Close

مذہب اور عورت

 

یہ خبر پڑھنے کے بعد سوچا پاکستانی عورت کے لیے ایک مضمون لکھا جائے کیونکہ ریتیلے ممالک میں بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے، ساتھ ہی میں نے اس مضمون کے ساتھ ❞ونڈر وومن❝ کی تصاویر کا انتخاب کیا ہے کیونکہ یہ عورت کامیکس کی دنیا میں ایک ایسے وقت میں آئی جب کامکس کی دنیا پر ❞مرد سپر ہیروز❝ چھائے ہوئے تھے جیسے سپر مین، بیٹ مین اور سپائڈر مین وغیرہ، ایسے میں یہ تصویری کہانیوں کی پہلی اور سب سے زیادہ شہرت پانے والی ❞سپر ہیروئین خاتون❝ ہے، مصنف نے اس شخصیت کا اقتباس یونانی جنگجو امازونی خواتین سے کیا، ونڈر وومن عورت کی آزادی اور خود مختاری کی علامت ہے، یہ محض اپنی ❞سپر ہیروانہ❝ طاقتوں پر ہی انحصار نہیں کرتی بلکہ اپنی عقلی صلاحیتوں کا بھی بھرپور استعمال کرتی ہے، ایک ایسی دنیا میں جس میں ہر طرف مرد ہی چھایا ہوا ہے اس کا مقصد محبت، بھائی چارہ، اور جنسی مساوات کے امازونی قدروں کا فروغ ہے.

 

 

وہ مواقع جو عورت کو آج حاصل ہیں وہ سونے کی طشتری پر رکھے ہوئے نہیں ملے تھے، یہ مذاہب اور فرسودہ روایات کے خلاف طویل جنگ کے بعد ہی حاصل ہو پائے ہیں، مذہب عورت کی آزادی اور مرد کے ساتھ اس کے مساویانہ حقوق کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہا ہے، تمام جدید لبرل قدریں تنویری فکر کی مسلسل جد وجہد کا نتیجہ ہیں جس نے دنیا کے بیشتر ممالک میں عورت کو حقوق کے معاملے میں مرد کے برابر لا کھڑا کیا جس میں سیاسی اقتدار بھی شامل ہے، یہ سب اندھیری دنیا کے ساتھ فکری جنگ کے بغیر ممکن نہیں تھا، مذہب کا تعلق اسی اندھیری دنیا سے ہے جو عورت اور ترقی سے نفرت کرتا ہے، یہ قرونِ اولی کی دنیا ہے، اگر ہم مذاہب پر ہی قائم رہتے تو کبھی ترقی نہ کرتے اور نا ہی انسانیت کچھ ایجاد یا دریافت کر پاتی، مذاہب کی وجہ سے دنیا میں ترقی کا پہیہ کوئی ایک ہزار سال تاخیر کا شکار ہوا، اور اگر یہ سب جاری رہتا تو آج آپ اپنے کسی لختِ جگر کی کسی فضول وجہ سے موت پر آنسو بہا رہی ہوتیں جیسے ویکسینیشن کی عدم دستیابی.

 

 

تمام مذاہب ایک ہی جیسے ہیں اور ایک ہی طرح سے ری ایکٹ کرتے ہیں، عیسائیت بھی عورت کی مرد سے مساوات کے سخت خلاف ہے مگر یورپ میں اپنی شکست کے بعد اسے حقیقتِ حال کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے، تاہم اسلام آج بھی وہی قرونِ اولی کا فرسودہ راگ الاپ رہا ہے اور یہ تصور پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ کی آزادی مسلمانوں کو شکست دینے کی ایک یہودی، امریکی ماسونی، فرعونی شدادی سازش ہے.. ہر مذہب میں عورت کے خلاف ظالمانہ تعلیمات ہیں، مگر تنویری اور آزاد فکر نے ہمیشہ عورت کی تعلیم کا ہتھیار استعمال کیا اور ان فرسودہ مذہبی تعلیمات کا بھانڈا پھوڑا جو خوبصورت لبادے میں عورت کی دشمنی پر مبنی تھے، یہ ریاست اور اس کے قوانین کو سیکولر بنائے بغیر ممکن نہیں تھا… ذیل میں یہودیت سے ایک مثال ہے:

اگرچہ اسرائیل کے بیشتر یہودیوں نے سیکولر ازم اور لبرل ازم کو اپنا لیا ہے تاہم شدت پسند اور بنیاد پرست یہودی خواتین کی تمام تر سرگرمیوں کے خلاف ہیں اور ایسے پیش آتے ہیں جیسے قرونِ اولی میں رہتے ہوں جہاں معاشرے میں عورت کا کردار صفر کے برابر ہے اس طرح یہ بنیاد پرست یہودی مسلمانوں کے مولویوں، پیروں اور شیخوں سے کسی طرح بھی مختلف نہیں.

