Close

”غزوۂ پشاور اسکول“ اور بنیاد پرست

میرے کسی ”خیرخواہ“ نے مجھے اس بلاگ کا لنک اس امید پر فراہم کیا کہ دہشت گردی سے متعلق میرا مؤقف سراسر اسلام، جہاد، مولویوں اور دینی مدارس سے تعصب پر مبنی ہے اور اس بلاگ کی شکل میں شائد مجھے ”آئینہ“ نظر آ جائے اور میں اپنے مؤقف پر نادم اور شرمندہ ہو کر اس سے رجوع کر لوں، اور اسلام کو امن و شانتی کا علمبردار، جہاد کو اللہ کی زمین سے فساد کے خاتمے کا ذریعہ، مولویوں کو امن کا سفیر اور دینی مدارس کو جہالت کے منبع کے بجائے امن، شانتی، محبت، رواداری،برداشت اور سلوک کے کارخانے سمجھنے لگ جاؤں۔ بلاگ لکھنے والے صاحب جن کا نام تو مجھے معلوم نہیں، انہوں نے اپنے لئے اپنا قلمی نام ”بنیاد پرست“ چنا ہے۔ اردو بلاگنگ سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اس نام سے یقینًا مانوس ہوں گے۔ لیکن مجھے ان کا بلاگ پڑھنے کی سعادت پہلی بار نصیب ہوئی۔

موصوف ظالم بلاگر کو میں نے ابتدائی کلمات میں ”معذرت خواہ مسلمان“ اس لئے قرار دیا ہے کہ انہوں اپنے اس خاص الخاص بلاگ کے ذریعے ”غزوۂ پشاور اسکول“ کے کرتا دھرتا سرفروش مجاہدین کی عظیم جہادی معرکہ پر پانی پھیرنے کی کوشش سر انجام دی ہے، وہ مقدس جہادکہ جب فریضہ جہاد کی اولین آیت (۲۲:۳۹) نازل ہوئی تو اس ایک آیت نے مکّی دور کی ان بیسیوں آیات کو بیک جنبش قلم منسوخ کر دیا تھا جن میں کسی قدر رواداری اور برداشت کا سبق موجود تھا۔ انہی منسوخ شدہ آیات کو آج انہی کی طرح کے معذرت خواہ مسلمان اسلام کو امن و شانتی، رواداری اور برداشت کا دین ثابت کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں۔

میں شائد الفاظ کے سحر میں مسحور ہو کر، عبارت کی سلاست و بلاغت میں مبہوت ہو کر، بڑے مدلّل و مفصّل طرز استدلال سے متاثر ہو کر اس عظیم بلاگر کے پیش کردہ دلائل سے قائل ہو جاتا۔ لیکن شامتِ اعمال میں مذکورہ بلاگ پڑھنے سے قبل ہی مجاہدین اسلام کی ترجمان ویب سائٹ ”منتدیات باب الاسلام“ پر موجود ایک طویل انٹرویو پڑھ چکا تھا جس میں ایک عظیم جہادی لیڈر دولت اسلامیہ کے انصار عالم دین شیخ ابو مقاتل المہاجر اپنے ”اعترافیہ بیان“ میں نا صرف ”غزوۂ پشاور اسکول“ کی تمام تر ذمہ داری قبول کرتے ہیں بلکہ اپنے اس انٹرویو میں جا بجا قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور بہت سے علماء کرام کی جہادی تصنیفات کے مکمل حوالہ جات کے ذریعے ”غزوۂ پشاور اسکول“ کو عین معرکۂ کفر و اسلام اور معرکۂ حق و باطل قرار دیتے ہیں۔ ”منتدیات باب الاسلام“ نامی ویب سائٹ پاکستان کے مرتد حکام، مرتد فوج اور یہود و ہنود کی ریشہ دوانیوں کے سبب بلاک ہے، اپنے ممدوح بلاگر سے گذارش ہے کہ وہ براہ کرم اس مکمل انٹرویو کو ملاحظہ کرنے کیلئے اس ویب سائٹ کو کسی پراکسی کے ذریعے بالکل اسی طرح کھول کر ضرور ملاحظہ فرما لیں جس طرح وہ کسی پراکسی کے ذریعے یوٹیوب سے استفادے کیلئے کسی پراکسی کے ذریعے یوٹیوب کھولتے ہوں گے، بعد ازاں پراکسی سے ممنوعہ سائٹ کھل جانے کا تمام تر ثواب مجاہدینِ ملّت اوریا جان مقبول اور انصار عباسی صاحبان کو ہدیہ کرنا نا بھولئے گا۔ شائد یہ انٹرویو پڑھنے کے بعد آپ کو اپنے اس سوال کا جواب مل جائے کہ: ”سانحہ پشاور پر کون ہے جسے افسوس نہیں ہوا ہوگا ؟ آپ تو سانحہ پشاور پر غم نہ کرنے والوں کو ڈھونڈ رہے تھے یہاں تو قہر خدا کا سانحہ پشاور پر باقاعدہ بغلیں بجانے والے تک موجود ہیں۔

