Close

جادوگریاں

 

کوالا لمپور ایئر پورٹ پر ایک عدد کھجور کے ڈبے پر یہ حدیث دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا:

❞جس شخص نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیں اس دن اسے نہ زہر نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ جادو❝ (حوالہ)

میں کسی بھی مؤمن کو یہ چیلنج کرنے کے لیے تیار ہوں کہ وہ پہلے یہ سات عجوہ کھجوریں کھالے اور اس کے بعد کوئی کیڑے مار دواء پی لے اور خود ہی دیکھ لے کہ حدیث میں جو بات کی گئی ہے وہ سچ ہے یا جھوٹ؟! اور میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ کوئی بھی مؤمن بشمول وہ بھی جو حدیث کی حقانیت کا ہر وقت راگ الاپتے رہتے ہیں اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے.. 😀

بہرحال اس حدیث میں جادو کا ذکر کوئی پہلی بار نہیں ہوا، اسلام میں جادو ایک مسلمہ حقیقت ہے اور اس کے لیے ایک سورت بھی مختص ہے جیسے سورۃ الفلق.. ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ نظر حق ہے.. پھر سلیمان اور اس کے اڑتے جن اور بھوت.. اور فرعون اور اس کے جادوگر وغیرہ بھی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر مذاہب اور جادو میں کوئی دیرینہ تعلق ضرور ہے، ماہرینِ اینتھروپالوجی Anthropology یقین دلاتے ہیں کہ انسانی ارتقاء میں مذہب کی ایجاد کی جڑیں جادو میں پیوستہ ہیں.

جب عدمِ دریافت کی وجہ سے علم کسی مظہر کی وضاحت نہیں کر سکتا تو مؤمن کہتے ہیں کہ یہ ان کے خدا نے کیا ہے یا تخلیق کیا یا بنایا ہے یا پھر یہ ایک طرح سے کوئی جادو ہے.. مگر کیسے..؟ بس ایسے ہی کن فیکون.. جیسے کوئی جادوگر ٹوپی میں ہاتھ ڈال کر اس میں سے خرگوش یا کبوتر نکال لیتا ہے، کیا اس کے لیے توجیہ کی ضرورت نہیں ہے کہ خدا نے یہ کام کیسے کیا؟ مگر افسوس آپ کو ایسے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ خدا نے یہ کیا کیسے یا وہ کیا وجہ تھی جس کے چلتے اس نے یہ سب کیا.. کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں اسلام میں ایسے سوال کرنا کفر ہے اور عام طور پر ایسے سوالوں کے آخر میں ❞استغفر اللہ❝ لگا کر بات ختم کردی جاتی ہے.

چیزوں کو تخلیق کر کے وجود میں لانے کے لیے خدا کون سا میکانزم استعمال کرتا ہے؟ جسموں میں روح کیوں ڈالتا ہے جبکہ وہ انہیں بغیر روح کے تخلیق کرنے پر قادر ہے؟ کیا خدا کی اس جادوئی طاقت کی کوئی حد ہے جو طبعی قوانین کی مخالفت کرتی ہے اور طبیعات، کیمیاء، منطق اور عقل سے متصادم ہے؟ پہلے کہا جاتا تھا کہ خدا بارش بنا کر ہماری طرف بھیجتا ہے، معرفت میں ایک خلاء تھا جسے مذہب نے جادوئی توجیہ سے پُر کیا، خدا ایک جادوئی چھڑی گھماتا ہے اور پانی سے بھرے بادل اڑتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں اور جہاں چاہتا ہے برس پڑتے ہیں.. علم نے آکر بارش کے اسباب دریافت کیے، ہم سے کہا جاتا تھا کہ زلزلے، لاوے اور طوفانوں کی وجہ خدا کا غضب ہے اور لوگوں کو سزا دینے کی اس کی خواہش کی عکاس ہیں.. ایک بار پھر علم نے آکر بتایا کہ زلزلے اور طوفان کسی جادوگر کی جادوئی چھڑی کی کارستانی نہیں.. الغرض جو بھی کچھ ہوتا ہے اس کی علمی توجیہ ہوتی ہے مگر ایسی کوئی توجیہ کیوں نہیں ہے کہ خدا یہ سب کرتب کیسے انجام دیتا ہے؟

کن فیکون کا انقلابی نظریہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی طرح دماغ میں نہیں بیٹھتا کیونکہ یہ جادو کی طرح ہے، خدا، اس کے انبیاء، دین کے ٹھیکیدار پادری، مولوی، پنڈتھ اس کا کوئی شافی جواب نہیں دے سکتے.. کن فیکون کا نظریہ وضاحت وتفہیم کی طاقت سے عاری ہے اور صرف جادوئی طاقت پر انحصار کرتا ہے.. یہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ خدا نے اسے ایسے ہی بنایا ہے اور اسی میں اس کی حکمت ہے… حکمت؟ یقیناً وہ آپ کو یہ نہیں بتا پاتے کہ یہ حکمت کیا ہے.. وہ آپ کے سوالوں کے براہ راست جواب دینے کی بجائے خدائی جادو کی کہانی سے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.

اپنی مقدس کتابوں میں شیخ چلی جیسی کہانیاں سنانے کی بجائے یہ خدا ہمیں منطقی انداز میں یہ کیوں نہیں بتاتا کہ کائنات کو تخلیق کرنے سے پہلے وہ کیا کر رہا تھا؟ کیا خلاء میں اکیلا سو رہا تھا؟ کائنات کو بنانے کے لیے اتنے وقت کا انتظار کیوں کیا؟ اگر کائنات کو کن فیکون کہہ کر بنایا جاسکتا تھا تو اسے بگ بینگ سے کیوں شروع کیا؟ ہر لحظہ پھیلتی کائنات کی بجائے کائنات کو یکلخت وجود میں کیوں نہیں لے آیا؟.. یہاں کیسے، کیوں اور کب کا کوئی مطلب نہیں ہے.. یہاں سب جادو ہے.. چیزوں کی توجیہ میں مؤمن صرف جادوئی سوچ پر انحصار کرتا ہے.. کیا خدا کے پاس کائنات تخلیق کرنے کا کوئی سابقہ تجربہ ہے یا وہ بغیر کسی سابقہ تجربے کے کائنات تخلیق کر سکتا ہے؟ کس نے اسے تخلیق کرنا سکھایا اور اس سے پہلے وہ اپنی تخلیق کی جادوگرانہ صلاحیت کا استعمال کیوں نہیں کرتا تھا؟ تخلیق کی وجہ کیا ہے؟ کیا کھربوں سال کے انتظار کے بعد اچانک اس میں یہ طاقت آگئی؟

