ہوتا یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں ایسے کئی سوالات یا موضوعات ہوتے ہیں جنہیں آپ ایک بلاگر کی حیثیت سے زیرِ کیبورڈ لانا چاہتے ہیں مگر وقت کی قلت اور سستی اکثر وبیشتر آڑے آتی رہتی ہے اور معاملہ التواء کا شکار ہوتا رہتا ہے، مگر پھر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ آپ کو اس مخصوص موضوع پر لکھنے میں ذرا جلدی کرنی پڑتی ہے، یہ تحریر بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا نتیجہ ہے، میرے بلاگ کے پاساز یا فٹر میں موجود شٹ بکس یا شاؤٹ بکس میں ایک صاحب نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا جو یہ سطور لکھتے وقت تک بڑھا جاسکتا ہے:
” فرحان: اینڈرسن شا صاحب میری خواہش ہے کہ آپ ایک تحریراس بارے میں بھی لکھیں کہ اس پوری کانٰات میں صرف زمیں پہ انسان ہی کیوں ہیں اور اگر صرف زمیں پہ ہی انسان بسانے تھے تو یہ لا محدود کانٰاتیں بنانے کا مقصد کیا تھا؟؟؟ ”
ایسا نہیں ہے کہ میں خصوصی طور پر اپنے اس قاری کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ تحریر لکھ رہا ہوں تاہم مجھے اعتراف ہے کہ اس سے مجھے مہمیز ضرور ملی، کیا اس وسیع وعریض کائنات کے دوسرے سیاروں پر ذہین حیات موجود ہے؟ حقیقتاً اس سوال کا کوئی براہ راست جواب موجود نہیں ہے کیونکہ اس ضمن میں ہمارے پاس کوئی مسکت شہادت نہیں ہے، جو بھی کچھ ہے وہ محض قیاسات پر مبنی ہے اس کے باوجود کائنات میں کسی ذہین حیات کی موجودگی پر اس وقت تقریباً تمام علمی حلقوں میں اجماع پایا جاتا ہے اور اگر متعدد کائناتوں کا نظریہ درست ثابت ہوجاتا ہے تو ذہین حیات پر مشتمل ایسے سیاروں کی تعداد میں جنونی اضافہ ہوجائے گا، مختصراً یہ نظریہ علمِ فلک کے علمی حقائق پر مبنی ہے جو کرہ ارض اور اس کے ستارے (سورج) کو ایسی کوئی فوقیت یا خصوصیت نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ تمام کائنات مجموعی طور پر انہی طبیعاتی اور کیمیائی قوانین کی پابند ہے جو ہمارے سیارے پر رائج ہیں، اس سلسلے میں علم پسندوں کو میرا مشورہ ہے کہ وہ بالخصوص کارل ساگان اور دیگر طبیعات دانوں کے مضامین پڑھیں جبکہ مذہب پسندوں کو "پڑھنے” کے اس کٹھن مرحلے سے گزرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس پہلے سے ہی ایک کتاب موجود ہے جو ان کی جگہ "سوچنے” کا کام کرتی ہے، ضمیر کے سوالات کے لیے مولوی موجود ہیں جبکہ کسی بھی دیگر مسئلے کے حل کے لیے "دعاء” کا زمانوں سے آزمودہ نسخہ دستیاب ہے لہذا وہ یہ کشٹ نہ کریں.
اس بار "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی” کی مصداق مومنین نے بازی لینے کی ٹھانی اور اس سے پہلے کہ یہ نظریہ حتمی طور پر ثابت ہوجائے انہوں نے اسے پہلے ہی قرآن سے ثابت کر ڈالا ہے اور ایک آیت کی گردن مروڑ کر اس میں سے کائنات میں ذہین حیات کی موجودگی کشید کر لی ہے چنانچہ میں انہیں اس عظیم پیشگی دریافت پر پیشگی مبارکباد دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسی نہج پر چلتے ہوئے قدری میکانیات سمیت تمام تر پیچیدہ علمی نظریات میں موجود مشکلات کو اسی طرح حل کر کے نہ صرف جدید علوم کی بلکہ انسانیت کی بھی خدمت کرتے رہیں گے.