بقیہ قارئین اس انٹرویو کو ملاحظہ کرنے کیلئے اس انٹرویو کی پی ڈی ایف فائل اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ کمزور دل قارئین جو دھواں دھار دلائل کی مار سہنے کے قابل نہ ہوں اور کاہل طبع قارئین کیلئے جو اس طویل ترین انٹرویو کو مکمل پڑھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ان کی سہولت کیلئے میں اس انٹرویو کے چیدہ چیدہ اقتباسات یہاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

٭– امارت اسلامیہ افغانستان اور القاعدۃ برصغیر دونوں سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے پروپیگنڈہ کی شدت کو دیکھتے ہوئے جلد بازی میں تحریک طالبان پاکستان کا موقف جانے بغیر صرف دشمن کے دجالی میڈیا کی خبروں کو سنتے ہی اپنے امیج بہتر بنانے اور رائے عامہ میں مقبولیت پانے کی خاطر مذمتی بیان جاری کیا۔ حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے :

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے توتم اس کی تحقیق کرو‘‘ (الحجرات : 6)

٭– اسلام میں کافروں و مرتدین کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا سات سے زائد حالتوں میں جائز ہیں، آپ ان کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بلاد حرمین کے مجاہد عالم دین شیخ ابو یوسف العییری رحمہ اللہ کی کتاب ’’حقيقة الحرب الصليبية الجديدة (نئی صلیبی جنگ کی حقیقت)‘‘ میں تفصیل کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔

٭– اس کے علاوہ اگر دشمن تک پہنچنا نا ممکن ہو اور دشمن نے عام شہریوں یا مسلمانوں کوآبادی والے علاقوں میں ڈھال بنا رکھا ہو تو ایسی حالت میں اگر مجاہدین کے پاس مسلمانوں کو شہید کیے بغیر دشمن تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں اسلام ان مسلمانوں کو شہید کرکے دشمن کو مردار کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں اور فقہ وجہاد کی کتابوں میں اس کے احکام بیان کرنے والے ابواب ’’التترس والاغارة‘‘ کے نام سے موجود ہیں۔پشاورآرمی سکول وکالج جیسی کارروائیوں کی شرعی حیثیت بھی انہی ابواب میں تفصیل کے ساتھ فقہائے امت بیان کرچکے ہیں اور اس پر موجودہ دور کے جید علمائے جہاد نے مفصل کتابیں لکھ کر دشمن کوہلاک کرنے والی اس طرح کی ’’التترس‘‘ والی کارروائیوں کو اور کفارو مرتدین کی آبادیوں پر عام تباہی پھیلانے والی جنگ مسلط کرنے کو جائز قرار دیا ہے کہ جن میں بیگناہ بھی جاں بحق ہوجاتےہیں۔ اس پر سب سے تفصیلی کتاب جہادی عالم دین فضیلۃ الشيخ ابوعمر محمد بن ابراہیم النفیعی حفظہ اللہ نے لکھی ہے، جس کا نام ہے : ’’الكتاب القيم شبهات و ردود اخي المتراجع احذر ماذا خلفك!التترس و الاختلاط مع الكفار‘‘۔ اس کے علاوہ دولت خلافت اسلامیہ کے عالم دین شیخ ابوبکر الاثری حفظه اللہ نے ’’مسائل في التترس والاغارة‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ القاعدۃ کے مجاہد عالم دین شیخ ابو یحیی اللیبی رحمہ اللہ نے بھی’’التترس في الجهاد المعاصر‘‘کے نام سے عمدہ کتاب لکھی ہے۔ القاعدۃ کے افغانستان ہی میں موجود ایک مجاہدعالم دین شیخ عبد المجید عبد الماجد نے”احكام الغارات الفدائية والتترس“لکھی ہے۔ بلادحرمین کے مجاہد اسیر عالم دین شیخ فارس آل شويل الزهرانی فکّ اللہ اسرہ نے ”نصوص الفقهاء حول أحكام الغارة والتترس“ نامی کتاب لکھی ہے۔