ہم سب اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں اور بہتری کی طرف گامژن ہوتے ہیں.. خدا اپنے تجربات سے سیکھ کر اپنی جادوئی طاقت کو بہتر کیوں نہیں کرتا؟ کیا ہم آئی پیڈ کو کسی سابقہ تجربے کے بغیر بنا سکتے تھے؟.. یقیناً نہیں، ہم نے پہلے کمپیوٹر بنایا اور اس کے تجربے کی بنیاد پر آئی پیڈ.. پہلے ہم نے ٹیب ریکارڈر بنایا، پھر واک مین اور پھر ہم آئی پوڈ بنانے کے قابل ہوئے.. مگر لگتا ہے کہ خدا اپنی معرفت کو ترقی نہیں دیتا، زمانوں سے جو کچھ اس نے بنایا ہے وہ ویسے کا ویسے ہی پڑا سڑ رہا ہے، مؤمنین کہتے ہیں کہ اس کی خلقت میں کوئی ارتقاء نہیں ہوتا اور نا ہی کوئی تبدیلی آتی ہے.. لا تبدیل لخلق اللہ (روم آیت 30).. چاہے نظریہ ارتقاء ہمیں بتا رہا ہو کہ یہ سب درست نہیں.. خدا آکر انسان کو ایسی ترقی کیوں نہیں دیتا کہ وہ بیماریوں اور جراثیم کے خلاف مدافعت پیدا کر سکے..؟ مگر افسوس اس کی جادوئی طاقتیں محدود ہیں.. ہم انسانوں نے ہی بیماریوں اور جراثیم سے لڑنے کے علمی طریقے سیکھے ہیں.. جبکہ وہ اور اس کا جادو کہیں پڑے سو رہے ہیں.

مؤمن سمجھتا ہے کہ انڈہ سینڈل سے زیادہ سادہ اور کم پیچیدہ ہے کیونکہ انڈے کو خدا نے بغیر کسی سابقہ تجربے کے بنایا ہے جبکہ سینڈل بنانے کے لیے ایک ڈیزائنر کے ساتھ ساتھ جوتے بنانے میں سابقہ تجربہ بھی درکار ہے… اگر خدا کے پاس چیزیں بنانے کے لیے اتنی ہی جادوئی طاقتیں ہیں اور وہ اتنا ہی عظیم ہے تو وہ ذرا ہمیں یہ بتانے کا کشٹ کرے گا کہ اسے ہمارے جنسی رجحانات میں اس قدر دلچسبی کیوں ہے؟ اگر کوئی اس کی مرضی کے برخلاف جنسی عمل انجام دے لے تو وہ اتنا پریشان کیوں ہوجاتا ہے؟ وہ ہمارے لباس، کھانوں حتی کہ داڑھی کی شکل تک کے حوالے سے اتنے خبط کا شکار کیوں ہے؟ ہم پر اپنی جادوئی طاقت کا استعمال کر کے ہمیں اپنی مرضی کا تابع کیوں نہیں بنا لیتا؟ ہمیں سزا دینے کے لیے آخری زمانے کا انتظار کیوں کر رہا ہے؟ ہم پر ابھی جادو کر کے اپنی اور ہماری ٹینشن ختم کیوں نہیں کردیتا؟ ان سب سوالوں کے جواب ہمیں کوئی نہیں دے سکتا.. یوں عیسائیت اور اسلام کا یہودی مصدر کا قصہء تخلیق ایک ایسی مضحکہ خیز چیز بن جاتی ہے جسے حماقت کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا.

ہمیں اب تک جادو کرنے والا کوئی جاندار نہیں مل سکا.. چاہے وہ انسان ہو یا جانور.. ممالک طاقت کےحصول کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر ڈالتے ہیں.. وہ جادو سے مسلح ہوکر جان کیوں نہیں چھڑا لیتے؟ اتنی ٹینشن پالنے کی ضرورت ہی کیا ہے..؟ کیونکہ نا تو کوئی جادو ہے اور نا ہی اس خدا کی طرح کا کوئی جادوگر.. جادو طبعی قوانین کو توڑتا ہے جو نا ممکن ہے.. مقدس کتابیں جادوئی واقعات تو سناتی ہیں مگر ان کی کوئی معقول علمی توجیہ بتائے بغیر کہ یہ کیسے ہوئے.

سورۃ نحل کی آیت 8 میں فرمان ہے کہ اسی نے ہمارے لیے ❞گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو❝ مگر کیا سواری کے لیے ہم نے انہیں نہیں سدھایا؟ جب سدھانے کا بیان غلط ہے تو تخلیق کا بیان درست کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر یہ درست بھی ہو تو اس نے ہمارے لیے سدھائے ہوئے گھوڑے تخلیق کیوں نہیں کیے؟ کیا ہم نے انہیں نہیں سدھایا اور ہمی نے ان کی زین سازی نہیں کی؟ اور پھر اتنا وقت کیوں برباد کیا شروع سے ہی ہمارے لیے گاڑیاں تخلیق کردیتا؟ یہ واقعی ایک جاہل جادوگر ہے.. ایک جگہ کہتا ہے کہ ❞ومنہا تاکلون❝ (اور انہی سے تم کھاتے ہو) یعنی بھینس جب پیدا ہوتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق ذبح ہوکر ہماری خوراک بننے کے لیے کی گئی ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہیں کہ خدا نے کیڑا اس لیے بنایا تاکہ چڑیا اسے کھا سکے.. کیڑے کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ جانوروں کی ایک اور نسل کی غذاء بنے؟ یہ یقیناً ایک لنگڑی سوچ ہے کیونکہ ہر نوع اپنی ہی نوع کو قوت بخشنے کے لیے جیتی ہے نا کہ دوسری انواع کو فائدہ پہنچانے کے لیے.. اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جادوگر اندھا ہے اور اس کا جادو قاصر اور کمزور ہے.

کیا مؤمن کے لیے یہ بہتر نہیں کہ وہ اعتراف کر لے کہ اسے اس ریاضی کی سمجھ نہیں جو علمِ فلک کو بیان کرتی ہے بجائے یہ کہنے کے کہ کوئی خدا ہے جو جادوگروں کی طرح چیزیں بناتا ہے؟ مؤمن کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا مگر خدا جانتا ہے، وہی اپنے جادو.. میرا مطلب ہے مخلوقات کو جانتا ہے.. یقیناً تخلیق کا عمل ایک جادوئی عمل ہے کیونکہ یہ ہر علمی قانون کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ طبعی قوانین نہیں توڑے جاسکتے چنانچہ جادو نا ممکن ہے اور اس طرح خدا بھی نا ممکن ہوجاتا ہے، ہمارے ارد گرد کوئی جادو نہیں ہے، ہر چیز کی ایک توجیہ ہے چاہے مؤمن اس حقیقت سے نظریں چرائے رکھیں.

جادو کو ماننے کا مطلب ہے کہ ہمیں ثابت شُدہ نظریہ ارتقاء کی بجائے آدم اور حواء کی اس کہانی پر یقین کرنا پڑے گا کہ وہ آسمان سے پیراشوٹ کے ذریعے اترے تھے، جادو کو ماننے کا مطلب یہ ماننا ہے کہ داود نے جالوت کو قتل کیا بجائے یہ جاننے کے کہ الفونس لاویران (Alphonse Laveran) نے ملیریا کو قتل کیا، جادو کو ماننا کیپٹن نوح اور اس کی عجیب وغریب کشتی کو ماننا ہے بجائے یہ جاننے کے کہ جان فیچ (John Fitch) نے پہلی سٹیم بوٹ ایجادی کی.. جادو کو ماننے کا مطلب حقیقی دنیا کی بجائے خرافات کی دنیا میں جینا ہے.

