Close

تو کعبہ ٹوٹ جاتا ہے

اگر تمہارے روزے برداشتِ نفس و آزمائش سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں تو پھر بجلی نہ ہونے پر شہر الکبیر (رمضان) میں حاصل کردہ سارا صبر اس وقت کہاں جاتا ہے جب تم واپڈا کو مغلظات سناتے ہو؟ کوئی یہ کیونکر مان لے کہ صبح سے شام تک بھوکے رہ کر تم صابر اور ہر حال میں شاکر ہو چکے ہو؟ یہ تو صرف بھوک پر صبر کرنے کا نتیجہ ہے، اس کے علاوہ اگر بات کریں نفسیات کے سراب کی، جس کو اگر میں لفظوں میں صاف صاف لکھتا ہوں تو امت کے صبر کا پیمانہ جو گالیوں سے بھرا ہے چھلک جاتا ہے۔

دل عضو مرکزیت ہے نہ کہ صرف خون کا فوارہ ، دل اعصاب پہ بھاری ہونا جانتا ہے ، دل احساسات کا مجموعہ ہے ، دل کا سکون اگر نمازوں میں، پادریوں ، مولویوں کی دعاؤوں اور منتروں میں ہوتا تو تم یہ سب کچھ کر کے روٹی، نوکری، چھوکری، مکان اور بیماریوں کا رونا نہ روتے ، یا تو اس سارے تماشے میں سکون نہیں ہے یا پھر تم منافقت کے پیکر ہو، برادرانہ صلاح ہے کہ زندگی کے سجدے میں گر کے سوچو تو سکون پاؤ گے اور اس پاس کی مخلوق بھی تمہارے تیوروں سے امان میں رہے گی۔

الله یا بھگوان نے اگر کعبہ یا مندر میں رہنا ہوتا تو پھر تمہارا اور میرا دل کیا بطور مسکن خوامخواہ ہے؟ ذمہ دار الله یا بھگوان نہیں ہے، تم اور ہم ہیں ، ہم نے دلوں سے نکال کر اسکو بیت الله اور مندروں میں دھکیل دیا ہے ، تم اپنے اعمال دیکھو اور شکوے دیکھو، جب کوئی بھوک سے مر رہا ہوتا ہے تو اس کی آہ و بکاء سے زیادہ تمہیں مفت خور مولوی کی “حی علی الصلوۃ” اور پنڈت کی “دھنے رام” سنائی دیتی ہے، کیا تمہیں پتا ہے کہ جب ایک بھوکا مرتا ہے تو ایک کعبہ ٹوٹ جاتا ہے؟ ایک مندر مسمار ہو جاتا ہے اور ایک گرجا گھر برباد ہو جاتا ہے، دیکھو تم روزانہ کتنے کعبے توڑتے ہو، جب تم ایک بھوکے کے دل کی آواز کو ڈرامہ بازی کہتے ہو تو تم الله اور رام جی کو ڈرامے باز کہتے ہو کیا تمہیں تمہارا وجود دینے والا ڈرامے باز ہو سکتا ہے؟

ڈرامے بازی تو وہ ہے جو کشمیر کی اساس پہ بھارتی اور پاکستانی جرنیل کرتے ہیں ، ڈرامے بازی تو پرتھوی اور غوری ہے، ڈرامے بازی تو واہگہ بارڈر پر جئے ہند اور پاکستان زندہ باد کے بلند و بالا نعرے اور جانوروں کی طرح دونوں جانب سے بھاگتے چند فوجی اور مرغوں کی لڑائی کی طرز کے لگنے والے ہوکرے ہیں، ڈرامے بازی تو سربجیت اور ثناء الله کا انتقامی قتل ہے، ڈرامے بازی تو “تم ہندو” اور “میں مسلمان” کہنا ہے ، ڈرامے بازی تو پاکستان کو گالیاں دے کے نصرت فتح علی خان کو سننا ہے، ڈرامے بازی تو بھارت کو گالیاں دے کے بڑے شوق سے اے آر رحمان کو سننا ہے، ڈرامے باز زمین نہیں ہوا کرتی، ڈرامے باز انسان ہوا کرتے ہیں، ڈرامے باز فنکار ہوتا ہے، اور تم سچے فنکار ہو، سچا فنکار کسمپرسی ہی کا شکار ہوتا ہے اور بھوکا ہی مرتا ہے۔

جہاں خدا رہتا ہے وہاں خوشحالی ہوتی ہے، تم نے اور میں نے خدا کو مسجد، مندر میں بند کر ڈالا ہے دیکھو مسجد میں مولوی رہتا ہے، مندر میں گھنٹی باز پنڈت اور گرجا گھر میں اسقف ، سب ہی خوشحال ہیں ، خدا کے نام پہ پچھلے کم از کم پچھلے تین ہزار سال سے اس طبقے کو کمائی کی کوئی فکر نہیں، الله تو ان کی یونورسل دوائی ہے جس کو انھوں نے گلہ پھاڑ پھاڑ کے تمہارا نشہ بنا ڈالا ہے۔

خود کو ڈھونڈو وہیں الله بھی مل جائے گا، خود کو ٹٹولو تمہارے اندر ایک بہت بڑا انا الحق بیٹھا ہے، خود میں گھومو تمہارے اندر صفا و مروا مروج ہے، خود کو سنو تمہارے اندر گھنٹیاں تو کیا سارا مندر بھجن کرتا ہے، خود میں گرو تمہارے اندر کی مسجد کا صحن ہزاروں مسجودوں کی جگہ رکھتا ہے اور اس وسیع کائنات میں اپنے وجود کا مزہ لو تو آس پاس والے سب انسان نظر آئیں گے کیونکہ خود کو سمجھنا دوسروں کو سمجھنا ہے اور دوسروں کو سمجھنے سے دل نہیں ٹوٹا کرتے اور دل تو کعبہ ہے، تو پھر کعبہ نہیں ٹوٹے گا، اگر ایسا نہیں کرو گے تو کعبہ ٹوٹ جاتا ہے۔

4 Comments

  1. اینڈرسن شا کچھ عرصہ قبل میں نے آپ کا بلاگ دیکھا تھا پھر غائب ہو گئے آج اچانک ہی فیس بک پر ایک لنک کے ذریعے یہاں تک پہنچا۔
    یہ بتائیے کہ آپ کو بھیس بدلنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
    کیا کہیں سے کوئی خطرہ محسوس ہو رہا تھا؟

جواب دیں

4 Comments
scroll to top