٭– پس پشاورآرمی سکول جیسی کارروائیاں کرنا اور دشمن کےبالغ بچوں کو مارنا یا مسلمانوں کے ساتھ موجود کافروں کو یا شیعہ و مرتدین کی آبادی والے علاقے کو کار بم دھماکوں اور شہیدی حملوں سے نشانہ بنانا شرعی لحاظ سے مکمل طور پر درست ہے اور اس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہیں۔ اگرکسی کو کوئی اعتراض ہے تووہ جا کر ان کتابوں کا مطالعہ کر کے اپنے اشکالات واعتراضات کا ازالہ کرسکتا ہے۔ (یہ آخری جملہ شائد خاص الخاص عالمِ اسلام کے مایہ ناز بلاگر شیخ بنیاد پرست کیلئے ہی خصوصًا کہا گیا ہے)

٭– اب وہ معصوم چھوٹے بچے جو اس کارروائی میں جاں بحق ہوئے ہیں، وہ مرتد فوجیوں اور طلباء کے نجی سیکورٹی گارڈز کی طرف سے حملہ آور مجاہدین کی طرف چلائی جانے والی گولیوں کا نشانہ بنے یا پھر حملے کے بعد فوجیوں نے خود ہی چھوٹے بچوں کی کلاسوں میں داخل ہوکر ان بچوں کو قتل کیا تاکہ وہ مجاہدین کو اسی طرح بدنام کرسکے، جس طرح وہ پبلک مقامات اور بازاروں میں بم دھماکے کرکے بدنام کرتے ہیں۔

٭– میڈیا اور مرتدین کے ایجنٹوں نے حملے میں مجاہدین کے ہاتھوں مارے جانے والے اٹھارہ اور پچیس سال کے لڑکوں کو بچے قرار دے کر پروپیگنڈہ کیا حالانکہ اسلام میں جس بچے کی داڑھی یا مونچھ کے بال اگنا شروع ہوجائے یا بلوغت کے(زیرناف) بال جسم میں اگنا شروع ہوجائے تو وہ بالغ لڑکا کہلاتا ہے اور رسول اللہ نے بنو قریظہ کے ان تمام بچوں کو قتل کیا تھا جن کے زیر ناف بال آ چکے تھے کیونکہ وہ بالغ ہوگئے تھے۔

٭– دوسری بات صلیبی امریکہ اور مرتد ناپاک آرمی کی حمایت کرنے والے لیڈروں و رہنماؤں کی تنظیموں کو نشانہ بنانا درست ہونے کے دلائل قرآن وسنت میں بے تحاشا ہیں۔ یہاں صرف چند ایک کی طرف اشارہ کرتا ہوں: ”رسول اللہ سے کیا گیا معاہدہ بنی بکر بن وائل یا قریش کے سرداروں نے توڑا لیکن آپ قریش کے جنگجؤوں سے لڑتے تھے۔ بنوقریظہ کے بڑوں اور اہل رائے لوگوں نے معاہدہ توڑا تو آپ نے صرف ان کے خلاف قتال نہیں کیا بلکہ پورے بنوقریظہ کے مردوں، بوڑھوں، مزدوروں اور زیر ناف اگنے والے بالوں کے حامل لڑکوں پر مشتمل 700 جانوں کو قتل کیااور باقیوں کو قیدی بنا لیا۔ حالانکہ ان سب نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا سوائے اس کے کہ ان کا تعلق ایسی قوم وبرادری سے تھا جس کے بڑوں نے رسول کے خلاف عہد شکنی کی تھی ۔

