Close

بے چارہ ابو لہب

 **ابو لہب** (پیدائش: [549ء])— وفات: [624ء]()) [قریشی]) سردار تھا۔ اس کا اصل نام عبد العزیٰ بن عبد المطلب اور اس کی کنیت ابو عتبہ تھی۔ حسن اور چہرہ کی چمک کی وجہ سے عبد العزیٰ کی دوسری کنیت ابولہب ہو گئی تھی (شعلہ رو)۔ کہتے ہیں بے حد حسین جمیل آدمی تھا، سرخ و سفید چہرہ تھا۔ اسکا نام "عبدالعزی” سے ابو لہب ، محمد کے دادا عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ بے حد دولت مند، اور فیاض آدمی تھا، غریبوں اور مسکینوں کی بے حد مدد کرتا تھا۔
محمد کا حقیقی چچا مگر محمد کا سخت دشمن تھا۔ کہتے ہیں کہقرآن نے اسے ابولہب (آگ کا باپ یعنی جہنمی) کا خطاب دیا، لیکن یہ غلط ہے، جب محمد نے قریش کے بتوں کو برا بھلا کہہ کر، اپنے نئے نازل کردہ دین کا پرچار کرنا شروع کیا، تو اس نے محمد کو سمجھانا چاہا، لیکن محمد صاحب نے اپنی تبلیغی کوششیں جاری رکھیں۔ پھر بھی اس نے اپنے بھتیجے کی حرکتوں کو اگنور کیا، لیکن محمد کے دین کو قبول نہ کیا۔ ابوطالب کی وفات کے بعد جب قریش کے قبائل سے محمد کو خطرہ لاحق ہوا تو یہ ابولہب ہی تھا، جس نے محمد کی جان بچائی اور انکو مالی و جسمانی تحفظ دیا۔ یک بار مشرکین نے محمد کو قتل کرنے کی سازش کی لیکن ابولہب کی مخالفت کے ڈر سے اسے اطلاع نہ دی۔ جس رات اس سازش کو عملی کرنا تھا، ابوطالب نے [علی) کو ابولہب کے پاس بھیجا اور اسے اس سازش سے آگاہ کیا۔ ابولہب بہت غصے کی حالت میں مشرکین کے پاس گیا اور انکو اس قتل کی سازش سے روکا اور لات و عزی کی قسم دی کہ وہ مسلمان ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں مشرکین نے اس سے معذرت خواہی کی اور اس کام سے رک گئے۔
لیکن حیرت ہے، اتنے محمد کے لیے کارناموں کے بعد بھی محمد کے دل میں اپنے چچا کے لیے کبھی محبت نے جنم نہیں لیا۔ قرآن میں جس واحد قریشی کا نام لے کر پھٹکار کی گی ہے، وہ یہی ابولہب ہے، جسکے نام پر پوری ایک مذمت کی سورت "سورہ لہب” موجود ہے۔ ناجانے کیا ابولہب اور اسکی بیوی نے محمد کے ساتھ سلوک کیا کہ محمد نے اپنے سگے چچا کے خلاف ہی ایک سورۃ بناڈالی۔ اور سب سے حیرت کی بات جو ہے وہ یہ ہے کہ کیا اللہ کو "ابو لہب” کا اصلی نام نہیں پتا تھا؟ جو کہ عبدالعزی تھا، عرب میں اس وقت تو کنیت سے جب پکارا جاتا تھا تو لوگوں کو احترام و عزت دینا ہوتا تھا، جیسے علی کو لوگ ابوتراب، محمد کو ابوالقاسم کہا کرتے تھے۔
جو دلائل ابولہب کی اسلام دشمنی کے لیے بتائے جاتے ہیں، وہ یہ ہیں:
