مذہب اور علم (سائنس) میں ایک تشابہ ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں واقعات کی تفسیر اور اسباب کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، گویا کہ مذہب علم کا ” تصوراتی ” متبادل ہے، لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب مذہب اپنے اور اپنے عقائد کے لیے ایک طرح کے حق یا سچ کا دعوی داغتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ صفت کسی بھی تصوراتی متبادل میں نہیں ہوسکتی؟!
مذہب اور علم کے درمیان اختلاف ختم کرنے کی کوشش در حقیقت مذہب کے دفاع کے لیے کی جانے والی ایک ناکام کوشش ہے، جب بھی مذہب کو اپنے کسی روایتی موقف سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یہ کوششیں شروع کردی جاتی ہیں، اس کا انداز بہت پرانا اور جانا پہچانا ہے جو کسی مسئلے پر جدید علمی موقف اور اسی مسئلے پر مذہبی موقف کے درمیان جھگڑے سے شروع ہوتا ہے جو سالوں بلکہ دہائیوں تک چلتا رہتا ہے جس میں آخر کار علمی نقطہ نظر کی ہی جیت ہوتی ہے، جب یہ نقطہ نظر علمی، ادبی اور عوامی حلقوں میں مقبول ہونا شروع ہوجاتا ہے، تب مذہبی نقطہ نظر کے لوگ کہتے ہیں کہ اصل میں جھگڑے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی کیونکہ اس اختلاف کا تعلق مذہب کی روح سے نہیں تھا چنانچہ اگر مذہب اپنے اس موقف سے دستبردار ہوجائے تو اس کی روح اور جوہر کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کی توجیہات اپنے پیچھے دستبرداریوں کا ایک طویل اور فیصلہ کن سلسلہ لیے ہوئے ہیں جن کی قربانی مذہب کو علم کے ساتھ ہر ٹکراؤ پر دینی پڑی، اگرچہ مذہب کی روح اور جوہر کا یہ فلسفہ بڑا خوبصورت ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مذہب کبھی بھی علم کے ساتھ اپنے کسی بھی جھگڑے میں طویل جنگ کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹا، جدید علمی ثقافت کے دباؤ اور معاشرے کی دورِ جدید کی ضروریات کے سامنے بالآخر مذہب کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑجاتے ہیں.
علمی اور روایتی مذہبی نقطہ نظر کے درمیان نوری سالوں کا فاصلہ ہے، علمی تحقیق کے نتائج ہمیشہ مذہبی عقیدے سے متصادم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا فیصلہ حتمی ہوجاتا ہے.
قاری کائنات کی تخلیق کا مذہبی نقطہ نظر جانتا ہے کہ کس طرح خدا نے اس کائنات کو کسی مخصوص وقت میں بنایا، قاری کو اولین انسان کا اپنی بیوی کے ساتھ جنت سے نکالا جانا بھی یاد ہوگا جہاں سے انسان کی اس زمین پر تاریخ شروع ہوتی ہے، یہ عین مذہبی عقیدہ ہے کہ خدا اپنی مخلوقات کا خیال رکھتا ہے اور ان کی عبادتیں اور دعائیں سنتا ہے بلکہ کبھی کبھی طبعی نظام میں مداخلت بھی کرتا ہے جنہیں معجزات کا نام دیا جاتا ہے، اور کائنات جب سے اسے خدا نے بنایا ہے ایسی ہی ہے جیسی کہ وہ اب نظر آتی ہے یعنی وہی فلکیاتی اجسام، وہی جانور اور پودے جو روز اول سے موجود ہیں جبکہ اس معاملے پر علمی نظریات عدم سے تخلیق کا اعتراف نہیں کرتے اور نا ہی یہ بتاتے ہیں کہ کائنات ابتداء سے ایسی ہی تھی جیسی کہ وہ اب نظر آتی ہے، انگریز عالم اور فلسفی برٹرینڈ رسل نے اس نظریے کو ایک خوبصورت ادبی انداز میں ” آزاد آدمی کی عبادت ” کے عنوان سے بیان کیا ہے:
To Dr. Faustus in his study Mephistopheles told the history of the Creation, saying:
"The endless praises of the choirs of angels had begun to grow weari-some; for, after all, did he not deserve their praise? Had he not given them endless joy? Would it not be more amusing to obtain undeserved praise, to be worshipped by beings whom he tortured? He smiled in-wardly, and resolved that the great drama should be performed.
