Close

مجہول خدا

لوگ ایک خدا کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں..

کہتے ہیں کہ یہ خدا کی مشیت تھی، ما شاء اللہ وسبحان اللہ اور اللہ کا شکر ہے وغیرہ…

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا کو کسی نے نہیں دیکھا مگر لوگوں نے اسے عقل سے پہچان لیا تو کیا واقعی لوگوں نے اسے جان لیا جیسا کہ دعوی کیا جاتا ہے؟

میرا خیال ہے اگر ہم سڑک پر چلتے کسی عام آدمی یا – کسی مذہب کے – مولوی سے خدا کی ماہیت کے بارے میں پوچھیں تو وہ جواب نہیں دے پائے گا، خدا ایک غیر واضح پُر اسرار مفہوم ہے مگر چونکہ مولویوں کی ضد ہے کہ خدا نامی وہ چیز موجود ہے اور وہی تمام واقعات کا ذمہ دار ہے اور اس نے ہم پر بڑے احسان کیے ہیں اور وہ ہمیں موت کے بعد پھر سے زندہ کرے گا.. لہذا ہم پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ ہم خدا کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ اس کے وجود کی تصدیق ہوسکے اور پھر یہ دیکھا جائے کہ آیا وہ ہماری عبادت یا پھر عزت ہی کا حق دار ہے یا نہیں…

خدا  ہے کیا؟

کہتے ہیں کہ خدا انسان کی موجودگی سے بھی بہت پہلے موجود تھا…

مگر کتنا پہلے؟

وہ زندہ کیسے ہوا یا وجود میں کیسے آیا؟ کب اور کیوں؟

اور پھر اگر خدا زندہ ہے (یا زندہ تھا!) تو کیا وہ آکسیجن سے سانس لیتا ہے یا کوئی اور گیس استعمال کرتا ہے؟

کیا خدا کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے؟ یا وہ ان چیزوں سے بے باک ہے؟

اور اگر وہ زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے تو اسے زندہ کیونکر سمجھا جاتا ہے؟

پتھر کو سانس لینے کے لیے ہوا اور پینے کے لیے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی، تو کیا خدا اسی کی طرح زندہ ہے؟

پتھر زندگی کی ضروریات سے بے باک ہوتا ہے کیونکہ وہ زندہ نہیں ہوتا تو کیا خدا پتھر سے مختلف ہے؟

میرے خیال سے کوئی بھی انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ کس طرح خدا زندہ بھی ہے اور بیک وقت زندگی کی ضروریات سے بے باک بھی، یہ ایک کھلا تضاد ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ خدا تصور سے پرے ہے تو اس طرح ہم ایک طرح سے اسے سمجھنے اور اس کی تعریف کرنے سے اپنی عاجزی کا اعلان کردیتے ہیں.. کیا اس طرح مومن ایک سوالیہ نشان کی عبادت تو نہیں کر رہے؟

خدا زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے مگر وہ زندہ ہے.. کیا یہ منطق ہے؟

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدا موجود ہے تو کیا یہ وجود خلاء میں جگہ گھیرتا ہے؟

یہ بھی فرمایا جاتا ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اگرچہ اس کا مطلب ہے کہ وہ غیر محدود ہے چنانچہ خلاء میں جگہ نہیں گھیرتا تو پھر کس طرح موجود ہوسکتا ہے؟

پھر فرمایا جاتا ہے کہ خدا غیر مادی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجازی ہے یا کوئی خیال ہے یا پھر کوئی تصوراتی قدر ہے؟

خدا موجود ہے مگر خلاء میں جگہ نہیں گھیرتا اور غیر مادی بھی ہے.. کیا یہ منطق ہے؟

چلیے خدا کو "س” کی علامت سے تعبیر کرتے ہیں…

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ "س” زندہ ہے مگر زندگی کی ضروریات سے بے باک ہے؟

یقیناً نہیں.. یہ نا ممکن ہے.. ہے نا…

ہم نے خدا کی بجائے "س” کا ہی تو استعمال کیا ہے.. تبدیل کیا ہوا؟

خدا ایک رائج لفظ ہے جسے ہر زبان بولتی ہے مگر اس کا کوئی متعین مطلب نہیں ہے کیونکہ اس سے مراد کوئی چیز اور اس کا متضاد لیا جاتا ہے: زندہ ہے مگر زندگی کے جانے پہچانے مفہوم سے عاری، موجود ہے مگر اس طرح نہیں جس طرح ہم وجود کو سمجھتے ہیں، عقل خدا سے متعارف کراتی ہے مگر اسے سمجھتی نہیں!!!!