٭– اب پاکستان میں نظام خلافت قائم نہیں ہوا اور نہ ہی یہاں سے شرک وکفر کے نظام کی حکمرانی ختم اور اقوام متحدہ و امریکی صلیبیوں کے مفادات کے رکھوالی مرتد فورسز کا صفایا ہوا ہے تو پھر کس طرح یہاں جہاد کو ادھورا چھوڑ کر کشمیر یا کہیں اور جایا جاسکتا ہے ۔

میرے ممدوح بلاگر اس قدر خوش فہم ہیں کہ بیان سے باہر ہے، مثلاً ان کی یہی خوش فہمی ملاحظہ کیجئے، لکھتے ہیں:
”یہ سوال اٹھانے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ پہلے دن سے جب سے یہ مسائل پیش آئے علماء کی جانب سے حکومت کی غلط پالیسیوں پر مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ اس کے بارے میں بڑا واضح موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد ناجائز ہے، قرآن و حدیث میں اس کی اجازت نہیں ہے“۔

میرے ممدوح بنیاد پرست سے زیادہ بڑے بنیاد پرست شیخ ابو مقاتل المہاجر ایک سوال کے جواب میں ان کی یہ ساری خوش فہمی ہی دور کر دیتے ہیں، سوال اور اس کا جواب ملاحظہ کیجئے:

انس: کیا مرتدین کے خلاف جہاد کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا؟ پاکستانی آئین میں اسلامی شقیں بھی موجود ہیں تو ظاہری طور پر یہی تاثر ہے کہ پاکستانی آئین اسلامی ہے۔ بس صرف معاملہ ان اسلامی آئین کو نافذ العمل بنانے کا ہے۔ حکمران مکمل طور پر اسلام کے منکر نہیں ہیں اور وہ اسلام کا نام بھی لیتے ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف جہاد چھوڑ کرامریکہ واسرائیل اور بھارت کے خلاف جہاد کیا جائے جب یہ کفری طاقتیں تباہ ہوجائے گی تو پاکستان سمیت تمام عالم اسلام آزاد ہوجائے گا اور پھران حکمرانوں کے لیے بھی امریکی غلامی سے نکلنے کے بعد اسلام کے تمام احکام پر عمل کرنا آسان ہوگا؟

شیخ ابو مقاتل: پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی آئین اسلامی نہیں ہے اور آئین میں جو اسلامی شقیں ہیں، وہ سب سیکولر شقوں کے ماتحت ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ پاکستانی آئین میں موجود کفر کو تفصیل کے ساتھ جاننے کے لیے شیخ ایمن الظواھری حفظہ اللہ کی کتاب ’’الصبح والقنديل (سپیدہ سحر اور ٹمٹماتا ہواچراغ)‘‘ کا مطالعہ کریں، جس میں انہوں نے اس پورے پاکستانی آئین کا پوسٹ مارٹم کیا ہے اور اس کے کفر کونمایاں کیا ہے۔یاد رکھیں! اسلام کے چند احکامات کو لینے سے کوئی آئین اسلامی نہیں ہوجاتا ہے بلکہ اسلامی آئین وہ ہوتا ہے جو مکمل طور پر سو فیصد اسلام کی تعلیمات سے ٹکراتا نہ ہو اور نہ ہی اس کی مخالفت کرتا ہو۔ اسی طرح آئین میں بالادستی صرف اللہ کے کلمہ (اسلام) کی ہو اور جتنے بھی شقیں مرتب کی جائیں ، وہ سب کی سب اسلام کے ماتحت ہوں اور اسلام کا حکم ان پر لاگو ہو۔ یہ نہیں کہ وہ غیر اسلامی قوانین کو ان سے مستثنیٰ قرار دے کرانہیں آئین میں شامل کیا جائے ، جیساکہ پاکستانی آئین میں ہے۔ رہاحکمرانوں کا ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا معاملہ تو اس بارے میں عرض ہے کہ اسلام میں منافقت اور دوغلے پن کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح آدھا اسلام لینے اور کفر کے چند احکام کو لینے والے کو بھی مسلمان نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ دین اسلام کی پیروی کرنے والا کہلائے گا۔ اس لیے جو کوئی بھی اسلام سے خارج کر دینے والے نواقض اسلام میں سے کسی بھی عمل کا ارتکاب کرے گا تو پھر اس کا اسلام اسی طرح ٹوٹ جائے گا جس طرح کسی کا وضو گیس یا پیشاپ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح تمام علمائے امت کا متفقہ طور پراس بات پر اجماع ہے کہ ’’اگر کوئی بھی حکومت صرف ایک قانون بھی غیر اسلامی بنائے تو وہ پوری حکومت غیر اسلامی ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف قتال اس وقت تک کرتے رہنا واجب ہے جب تک کہ وہ اس سے رجوع نہیں کرلیتی۔‘‘ اس طرح پاکستانی حکومت ایک مرتد حکومت ہے اور اس حکومت کو اسلامی حکومت بنانے اور جمہوری نظام کو ڈھا کر خلافت کا نظام لانے تک اس کے خلاف جہاد کرناتمام مسلمانوں پر واجب ہے۔

