کیا خدا کے ہونے کا یہ مطلب ہے کہ طبعی یا انسانی آفات وقوع پذیر نہ ہوں؟ جیسے زلزلے، لاؤوں کا پھٹنا، طوفانوں کا آنا، بجلی کا گرنا، شہابیوں کا گرنا، جنگیں، بھوک، بیماریاں وغیرہ؟
یعنی، کیا ان آفتوں کا ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس مادی دنیا کے پسِ پردہ کوئی ایسی شخصیت سرگرم عمل نہیں ہے جسے خدا کہا جائے؟
یہاں میرا موضوع گفتگو اس خدا کی طاقت اور صلاحیتیں نہیں ہیں بلکہ خدا، قدرتی آفتوں اور سائنس کے قوانین کا آپس میں تعلق ہے.
قدیم زمانوں میں انسان نے ان آفتوں کی توجیہ تلاش کرنے میں بڑی محنت کی، کبھی اسے گماں گزرا کہ ان آفات کا سبب خداؤں کی آپس میں جنگ ہے، تو کبھی اسے لگا کہ خداؤں نے اس پر اپنا غصہ اتارا ہے اور اسے سزا دی ہے، اس وقت اسے خبر نہ تھی کہ کائنات دراصل کچھ علمی قوانین کے تحت چل رہی ہے جنہیں اس نے آگے جاکر دریافت کرنا ہے.
آج انسان جانتا ہے کہ زلزلے دراصل زمین کی پرتوں کے پھسلنے کی وجہ سے آتے ہیں، بجلی کا گرنا محض ایک ڈسچارجنگ کا عمل ہے وغیرہ.. آج انسان پہلے سے کہیں زیادہ قدرتی آفات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ان کی پیش گوئی کرنے اور ان کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے جیسے اوزون کی پرت کا سوراخ، گلوبل وارمنگ، بیماریاں وغیرہ.. یہ سب انسان کی سائنسی ترقی اور کائنات کے قوانین کی دریافت سے ہی ممکن ہوسکا ہے، آج انسان نے جتنی سائنسی ترقی کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے خود کو تحقیق کے کام پر مامور کیا اور کائنات کے قوانین کا احترام کیا.
آج سب جانتے ہیں کہ ہر چیز کچھ قوانین کی تابع ہے جن کی دریافت جاری ہے.
اس تناظر میں قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے خدا سے کیا مطلوب ہے؟ یعنی اسے کیا کرنا چاہیے؟
کیا اسے تمام طبعی قوانین توڑ دینے چاہئیں؟
کیا اسے بجلی کا گرنا اور لاؤوں کا پھٹنا بند کردینا چاہیے؟
کیا اسے جنگلوں میں لگنے والی آگ بجھانی چاہیے؟
کیا اسے شہابیوں کا رخ دوسری طرف موڑ دینا چاہیے؟
کیا اسے آندھیاں اور طوفان روک دینے چاہئیں؟
کیا اسے تمام طبعی قوانین ملتوی کرتے ہوئے انہیں معطل کردینا چاہیے؟
لیکن اگر تمام طبعی قوانین معطل کردیے گئے اور کائنات اپنا توازن کھو بیٹھی تو کیا ہوگا؟
جس طرح انسان ان طبعی قوانین کا احترام کرتا ہے اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی کرتا ہے خدا کو بھی چاہیے کہ وہ ان قوانین کا احترام کرے بشرطیکہ ہم اس کے وجود اور اس کی تخلیق پر یقین رکھتے ہوں.
ماضی میں بیماریاں انتہائی خطرناک ہوا کرتی تھیں، آج میڈیکل سائنس کی ترقی اور ویکسین کی ایجاد کی وجہ سے انسان ماضی کی ان خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگیا ہے، آج تھوڑی سی دواء ان بیماریوں کے علاج کے لیے کافی ہے جو ماضی میں جان لے کر ہی دم لیتی تھیں اور مزید تحقیق جاری وساری ہے.
ماضی میں زلزلہ ہر چیز تباہ وبرباد کرنے کے لیے کافی تھا تاہم آج ایسی عمارتیں بنائی جارہی ہیں جو زلزلوں کے جھٹکے برداشت کر کے ویسی کی ویسی ہی کھڑی رہتی ہیں.