"For countless ages the hot nebula whirled aimlessly through space. At length it began to take shape, the central mass threw off planets, the planets cooled, boiling seas and burning mountains heaved and tossed, from black masses of cloud hot sheets of rain deluged the barely solid crust. And now the first germ of life grew in the depths of the ocean, and developed rapidly in the fructifying warmth into vast forest trees, huge ferns springing from the damp mould, sea monsters breeding, fighting, devouring, and passing away. And from the monsters, as the play unfol-ded itself, Man was born, with the power of thought, the knowledge of good and evil, and the cruel thirst for worship.
And Man saw that all is passing in this mad, monstrous world, that all is struggling to snatch, at any cost, a few brief moments of life before Death’s inexorable decree.
And Man said: ‘There is a hidden purpose, could we but fathom it, and the purpose is good; for we must reverence something, and in the visible world there is nothing worthy of reverence.’ And Man stood aside from the struggle, resolving that God intended harmony to come out of chaos by human efforts. And when he followed the instincts which God had transmitted to him from his ancestry of beasts of prey, he called it Sin, and asked God to forgive him. But he doubted whether he could be justly forgiven, until he invented a divine Plan by which God’s wrath was to have been appeased. And seeing the present was bad, he made it yet worse, that thereby the future might be better. And he gave God thanks for the strength that enabled him to forgo even the joys that were possible. And God smiled; and when he saw that Man had become per-fect in renunciation and worship, he sent another sun through the sky, which crashed into Man’s sun; and all returned again to nebula. "‘Yes,’ he murmured, ‘it was a good play; I will have it performed again.'”
رسل کی اس تحریر میں کائنات، زندگی، انسان، مذاہب، عبادتیں اور ان کی ترقی کا علمی اور طبعی نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے، آخر میں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہر چیز کا انجام فناء اور عدم ہے اور اس کے بعد کسی جاندار کے لیے کوئی امید نہیں ہے، سب اس بادل سے ہیں اور سب نے اسی بادل کی طرف ہی جانا ہے.
ایک اور موقع پر جب رسل سے پوچھا گیا کہ: کیا انسان موت کے بعد جیے گا؟ تو اس نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ: جب ہم اس سوال کو جذباتی کی بجائے علمی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ موت کے بعد زندگی کے جاری رہنے کی کوئی عقلی وجہ دریافت کرنا انتہائی مشکل ہے، مجھے موت کے بعد زندگی کے عقیدے کی کوئی علمی بنیاد نظر نہیں آتی.
اگر اس ٹھنڈے اور کٹھور علمی نظریے کا مقابلہ خوبصورت اور گرما گرم مذہبی نظریے سے کیا جائے تو ہمیں غیبیات، فرشتے، جن، معجزات، عبادتیں کائنات کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں گی، یہ بات انسان کی تاریخ اور اس کے انجام سے متعلق بھی لاگو ہوتی ہے، جبکہ علمی نظریے کو ایک اور ریاضی دان لاپلاس نے بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جب اس نے اپنی کتاب سسٹم آف دی ورلڈ (The Exhibition System of the World) نپولین کو تحفتاً دی تو نپولین نے اس سے پوچھا کہ: ” تمہارے نظام میں خدا کون سے مقام پر ہے؟ ” تو لاپلاس نے جواب دیا کہ: ” خدا ایک ایسا مفروضہ ہے جس کی مجھے اپنے نظام میں ضرورت نہیں ہے ”. تو پھر اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں جب ہم دو صدیاں پہلے نیتشے کو یہ اعلان کرتے ہوئے پاتے ہیں کہ خدا مرگیا ہے، کیا ہم انکار کر سکتے ہیں کہ وہ خدا جو یورپ میں مرگیا کیا دوسری جگہوں پر علمی ترقی کے نیچے دب کر آخری سانسیں نہیں لے رہا؟ یقیناً جب ہم کہتے ہیں کہ خدا مرگیا ہے یا مرنے والا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قوموں کے ضمیر سے مذہبی عقائد ختم ہوگئے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ کائنات کی ساخت کے حوالے سے انسان نے جو علمی دریافتیں کی ہیں وہ ساری کی ساری خدا کے ذکر سے خالی ہیں بالکل جس طرح لاپلاس کہتے ہیں.