23 Comments

  1. aslam o alikum ..ap ka artical parha acha artical hay..is topic pay GEO na aik programme bhi dekhya tha aik hafta..dus tak kay baad…ap kay artical sa uss ki yaad aa gai..main sirf ya kehna chati hon kay artical ko aik khas maslak ko maad e nazar rakh kay nahi likhna chiya bulkay is kay andaz main aik esi wosat honi chiyaa kay jo bhi parhay wo samjhnay ki koshish kary…topic bohat sensative hay aur is topic ki musharay ko zaroort bhi bohat hay…mager zaroort likhny walon ki geer janibdari ki bhi hay…

  2. اینڈرسن شا صاحب السلام علیکم
    آج آپ کا بلاگ بعنون جادو گریاں پڑھا۔ اس طرح کے مضامین ہمارے معاشرے کی اصلاح کیلئے اشد ضرورت ہیں۔
    بلاشبہ وہم اور توہم پرستی نے صرف سماجی رویّوں کو ہی پامال نہیں کیا ہے بلکہ تمام اخلاقی حدود کو بھی بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے، میں نے جب آپ کا بلاگ پڑھا تو میرے دل و دماغ پر پر ایک عجیب بوجھل سی کیفیت طاری ہوگئی کیونکہ آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم تو اٹھایا ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ قلم اٹھانے کا حق ادا نہیں کر پائے، کیونکہ مجھے آپ جیسے لکھاری سے ایک غیر جانبدارانہ تحریر کی توقع تھی، ایک ایسی تحریر جس میں موضوع کی حساسیت کے اعتبار سے جملوں کی کاٹ تو بلاشبہ موجود ہو لیکن اصلاح کا پہلو بھی مفقود نہ ہو
    آپ کے مضمون میں مجھے اصلاحی پہلو کم اور تنقیدی پہلو نمایاں نظر آیا
    جب آپ نے مذہب نامی عفریت سے خود کو آزاد کرا ہی لیا ہے تو اپنے قلم کو کیوں آزاد نہیں کرا پائے،
    ایسا بھی کیا کہ ایک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
    ایسا بھی کیا کہ ایک دل کو شکیبہ نا کر سکو
    میں معذرت خواہ ہوں شائد میرا اندازِ شکایت ذرا تلخ ہو مگرمقصود سوائے اصلاح کے اور کچھ نہیں،
    آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر ہر وقت صرف اسلام، قرآن اور رسول پر ہی تنقیدمجھے کچھ مناسب نہیں لگی،دیگر مذاہب پر آپ کا تنقیدی قلم حرکت میں کیوں نہیں آتا، صرف اسلام ہی آپ کے ناوک کا نخچیر کیوں ہے؟
    جادو کے حوالے سے آپ نے صرف اسلام کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مانا کہ آپ ترک اسلام کو اختیار کر چکے ہیں لیکن
    کیا جادو کے حوالے سے آپ نے دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کیا ہے؟ کیا جادو کے حوالے سے دیگر مذاہب کے رویّے سے آپ مطمئن ہیں؟
    کیا اس طرح کی کہانیاں صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہیں
    کیا دیگر مذاہب اسلام سے ہہتر ہیں؟ ۔
    جیسے اسلام کے نام پر انسانیت کا تیاپانچہ کیا جا رہا ہے ایسا ہی دیگر مذاہب کے پیروکار بھی کر رہے ہیں۔ آپ اپنی اسلام مخالفت میں شائٰد یہ پہلو نظر انداز کر بیٹھے ہیں کہ مسلمان بھی انسان ہیں، آپ جیسے لوگ جو انسانیت کو اپنا مطمع نظر قرار دیتے ہیں اسلام کے ماننے والوں کے بارے میں اپنا معیار کیوں برقرار نہیں رکھ پاتے اور جانبداری کا شکار ہو جاتےہیں۔
    آپ سائنس کے پیروکار ہیں، اپنے سائنسی نظریات کا ضرور پرچار کیجئے، لیکن اس کی آڑ میں مذہب کو نشانہ بنانا کوئی صحت مندانہ رجحان نہیں لگتا۔
    آپ اگر اس جانبداری سے پہلو تہی کریں تو میری نظر میں آپ کے بلاگ کی افادیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    1. میرے خیال سے آپ کو جانبداری اس لیے نظر آرہی ہے کیونکہ اول تو آپ نے میری ساری تحریریں پڑھی ہی نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ ابھی دائرے کے اندر ہیں اس لیے آپ کو میری باتوں میں جانبداری نظر آرہی ہے.. اوپر کی تحریر کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ میں نے کہیں پر بھی لفظ ❞اللہ❝ یا ❞مسلمان❝ استعمال نہیں کیا ہے.. ❞خدا❝ ایک جامع لفظ ہے جس میں سارے خدا آتے ہیں، اسی طرح ❞مؤمن❝ بھی ایک جامع لفظ ہے جس میں سارے مذاہب کے ماننے والے آجاتے ہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ نمونے کے طور پر اسلام کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ جب آپ کسی موضوع پر بات کرتے ہیں تو آپ کو کہیں سے مثال تو دینی ہی ہوتی ہے اور یہ مثال آپ ہمیشہ اس موضوع سے دیتے ہیں جس پر آپ کو دسترس ہو، میری اسلام پر دسترس ہے عیسائیت پر نہیں، اس لیے میں تنقیدی نمونے اسلام سے لیتا ہوں، عیسائیت پر تنقید کا کام میرا نہیں ہے کیونکہ اگر میں عیسائیت پر تنقید کرتا ہوں تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کہ کیمیاء کا استاد کمپیوٹر سائنس پڑھانا شروع کردے!؟ کیمیاء کے استاد کو چاہیے کہ وہ کیمیاء ہی پڑھانے کمپیوٹر سائنس پڑھانا اس کا کام نہیں بلکہ یہ کام کمپیوٹر سائنس کے استاد کا ہے، بالکل اسی طرح عیسائیت یا یہودیت پر تنقید کا کام ان لوگوں کا ہے جنہیں ان مذاہب پر دسترس ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ان پر تنقید کا قائل نہیں ہوں.. اپنی معلومات کی حد تک میں ضرور کرتا ہوں، ذیل کی تحریر ایسا ہی ایک نمونہ ہے جو شاید آپ کی تیکھی نظر سے نہ گزر سکی ورنہ آپ جانبداری کا الزام نہ لگاتیں:
      https://realisticapproach.org/%DA%A9%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%D8%A7-%D8%A8%DB%8C%D9%B9%D8%A7/