مومنین کے ایک اعجازی ڈاکٹر عبد الدائم الکحیل نے اپنے اس مضمون میں کائنات میں ذہین حیات کی موجودگی پر فلکیات دانوں کے پورے دس حوالے پیش کر کے آخر میں حسبِ سابق وحسبِ روایت یہ ثابت کیا ہے کہ علم تو اب اس نتیجے پر پہنچا ہے مگر اللہ نے قرآن میں چودہ سو سال پہلے ہی ہمیں یہ معجزہ سورہ شوری کی آیت نمبر 29 میں بتا دیا تھا کہ:
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَثَّ فِیۡہِمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ عَلٰی جَمۡعِہِمۡ اِذَا یَشَآءُ قَدِیۡرٌ ﴿سورہ شوری آیت 29﴾
(اور اسی کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور ان جانوروں کا جو اس نے ان میں پھیلا رکھے ہیں۔ اور وہ جب چاہے انکے جمع کر لینے پر قادر بھی ہے۔)
اگرچہ میں اس آیت کی یہ من مانی تفسیر جو دیگر تفاسیر سے قطعی متصادم ہے مسترد کرتا ہوں لیکن موضوع پر براہ راست داخل ہونے کے لیے میں یہ تفسیر عارضی طور پر قبول کرلیتا ہوں اور اس کے قبول کرلینے کے نتیجے میں قرآنی تضادات کا جو انبار کھڑا ہوگا انہیں مختصراً زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتا ہوں.
موضوع پر براہ راست آنے کے لیے اس اسلامی مفروضے سے آغاز کرتے ہیں جس کے مطابق خدا ایک مطلق اور کامل منصف (عادل) ہے، مطلق انصاف کی یہ صفت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر مخلوقات سے مساوی سلوک کرے، اور اس مساوات کے لیے لازم ہے کہ وہ کائنات کے ایسے تمام سیاروں پر جن پر ذہین حیات موجود ہے کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجے اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے انہیں اپنی عبادت پر مامور کرے جیسا کہ اس نے اہلِ زمین کے ساتھ کیا، دوسرے لفظوں میں ان مخلوقات میں ادراک اور عقل کا وجود انہیں عبادت اور فرائض کے لیے مکلف بنا دیتا ہے، دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ذہین مخلوقات – جیسا کہ اہلِ زمین کے ساتھ ہوا – خودکار طور پر کائنات کے خالق اور زندگی کے معنی اور مقصد اور انجام پر سوال اٹھائیں گی، اور ان سوالوں کے جوابات کی سعی میں مذہب اور فلسفے کا وجود میں آنا حتمی ہے، چنانچہ ان میں ایسے لوگ ضرور ظاہر ہوں گے جو ان سوالوں کے جوابات دینے کی مقدرت کا دعوی کریں گے اور یوں بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگ نبوت کا دعوی بھی کر ڈالیں جیسا کہ زمین پر ہوا، مزید برآں ان سیاروں کا زمین سے ملتے جلتے ہونے کا یہ مطلب بھی ہوگا کہ وہاں زندگی کے لیے ضروری وسائل پر لڑائی بھی ہوگی جس کے نتیجے میں ظالم اور مظلوم وجود میں آئیں گے اور مطلق انصاف کی تلاش شروع ہوجائے گی جو یقیناً صرف حیات بعد از مرگ کی صورت میں ہی ممکن ہے، اس کے علاوہ موت بالکل وہی فکری اور جذباتی مسائل پیدا کرے گی جو زمین پر ہمیں روز درپیش ہوتے ہیں.
مومنین کے لیے قرآن اللہ کے کلام کی حیثیت رکھتا ہے، سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس قرآن کی شکل میں بالکل وہی الفاظ موجود ہیں جو اللہ نے "بول” کر جبریل نامی فرشتے کے ذریعے اپنے نبی محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تک پہنچائے اور اس نے اس کلام کو غلطیوں سے بالکل پاک صورت میں ہم تک پہنچایا، اور چونکہ مومنین کے نزدیک قرآن ازلی (کم از کم معتزلیوں کے اس مفروضے کے سقوط کے بعد کہ قرآن مخلوق ہے) ہے چنانچہ یہ نہ صرف نافذ الحکم اور مطلق حق ہے بلکہ ہر زمان ومکان اور تمام وجود کے لیے (جس میں موجودگی کی صورت میں دیگر کائناتیں بھی شامل ہیں) کارآمد ہے، یعنی طبیعات، کیمیاء اور دیگر طبعی قوانین کی طرح اسے وجود کے ہر گوشے اور ہر زمانے کے لیے کارآمد ہونا چاہیے اور اس کی درستگی اور حقانیت پر کسی بھی نوعیت کا نقص نکالنا اللہ اور اس کی وحدانیت میں نقص نکالنے کے مترادف ہوگا.
