Close

دہریت اور خدا، پھر کیا؟

ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ صرف خدا کی نفی کافی نہیں، کیونکہ اگر تم نے مجھے اس کا کوئی متبادل نہیں دیا تو میں کسی نہ کسی شکل میں اسے دوبارہ تخلیق کر لوں گا کیونکہ مجھے اس کے وجود کی عادت ہوگئی ہے… چنانچہ بعد از خدا کے مرحلے پر کچھ غور وخوض ضروری ہوگیا ہے، میں اپنا نقطہ نظر تین نکات میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

1- فلسفیانہ طور پر۔

خدا کی نفی انسانیت کے لیے بہت معنی رکھتی ہے، کیونکہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کے تمام تر کارنامے چاہے وہ اخلاقی ہوں یا علمی بشمول جرائم اور جنگیں ہمارے اپنے ہاتھ کی کارستانیاں ہیں اور اس میں کسی کی مداخلت یا مشیت نہیں تھی، اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اپنے اور معاشرے کے تئیں انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، نا ہی کوئی ذریت ہے اور نا ہی کوئی شریعت اور نا ہی کوئی دوسری ایسی کوئی چیز ہے جس کے کاندھوں پر اسباب کی ساری ذمہ داری ڈال کر خود کو بری الذمہ کیا جاسکے اور اپنے کردہ گناہ اس کے سر منڈھ دیے جائیں۔۔ ذرا تصور کیجیے کہ مذاہب کی بجائے اگر صنعتی انقلاب دس ہزار سال پہلے آجاتا تو اب ہم کہاں ہوتے؟ مگر افسوس انسانیت نے وہ قیمتی سال حقیقت کی تلاش کی بجائے خدا نامی اس وہم کی تلاش میں ضائع کر دیے کیونکہ انسان فطرت کی قوتوں سے خائف تھا، موقع پرستوں نے اس ڈر کا فائدہ اٹھایا اور انسان پر نام نہاد وصیتیں اور شریعتیں تھوپ دیں اور ہر مخالف آواز کو کچل کر انسان کو غلام بنایا اور انسانیت کا چہرہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا، چنانچہ تمام تر معاشرتی اور ثقافتی موروثات پر نظرِ ثانی ہمارا فرضِ منصبی ہے تاکہ ہم ان موروثات کو جدید انسانی معیارات کے مطابق ڈھال کر انہیں اکیسویں صدی سے ہم آہنگ کر سکیں۔

2- عملی طور پر۔

نیند میں غرقاب خدا اور اس کے حواریوں نے زمین پر زندگی کو درپیش خطرات کے حوالے سے کوئی حقیقی حل پیش نہیں کیے جیسے جراثیم کا ارتقاء جس کی وجہ سے بیشتر پر اب دوائیں بے اثر ہوچکی ہیں اور گلوبل وارمنگ وغیرہ.. اور چونکہ زمین پر صرف ہم ہی ایک عاقل جاندار ہیں چنانچہ ساری ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر آ پڑتی ہے، ہمیں ان معاملات کو لے کر زیادہ ذمہ دار اور سنجیدہ ہونا ہوگا خاص کر جن مسائل کا تعلق زمین پر حیات کے بقاء سے ہے، ہمیں مظاہر اور چیزوں کے کام کے میکینزم کو سمجھ کر خود ہی حل نکالنے ہوں گے لیکن ان میں بھوت اور خرافات ٹھونسے بغیر تاکہ ہم درست راہ سے بھٹک نہ جائیں، تاریخ روز ثابت کرتی ہے کہ جب انسان نے توہمات اور خرافات کو ترک کر کے صحیح معنوں میں سنجیدہ ہوکر حقیقت کی تلاش شروع کی تو وہ اسے علم میں ملی کہنوت میں نہیں، بادلوں کی سیر کے قابل ہم ایسے ہی نہیں ہوئے، صرف علم ہی ہمارے لیے فطرت کی قوتوں کو مسخر کر سکتا ہے۔

3- وجودی طور پر۔

یہ حقیقت چاہے کسی کو کتنی ہی کڑوی کیوں نہ لگے مگر یہ سچ ہے کہ انسان ایک ادنی اصل سے آیا ہے، اس سے ہمیں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کے درمیان تفریق کرنے والی کوئی شئے نہیں ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں نا تقوے سے نا کسی اور چیز سے، سب برابر ہیں، نا ہی کوئی چنندہ قوم ہے اور نا ہی کوئی بہترین امت، بہتری کا انحصار اس بات پر ہے کہ کوئی قوم تہذیبِ انسانی کو کتنا کچھ دے سکتی ہے، ہم انسان زمین پر زندگی کے سلسلے کی صرف ایک کڑی ہیں، لہذا ہمیں اپںے غرور کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور یہ خام خیالی ترک کرنی ہوگی کہ ہم مرکزِ کائنات ہیں، اگر ہم اپنی بقاء کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے میں ناکام رہے تو اسی طرح ناپید ہوجائیں گے جس طرح ہمارے اجداد ڈائیناسار اور دیگر کروڑوں انواع ناپید ہوگئے تھے، کچھ اگر بچے گا تو صرف ہماری ہڈیوں کے ڈھانچے… اور یقین مانیے کسی مؤمن اور کافر کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں۔

زندگی ایک بہترین موقع ہے جو شاید اس سیارے پر پھر کبھی نہ دہرائی جائے لہذا اسے توہمات کے پیچھے بھاگ کر ضائع نہ کیجیے، ہمیں خود کو زندگی کے قابل بنانا ہوگا اس پر بوجھ نہیں، ہمیں عورت، ترقی اور جدیدیت کے خوف سے باہر آنا ہوگا اور توہم پرستی سے خود کو آزاد کرنا ہوگا خاص کر مقدس وہم، اور یہ سب عبادتوں سے نہیں بلکہ علم، تحقیق اور سنجیدہ کوششوں سے ہی ممکن ہوگا۔

3 Comments

    1. انسان کو سائنس کی بنیاد پر ترقی کرتے ہوئے ابھی محض کوئی ڈیڑھ سو سال ہی ہوئے ہیں، اتنے عرصے میں آپ دیکھیں کہ انسانی صحت کیلئے کس قدر کارنامے سر انجام دیئے جا چکے ہیں، انسانی اوسط زندگی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے، انتہائی مہلک بیماریوں کی ویکسینز اور علاج تلاش کر لئے گئے ہیں، مذہب صدیوں سے انسانی زندگی پر مسلط رہا ہے لیکن انسانیت کیلئے اس نے کیا کیا ؟
      اس صدی کی اہم ترین سائنسی اور حیاتیاتی پیش رفت انسانی ڈی این اے کو کافی حد تک ڈی کوڈ کرلئے جانے کی صورت میں ہوئی ہے، جس کا لازمی فرق موت کے حل کی صورت میں نکلے گا، شائد ہم وہ دن نہ دیکھ سکیں، لیکن ہماری آئندہ آنے والی نسلیں ضرور وہ دن دیکھیں گی جب موت کو بھی موت آ جائے گی۔

جواب دیں

3 Comments
scroll to top