خدا آخر ہے کیا؟

کہتے ہیں کہ خالق ہی دراصل خدا ہے جیسے یہ تعریف ہو…

یعنی اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مثال کے طور پر خالق طبعی قوانین یا تجاذب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خالق ایک اندھی قوت ہے، اور اگر ہم فرض کر لیں کہ خالق یونانیوں کا خدا زیوس ہے تو وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کا کوئی آغاز موجود ہے اور کلی یا جزوی طور پر عیسائیت یا اسلام کے خدا سے مختلف ہے.

یعنی تخلیق کا عمل خالق کی نیچر کا پتہ نہیں دیتا…

بلکہ وجود کے لیے تخلیق کا حتمی ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ ایسے علمی نظریات موجود ہیں جن کا اپنا وزن ہے اور جو کہتے ہیں کہ انسان سادہ جانداروں کی ترقی یافتہ شکل ہے چنانچہ وجود تخلیق کو حتمی نہیں بناتا اور تخلیق خدا کو حتمی نہیں بناتی اور خدا لازمی نہیں ہے کہ ان دستیاب مذاہب میں سے کسی ایک مخصوص مذہب کی ملکیت ہو.

تو پھر خدا کیا ہے؟ میں اس لفظ کا معنی سمجھنے سے قاصر ہوں…

جب مومن کہتے ہیں کہ "س” موجود ہے تو اس سے وہ اس طرح کا وجود مراد نہیں لیتے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں اور جب وہ کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہے تو اس سے ان کی مراد ہماری جانی پہچانی زندگی نہیں ہوتی اور جب وہ کہتے ہیں کہ وہ خالق ہے تو اسی پر ہی اکتفاء کرتے ہیں گویا یہ لفظ اس کی نیچر پر دلالت کرتا ہے.

مجھ سے اور ہر انسان سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہم "س” کی عبادت کریں یہ جانے بغیر کہ "س” دراصل ہے کیا؟

"س” طاقتور ہے، جبار ہے ماکر ہے وغیرہ وغیرہ…

کیا وہ لومڑ ہے؟ یا بھیڑیا ہے؟ یا پھر سانپ ہے؟

اسلام میں اللہ کے نام ثانوی صفات کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ کی ذات کی تعبیر نہیں ہیں اور کسی بھی جاندار پر منطبق کیے جاسکتے ہیں… انسان طاقتور ہے، رحیم ہے جبار ہے علیم ہے…

لومڑ مکار ہے.. بھیڑیا نقصان دہ (ضار) ہے اور شہد کی مکھیان نفع بخش (نافع) ہیں…

تو کیا خدا کی محض ثانوی صفات کے ذکر سے اس کی جوہری صفات کے ادراک اور انہیں سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی؟

مومنین تو بس خدا کی ثانوی صفات سے ہی عشق لڑائے بیٹھے ہیں..

رحمن ورحیم کی پرستش کرتے ہیں خود سے یہ سوال کیے بغیر کہ وہ ہے کون یہ جو رحم کرتا ہے؟

یہ خدا کون ہے؟

وجود میں کیسے آیا؟ وہ منفرد کیوں ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟

میرے خیال سے جو ان سوالوں کے براہ راست جواب دینے کی کوشش کرے گا وہ بالآخر سارے معاملے سے ہی انکاری ہوجائے گا اور "س” کو ایک ایسا وہم قرار دے گا جس کی مارکیٹنگ صرف مذاہب نامی کمپنیوں میں ہی ہوتی ہے.

19 Comments

  1. کسی وجہ سے پہلے بھیجا گیا تبصرہ مکمل شائع نہیں ہو پایا، ممکنہ طور پر میرے کنکشن کی خرابی کی وجہ سے… ایک دفعہ پھر کوشش کرتے ہیں…

    درست ہے کہ اللہ کے وجود کو فی الحال عقلی لحاظ سے ثابت کرنا ممکن نہیں، لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ دنیا، کائنات اور ہم خود دراصل وجود ہی نہیں رکھتے اور یہ سب وہم ہے تو ہم خود اپنے وجود کو کیسے ثابت کر سکیں گے؟

    سائنسدانوں کا کہنا (مفروضہ) ہے کہ یہ کائنات ایک عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ سے وجود میں‌آئی جس کے ساتھ ہی زمان و مکان کا آغاز ہوا. اس سے پہلے سب کچھ ایک سنگولیرٹی یعنی اکائی کی صورت میں‌تھا. اب اگر پوچھا جائے کہ اگر بگ بینگ سے زمان و مکان کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے یہ اکائی کہاں پر تھی؟ موجود چیز کو کوئی مکاں تو چاہئے نا… اور ساتھ میں‌دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بگ بینگ ہوا "کب”. اگر وقت کا آغاز بگ بینگ سے ہوا تو پھر سنگولیرٹی سے بگ بینگ کیسے ہوا؟ جبکہ اس وقت ٹائم تو تھا ہی نہیں، پھر ایک حالت سے دوسری حالت میں سفر کیسے ہوا.
    اس طرح نہ تو ہم "س” کو ثابت کر سکے، نہ ہی خدا کو اور نہ خود اپنے ہونے کو… معاملہ ٹھپ؟