تاہم حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی ازلیت اور اس کے ہر زمان ومکان کے لیے کارآمد ہونے کا دعوی کائنات میں ذہین "مخلوقات” کی موجودگی کے ممکنات سے کلی طور پر متصادم ہے اور بہت سارے تضادات کو جنم دیتا ہے جن میں کچھ درجِ ذیل ہیں:
زبان:
چونکہ قرآن عرب کی زبان عربی میں "اتارا” گیا چنانچہ لازم ہے کہ ہر اس سیارے پر جس میں ذہین "مخلوق” موجود ہو کوئی ایسی قوم یا قبیلہ لازماً ہونا چاہیے جو "فطرتاً” عربی زبان بولتا ہو اور وہ بھی عین اسی طرح جس طرح کی عربی چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ نما عرب میں بولی اور سمجھی جاتی تھی.
فلکیاتی اور زمانی مسائل:
اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ذہین حیات صرف زمین سے ہی مشابہت رکھنے والے سیاروں پر نمودار ہوسکتی ہے جس میں زندگی کی نمو کے لیے زمین سے مشابہت رکھتا ماحول سیارے کا حجم اور اپنے سورج سے اس کی دوری اور اس کی طبیعاتی اور کیمیائی تکوین وغیرہ شامل ہے تب بھی اس سے دیگر بہت سارے بڑے بڑے ممکنہ فرق کے امکانات سے نہیں بچا جاسکتا جیسے اس سیارے کا کسی دہرے ستاروی نظام (binary star system) کا تابع ہونا یا عام طور پر ایک سے زائد سورجوں کا تابع ہونا، سیارے کا اپنے سورج (یا سورجوں) کے گرد چکر کا دورانیہ، اپنے محور کے گرد چکر کا دورانیہ، دن کی لمبائی، چاندوں کی تعداد اور اس کے خطے کے ستاروں کا ماحول وغیرہ.. ان ممکنات کے حقیقی ہونے کی صورت میں – جس کا یقیناً کافی امکان ہے – لازم ہے کہ قرآنی آیات میں اس حساب سے بنیادی تبدیلیاں کی جائیں جن میں سرِ فہرست لغوی تبدیلیاں شامل ہیں.
یہاں میں "صرف مثال کے طور پر” اور بات واضح کرنے کے لیے وہ تبدیلیاں پیش کر رہا ہوں جو ایک ممکنہ سیارے کے دوہرے ستاروی نظام کے گرد گردش کرنے کی صورت میں ان آیات میں کرنی پڑیں گی جن میں سورج کا ذکر ہوا ہے، مزید برآں میں یہ فرض کر رہا ہوں کہ اس سیارے کا کم از کم ایک چاند ضرور ہے، چنانچہ کچھ مخصوص آیات کی صورتِ حال کچھ یوں ہوگی:
1- فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ الۡغُرُوۡبِ ﴿سورہ ق آیت 39﴾
(تو جو کچھ یہ کفار بکتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اسکے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔)
اس آیت کو یوں کرنا پڑے گا:
فاصبر علی ما یقولون وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمسین وقبل غروبہما
یا
قبل طلوع الشمس الاولی وغروب الثانیہ
یا
قبل طلوع الشمس الثانیہ وغروب الاولی
2- اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ ﴿سورہ رحمن آیت 5﴾
(سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں۔)
اس آیت کو یوں کرنا پڑے گا:
الشمسین والقمر یحسبون (ایک چاند کی صورت میں)
والشمسین والقمرین یحسبون (دو چاند ہونے کی صورت میں)
والشمسین والاقمار یحسبون (تین یا اس سے زیادہ چاند ہونے کی صورت میں)
3- وَّ جَعَلَ الۡقَمَرَ فِیۡہِنَّ نُوۡرًا وَّ جَعَلَ الشَّمۡسَ سِرَاجًا ﴿سورہ نوح آیت 16﴾
(اور چاند کو ان میں روشن بنایا ہے اور سورج کو چراغ بنا دیا ہے۔)
یہ آیت یوں ہوگی:
وجعل القمر فیہن نورا وجعل الشمسین سراجین (ایک چاند کی صورت میں)
وجعل القمرین فیہن نورا وجعل الشمسین سراجین (دو چاند ہونے کی صورت میں)
وجعل الاقمار فیہن نورا وجعل الشمسین سراجین (تین یا اس سے زیادہ چاند ہونے کی صورت میں)
4- وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿سورہ القیامہ آیت 9﴾
(اور سورج اور چاند جمع کر دیئے جائیں۔)
یہ آیت یوں کرنی پڑے گی:
وجمع الشمسین والقمر (ایک چاند کی صورت میں)
وجمع الشمسین والقمرین (دو چانے ہونے کی صورت میں)
وجمع الشمسین والأقمار (تین یا اس سے زیادہ چاند ہونے کی صورت میں)
5- اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿سورہ التکویر آیت 1﴾
(جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔)
یہ آیت یوں کرنی پڑے گی:
اذا الشمسین کورتا
6- حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿سورہ الکہف آیت 86﴾
(یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ والے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس چشمے کے پاس ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا ذوالقرنین! تم انکو خواہ تکلیف دو خواہ انکے بارے میں بھلائی اختیار کرو دونوں باتوں کی تمکو قدرت ہے۔)
اس آیت کی صورتِ حال کچھ یوں ہوگی:
حتی اذا بلغ مغرب الشمس الاولی وجدہا تغرب فی العین الحمئۃ الاولی ثم حتی اذا بلغ مغرب الشمس الثانیہ وجدہا تغرب فی العین الحمئۃ الثانیہ ووجد عندہا قوماً قلنا… (دہرے ستاروں کے گرد سیارے کا چکر اس سادہ تمثیل سے کہیں پیچیدہ ہے مگر یہاں صرف ایک مثال دینا مقصود ہے)
7- وَ الشَّمۡسِ وَ ضُحٰہَا ۪ۙ﴿سورہ الشمس آیت 1﴾ (غور کریں کہ یہاں سورت کا نام سورہ "الشمسین” ہونا چاہیے)
یہ آیت یوں کرنی پڑے گی:
والشمسین وضحاہما
یہ تو تھی صرف سورج کی صورتِ حال جہاں تک چاند کا معاملہ ہے تو یہ بھی قرآن میں کئی لغوی اور عقائدی مسئلے کھڑے کردے گا، مثال کے طور پر جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سیارے کا ایک سے زیادہ چاند ہوسکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس چاند کا چکر زمین کے چاند کے چکر سے بڑا یا چھوٹا ہو جس سے رمضان کے روزوں اور مہینے کے دنوں کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا..
اس کے علاوہ سیارے کے سال کی لمبائی کا مسئلہ بھی ہے بہت ممکن ہے کہ اس کا سال زمینی سال سے لمبا ہو اور چاند کے بارہ دورانیوں سے زیادہ سے ناپا جاتا ہو یا سال کم ہوسکتا ہے اور چاند کے بارہ دورانیوں سے کم سے ناپا جاتا ہو دونوں صورتوں میں سورہ التوبہ کی آیت 36 قطعی طور پر غلط ہوجائے گی:
انَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳۶﴾
(اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں قتال ناحق سے اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔)
سیارے کا موسم:
سیارے کا موسم اس کے مدار کی تفصیلات اور دونوں ستاروں (سورجوں) سے اس کی دوری کے حساب سے تبدیل ہوگا اور یہ چیز بھی کچھ آیات سے براہ راست متصادم ہوگی جیسے:
اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿سورہ قریش آیت 2)
(یعنی انکو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کی بنا پر۔)
حیاتیاتی ماحول:
قرآن بہت سارے پھلوں کا ذکر کرتا ہے جیسے تین، زیتون، انگور، کھجور وغیرہ لیکن اگر یہ سارے پھل ان سیاروں پر نہ ہوئے تو؟
ذہین مخلوق کی جسمانی ساخت:
یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ذہین مخلوق بالکل اسی طرح ہی ارتقاء کرے جس طرح کا ارتقاء زمین پر ہوا ہے چنانچہ یہ ناممکن نہیں کہ ان کے چار ہاتھ ہوں، دیکھنے کا مختلف نظام ہو یا منہ سونڈھ کی صورت ہو وغیرہ.. یہ صورتِ حال بھی بہت ساری قرآنی آیات سے متصادم ہوگی جو انسانی جسم کے اعضاء بیان کرتی ہیں جیسے:
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾ وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ ۙ﴿سورہ البلد آیت 8 اور 9﴾
(بھلا ہم نے اسکو دو آنکھیں نہیں دیں؟ – اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔)
ذہین مخلوق کی ذہانت کی سطح:
لازم نہیں ہے کہ زیرِ بحث ممکنہ سیارے کی ذہین مخلوق کی ذہنی سطح ہمارے برابر ہو، یہ زیادہ یا کم ہوسکتی ہے، قرآن کا منطقی اور کہانیاں بیان کرنے کا عمومی انداز انتہائی سادہ ہے جو کہ ظاہر ہے اس دور کے سادہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے تھا، یہ کسی طور پیچیدہ منطقی اور فلسفیانہ انداز کا حامل نہیں ہے، مختلف سیاروں کی مختلف ذہین مخلوقات کی ذہنی سطح میں یقیناً بہت فرق ہوگا، یہ فرق اتنا زیادہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی ذہنی سطح کے حساب سے الگ سے کوئی دوسری کتاب اتارنے کی ضرورت پیش آجائے.