      ذیل کی پوسٹ پر بھی میں نے اسلام پر تنقید کی مگر اس بات کو تسلیم کیا کہ دماغ کی جراحت کے آلات سب سے پہلے ایک مسلم سائنسدان نے دریافت کیے تھے اور اس کے دلائل بھی پیش کیے مگر یہ آپ کو نظر نہ آیا.. کیا بلاگستان میں کوئی یہ بات جانتا تھا؟ کیا آپ یہ بات جانتی تھیں؟ مجھے اگر اسلام فوبیا ہوتا تو میں بڑے آرام سے الزہراوی کا ذکر گول کر سکتا تھا مگر میں نے ایسا نہیں کیا، حق بحقدار رسید میرا اصول ہے:
      https://realisticapproach.org/%D8%AF%D9%85%D8%A7%D8%BA%DB%8C%D8%A7%D8%AA/

      آپ کہتی ہیں کہ مذہب کو نشانہ بنانا کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے، میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آخر مذہب کو ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اسے تنقید سے استثناء حاصل ہوجائے؟ کوئی ایک وجہ تو بتائیے؟ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتی ہیں کہ جناب اس سے مؤمنین کی دل آزاری ہوتی ہے.. یہاں میں آپ سے اتفاق کروں گا کہ جی ہاں مؤمنین کی دل آزاری ہوتی ہے مگر یہ دنیا کا سب سے بھونڈا بہانہ ہے کیونکہ اگر دل آزاری کا خیال رکھا جائے تو کوئی بھی منصف انصاف نہیں کر سکتا، دنیا کی کسی بھی عدالت میں بیٹھا جج جب انصاف کرتا ہے تو ایک فریق کی لازماً دل آزاری ہوتی ہے تو کیا انصاف کرنا چھوڑ دیا جائے؟ مسلمان علماء جب دوسرے مذاہب پر تنقید کرتے ہیں تو کیا وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں؟ نہیں جناب ان کی چھری صرف ایک طرف چلتی ہے، انہیں دوسرے مذاہب میں کیڑے نظر آتے ہیں مگر اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا، مسلمان دوسرے مذاہب پر خود کو تنقید کا حق دیتے ہیں مگر دوسروں کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ ان پر تنقید کر سکیں.. تنقید سے روک کر دراصل آپ لوگوں سے حقائق چھپانے کی بات کر رہی ہیں جو لوگوں تک پہنچنی ضروری ہیں.. کیا آپ جانتی ہیں کہ الجزائر میں اسلام پسندوں نے دو لاکھ جزائری قتل کردیے جن میں بچے بھی شامل تھے!؟ کیا آپ جانتی ہیں کہ اسلام کے ٹھیکیداروں نے اسلام کے نام پر دارفور میں تین لاکھ انسان قتل کردیے؟ کیا آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ عراق میں ان ملاؤوں نے ڈیڑھ ملین عراقی سڑکوں اور بازاروں میں لقمہء اجل بنا دیے؟ اسلام پر تنقید سے روکنا دراصل آزادی اظہار رائے کے حق میں جرم ہے جس کی ضمانت انسانی حقوق کا عالمی منشور دیتا ہے اور یہ ان خطرناک جرائم کی پردہ پوشی ہے جو اسلام چودہ سو سال سے زائد عرصے سے کر رہا ہے، اگر عیسائیت نے ماضی میں علماء کا قتل کیا ہے تو اس کی معافیاں بھی ریکارڈ پر ہیں مگر اسلام یہ بہیمانہ جرائم کر کے بھی خود کو حق پر سمجھتا ہے.. آخر وہ وقت کب آئے گا جب اسلام خود پر تنقید عیسائیت کی طرح خندہ پیشانی سے برداشت کرے گا؟ رچرڈ ڈاکنز ملکوں ملکوں گھوم کر عیسائیت پر تنقید کرتا پھرتا ہے مگر کوئی اس کی کاڑی میں بم نہیں لگاتا، کوئی اس پر فائرنگ نہیں کرتا اور نا ہی کوئی اسے دھمکیاں دیتا ہے.. لیکن اسلام ایک عجیب مذہب ہے کہ آپ نے ذرا منہ کھولا نہیں کہ میان سے تلواریں باہر آجاتی ہیں.. غامدی نے کون سی تنقید کی تھی کہ اس کے گھر پر بم فٹ کردیا گیا؟ تنقید سے ہی روکنے کے لیے طبری کو قتل کیا گیا، حلاج کو مصلوب کیا گیا، معری کو حوالہء زنداں کیا گیا، ابن حیان کا خون بہایا گیا، ابن المنمر کو جلاء وطن کیا گیا، ابن رشد اور اصفہانی کی کتابیں جلائی گئیں، فارابی، رازی، ابن سینا، ابن الفارض اور کندی پر کفر کے فتوے لگائے گئے، سہروردی کو ذبح کیا گیا، اور ابن المقفع کے جسم سے اس کا گوشت کاٹ کر اس کے سامنے پکا کر آخری سانسیں لینے سے پہلے اسے زبردستی کھلایا گیا.. ابن الجعد بن درہم کا خون بہایا گیا، احمد بن نصر کا سر کاٹ کر گلیوں گلیوں گھمایا گیا، لسان الدین بن الخطیب کو قتل کر کے اس کی لاش جلائی گئی.. یہ صرف نمونہ ہے محترمہ وگرنہ اسلامی جرائم کی فہرست بہت طویل ہے.. اتنے بہیمانہ جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود آپ کہتی ہیں کہ اسلام پر تنقید کیوں کی جارہی ہے؟ کیا آپ نہیں سمجھتیں کہ لوگوں تک یہ باتیں پہنچنی چاہئیں؟ کیا لوگوں کو یہ باتیں جاننے کا حق نہیں ہے؟ کیا آپ مُلا سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ خوابِ خرگوش میں گم اس سوئی ہوئی قوم کو یہ تلخ حقائق بتائے گا؟

  3. صرف مسلمان ہی اپنا جادو ٹونہ دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں اور ان جھوٹی جادوئی کہانیوں پر مصر ہیں کہ وہ سچ ہیں جب وہ دنیا کے سامنے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہماری ہر بات سچ ہے تو ان کی بات کو غلط ثابت کرنا کہاں سے جانبداری ہوگئی؟ چونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو انسانیت کی بجائے صرف اللہ سے محبت کا درس دیتا ہے اس لئے اسی سے سب سے زیادہ خطرہ انسانیت کو ہے اور اسی کے جھوٹ کے پول کھولنے کی اولین ضرورت ہے۔

  4. نکہت گل صاحبہ ہم تمام لوگ جو اردو میں مذاہب پر بلاگنگ دیکھ اور کررہے ہیں سب کا تعلق اسلام سے ہے ۔ ہمارے ارد گرد کے ماحول میں اسلام ہی مشترکہ مذہب ہے آپ چاہتی ہیں کہ ہم اپنی برائیوں پر بات نہ کریں بلکہ دوسروں کو ہی کوستے رہیں؟