    سائنس اگر کوئی چیز فرض کرے اور اس کو بنیاد بنا کر مزید ریسرچ کرے تو عقلمند اور اگر یہی کام بےچارہ مولوی یا مذہب پسند آدمی کر لے تو معتوب…

    میرے خیال میں ہمیں اپنے علم کی کمی کی وجہ سے کچھ چیزوں کو فرض کرنا پڑتا ہے، اور انہیں‌ درست مان کر ان پر اپنے علم کی بنیاد رکھنا پڑتی ہے، ایک بچہ اگر پہلے دن ہی اپنے معلم کہ کہے کہ "الف الف کیوں ہے اور الف ہے کیا اور یہ ب کیوں نہیں” تو پھر اس نے خاک علم سیکھنا ہے؟

    (پہلے دونوں تبصرے کسی وجہ سے پورے پوسٹ نہ ہو سکے، براہ مہربانی انہیں‌ حذف کر دیجئے گا).

    1. سائنسدانوں کا کہنا (مفروضہ) ہے کہ یہ کائنات ایک عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ سے وجود میں‌آئی

      راحت حسین صاحب جب حقائق کو جھٹلاکر کوئی اپنا استدلال قائم کرے تو بندہ اس کے ساتھ کیا بحث کرے؟

  2. مقصد بحث کرنا یا "خاموش کرانا” ہر گز نہیں، نہ ہی میرا علمی لیول آپ سے کسی لمبی بحث کا متحمل ہو سکتا ہے.
    موضوع پڑھ کر اپنے محدود علم کی مناسبت سے کچھ سوالات اور آرگیومنٹس ذہن میں‌اٹھے تھے تو یہاں پوسٹ کر دئیے، اس امید پر کہ سوچ مزید وسیع ہوگی اور کچھ نیا جاننے کو ملے گا. اگر کسی حقیقت کو جھٹلایا گیا ہے تو براہ مہربانی راہنمائی کر دیجئے.
    اگر اعتراض لفظ "مفروضہ” استعمال کر نے پر ہے تو چلیں، اسکو تھیوری کہہ لیتے ہیں.

    بگ بینگ کے حوالے سے عمومایہی معلومات ملتی ہے کہ کائنات کے بارے میں یہ ایک مقبول تھیوری ہے اور تحقیق اور تجربات فی الحال اس کو سپورٹ بھی کر رہے ہیں.

    1. "اگر اعتراض لفظ “مفروضہ” استعمال کر نے پر ہے تو چلیں، اسکو تھیوری کہہ لیتے ہیں.

      بگ بینگ کے حوالے سے عمومایہی معلومات ملتی ہے کہ کائنات کے بارے میں یہ ایک مقبول تھیوری ہے اور تحقیق اور تجربات فی الحال اس کو سپورٹ بھی کر رہے ہیں."

      اس بیان کے بعد بات آگے بڑھ سکتی ہے 🙂

      "درست ہے کہ اللہ کے وجود کو فی الحال عقلی لحاظ سے ثابت کرنا ممکن نہیں، لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ دنیا، کائنات اور ہم خود دراصل وجود ہی نہیں رکھتے اور یہ سب وہم ہے تو ہم خود اپنے وجود کو کیسے ثابت کر سکیں گے؟"

      یہاں آپ دو باتیں کر رہے ہیں، پہلی یہ کہ خدا کے وجود کو عقلی لحاظ سے ثابت کرنا ممکن نہیں، اور جب آپ یہ اعتراف کر لیتے ہیں تو مزید بحث کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں.. رہی بات ہمارے وجود کی تو اول تو یہ کہ یہ کس نے کہہ دیا کہ یہ سب وہم ہے؟ اور دوسرا یہ کہ بھئی مجھے تو پکا یقین ہے کہ میں موجود ہوں.. اگر آپ کو اپنے وجود پر شبہ ہے تو آپ کسی جلتے چولہے میں اپنا ہاتھ دے کر اس کی تصدیق کر سکتے ہیں 😀

      "سائنسدانوں کا کہنا (مفروضہ) ہے کہ یہ کائنات ایک عظیم دھماکے یعنی بگ بینگ سے وجود میں‌آئی جس کے ساتھ ہی زمان و مکان کا آغاز ہوا. اس سے پہلے سب کچھ ایک سنگولیرٹی یعنی اکائی کی صورت میں‌تھا. اب اگر پوچھا جائے کہ اگر بگ بینگ سے زمان و مکان کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے یہ اکائی کہاں پر تھی؟"