ایک مقام پر  ہمارے ممدوح عظیم بلاگر صاحب لکھتےہیں:

”اس بات کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہ مسائل جن کا اس وقت ہم سب لوگ شکار ہیں ان کی مدت زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سال ہے اور مدارس اس خطے میں سو ڈیڑھ سو سالوں سے موجود ہیں۔ اگر یہ مدارس کی پیداوار ہوتے تو پہلے بھی یہ مسائل پیش آتے۔ لیکن آج سے بیس سال پہلے تک ایسی کوئی بات اس خطے میں نہیں دیکھی گئی“۔

جس بات کو موصوف نے دلیل کہہ کر بیان کیا ہے وہ دراصل دلیل نہیں بلکہ سراسر ایک دعویٰ ہے، کیونکہ دلیل میں ثبوت موجود ہوتا ہےاور اگر دلیل ثبوت سے خالی ہو تو وہ بھی محض دعویٰ ہی کہلائے گی۔ یہ کہنا کہ جن مسائل کا ہم سب لوگ شکار ہیں ان کی مدت زیادہ سے زیادہ ”پندرہ بیس سال“ ہے، اب اس دعوے کو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ موصوف دینی مدارس سے دہشت گردی کا داغ دھونے کیلئے حد سے زیادہ اپنی لاعلمی کا ثبوت دے رہے ہیں، پاکستان میں دینی مدارس کے ذریعہ دہشت گردی کا آغاز دسمبر ۱۹۷۹ء کو افغانستان کی جنگ کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہو گیا تھا،البتہ اتنا ضرور ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بتدریج اضافہ ہوا ہے، دینی مدارس سے طلباء کی کھیپ افغان جنگ میں شرکت کیلئے جانا شروع ہوئی،اور پاکستان میں جہادی تنظیمیں پھوٹنا شروع ہوئیں، افغان سرحد سے منسلک پاکستانی علاقوں میں ٹریننگ کیمپس بنائے گئے، بعد ازاں انہی جہادی تنظیموں سے پاکستان کی شدت پسند فرقہ پرست تنظیموں نے بھی جہادی (دہشت گردی) کی تربیت حاصل کی اور پاکستان کو فرقہ واریت کی ایسی جنگ میں جھونک دیا کہ اس فرقہ پرستی کی لعنت سے جان چھڑانا اب ناممکن نظر آتا ہے۔

موصوف بلاگر پاکستان بھر میں علماء کرام کے ذریعہ پھیلی ہوئی فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور انتشار، کو دیکھنے کے باوجود اس پر پردہ ڈالنے کیلئے یا پھر اس سے صرف نظر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”نا حکومتی لیول پر پالیسی بناتے وقت ان (علماء) کو کوئی ویلیو دی جاتی ہےاور نا میڈیا عام حالات میں ان کی کسی اچھی رائے ،تجویز، بات کو شائع کرنا گوارا کرتا ہے۔ ہر دفعہ ایسے مسائل پر مشورے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جاتی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پورے ملک سے علماء کو بھی جمع کیا گیا ہو اور ان سے ان کی رائے لی گئی ہو کہ آپ کے خیال میں اس کا حل کیا ہے؟“

