Close

تلبیسی ابلیسی لاجک

تلبیسِ ابلیس از علامہ ابن جوزی۔

علامہ صاحب اپنی کتاب تلبیس ِ ابلیس کے شروع میں فرماتے ہیں کہ” عقل انسان کے لئے بڑی نعمت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور رسولوں کی تصدیق کا ذریعہ ہے” اسکی تشریح  میں مولانا عبدلحق صاحب کہتے ہیں کہ  عقل کی دو قسمیں ہیں، ایک عقل ِ جسمانی ، دوم عقل ِ روحانی اور یہ دوسری قسم وہ ہے کہ جب قلب پر مہر ہو تو وہ نہیں کھلتی بلکہ ایمان ہی سے کھلتی ہے۔ بطور دلیل  انہوں نے قرآنی آیت پیش کی ہے جسکا ترجمہ ہے کہ "کسی جی کو ایمان حاصل کرنے کی قدرت نہیں، مگر جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو”۔

تو مندرجہ بالا سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ صاحب اور مولانا صاحب  کے نزدیک عقل کی دو اقسام ہیں، اور   اصل عقل کہ جس سے اللہ کی معرفت اور رسولوں کی تصدیق ہو وہ  دوسری قسم ہے اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ  یہ عقل تبھی حاصل ہوتی ہے جب اللہ کا ارادہ ہو۔ یعنی جب تک اللہ خود نہ چاہے کوئی نہ تو اسکی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی رسولوں کی تصدیق۔ اس طرح تو اللہ ہی  کفار اور ملحدین کے کفرو الحاد کا ذمہ دار ٹھہرا کہ  جسکا بہانہ بنا کر اللہ اب انکو جہنم میں جھونکنے جا رہا ہے؟کیونکہ اگر انکو عقل ِ روحانی حاصل نہیں تو اسکا مطلب ہو اکہ اللہ کا ارادہ انکو عقلِ روحانی عطا کرنے کا  سرے سے تھا ہی نہیں ، اگر ہوتا تو وہ عاقل ہوتے اور اسلام قبول کر کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لے آتے۔

  ایسا معلوم ہوتا ہے یا تو علامہ و مولانا صاحب کو کہیں غلطی لگی ہے یا پھر وہ  عقل سے بالا کوئی منطق جھاڑنے  کی یا بے عقلی کو عقلیانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ کم عقلوں کو اتنی بھی دلیل کی ضرورت نہیں اور عقلمند وں کو ایسی بودی دلیل سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

5 Comments

  1. حضرت ملا صاحب! شاہراہِ عقل پر خوش آمدید، یہ راستہ اختیار کرنے پر میری طرف سے دلی مبارکباد قبول فرمائیں، یقین کیجئے زندگی شکوک و شبہات سے بالا تر ہو انتہائی مطمئن انداز میں گذرے گی، اینڈرسن شا اور میری مثالیں آپ کے سامنے ہیں، ورنہ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟

    1. عقل کا راستہ دکھانے پر آپ ہی حضرات کا ممنون ہوں۔بس تھوڑا سا غیر جانبداری کی ضرورت ہے اور سچ جھوٹ کھل کر سامنے آنے لگتا ہے۔
      مجھے اپنے بچپن کے وہ چند سال ساری زندگی نہیں بھولیں گے جب اپنے اسلامیات کے استاذ کی تعلیمات نے آخرت سے اتنا ڈرایا تھا کہ رات کو خواب میں بھی جہنم دیکھ کے اٹھ بیٹھتا تھا۔

  2. ملا صاحب میں سمجھتا ہوں کہ اسمیں علامہ ابن جوزی کا قصور نہیں ہے یہ قصور انکے اندھے اعتقاد کا ہے، جب پہلے اعتقاد پر ایمان لایا جاتا ہے تو پھر عقل صرف اپنے عقیدے کی ہر غیر منطقی بات کو صحیح ثابت کرنے کیلئے جواز گھڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ علامہ صاحب کی تحریر پر غور کیا جائے تو یہ صرف اللہ کے معاملے ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر معاملے پر فٹ آتی ہے۔ آپ سیاست معاملے پر ہی دیکھ لیں جب کسی سیاسی شخصیت کو چاہے والے یہ یقین کرلیتے ہیں وہ شخصیت کوئی غلط کام نہیں کرسکتی یعنی اس پر ایمان لے آتی ہے اسکو اپنے ہیرو سیاسی شخصیت میں کوئی خامی دکھائی نہیں دیتی چاہے اسکے خلاف کتنا ہی بڑا کھلا ثبوت ہی کیوں نہ فراہم کردیا جائے۔

  3. اسی طرح مذہبی اعتقادات کا معاملہ باقی معاملات سے آگے چلا جاتا ہے کیوں کہ وہاں ایک سپر نیچرل طاقت کا ایمان کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ لازمی ہے کہ جب آپ پہلے یہ یہ یقین کرلیں کہ ایک سپر نیچرل طاقت نہ صرف انکی ایک ایک حرکت دیکھ رہی ہے بلکہ اسکی سوچ کے لہروں کو بھی پڑھ رہی ہے تو اسکے بعد منطق تو کام کرنا چھوڑ ہی دیگی اور اسکے لئے کوئی منطق کسی کام کی نہیں رہ جاتی۔

جواب دیں

5 Comments
scroll to top