ستاروں کی عمر:
اگرچہ قرآن نہیں کہتا کہ قیامت دراصل سورج کی طبعی موت کے نتیجے میں برپا ہونے والی زمینی تباہی کی صورت آئے گی تاہم بہت سارے اعجازیے قیامت کی یہی توجیہ بیان کرتے ہیں، اگر یہ مفروضہ مان لیا جائے کہ کسی آباد سیارے پر قیامت اس کے ستارے کی موت کی وجہ سے آئے گی – اور چونکہ ستارے حجم میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں – چنانچہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت کا کوئی ایک دن نہیں ہے بلکہ یہاں بہت ساری قیامتیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس وقت بہت سارے ایسے سیاروں پر واقعی قیامت آچکی ہے اور ان پر آباد لوگ اس وقت جنت یا جہنم میں جا آباد ہوئے ہیں.
قرآن میں مذکور شخصیات:
کیا اس سیارے پر ابو لہب اور اروی بنت حرب (حمالۃ الحطب یعنی ام جمیل) ہوگی؟ زید بن حارثہ ہوگا؟ محمد، موسی، عیسی اور مریم ہوگی؟ سلطنتِ روم ہوگی؟ ذو القرنین ہوگا؟ آدم اور حوا کے قصہء تخلیق کا کیا؟ کیا اس سیارے کا اپنا آدم اور حوا، ہابیل اور قابیل ہوگا؟ کیا اس میں جن ہوں گے جو اس سیارے کے آسمان سے گزر کر خدا اور فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کریں گے اور انہیں شہابیے مار کر واپس بھگا دیا جائے گا جیسا کہ بقولِ قرآن ہمارے ہاں ہوتا ہے؟
قرآن میں مذکور مقامات:
قرآن بہت سارے مقامات کا ذکر کرتا ہے جیسے بدر، حنین، مکہ، یثرب، بیت المقدس، مصر، سیناء وغیرہ اسی طرح کچھ پہاڑوں کا ذکر بھی کرتا ہے جیسے احد، طور.. کچھ عمارتوں کا ذکر بھی ہے جیسے کعبہ، مسجد اقصی وغیرہ.. تو کیا اس سیارے پر یہ تمام مقامات، پہاڑ اور عمارتیں ہوں گی وہ بھی بالکل انہی ناموں سے؟
الغرض اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہر زمان ومکان میں اور کائنات کے ہر گوشے میں قرآنی متن ان تمام سیاروں پر لاگو ہوجائے جن پر کوئی ذہین مخلوق آباد ہے تو ہمیں لامتناہی خدائی طاقت سے ان پر یا تو کمزور شرائط لاگو کرنی ہوں گی یا مضبوط، کمزور شرائط لاگو کرنے کی صورت میں لازم ہے کہ ایسے تمام سیاروں کا کم از کم ایک سورج ہو جو زمینی سورج کی خصوصیات کا حامل ہو اور ایک چاند بھی ہو جو زمینی چاند کی خصوصیات کا حامل ہو، مزید برآں ان سیاروں کی طبیعی خصوصیات بالکل زمین کی خصوصیات جیسی ہوں جیسے سال کی لمبائی، زمین کے گرد چاند کا مدار، زمین کے محور کا جھکاؤ وغیرہ.. اسی طرح یہ بھی لازم ہے کہ ہر سیارے پر قرآن میں مذکور وہ تمام مقامات، عمارتیں اور شخصیات موجود ہوں اور انہی ناموں سے ہوں، اس کا اطلاق ان تمام اوصاف اور واقعات پر بھی ہوتا ہے جو قرآن میں مذکور ہیں جیسے وہ تمام جاندار موجود ہونے چاہئیں جنہیں ہر سیارے کے عرب جمال (اونٹھ) حمیر (گدھے) ہدہد، عنکبوت (مکڑی) نحل (شہد کی مکھی) اور نمل (چیونٹی) کہہ سکیں.. یا پھر مضبوط شرائط جیسے کہ ان تمام سیاروں کو قدری (کوانٹم) حد تک زمین کی بالکل کاربن کاپی ہونا چاہیے یعنی کہ ہر سیارے کے اتنے ہی ایٹم، الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران ہونے چاہئیں جتنے کے زمین کے ہیں.