      لگتا ہے آپ اپنی علمی معلومات اپڈیٹ نہیں کرتے، اس کا جواب نہایت آسان ہے، اس سے پہلے یہ اکائی کوانٹم ویکیوم میں تھی 🙂

      "موجود چیز کو کوئی مکاں تو چاہئے نا"

      ہم بھی تو کب سے یہی رونا رو رہے ہیں کہ اگر خدا وجود رکھتا ہے تو اسے مکاں میں جگہ گھیرنی چاہیے مگر کوئی مانتا ہی نہیں 😀

      "اور ساتھ میں‌دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بگ بینگ ہوا “کب”. اگر وقت کا آغاز بگ بینگ سے ہوا تو پھر سنگولیرٹی سے بگ بینگ کیسے ہوا؟ جبکہ اس وقت ٹائم تو تھا ہی نہیں، پھر ایک حالت سے دوسری حالت میں سفر کیسے ہوا."

      اچھا سوال ہے… بگ بینگ کوانٹم ویکیوم میں ہوا، وقت کا آغاز بگ بینگ سے ہی ہوتا ہے مگر یہ وقت بگ بینگ کے اندر ہے باہر (کوانٹم ویکیوم میں) نہیں.

      "سائنس اگر کوئی چیز فرض کرے اور اس کو بنیاد بنا کر مزید ریسرچ کرے تو عقلمند اور اگر یہی کام بےچارہ مولوی یا مذہب پسند آدمی کر لے تو معتوب"

      سائنس جب کوئی چیز فرض کر کے اس پر تحقیق کرتی ہے تو ثابت نہ ہونے پر اسے کچرے میں ڈال دیتی ہے کیا مولوی ایسا کرتا ہے؟ سائنس جب تحقیق کرتی ہے تو اس کے نتائج سے ساری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے آپ کے ارد گرد کی ایجادات اس کا بین ثبوت ہیں مگر جب مولوی تحقیق کرتا ہے تو اس سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ خرافات کے علاوہ کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟ اگرچہ مجھے "مولوی کی تحقیق” پر ہی اعتراض ہے کیونکہ مولوی تحقیق نہیں کرتا بلکہ انہی سڑی ہوئی زرد کتابوں کی پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر پیش کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کی فکر میں مقدس ہے جو ثابت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا مگر علم کسی ثبات پر یقین نہیں رکھتا.. مولوی کی تحقیق کا محور انسانیت کی بھلائی نہیں اپنے مذہب کی خرافات کا اثبات ہے..

      علمی سوالات کی مزید تفصیل کے لیے سٹیفن ہاکنگ کی "دی گرینڈ ڈیزائن” کا مطالعہ مفید رہے گا.. 🙂

      1. نیوٹک سائنس جس ڈگر پر چل رہی ہے وہ بھی اک نظر ڈال لیجئیے گا.

        سائینس کل جن باتوں کو factکہہ رہی ہے کل کلاں انھی کا بطلان ایولیوشن کے نام پر کر دے اس کا کوئی پتہ نہیں اب تو سچ حقیقت کی بنیاد بھی سائینس نے اوبزرور کے سپرد کر دی ہے کے چاہے وہ پارٹیکل دیکھے یا ویو .

        1. شاہ جہان صاحب کوانٹم اینٹگلمنٹ یقیناً کوئی شئے ہے مگر کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کوانٹم اینٹگلمنٹ کوانٹم فلکچویشن کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے باوجود اس کے کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ کوانٹم فلکچویشن ہر وقت ہوتی رہتی ہے؟ اور یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ سائنس بنیادی ابعاد کو نہیں سمجھتی جبکہ اضافیت کے ابعاد تو شاید میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے

          ہاں اگر آپ سٹرنگ نظریہ کو بیچ میں لانا چاہتے ہیں تو اس میں ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے، رہی یہ بات کہ سٹیفن ہاکنگ کی بات کی سند نہیں کیونکہ وہ کئی شرطیں ہار چکے ہیں تو یہ محض "کیڑے” نکالنے والی بات ہے، آپ کا کسی ایسے طبیعات دان کے بارے میں کیا خیال ہے جو بعینہ وہی بات کرتا ہو اور کبھی کوئی شرط بھی نہ ہارا ہو؟ خواہش ہو تو ایسے نصف درجن طبیعات دان گنوا سکتا ہوں 😀