  5. آج ڈرتے ڈرتے میں نے سوچا کہ اپنا پہلا تبصرہ پوسٹ کر ہی ڈالوں-
    آپ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، گذارش صرف اتنی کرنی ہے کہ جن موضوعات پر آپ خامہ فرسای کرتے ہیں وہ نیے نہیں ہیں، مسلمانوں میں اور اردو میں لکھنے والے بہت سے لوگ ہیں جو ان موضوعات پر لکھتے آے ہیں ، مثلا نیاز فتحپوری اور سبط حسن-
    مگر ان میں نیاز فتحپوری صاحب کی تحریروں میں تو پھر بھی کہیں کہیں ہلکے پھلکے طنز کے تیر مل جاتے ہیں ‘ لیکن سبط حسن صاحب ایسے موضوعات پر خالص علمی انداز میں لکھتے ہیں- اپنے قاری کے عقیدے کا مذاق اڑاے بغیر، یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں عام کتابوں کی دکان پر بغیر کسی فتوے کے آسانی سے دستباب ہیں

    مگر جب آپ قلم ہاتھ میں اٹھاتے ہیں تو وہ محض نشتر نہیں رہتا بلکہ ایک کلاشنکوف کا روپ اختیار کرلیتا ہے اور آپ بھی بعین وہی روپ اختیار کرلیتے ہیں جس سے ہر معقول فرد اختلاف کرتا ہے اور آپ کے قاری کے سامنے صرف آپ کا طنز و تحقیر و درشتگی سے بھرا رویہ رہ جاتا ہے اور آپ کے علمی اعتراضات پس پشت چلے جاتے ہیں اور پھرنتیجہ یہ کہ تحقیر کی وجہ سے آپ کے قاری کا دفاعی میکنزم حرکت میں آجاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی محنت راییگاں ہو جاتی ہے-

    دوسری بات یہ کہ جیسا کہ "ول ڈیورانٹ” نے کہا کہ "جب انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ مذہب کچھ نہیں ہے تب وہ سمجھنے لگتے ہیں اب وہ جو چاہے کرے” [مفہوم]

    آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ انسان نے بتدریج شعور حاصل کیا اور اپنے تجربات کے ذریعے ایک خاص اخلاقی نظام مرتب کرڈالا؛ اس سے ریاست کو فایدہ یہ تھا کہ اسے گھر میں جھانکنے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہاں کیا ہورہا ہے،
    اب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس اخلاقی نظام میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے جسے لوگ تنزلی کا نام بھی دیتے ہیں تو اگر ہم مذہب سے خالی دنیا کا تصور کریں تو کیا ریاست کوی نیا اخلاقی نظام بناے گی ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ریاست اس پر عملدرآمد کراے گی’ کیا وہ اس مقصد کے لیے ہمارے گھروں تک کنٹرول حاصل کرے گی، یا ، "اس وقت تک” ہمارے بچے لیبارٹریز میں پیدا ہو رہے ہوں گے اور وہیں سے براہ راست معاشی سرگرمی میں مشغول ہو جایں گے-

    اگر آپ یہاں پھر کنفیوشس کے اخلاقی نظام کی مثال دیں گے تو ہمیں بتاییں کہ "خوف” اور "امید” کے بغیر کتنے لوگ اس پر عمل درآمد کرتے ہیں اور کرنے پر تیار ہیں

    میری بات شاید کچھ ادھوری سی ہے اور درمیان میں بہت سارے خدشات نہیں لکھے گیے ہیں مگر آپ جیسے ذہین فرد سے مجھے توقع ہے کہ آپ میری بات سمجھ بھی گیے ہوں گے اور آپ کے پاس اس کا کوی خاکہ اور حل بھی موجود ہوگا-

    شکریہ

    1. ویل ڈیورانٹ نے جو بات کی ہے وہ ایسی ہی فکر پر طنز ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ مذہب کے بغیر دنیا بد اخلاقی کا شکار ہوجائے گی، آپ کی بات میں ایک بنیادی تضاد ہے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ: ❞انسان نے بتدریج شعور حاصل کیا اور اپنے تجربات کے ذریعے ایک خاص اخلاقی نظام مرتب کرڈالا❝ تو دوسری طرف آپ یہ کہہ کر کہ: ❞اگر ہم مذہب سے خالی دنیا کا تصور کریں تو کیا ریاست کوی نیا اخلاقی نظام بناے گی❝ اخلاقیات کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں.. حقیقتِ حال یہی ہے کہ مذہب اخلاقیات نہیں سکھاتا (اور نا ہی قانون) بلکہ انسان کے بتدریج شعور اور تجربے سے حاصل کردہ اخلاقیات کو ہائی جیک کر لیتا ہے اور فضیلت کا دعوے دار بن جاتا ہے، اسلامی اخلاقیات کے یہ دو نمونے ملاحظہ فرمائیے:

      قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ
      جو لوگ اہل کتاب میں سے اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخر پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینے لگیں۔ – سورہ التوبۃ آیت 29

      صحیح مسلم میں ارشاد ہوا ہے:
      لا تبدأوا اليهود والنصارى بالسلام ، فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه
      یہود ونصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور اگر ان میں سے کوئی تمہیں راستے میں مل جائے تو اس کا راستہ تنگ کردو

      اگر مذہب بزعم خود ❞دینِ حق❝ کو قبول نہ کرنے والوں سے جنگ کرنے پر اکساتا ہے اور انہیں ذلیل کر کے ان سے بھتہ لینے پر راغب کرتا ہے بلکہ ان پر راستے تک تنگ کرنے کی ہدایات صادر فرماتا ہے تو ایسی مذہبی اخلاقیات پر آپ ہی فیصلہ کر دیں کہ یہ کتنی انسانی ہیں!؟

      انسانی تاریخ میں آج تک جتنی بھی جنگیں اور قتل وغارت گری ہوئی ہے بشمول اسلامی ❞غزوات❝ اور امریکہ کے حالیہ ایڈونچرز کے سب خدا کے نام پر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ نازی فوجیوں کے بلیٹ کے بکل پر ❞خدا ہمارے ساتھ ہے❝ کندہ ہوتا تھا؟ خدا ور اس کے ان فرسودہ مذاہب کے بغیر دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی، کیونکہ قتل وغارت گری پر جتنا مذہب اکساتا ہے اور کوئی چیز نہیں اکساتی… ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ مسجد لوگوں کو یہ قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ ریاست کا کام لوگوں کو اخلاقیات سکھانا ہے!؟ نہیں جناب یہ ریاست کا کام نہیں ہے، کسی سے ماتھے پر بل دے کر بات کرنا یا مسکرا کر کرنے کا فیصلہ آپ نے کرنا ہے ناکہ ریاست نے، مسلمانوں کو چھوڑ کر آج بھی دنیا اپنی اخلاقیات مذہب سے نہیں بلکہ انسانیت سے لیتی ہے، اگر مذہب کے بغیر انسان اخلاقی پستی کا شکار ہوجاتا تو سوئٹزرلینڈ، ڈینمارک جاپان ودیگر ممالک جہاں لادین لوگوں کی اکثریت ہے مسلمان ممالک سے کیوں زیادہ ترقی پر ہیں؟ وہاں کیوں خودکش حملے نہیں ہوتے؟ رہی بات خوف اور امید کی تو یہ خدشات بے بنیاد ہیں اور محض بچپن کی مذہبی فیڈنگ کا نتیجہ ہیں، لادین دنیا میں کسی بچے کو آسمان پر بیٹھے کسی بھوت کے جہنم سے نہیں ڈرایا جائے گا اور نا ہی اسے جھوٹی جنت کی امیدیں دی جائیں گی.. اپنی آئندہ نسلوں کو کسی سراب کے پیچھے لگانے سے بہتر ہے کہ ان کی پرورش زمینی حقائق کی بنیاد پر کی جائے.

