنگل سیل سے یا واحد آدمی سے ؟)‌ تمہارا جوڑا بنایا – کیا جب ایک سیل تقسیم ہوتا ہے تو وہ نر و مادہ کا ایک جوڑا ہوتا ہے؟

    [وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً : اور ان (دونوں) سے پھیلائے بہت سارے مرد (مذکر) اور عورت (مؤنث) –

    کوئی جینئیات کا طالب علم اس پر روشنی ڈالے گا کہ آیا کہ یہ جملہ تکنیکی طور پر درست ہے؟

    کیا یہ دعوی کرنے والا سچ مچ یہ جانتا ہے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ جانتا بھی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ درست رہے؟ یا ایہ صرف ایک اتفاق ہے؟
    یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے لاؤڈ اسپیکر حرام تھا بعد میں اسکی افادیت کے مدنظر اسی کو اذان کیلئے استعمال کیا جانے لگا ۔

جواب دیں

13 Comments
scroll to top