 

 

یہودی مولوی الیاکیم لیوانون (Elyakim Levanon) کو ایک خاتون کا خط موصول ہوا جس میں اس خاتوں نے سوال کیا کہ کیا وہ کمیونٹی سیکریٹری کا عہدہ سنبھال سکتی ہے؟ اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں یہ سب سے بڑی غلطی ہے، کبھی کسی مولوی سے کچھ نہ پوچھیں کیونکہ وہ یقیناً منع کردے گا جو ان کا انسانوں کو کنٹرول کرنے کا روایتی طریقہ ہے اور اس کام کے لیے مذہب ایک بہترین اوزار ہے، ریتیلے ممالک کے پاکھنڈی مولویوں اور عورت کے خلاف ان کے گھٹیا فتووں سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے.. آپ کا کیا خیال ہے کہ اس یہودی مولوی نے کہا ہوگا کہ ہاں جائز ہے؟ جبکہ اس کا تعلق ایک ایسے ملک سے ہے جو عورت کو اقتدار دینے میں کئی مغربی ممالک سے آگے ہے؟ جواب سنیے:

"The first problem is giving women authority, and being a secretary means having authority, This is the proper way to prevent a situation in which the woman votes one way and her husband votes another,” He also said it was not appropriate for women to mix with men in late evening meetings of community leaders.

گویا کہ آپ اقرا چینل پر کسی پاکھنڈی مولوی کو سن رہے ہوں؟

اس خبر پر کئی خواتین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، ایک خاتون نے کہا کہ عورت نے اپنا حق جہدِ مسلسل اور مشکل ترین اوقات میں اپنے آپ کو ثابت کر کے حاصل کیا ہے، جبکہ نورٹ ٹسور نامی خاتون نے کہا کہ یہودی مولوی کا فتوی جمہوری اقدار کے خلاف ہے، اب ہم قرونِ وسطی میں نہیں رہتے، مجھے توقع ہے کہ مذہبی قیادت لیوانون کے بیان کی مذمت کرے گی اور معاشرے میں یہودی عورت کے مقام کو مزید واضح کرے گی.

عورت کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار دینے کی روش کسی قدر نئی ہے، اس کی تاخیر کی وجہ مذاہب ہیں، دنیا کا کون سا مذہب کہتا ہے کہ عورت اقتدار میں حصہ لے سکتی ہے؟ یقین کریں ایک بھی نہیں.. مسلمان مولویوں کی اس بک بک پر دہان نہ دیں جو حقوقِ نسواں پر بات کرتے ہوئے یوں شروعات کرتے ہیں کہ: اسلام نے عورت کو مرد کے برابر کا درجہ دیا ہے ماسوائے (…………..) اور پھر خالی جگہ کو سستی اور گھٹیا جسٹی فیکیشن سے بھر دیتے ہیں جو عقل میں نہیں گھستی.. تمام مذاہب نے عورت کو مرد سے کم تر درجہ دیا ہے اور اسی بنیاد پر اسے اقتدار کی ذمہ داریوں کے قابل نہیں سمجھا، اسلام بھی یہی کر رہا ہے لہذا دھوکہ نہ کھائیں.

بطور انسان آپ کے آزاد ہونے میں سیکولر تحریکوں اور آزاد فکر کا بڑا گہرا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو ملحدہ ہونا چاہیے مگر اپنی قسمت اور خوشی کو کسی پاکھنڈی مولوی یا شیخ کے ہاتھوں پامال نہ ہونے دیں بلکہ معاشرے کے ایسے گندے انڈوں کے خلاف مضبوط اپوزیشن بنیں، صرف اپنے آج کے لیے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں اپنی بیٹیوں اور پوتیوں کے لیے، ڈاکٹر عنیقہ ناز جیسی ❞ونڈر وومن❝ آپ کے لیے ایک بہترین نمونہ اور مشعلِ راہ ہے، جب تک زندہ رہیں، ایسے مذہبی جنونیوں کو لگام ڈالے رکھی جو اب ان کی موت پر جتنا اظہارِ افسوس کر رہے ہیں اندر سے اتنے ہی خوش ہیں کہ شکر ہے بلا ٹلی.

 

 

اسلام پر تنقید صرف ملحدین کی حد تک ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو اس میں شامل ہونا چاہیے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامژن دیکھنا چاہتے ہیں، مذاہب ایک ناکام نظام ہیں جو صورتِ حال کو ویسا کا ویسا ہی رکھتے ہیں، انصاف اور مساوات میں عورت کے حق کا دفاع کرنا کوئی امریکی یہودی سازش نہیں ہے جیسا کہ یہ طفیلی آپ کو ڈراتے رہتے ہیں، بلکہ یہ انسانی حق وانصاف کا ایک لا ینفک جزو ہے.

یہودی مولوی لیوانون ایک جانی پہچانی تصویر ہے، یہ شیخ عریفی اور بن باز اور عثیمین ہے، یہ شیخ عوضی ہے، یہ سیستانی کی کاربن کاپی ہے..

 

 

عورت کو بھاری ذمہ داریاں دے کر ہم ان بکروں اور جو کچھ ان کا دین آپ کے بارے میں کہتا ہے غلط ثابت کر سکتے ہیں، ریتیلے ممالک میں مذہبی جنونیوں کو لگام ڈالنے کے لیے حقوقِ نسواں کی حمایت کرنا از بس ضروری ہے..

شاید آپ کو میرے ملحدانہ خیالات سے اتفاق نہ ہو مگر آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ جس قدر دین کے ٹھیکیداروں کی حجتیں کمزور پڑیں گی اسی قدر عورت اپنی مساوات کی منزل کے قریب تر ہوتی چلی جائے گی، عورت کی آزادی پدری ثقافت سے چھٹکارے کے بغیر ممکن نہیں اور یہ سب مذہب پر تنقید کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا.

جواب دیں

0 Comments
scroll to top