  6. اینڈرسن شا صاحب۔ جب بچہ سکول کی پہلی جماعت میں داخل ہوتا ہے تو سکول کے چند روز بعد اسے یقین محکم ہوتا ہے کہ اس کا علم مکمل ہے اور اس سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ عمومی طور پر لوگ اسی کیفیت میں صفحات کالے کئے چلے جاتے ہیں۔ ہم انسانوں کی خواہش یہ ہے کہ ہماری استعداد چاہے ایک "کچی” کے بچے سے بھی کم ہو لیکن کائنات کے تمام اسرار و رموز ایک آسان قاعدے کی صورت میں معہ اشکال ہمارے سامنے آجائیں۔ خدا نے تو سب راز کھول دئیے، زمان و مکان کی تمام حقیقتوں سے آشنا کردیا لیکن کوئی محرم راز بننے کو تیار ہی نہیں۔ ہاں یہ اعتراض ضرور کیا جاتا ہے کہ جی اگر ہمیں علم نہیں تو اس کا وجود ہی نہیں ہوگا۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں والا حال ہے۔ لوگ سائل اور خدا کا فرق ہیں نہیں جانتے۔ خدا سے "ڈیمانڈ” کرتے ہیں "درخواست” نہیں اور چاہتے ہیں خدا ان کے ترلے کرکے انہیں سب کچھ بتا دے۔ قرآن کہے کہ ہے کوئی جو غور کرے اور ہم چاہتے ہیں کہ غور کئے بغیر ہی سب کچھ معلوم پڑ جائے اور جی اگر غور کرنا شرط ہے تو جی بھاڑ میں جائے اگر کچھ ہوتا تو شرطوں کے بغیر ہی بتا دیا جاتا۔ ہم فانی، خاکی چاہتے ہیں خدا کو اپنی مرضی پر چلانا۔ خود کو بدلتے نہیں بدل دیتے ہیں قرآن کو والا معاملہ ہے۔ جسے طلب ہوتی ہے وہ پا لیتا ہے لیکن سچی طلب ہے کس کے پاس؟ یہاں تو غرض ہے اپنے علم اور تجربہ سے لوگوں کو گھائل کرنے کی۔

  7. well said Khurram. I would like to add, that there are many physical phenomenas which science is unable to explain so far with accuracy, e.g. dark matter, dark energy, non observable universe, double slit experiment, we here do not understand these things but still we dont say that it is not present however that entity who has created all this we want to understand him fully. I havent seen a more foolish desire than this so far.

    1. سائنس جن چیزوں کو نہیں سمجھ پائی ان کے تجسس میں ہے، اور اسکو یہ اعتراف کرنے میں کوئی عارنہیں کہ فی الحال اسکے پاس ان باتوں کے جواب نہیں۔ وہ جو بھی تھیوری پیش کرتی ہے ہر خاص و عام چاہے تو اسکو غلط "ثابت” کر سکتا ہے اور سائنس اسکو ردی کی ٹوکری میں پھینک دے گی۔ اور ایسا ہوتا رہا ہے۔
      دوسری طرف مذہب ہے، جو کہ پہلی بات تو یہ کہ سوال پوچھنے ہی سے منع کر دیتا ہے۔ اگر کوئی اس پر چبھتا ہوا تنقیدی سوال اٹھائے تو اسکی سختی سے سرکوبی کی جاتی ہے۔ جواب نہ دے سکنے پر کہا جاتا ہے کہ سوال ہی غلط ہے۔ اور تو اور، مذہب انسان کو اسکی تخلیق کا مقصد تک نہیں بتا سکا کہ جسکی کوئی عقلی توجیہ کی جا سکے۔
      جب اس (مذہب) سے سوال پوچھے جاتے ہیں تو اول تو جواب ہی نہیں ملتے اور اگر ملیں بھی تو ایسے کہ صدیوں تک اسکے پیروکاروں کو سمجھ ہی نہ آسکیں اور وہ اسکی تاویلیں کر کر کے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ حضرت محمدﷺ سے نضر بن حارث نے صرف تین سوال کئے تھے اور ہر چیز کا علم رکھنے والے اللہ نے انہیں کئی روز بعد ایسے گھما پھرا کر جواب دئیے کہ اسکے پیروکار ابھی تک کچھ ادھر کی ہانکتے ہیں کچھ اُدھر کی۔

      سائنس کے پاس اگر "کچھ” سوالوں کے جواب فی الحال نہیں ہیں تو کیا ہوا، مذہب کے پاس تو کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ سائنس نے تو انسانیت کو بہت کچھ دیا، مذہب نے کیا دیا؟ جنگیں، فساد، قتل و غارت گری، تشدد۔ کبھی آپ نے سنا کہ ایک سائنسدان یا فلسفی نے دوسرے سائنسدان یا فلسفی کو احمق قرار دے کر واجب القتل گردانا ہو؟ یہ اعزاز صرف مذہب کو حاصل ہے جناب۔