          آپ نے جن مفتی صاحب کی کتاب مجھے تجویز کی ہے یہاں ملنی مشکل ہے اگر آن لائن دستیاب کرا سکیں تو عین نوازش ہوگی کہ مجھے مولویوں کی لنگڑی منطق اور بونگیاں پڑھنے میں ویسے بھی بڑا مزہ آتا ہے یہ کتاب بھی ایسا ہی ایک شاہکار معلوم ہوتی ہے.. 😀

          ویسے ایک کتاب میں بھی آپ کو تجویز کرنا چاہوں گا جو ایک ایسے طبیعات دان کی ہے جو کبھی کوئی شرط نہیں ہارا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کو مفتی صاحب اور کوانٹم اینٹگلمنٹ سمیت جانے کیا کیا کچھ بھول جائے گا 😀

          A Universe from Nothing Why There Is Something Rather than Nothing

          http://www.amazon.com/Universe-Nothing-There-Something-Rather/dp/145162445X

          ڈاؤنلوڈ:

          http://www.4shared.com/office/4RQB5WF1/A_Universe_from_Nothing_Why_Th.html

          رہی نیوٹک سائنس تو جب یہ لوگ کوئی تیر ماریں گے تو ان پر بھی غور کر لیں گے فی الحال تو غالباً 1974 سے جھک ہی ماری گئی ہے..

          1. بھئ مولویوں کی منطق کی خوب کہی ویسے وہ کتاب کسی مولوی کی نہی لکھی ہوئی میرے پاس بھی ابھی اس کا ترجمہ ہی دستیاب ہوا ہے پاکستان میں اصل مصدر تو انگلش ہے.

            باقی رہی مذھب اور خداکی بات تو آج کی دنیا میں سب سے ذیادہ اثرانداز ہونے والی شے مذھب ہی کا کوئی نہ کوئی رخ ہے صحیح یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے. انسان کسی نہ کسی طرح اس کے زیر اثر رہتا آیا ہے صاحب طاقت و اقتدار اسے استعمال کرتے آئے ہیں چاہے وہ مصری فرعون ہوں ماضی کے یا پاکستان کے نام نہاد جہادی جیسے سویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکہ نے پاکستان کو جہاد کے نام پر استعمال کیا.

            مذھب اور خدا کا تصور ایک ایسی شے ہے جسکی طرف انسان لاشعوری طور پر بھی مائیل رہتا ہے. اور مذھب کے اسی اثر و رسوخ کی وجہ سے سب سے زیادہ فساد خون خرابہ ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے. لوگ خوامخواہ لکیر کے فقیر ہو کر خود کو سچا پکا مزھب کا پیروکار ثابت کرنے کے لئے عقل سے پیدل ہو جایا کرتے ہیں. اور اکثریت کا یہی حال ہے.

          2. سٹرنگ تھیوری ابھی تھیوری ہی ہے کام ہونا باقی ہے اسی طرح ہاکنگ صاحب نے کوئی law تو ڈیفائین نہی کر دیا.اک نظریہ ہی تو ہے.

            میری شرط کے بارے میں کوئی کیڑے نکالنے کی نیت نہیں تھی خیر
            اور ابعاد کے بارےمیں جو سوچ پہلے تھی کوانٹم لیول پہ حقائیق بالکل مختلف ظہور پزیر ہوئے. تو سوچ بھی بدلی اور نئے کشف و تجربات ہوئے.

            یہ بات تو طے ہو چکی کہ سچ اور حقییقت کا معیار اب مشاھدہ کار خود ہے. the method of Observation ( that is, the
            nature of observer) changes the apparentlyfundamental
            nature of light, and is not, therefore, totally distinct
            or apart from it!!

            نہ قریب ہوں نہ بعید ہوں نہ کسی کی دید و شنید ہوں
            بے کیف ایک سرور ہوں کہ سمجھ میں آنا محال ہے…!

          3. انسان جس شعور کو کائنات اور وجہ کائنات سمجھنے کے لئے استعمال کر رہا ہے اس کی بھی تو الگ سائینس ہے نفسیات سائکولوجیکل ریسرچر بھی تو الٹیمیٹ رئیالٹی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں.

          4. "سٹرنگ تھیوری ابھی تھیوری ہی ہے کام ہونا باقی ہے اسی طرح ہاکنگ صاحب نے کوئی law تو ڈیفائین نہی کر دیا.اک نظریہ ہی تو ہے."