اس بارے میں میرا تو سیدھا جواب یہی کہ جس عطار کے سبب بیمار ہوا جائے اسی کے لونڈے سے دوا نہیں لی جاتی، ملک کے حالات کی خرابی میں انہی علماء کا بہت بڑا عمل دخل ہے، جنہوں نے اپنے بچوں تو اعلیٰ تعلیم کیلئے بیرون ملک روانہ کیا اور قوم کے بچوں کو ۷۲ حوروں کے لالچ میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی تربیت کیلئے افغانستان روانہ کیا۔ بعدا زاں قوم کےانہی بچوں کو اپنے ملک میں بھی شریعت کے نفاذ کا شوق چرایا اور اس کیلئے مسلّحہ جدّو جہد کا آغاز بھی کردیا۔ صوفی محمداور ملّا فضل اللہ المعروف ملّا ریڈیو کا تعلق براہ راست دینی مدارس سے ہی ہے۔ جن علماء کی اس قدر ناقدری کی شکائت کی جارہی ہے کہ حکومتی سطح پر پالیسی بناتے ہوئے ان کو کوئی ویلیو نہیں دی جاتی، انہی علماء کی حکومتی ایوانوں میں اس قدر دہشت ہے کہ آج تک مدارس کو ریگولرائز نہیں کیا جا سکا۔ کسی حکومتی ادارے میں اتنا دم نہیں ہے کہ مدارس کو اپنے ذرائع آمدن اور خرچ کے آڈٹ کا پابند کیا جا سکے، آئین میں شامل کسی مذہبی شقّ کو چھیڑا نہیں جا سکتا، پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے، جس میں کوئی قانون خلاف شریعت نافذ نہیں کیا جاسکتا، اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے، جس کی زیادہ تر دلچسپی کا محور نکاح اور پردۂ نسواں کے مسائل ہی ہوتے ہیں، آج تک ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے حوالے سے اس کونسل نے کوئی ایک تجویز تک پیش نہیں کی ہے۔ آئین پاکستان کی روشنی میں قائم وفاقی شرعی عدالت جیسا حکومتی ادارہ موجود ہے، پھر بھی شکایت کہ علماء کی ناقدری کی جاتی ہے۔

مزید آگے فرماتے ہیں:

”ایک اور اہم بات جب ہم اتحاد اور قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہمیں ملک کا جو سب بڑا طبقہ ہے دیندار طبقہ، اس کے جذبات اور احساسات کا بھی خیال رکھنا چاہیے“۔

معلوم نہیں موصوف کون سے پاکستان میں رہتے ہیں، اگر دیندار طبقہ پاکستان کا سب سے بڑا طبقہ ہے تو پھر تو موصوف کے اعتقادات کے مطابق پاکستان کو تو امن کا گہوارا ہونا چاہئے تھا، یہاں دین دار طبقے کی اکثریت کی وجہ سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنی چاہئیں تھیں، اگر دیندار اکثریت والے ملک کایہ حال ہوتا ہے تو مقامی اور عالمی سطح پر کون ہے جو ایسی دینداری اختیار کرنا پسند کرے گا؟ اسی دیندار طبقے کی اکثریت کی بدولت پھر تو پاکستان کی تمام اسمبلیوں میں انہی دینداروں کے نمائندے ہونے چاہئے تھے، اور پھر وہ خود ہی اپنے جذبات اور احساسات کا بخوبی خیال بھی رکھ لیتے، دیندار طبقے کو نظر انداز کئے جانے کی شکایت کس بات کی؟، ذرا عقل و شعور اور غور اور فکر سے کام لے کر معلوم کرنے کی جستجو کیجئے کہ پاکستان کی اکثریت مذہب پسند ہونے کے باوجودبد حالی اور بد امنی کا شکار کیوں ہے؟اگر سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے معلوم کر لیجئے گا۔

معروف اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان میں جاری دہشت گردی کے تانے بانے دینی مدارس سے جوڑے تو موصوف بلاگر ان کا ذکر کچھ اس طرح شروع کرتے ہیں:

”ملائیشیا میں مقیم ایک صاحب ہیں جو کہ ایک مذہبی سکالر و تجزیہ نگار کے طور پر مشہور ہیں“

جناب بنیاد پرست صاحب! جاوید احمد غامدی صاحب ملائشیا میں مقیم ہرگز نہیں ہیں، مقیم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی علاقے میں اپنی مرضی و ارادے سے رہتا ہو، جاوید احمد غامدی صاحب ملائشیا میں مقیم ہرگز نہیں ہیں، بلکہ آپ کو یوں کہنا چاہئے تھا ایک صاحب جو دہشت گردوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر آج کل ملائشیا میں پناہ گزین ہیں یا یوں کہتے کہ جان کے خطرے کی بدولت ملائشیا بھاگے ہوئے ہیں، یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ اظہارِ رائے کے جرم کی بدولت ملائشیا میں خود ساختہ جلا وطنی گذار رہے ہیں، یا پھر یوں کہ ملائشیا ہجرت کر گئے ہیں، لیکن انہیں ملائشیا میں مقیم کہنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے ملائشیا ہجرت کر جانے کی کیا وجوہات تھیں۔ (نوٹ: مذہب کے معاملے میں میرا غامدی صاحب سے بھی اسی قدر اختلاف ہے جس قدر بنیاد پرست صاحب سے ہوسکتا ہے، لیکن میری ہمدردی غامدی صاحب کے ساتھ صرف آزادئ اظہار رائے کی وجہ سے ہے)

ایک اور دلیل جو بنیا دپرست صاحب نے دینی مدارس سے دہشت گردی کا داغ مٹانے کیلئے پیش کی وہ ہے یہ کہ:

”دوسری بات اگر کفر وشرک کو تلوار سے خاتمہ کرنا ضروری سمجھایا جاتا ہے تو ان مدارس والوں کی تبلیغی جماعتیں دنیا بھر میں کونسی تلوار لیے پھر رہی ہیں“۔

یہ عبارت پڑھ کر تو مجھے یقین ہوگیا ہے کہ موصوف انتہائی معصوم ہیں، بنیاد پرست صاحب! پہلی بات تو یہ کہ دنیا بھر میں بغیر تلوار کے تبلیغ ان کی مجبوری ہے کہ تلوار لے کر تبلیغ کرنے کیلئے کوئی انہیں ویزہ ہی نہیں دے گا،اس لئے اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ دنیا بھر میں تلوار لے کر ہی تبلیغ کیلئے نکلتے، لیکن میری نظر میں تبلیغی جماعت کی حیثیت پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ یا ریکروٹمنٹ ایجنسی کی ہے۔ ان کا کام صرف بندوں کو گھر گھار کر بنیاد پرستی کے بنیادی مشن پر لگانا ہوتا ہے، بعد میں ان کے دینی رجحان اور جنون کی وجہ سے دہشت گرد تنظیمیں ان کا باآسانی شکار کر لیتی ہیں۔ نیز یہ ”تبلیغِ اسلام“ کیا بلا ہے؟ اگر ہجرت ِ مدینہ کے بعدباقاعدہ دربارِ رسالت سے ایک بھی تبلیغی وفد غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کیلئے روانہ کیا گیا ہو تو مجھے اس کی تفصیل سے ضرور آگاہ کیجئے گا، میرے علم میں اضافہ ہو جائے گا، اور میں آپ کا بے حد احسان مند ۔

اپنی اس تحریر میں، میں نے صرف بنیاد پرست صاحب کے بلاگ کے پوسٹ مارٹم پر اکتفاء کیا ہے، ”دینی مدارس کا دہشت گردی سے کیا تعلق“ کے عنوان سے میں باقاعدہ ایک الگ تحریر لکھوں گا، جو مجھ پر ادھار ہے، ایک دینی مدرسے کے فاضل سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ دینی مدارس اور دہشت گردی(جسے جہاد کا نام دے دیا جاتا ہے) کا باہم کیا تعلق ہے، اور اس تحریر میں انہی کتابوں کا حوالہ درج ہوگا جن کا لنک بنیاد پرست صاحب نے اپنے اسی بلاگ میں فراہم کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ” دینی مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے، وہ ان کتابوں کو دیکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے“۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top