ماضی کا انسان تو بس اڑنے کے خواب ہی دیکھ سکتا تھا جبکہ آج کا انسان کششِ ثقل کا مقابلہ کرتے ہوئے روز کہیں نہ کہیں اڑتا پھرتا ہے.
یہ اور ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جو انسان کی ترقی کو نمایاں کرتی ہیں، لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہر چیز کچھ قوانین کے تابع ہے جو توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو پھر ہم طبعی آفات کو غلطی گردانتے ہوئے اس کا الزام خدا پر کیوں ڈال دیتے ہیں؟
لیکن کہانی کا ایک اور پہلو بھی ہے، اگر ہم دنیا کے مسائل پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ انسان کے زیادہ تر مسائل اس کے قدرتی وسائل کے غلط استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اوزون کا سوراخ، گلوبل وارمنگ، آلودگی، آئے دن تیل کا سمندروں میں بہ جانا، جنگلوں کا کاٹنا، ادھر ادھر جنگیں کرتے پھرنا یہ سب باتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اپنے اکثر مسائل کے ذمہ دار ہم خود ہیں، اور خدا کو ہم نے اپنی انسانی غلطیوں کی کھونٹی بنایا ہوا ہے جس پر ہم اپنی تمام غلطیاں لٹکا کر اپنی مصیبت کی ساری ذمہ داری اس پر ڈال دیتے ہیں، جیسے ہی کہیں زلزلہ آتا ہے سب چلا اٹھتے ہیں کہ خدا کہاں ہے؟ بہت کم لوگ یہ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں کہ کیا اس کا ذمہ دار خدا ہے یا یہ کسی انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے؟
جہاں قدرتی آفات نہیں آتیں وہاں کوئی خدا کا شکریہ ادا نہیں کرتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہاں کا امن، سکون خدا کی دین ہے، جب انسان ترقی کرتا ہے یا کسی مصیبت کا مقابلہ کامیابی سے کر لیتا ہے تو اس کا سہرا خود کے سر پر سجاتا ہے اور جب وہ ناکام ہوجاتا ہے تو کیوں سارا الزام خدا پر ڈال کر ایک طرف ہوجاتا ہے؟
اگر کہیں کوئی آفت آتی ہے تو اس کی صرف دو ہی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں، یا تو اس کی وجہ طبعی قوانین کا اپنے معمول کے مطابق چلنا ہے یا پھر کسی مداخلت کی وجہ سے ان طبعی قوانین میں خلل واقع ہونا ہے، دونوں صورتوں میں اس کائنات کے پیچھے کھڑے کسی خدا کا وجود نا تو ثابت ہوتا ہے اور نا ہی اس کی نفی ہوتی ہے کیونکہ یہ واقعات جنہیں ہم آفات یا آفتیں کہتے ہیں کچھ طبعی قوانین کے تحت خودکار طور پر وقوع پذیر ہوتی ہیں اور سب کو جن میں خدا بھی شامل ہے ان قوانین کا احترام کرنا چاہیے اور شاید یہی ہوتا بھی ہے.
سچ کہا اینڈرسن شا بھائی آپ نے.
خدا سے بہتر اس کائنات کو کون سمجھ سکتا ہے. رہی بات کائنات کے نظام کی تو خدا اسے انسان کی فلاح، سزا اور امتحان سب کے لئے باخوبی استعمال کرتا ہے.
ميں نے اپنا تبصرہ يہاں لکھنا تھا مگر اس کے بعد والی تحرير پر لکھ ديا ۔ معافی چاہتا ہوں
یوں لگتا ہے اس پاک ہستی نے بستی بسائی ہے اور انسانوں کے حوالے کر دی ہے اور خود کو غیر متعلق رکھ چھوڑا ہے طبعی قوانین چلتے جاتے ہیں توازن تو حضرت انسان ہی بگاڑے گا پھر ہی تخریبی عمل شروع ہو گا شاید پھر تعمیر کا عمل ہو گا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور چلتا جائے گا…حیران اس بات پہ ہوتا ہوں کہ انسان کہاں سے اتنی دانش ساتھ لے آیا ہے اور یہ دانش ہی انسانی معراج کی دلیل ہے ضرور کوئی منصوبہ ساز ہے اور انسان جو حقیر و بے مایہ لگتا ہے دراصل اپنے شعور کی وجہ سے بڑی جناتی قسم کی آئیٹم ہے….