            تجاویز اور ثابت شدہ نظریات میں فرق کرنا سیکھیں، دس منزلہ عمارت سے کود جائیں آخر تجاذب بھی تو ایک نظریہ ہی ہے؟ رہی یہ بات کہ ہاکنگ صاحب نے کوئی قانون نہیں دیا تو آپ کے خیال میں اصولِ غیر یقینی قانون نہیں ہے؟ اور کیا یہ قانون ورچوئل پارٹیکل کا عدم سے ظہور حتمی قرار نہیں دے دیتا؟ اور کیا ورچوئل پارٹیکل کا وجود ثابت شدہ نہیں ہے؟

            "اور ابعاد کے بارےمیں جو سوچ پہلے تھی کوانٹم لیول پہ حقائیق بالکل مختلف ظہور پزیر ہوئے. تو سوچ بھی بدلی اور نئے کشف و تجربات ہوئے."

            یقیناً کوانٹم سطح پر معاملات کچھ اور ہیں لیکن اس سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ خدا؟ اگر معاملہ یہی ہے تو معاف کیجیے گا آپ کا خدا گاڈ آف دی گیپس معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب یہ عقدہ حل ہوجائے گا تو آپ اسے کسی اور کیپ میں ڈال دیں گے اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا.. 😀

            "یہ بات تو طے ہو چکی کہ سچ اور حقییقت کا معیار اب مشاھدہ کار خود ہے."

            میں اس سے قطعی متفق نہیں، بات اگر علم کی ہے تو حقیقت کا معیار دلائل ہیں مشاہدہ کار یا محقق نہیں، ان کا کام محض "طبعی حقائق” کو سمجھنا یا دریافت کرنا ہے، ہگزبوزون پارٹیکل ہے تو ہے محقق یا مشاہدہ کار چاہے یا نہ چاہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا…

      2. بھئی اینڈرسن شا صاحب کوانٹم اینٹگلمنٹ بھی کوئی شے ہے.بیسک ڈائمنشنز تو سائینس پہلے سمجھ لے پھر باقی بھی دیکھ لے گرینڈ ڈیزائن جن صاحب نے لکھی ہے وہ اپنی کافی باتوں میں کافی شرائظ بھی ہار بیٹھیں ہیں ان کی بات کوئی سند نہیں….. عکسی مفتی صاحب کی کتاب آجکل مارکیٹ میں دستیاب ہے "تلاش . اللہ ماورا کا تعین” اس میں سائنٹفک لا ء آف اللہ پر بھی بحث کی گئی ہے . میری تو رائے ہے کہ اک بار پڑھ لیں.
        نیوٹک ((Neotic sciences

  3. عقلی لحاظ سے ثابت نہ کر سکنے اور موجود ہی نہ ہونے میں فرق ہے۔ قادر مطلق کو اگر عقلی لحاظ سے ثابت نہ کیا جاسکے تو یہ اسکے نہ ہونے کا ثبوت تو نہیں۔
    اپنے ہونے کا ثبوت ہم بطور مثال آگ کے چولہے میں ہاتھ جھونک کر اور درد محسوس کر کے اور جلا ہوا ہاتھ دیکھ کر دے سکتے ہیں، اسی طرح ذمین کے اندر سے پودا نکل آنا یا اس کائنات یا کائناتوں کا عدم سے وجود میں آجانا بھی ہمیں باور کراتا ہے کہ "کوئی” یا "کچھ” ہے جس نے ہر چیز کو معین مقداروں پر قائم کر دیا۔

    ایک انسان (چلیں اسکو بکر کہہ لیتے ہیں) زندہ ہے، کھاتا پیتا، بولتا سنتا ہے۔۔۔ پھر اچانک اس میں سے کس چیز کی کمی ہو جاتی ہے کہ اب ہم بکر کو بکر کی بجائے بکر کی لاش، یا بکر کا جسم یا بکر کی میت کہنا شروع کر دیتے ہیں؟
    بکر کا (بکر کے جسم کا نہیں) کا کہیں سے وجود میں آجانا اور پھر وجود سے کہیں چلے جانا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کوئی جگہ ہے جہاں سے سب بکر وغیرہ آرہے ہیں اور پھر واپس جا رہے ہیں، بالکل اسی طرح جسطرح ہاتھ جلنے سے ہونے والا درد ہمیں اپنے ہونے اور حقیقت کا احساس دلاتا ہے۔ مذاہب اسکو روح کہتے ہیں۔ ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ روح اللہ کا (قادر مطلق) ارادہ ہے جسکے بارے میں ہمارے پاس بہت تھوڑا علم ہے۔

    مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ کوانٹم ویکیوم کے بارے میں مجھے آپکا جواب پڑھ کر ہی جانکاری ملی۔۔۔ اس بارے میں مواد تلاش کر کے پڑھ رہا ہوں اور دی گرینڈ ڈیزائن بھی "انشاءاللہ” ضرور پڑھوں گا۔ راہنمائی کے لئے ممنون ہوں۔ اور آپ کی مولوی کی تحقیق، نئی بوتل پرانی شراب سے بھی کافی حد تک اتفاق ہے، نہ ہی مقصد ایسی سطحی طرز فکر کی حمایت کرنا ہے۔
    بلاشبہ حقیقت کی تلاش، ریسرچ، غورو فکر سے(خواہ وہ خود اپنی ذات ہو یا خدا کی) سے جو کوئی بھی منع کرتا ہے یا روکتا ہے میرے نزدیک انتہائی جاہل ہے۔

    ویسے بہت عمدہ تھیوری ہے کہ مطلق خلا (عدم) سے سب کچھ وجود میں آیا۔۔۔ یہ ایک عام انسان کے لئے اتنا ہی قابلِ فہم ہے جتنا کہ ایک خدا ہے جس نے سب کچھ بنا دیا۔۔۔ ہی ہی ہی

    گرینڈ ڈیزائن پڑھنے کے بعد شاید کچھ پلے پڑ جائے۔ لیکن اس میں وقت لگے گا، آپ کی ترجمہ کی گئی کتب "آخری تین منٹ” اور "وقت کا سفر” پرنٹ کر کے جلد کرائی ہیں اور زیر مطالعہ ہیں، اس کے لئے بھی آپ کا بہت بہت شکریہ۔

    1. "عقلی لحاظ سے ثابت نہ کر سکنے اور موجود ہی نہ ہونے میں فرق ہے۔ قادر مطلق کو اگر عقلی لحاظ سے ثابت نہ کیا جاسکے تو یہ اسکے نہ ہونے کا ثبوت تو نہیں۔"

      یہ بیان اپنے آپ میں ہی متضاد ہے، عدالت میں کھڑے ہوکر کوئی کہے کہ جناب میں مادی وعقلی طور پر ثابت تو نہیں کر سکتا کہ "زید” ہی چور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ چور نہیں ہے!؟ آگے آپ خود سمجھدار ہیں 😀

      "اپنے ہونے کا ثبوت ہم بطور مثال آگ کے چولہے میں ہاتھ جھونک کر اور درد محسوس کر کے اور جلا ہوا ہاتھ دیکھ کر دے سکتے ہیں، اسی طرح ذمین کے اندر سے پودا نکل آنا یا اس کائنات یا کائناتوں کا عدم سے وجود میں آجانا بھی ہمیں باور کراتا ہے کہ “کوئی” یا “کچھ” ہے جس نے ہر چیز کو معین مقداروں پر قائم کر دیا۔"

      چیزوں کا عدم سے وجود میں آجانا کسی نادیدہ ہستی کے وجود کا ثبوت نہیں ہے، اس کی مثال پروٹون کی سی ہے جو عدم سے ہی وجود میں آتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے مگر اس کی توجیہ کے لیے کسی نادیدہ ہستی کے وجود کو گھسیڑنا نامعقولیت کے زمرے میں آتا ہے اور نا ہی اس کی ضرورت ہے کیونکہ کوانٹم مکانیکس کے قوانین اس کی توجیہ بیان کرتے ہیں، دوسرا چیزیں معین مقداروں پر نہیں ہیں بلکہ بے ترتیبی پر ہیں، اگر بگ بینگ کے بعد ہائیڈروجن مکان میں ہر جگہ یکساں طور پر تقسیم ہوتی تو کائنات کی موجودہ شکل کبھی ہو ہی نہیں سکتی تھی یہ بے ترتیبی ہی تھی جس کی وجہ سے تجاذب کو اپنا کام دکھانے کا موقع مل گیا…

      "بکر کا (بکر کے جسم کا نہیں) کا کہیں سے وجود میں آجانا اور پھر وجود سے کہیں چلے جانا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کوئی جگہ ہے جہاں سے سب بکر وغیرہ آرہے ہیں اور پھر واپس جا رہے ہیں، بالکل اسی طرح جسطرح ہاتھ جلنے سے ہونے والا درد ہمیں اپنے ہونے اور حقیقت کا احساس دلاتا ہے۔ مذاہب اسکو روح کہتے ہیں۔ ہمارا مذہب بتاتا ہے کہ روح اللہ کا (قادر مطلق) ارادہ ہے جسکے بارے میں ہمارے پاس بہت تھوڑا علم ہے۔"