    2. جی ہاں علم بہت سارے طبعی مظاہر کی وضاحت نہیں کر سکتا تو کیا خدا کر سکتا ہے؟ اس کی مقدس کتابیں کر سکتی ہیں؟ اس کے چمچے کر سکتے ہیں؟ نہیں.. بالآخر علم نے ہی ان مظاہر کی وضاحت کرنی ہے، آپ آج جو یہ بات کر رہے ہیں یہ بھی اسی علم نے ہی آپ کو بتائی ہے کہ یہ مظاہر موجود ہیں اور بجائے آپ کو یہ ❞علم❝ دینے پر آپ علم کے احسان مند ہوں آپ خدا کی گود میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھا.. علم میں یہ خامی ہے.. اسے نہیں پتہ ڈارک میٹر کیا ہے.. بھیا آپ کو یہ بات کس نے بتائی تھی؟ خدا نے؟ اس کے کسی نبی نے؟ مولوی نے؟ نہیں.. ان میں سے کسی نے بھی آپ کو ایسی کوئی بات نہیں بتائی سوائے آپ کے ذہن میں جنوں، بھوتوں اور خرافات بھرنے کے.. یہ فکر گاڈ آف دی گیپس کا بہترین نمونہ ہے.. مؤمن علم کے گیپس میں خدا کو بٹھا دیتے ہیں کہ دیکھا علم کو یہ نہیں پتہ.. پھر جب علم وہ مسئلہ حل کرلیتا ہے اور وہ گیپ بند ہوجاتا ہے اور خدا کی اس گیپ میں جگہ نہیں بچتی تو مؤمن خدا کو اس گیپ سے نکال کر اس سے اگلے گیپ میں ڈال دیتا ہے.. اور یوں یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے.. علم کے ساتھ مؤمنین کا یہ بھونڈا مذاق خود ان کے اپنے لیے تمسخر کا باعث بن گیا ہے، آج گیپس اتنے کم ہوگئے ہیں کہ خدا کا راستہ ہی تنگ ہوکر رہ گیا ہے.. گاڈ آف دی گیپس کے ماننے والے ایک دن ایسے ہی کسی گیپ میں گر کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گے کیونکہ علم وہ گیپ بند کر چکا ہوگا.. گاڈ آف دی گیپس کے ماننے والوں کا کوئی علاج نہیں.

    3. سائنس فی الحال یہ وضاحت نہیں کر پائی کہ ڈارک میٹر، ڈارک انرجی اور مخفی کائنات آخر ہیں کیا؟ لہٰذا وجود خدا ثابت ہوگیا۔ کیا منطق ہے کیا فلسفہ ہے، نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ مومنین کی آخر عقل سے دشمنی کیا ہے؟ کوئی تو بتلائے تو سہی کہ ہم بتلائیں کیا؟

  8. چلیں آپ کے بلاگ سے یہ تو معلوم پڑا کہ گزشتہ صدی کی دونوں بڑی جنگیں خدا کے نام پر ہوئی ہیں۔ اسی طرح ہنی بال، سکندر اعظم، کیلی گولا، نیرو وغیرہا سب نے خدا کے لئے ہی سب قتل و غارت کی۔ ہردور کا انسان جو خدا سے ہٹ کر ایک ضابطہ خیال بنانا چاہتا تھا اسی فریب میں مبتلا تھا کہ جہاں تک ان کی سوچ کی رسائی ہے خدا کی پہنچ وہاں تک نہیں لیکن یہ بھی عجب تماشہ ہے کہ ان کے جدید پیروکار انہیں احمق گردانتے ہیں۔ آپ ہزار برس پہلے والوں کو کہتے ہیں کہ ان کے طریق جاہلانہ تھے، آپ سے ہزار برس بعد آنے والے آپ کے متعلق یہ فرمائیں گے اور سب اسی ایک دائرے میں گھومتے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ کو یہ یقین ہی نہیں کہ آپ کے خیالات و نظریات کامل ہیں پھر ان نظریات پر عمل کرنا بجائے خود حماقت نہیں کیا؟ آج جن نظریات کی سائنس اور جدیدیت کے نام پر زور شور سے حمایت کی جارہی ہے، کچھ عرصہ قبل انہی کی مخالفت بھی اسی زور و شور سے جاری تھی اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بیس پچاس برس بعد کونسے نظریات "سکہ رائج الوقت” ہوں گے؟ اگر عقل کی انتہا یہ ہے کہ نسل انسانی کو بالفعل "گنی پگز” میں بدل دیا جائے اور ہر نسل پر ایک نیا تجربہ کیا جائے اور اس کے ناکام ہونے پر ایک اور تجربہ اور پھر ایک اور تو پھر بے عقلی کے لئے نئی تعریف ڈھونڈنا ہوگی۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ "سوال پوچھنے” کی رٹ لگاتے ہیں وہ خود ہی سوال پوچھنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ ہم صرف وہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں جس کا جواب ہماری مرضی کا دیا جائے۔ جہاں اپنی غلط فہمیوں کے راز کھُلنے کا خدشہ ہو وہاں بات یا بدل دی جاتی ہے یا گول کردی جاتی ہے۔ خدا کے انکاری آج تک انسانیت کو نہ سکون کا راز دے سکے نہ فلاح کا اور نہ ہی ترقی کا۔ جس راستے پر طرف اندھا دھند جانب شمال بھاگتے ہیں چار پانچ برس بعد اسی راستے پر بگٹٹ جانب جنوب دوڑتے دکھائی دیتے ہیں اور اس بھاگ دوڑ کو ارتقاء کا نام دیتے ہیں۔ خدا کے انکار کے پیچھے بنیادی طور پر کسی بھی ضابطے کی پابندی سے انکار کی خواہش موجود ہوتی ہے اور اس خواہش کی موجودی میں کسی بھی تعمیری فلسفہ یا نظریہ کی پیدائش اور کامیابی ناممکن ہے۔ انسان ہزارہا برس سے اس کی کوشش کررہا ہے اور ہمیشہ ناکام رہا ہے اور رہے گا۔ لگاتار خوشحالی اور ترقی عمومی طور پر ایک مضبوط مذہبی معاشرہ میں ہی ممکن رہی ہے وگرنہ قومیں چند ایک دہائیوں میں عروج و زوال کی داستان بن جاتی ہیں اور اس کی تاریخ خود شاہد ہے۔ خیر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اور "اہل عقل” اس سب کچھ کو "اگلوں کی کہانیاں” قرار دے کر خود ایسی ہی ایک کہانی بن جاتے ہیں۔ 🙂

  9. سائنس تو کہتی ہے کہ وہ نہیں جانتی لیکن سائنس کوماننے والے یہ کہتے ہیں کہ سائنس سب کچھ جانتی ہے۔ اگر سائنس یہ کہہ دے کہ جو اسے معلوم ہے وہ آخری سچ ہے تو پھر اہل سائنس کے دعووں پر غور بھی کیا جائے لیکن سائنس تو ایسا کوئی بھی دعوٰی کرنے سے ہی انکاری ہے جناب۔ مدعی سُست اور گواہ چُست والا معاملہ ہے۔ معلوم تو یہ پڑتا ہے کہ جو لوگ سائنس کے متوالے ہیں وہ بذات خود سائنس سے ناآشنا ہیں اور سُنی سُنائی پر ہی خیالات کی دُنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ 🙂