ابو طالب کے ساتھ مقابلہ: عبد المطلب کے بعد [بنی ہاشم]) کا اختیار [ابوطالب) کے پاس تھا اور وہ پیغمبر اسلام کی حمایت کرتے تھے۔ لیکن ایسی حمایت مکہ کے بہت سارے دوسرے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ دوسرا ابوطالب اور ابولہب کی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق تھا، ان دونوں میں کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا، ابوطالب مکہ کے غریب، کثیر العیال اور مفلوک الحال آدمی تھے، بس چونکہ کہ بنوھاشم کے سردار تھے، اسلیے انکی تھوڑی بہت بات سنی جاتی تھی۔ ورنہ ابولہب اور ابوطالب کی مثال ایسے ہی جیسے آج کل آصف علی زرداری اور اپنے گلی کے محلہ کی یونین کی صدر۔
تاریخی قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب اور ابو طالب کے درمیان اچھے رابطے نہیں تھے۔ حالانکہ دونوں سگے بھائی تھے، اور ایک وقت ابولہب کی لونڈی نے محمد اور ابوطالب کے بچوں کو دودھ بھی پلایا تھا، یہ تو تاریخی کتب سے بات ثابت تھی، اسکے علاوہ ایک ھاشمی ہونے کے ناطے ابولہب، دوسرے نادار ھاشمیوں کی خوب مدد بھی کیا کرتا تھا جن میں ابوطالب اور انکا خاندان بھی ضرور شامل تھے۔
* خاندانی تعصب اور رجحانات: ابولہب کی زوجہ، ام جمیل بنت حرب، [ابو سفیان][بنی امیہ] [بنی امیہ] کی حمایت کرتا تھا۔ اور دوسری طرف اس کی والدہ کا تعلق خزاعہ قبیلہ سے تھا جو [قریشسے کینہ رکھتے تھے۔ لیکن جناب کیا آنحضرت کے دوسرے چچا، عباس (جو بعد میں اسلام بھی لے آئے) انکے ابوسفیان سے گہرے دوستانہ تعلقات نہیں تھے کیا؟ فتح مکہ پر یہ عباس ہی تھے، جنہوں نے ابوسفیان کو محمد کے قریب کیا تھا اور انکو اسلام قبول کروایا تھا،
* عرب قبائل سے جنگ کا خوف: ابولہب [اسلامقبول کرنے کا معنی پورے عرب قبائل کے ساتھ جنگ کا اعلان کرنا سمجھتا تھا۔ لیکن یہ بات بھی غلط ہے، کیونکہ اس وقت قریش کا سردار تو ابوسفیان تھا، اسکے اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دوسرے مکہ کے لوگوں نے بھی تو اسلام قبول کیا تھا۔ پھر بالاآخر مکہ میں بھی سبھی نے اسلام قبول کرلیا، لیکن کوئی بقیہ عرب قبائل سے جنگ نہیں ہوئی، الٹا تمام باقی عرب قبائل ڈر گئے اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر۔
تو یہ اوپر دئیے ہوئے دلائل بے کار ہی ہیں، جو ابولہب کو محمد اور اسلام کا دشمن ثابت کرتے ہیںِ، بعد کے مورخین نے مزید ابولہب کا نام بدنام کرنے کے لیے نت نئے مظالم گھڑ گھڑ کے ابولہب سے منسوب کردیے، جس سے اسکا نام "دشمن اسلام” کے نام سے مشہور ہوگیا۔ نیچے طبقات ابن سعد جلد 1، صفحہ 221 کا ایک اسکین دیا گیا ہے، جس میں اوپر بتائی گئی باتوں کی وضاحت دی گئی ہے۔
*
میرے حساب سے ابولہب بے چارہ مفت کا بدنام ہوگیا، اور صرف اسکا جرم بس یہ ٹہرا کہ اس نے محمد کے خدا کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور بس اپنے وہ آبائی دین پر قائم رہنا چاہ رہا تھا۔ ابو لہب کےمحمد پر ظم و ستم کے بس وہ افسانے، افسانے ہی ہیں جنکی ذرا بھی حقیقت نہیں۔ یعنی
* منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لیے

جواب دیں

0 Comments
scroll to top