      جس طرح پروٹون کا کہیں سے وجود میں آنا اور پھر وجود سے کہیں چلے جانا ریاضیاتی طور پر ممکن ہے اسی طرح بکر کا بھی ممکن ہے کیونکہ بکر مادہ ہے اور اسے جانچا جاسکتا ہے اس کے لیے بھی کسی غیبی قوت کی ضرورت نہیں ہے، رہی بات درد محسوس کرنے کی تو چونکہ اسے بھی سیمولیٹ کیا جاسکتا ہے اور مختلف آلات میں لگے مختلف سینسرز اس کی بہترین مثال ہیں چنانچہ یہاں بھی کسی غیبی قوت کی ضرورت نہیں ہے جہاں تک بات روح کی ہے تو یہ بھی ایک مذہبی خرافت کے سوا کچھ نہیں، کریگ ونٹر جب لیبارٹری میں مصنوعی زندہ خلیہ بناتا ہے تو اسے کسی قسم کی روح حاضر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ تخلیق کا ایک ایسا کارنامہ انجام دے دیتا ہے جو مذہبی عقیدے کے مطابق صرف خدا ہی کر سکتا ہے یعنی مردے سے زندہ پیدا کرنا..

      "ویسے بہت عمدہ تھیوری ہے کہ مطلق خلا (عدم) سے سب کچھ وجود میں آیا۔۔۔ یہ ایک عام انسان کے لئے اتنا ہی قابلِ فہم ہے جتنا کہ ایک خدا ہے جس نے سب کچھ بنا دیا۔۔۔ ہی ہی ہی"

      مذاہب جو عدم چاہتے ہیں وہ ہو نہیں سکتا کیونکہ اس صورت میں جہاں کچھ اور نہیں ہوسکتا وہاں خدا بھی نہیں ہوسکتا، ساری کہانی عدم کی تعریف پر ہے، علم اسے کوانٹم ویکیوم کہتا ہے جس کی پیچیدہ ہی سہی ریاضیاتی تشریح ممکن ہے اور قابلِ فہم ہے.. 🙂

      "آپ کی ترجمہ کی گئی کتب “آخری تین منٹ” اور “وقت کا سفر” پرنٹ کر کے جلد کرائی ہیں اور زیر مطالعہ ہیں، اس کے لئے بھی آپ کا بہت بہت شکریہ۔"

      یعنی محنت رنگ لارہی ہے اور پیسے وصول ہو رہے ہیں.. 😀

  4. اینڈرسن شا صاحب جادو بھی تو ایسی ہی ایک چیز ہے جو کہ مادی و عقلی لحاظ سے مختلف کام کرتی ہے ، اگر چہ اسے ایک شیطانی فعل کہا جاتا ہے لیکن ہے تو ایسا ہی جو کہ عقل سے ماورا ہے ، یا اس کی بھی کوئی سائنٹفک توجیہ بیان کی جاسکتی ہے؟

    1. جیمس رینڈی فاؤنڈیشن نے 2008ء کو ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کو جو ایسی کسی بھی ما فوق الفطرت قوت یعنی سپر نیچرل یا پیرا نارمل عمل ثابت کرے گا اسے ایک ملین ڈالر انعام دیا جائے گا…

      2008 سے کسی بھی مائی کے لعل میں یہ ثابت کرنے کی ہمت نہیں ہوئی.. چیلنج اب بھی برقرار ہے.. 😀

      At JREF, we offer a one-million-dollar prize to anyone who can show, under proper observing conditions, evidence of any paranormal, supernatural, or occult power or event.

      http://www.randi.org/site/index.php/1m-challenge.html

  5. سر:
    میرے لئے تعجب کی بات یہ نہیں کہ خدا موجود ہے. کیونکہ "موجودگی” تو کوئی تعجبانہ بات نہیں ہے. ساری کائنات موجود ہے، پتہ نہیں یہ خواب ہے، خیال ہے یا سراب ہے.

    پریشان کرنے والا بات یہ ہے کہ خدا پیدا کیسے ہوا.

  6. actually i was bored by the repetitiveness of your views in articles and also the comments
    also i was worried about answering the matters of philosophy which came up during comments
    i have found a great book whose writer answers all of the matters which are raised by you and your articles…if you get time to read it then it will be a thing of benefit to u iam sure
    the name is ‘tablees-e-iblees’ and its writer is Abdul rahman Al jozi…
    it answers all sorts of issues which created deviation from the true islamic concepts… it also covers the aspects of philosophy and ilm-ul-kalam issues which u often copy paste in ur articles.
    if u can read it ,inshallah it will spare your ignorant readers from scholarary questions asked in your article….honestly they are very confusing for a simple ignorant muslim (which is most of today’s muslim population’s problem) . iam no one to pass any judgement on your faith and actions. i only want to share a good informative work with you which answers most of issues which people may have with islamic faith, it also explains how and why a certain wrong thought arises and how it’s answered and corrected by proper creed of islam.
    may Allah help everyone who is trying to reach to the right path ameen.
    Allah hafiz
    link for urdu translation of book:
    http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/430-talbees-e-iblees.html

جواب دیں

19 Comments
scroll to top