پھر بھی دفاعی مورچے سے ایک آخری آواز ضرور بلند ہوتی ہے جو کہتی ہے کہ: مادے کے بارے میں علمی نظریات کو مان بھی لیا جائے تب بھی کائنات کے ابتدائی مصدر کا مسئلہ برقرار رہے گا… رسل کی بات مانتے ہوئے ہم فرض کرتے ہیں کہ کائنات ایک بادل (Nebula) سے شروع ہوئی مگر علم ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ یہ بادل کہاں سے آیا اور نا ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ ابتدائی مادہ کہاں سے آیا جس سے ہر چیز نے ترقی کی؟ چنانچہ یہاں پر لازم ہے کہ علم کو مذہب سے رابطہ کرنا چاہیے، لیکن سوال کو اس طرح سے پیش کرنا دراصل یہ بتاتا ہے کہ ہماری سوچ پر ہماری مذہبی تربیت کا کس قدر اثر ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ خدا نے ہی وہ پہلا مادہ بنایا تو کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا؟ کیا اس مفروضے کو تسلیم کرنے سے پہلے بادل کے مصدر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ نہیں!! آپ پہلے بادل کے وجود کی علت کا سوال اٹھاتے ہیں اور جواب دیتے ہیں کہ یہ خدا ہے، اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ خدا کے وجود کی علت کیا ہے؟ یہاں آپ کا جواب وہی جانا پہچانا ہے کہ خدا کا وجود غیر معلول ہے، یہاں میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہم یہ کیوں فرض نہیں کر لیتے کہ پہلے مادے کا وجود غیر معلول ہے جس سے بحث بھی ختم ہوجائے گی اور ہمیں غیبیات اور روحانی قسم کی مخلوقات سے رجوع بھی نہیں کرنا پڑے گا جن کا وجود ہم ثابت نہیں کر سکتے؟ یاد رہے کہ قدیم فلاسفروں بشمول مسلمانوں کے ہمیشہ یہی رائے رہی ہے اور انہوں نے دنیا کے قدیم ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن مذہبی تعصب کی وجہ سے وہ بات کو گھماتے رہے، در حقیقت ہمیں کائنات کے ابتدائی مصدر کے حوالے سے انتہائی انکساری سے اپنی کم علمی کا اعتراف کرلینا چاہیے، جب آپ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ خدا ہی پہلے مادے کے وجود کی علت ہے جس پر یہ ساری کائنات مشتمل ہے، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ خدا کے وجود کی علت کیا ہے تو سب سے بڑا جواب جو آپ مجھے دے سکتے ہیں وہ ہے: ” نہیں معلوم، بس خدا کا وجود غیر معلول ہے ” اسی طرح جب آپ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ پہلے مادے کے وجود کی علت کیا ہے تو سب سے بڑا جواب جو میں آپ کو دے سکتا ہوں وہ ہے: ” نہیں معلوم، بس مادے کا وجود غیر معلول ہے ”، یعنی آخر میں فریقین نے چیزوں کے پہلے مصدر پر اپنی کم علمی کا اعتراف کر لیا بس فرق صرف اتنا ہے کہ آپ نے مجھ سے ایک مرحلہ بعد اعتراف کیا اور معاملے میں غیبی عناصر داخل کردیے جن کا مسئلے کے حل میں کوئی کردار نہیں ہے.
تو خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ مادہ قدیم ہے جدید نہیں ہے اور خدا بھی قدیم ہے جدید نہیں ہے تو اس طرح گویا ہم نے اعتراف کر لیا کہ ہم چیزوں کے پہلے مصدر کے بارے میں نا تو جانتے ہیں اور نا ہی جان سکتے ہیں، چنانچہ بہتر یہی ہے کہ بجائے الٹے سیدھے راستے اختیار کرنے کے ہم اپنی جہالت کا براہ راست اعتراف کر لیں، دنیا کی کسی بھی عدالت میں کسی بھی معاملے کے اثبات یا نفی کے لیے فیصلہ تب تک معلق رہتا ہے جب تک کہ قطعی ثبوت دستیاب نہ ہوجائیں اور خدا کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے ایسے ثبوتوں کی اشد ضرورت ہے، حقیقت کی سنجیدہ تلاش میں یہ فکری دیانتداری کی کم سے کم حد ہے.