  10. آپ نے فرمایا کہ بچہ پہلی جماعت میں داخل ہونے کے چند روز بعد خود کو عالم سمجھنے لگتا ہے۔ یہ بات قطعی طور پر درست نہیں، کیونکہ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ سوال بچے ہی کرتے ہیں اور جو سوال کریں اور نئی نئی باتیں پوچھیں اور تجسس میں رہیں وہ خود کو عالم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ بنیاد ہی غلط استدلال پہ رکھی ہے جناب نے (معذرت کے ساتھ)
    یہ برتری صرف مذہبی علماء ہی کو حاصل ہے جو سمجھتے ہیں انکو عقل کے خزانوں سے نواز دیا گیا ہے اور نوع انسانی کے تمام مسائل کا حل انکی قرآن نامی زنبیل میں موجود ہے۔
    آپ کہتے ہیں کہ قرآن غور کرنے کا کہتا ہے۔ جب لوگ غور کرتے ہیں تو انکے ذہنوں میں سوال آتے ہیں اور جب وہ سوال کرتے ہیں تو بجائے انکو منطقی استدلال کے قائل کرنے کے، آپکے خدا کے چمچے انکو برا بھلا کہتے ہیں۔
    علم و تجربہ سے لوگوں کو گھائل کرنا مقصد نہیں، بلکہ مذہب کی حقیقت سامنے لانا ہے تاکہ ایک سراب کے پیچھے دوسروں کی زندگیاں برباد نہ کریں۔
    آپ فرماتے ہیں کہ پہلے والوں کو نئے لوگ احمق گردانتے ہیں۔ جی نہیں،مثال، جس بندے نے غور و فکر کیا اور پر باندھ کر اڑنے کی کوشش کی وہ بالکل احمق نہیں تھا، بلکہ اسنے فکر کی ایک ایسی بنیاد رکھی کہ جسکی عمارت پر بیٹھ کر آج آپ ہزاروں میل کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرتے ہیں اور مستقبل میں شاید منٹوں اور پلک جھپکنے میں۔ ہاں وہ ضرور احمق تھا جسنے بجائے یہ خیال کرنے کے کہ بارش کیسے برستی ہے اور سیلاب آنے کی وجہ کیا ہے، اسے ایک نادیدہ ہستی کا ثبوت جانا اور اسکی خوشنودی کے لئے کبھی کچھ الٹی سیدھی حرکتیں کیں اور کبھی کچھ۔ آج بھی انکی ذریت بیٹھی استسقاء کی نمازیں پڑھتی ہے بارشیں برسانے کے لئے۔ وہ ضرور احمق تھا جس نے ٹیلی فون کو شیطانی ایجاد قرار دیا۔ وہ ضرور عقل سے پیدل ہے جس نے تصویر کشی کو حرام قرار دیا کہ اس سے بت پرستی کی بو آتی ہے۔
    مرضی کے سوال تو مذہب پچھواتا ہے سائنس نہیں۔ جس میں دم ہے آج بھی اٹھ کر سائنس، تجربے یا ریاضی سے ثابت کر دے کہ کائنات خودبخود نہیں بنی بلکہ کسی نے بنائی ہے۔ بات میں وزن ہوا تو سائنس اسے تسلیم کرے گی۔ لیکن باتیں کرنی آسان ہیں نا اسلئے باتوں ہی پہ کام چلاتے ہیں۔یہ کیسے کہہ سکتے ہیں آپ کہ سائنس انسانیت کو سکون کا "راز” نہ دے سکی، نہ فلاح کا نہ ترقی کا؟ اچھا پہلے یہ بتائیں کہ مذہب نے دیا یہ "راز”؟
    ہم م م ، ایک منٹ، اندازہ لگانے دیں۔ ۔ ۔ ہم م م م،
    "ذکر الٰہی” ۔قلوب کا اطمینان ذکرالٰہی ہے، ہے نا؟۔
    واہ۔ بھاڑ میں گئی انسانیت یہاں پہ، بس بیٹھے ذکر کرو، نماز پڑھو، ٹی بی کے مرض کی شفا اللہ دے گا، کینسر دعا سے ٹھیک ہو جائے گا۔
    او بھائی، دل و دماغ کھول کے غور کریں، سائنس دے چکی ہے سکون، ترقی اور فلاح کا راز۔ اور وہ ہے بے لوث خدمت، ایثار، قربانی ۔ لیکن چھوڑیں بھائی اسکو آپ اور ہم کیا سمجھیں گے کہ جنکی تربیت ہی ثواب کے لالچ اور عذاب سے خوف میں ہوئی، ایک فرض رکعت پڑھو اور اتنوں کا ثواب کماؤ، الحمدللہ پڑھو اور دس نیکیاں اور جنت کا ایک درخت کماؤ۔ مذہب ہمیں کاروبار سکھاتا ہے، جو اللہ سے اپنے خالق سے بھی کاروبار کرے اسنے اپنے جیسوں کو خاک بخشنا ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں سائنس کے کتنے احسانات ہیں آپ پر، ایک دن سائنس کی ایجادات سے مستفیذ ہونا چھوڑ دیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اذان کی آواز تک سنانے کے لئے آپ سائنس کی قدم بوسی کرتے ہیں جناب۔
    "لگاتار خوشحالی اور ترقی ایک مذہبی معاشرہ ہی میں ممکن ہے۔ ”
    اس پر اتنا ہی عرض کروں گا کہ تاریخ اسلام پڑھ لیں ذرا۔ فی الحال تو اسلامی معاشرے ہی کو قصے کہانیاں بنتے دیکھا ہے ہم نے۔
    سائنس حقیقت پسندی کا نام ہے اور حقیقت یہی ہے کہ لامحدود کائنات میں بےشمار شاید لامحدود گتھیاں ہو جو سلجھانی ہیں اسلئے عین ممکن ہے کہ آنےوالا کل موجودہ حقیقت کی ایک نئی جہت متعارف کرا دے۔سائنس خود کو عقل کل کہہ کر اپنا مذاق نہیں اڑواتی۔ مذہب جبکہ اسکے برعکس سائنس اور فلسفے کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کر کے اپنے ٹریڈمارک پہ فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ کیا ہے نا کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور جسکے پاس عقل ہو اسے نقل کی ضرورت نہیں رہتی۔ جلد یا بدیر اسکا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔
    آخر میں آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ سائنس پرکھنے، تجربہ کرنے، سیکھنے اور علم میں اضافہ کرنے کا عمل ہے، سنی سنائی پہ یقین کرنا مذہب کا ہی خاصہ ہے۔ یہ خرافت سائنس پہ نہ ٹھونسیں، لوگ ہنسیں گے۔

  11. جناب شاہد (عام آدمی) صاحب!
    آپ غالباً "غزوہ بنو قریظہ” کا ذکر کر رہے ہیں۔ خاصی طویل تفصیل ہے، اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کو سیرت کی کتابوں سے "غزوہ بنو قریظہ” کے تفصیلات اسکین شدہ صفحات کی صورت میں ارسا ل کرسکتا ہوں۔
    1-سیرت ابن ہشام
    2-طبقات ابن سعد
    3- تاریخ ابن کثیر
    4- سیرۃ المصطفیٰ از مولانا محمد ادریس کاندھلوی

    1. ایاز بھائی اگر مولویوں کی تقریر ہی پڑھنی ھوتی تو میں نے بہت پڑھا ہے کہ خدا کا حکم تھا اس لیے مسلمانوں نے مدینے کے یہودیوں کو قتل کیا اور ان کےبچون کو بھی نہیں چھوڑا
      میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اصل ڈرامہ کیا تھا اگر اایسا کوئی لنک ہے تو بتا ئیے

جواب دیں

23 Comments
scroll to top