دونوں صورتوں میں یہ لازم ہوجائے گا کہ ہر سیارے کا اپنا ایک ابو لہب ہو، اس کی اپنی حمالۃ الحطب ہو، اپنا محمد ہو، اپنی فاطمہ ہو، اپنا ابو جہل ہو اور اپنا ہی زید بن حارثہ ہو، اسی طرح لازم ہے کہ ہر سیارے کا اپنا ابو بکر ہو، اپنا احد ہو، اپنا جزیرہ نما عرب ہو، اپنا یثرب ہو، اور اس کے تمام اونٹھ، گدھے گھوڑے اور خچر بالکل زمین کے گدھوں گھوڑوں اور خچروں کے عین مطابق ہوں.. اسی طرح ان تمام سیاروں پر وہی تمام واقعات وقوع پذیر ہونے چاہئیں جو اب تک زمین پر ہوئے… ان شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ ان تمام سیاروں کے سورجوں کی کمیت اور عمر بھی زمین کے سورج کی عمر اور کمیت کے برابر ہو.
ان سیاروں اور ان کے ماحول پر کمزور شرائط کے اطلاق سے نئے سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے.. کیا قرآن بالترتیب تمام سیاروں پر اتارا جائے گا؟ (معاملات کو آسان کرنے کے لیے ہم اضافیت کی لاگو کردہ حدود وقیود پر بات نہیں کریں گے بلکہ اسلامیوں کے نہج پر چلتے ہوئے ان تمام پیچیدہ مسائل پر خدائی قدرت کا جھاڑو پھیر کر انہیں آسانی سے حل کر لیں گے) اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ہر سیارے کا اپنا ایک جبریل ہونا چاہیے جو بر وقت ہر سیارے پر موجود ہر محمد پر بر وقت قرآن اتار سکے اور اگر صرف ایک جبریل ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر سیارے پر قرآن کے اترنے کے وقت میں فرق ہے جس سے کہانی میں مزید ٹویسٹ آجائے گا.
مضبوط شرائط کے اطلاق کی صورت میں سب سے پہلا سوال ہی یہی اٹھے گا کہ ہزاروں یا لاکھوں کی تعداد میں ایک دوسرے کے کاربن کاپی سیارے اور لوگ بنانے کا کیا فائدہ جبکہ قرآن کہتا ہے کہ:
وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا لٰعِبِیۡنَ ﴿سورہ الدخان آیت 38﴾
(اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے اسکو کھیل کیلئے نہیں بنایا۔)
دوسرے سوال بھی یقیناً اٹھیں گے جیسے کیا ایک ہی شخص کی لاکھوں کاپیاں جنت میں جمع ہوسکیں گی؟
مذکورہ بالا تناظر میں مومنین کو تین میں سے ایک موقف اختیار کرنا ہوگا..
پہلا موقف یہ ہے کہ وہ کائنات میں قرآن کی مرکزیت سے چمٹے رہیں اور یہ موقف اختیار کریں کہ کائنات میں ذہین مخلوق صرف زمین پر ہی ہے اور اس کے علاوہ اور کسی سیارے پر قطعی نہیں ہوسکتی، تاہم اس صورت میں ان کا جدید علوم کے عمومی ٹرینڈ سے بہت بڑا تصادم ہوجائے گا جس سے وہ ہر ممکنہ طریقے سے چمٹے رہنے کی کوشش کرتے ہیں، مزید برآں کسی سیارے پر ذہین حیات کی دریافت کی صورت میں انہیں شدید خفت کا سامنا کرنا پڑے گا.
دوسرا ممکنہ موقف یہ ہوسکتا ہے کہ مومنین قرآن کی مرکزیت سے چمٹے رہنے کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ اختیار کریں کہ انہیں دوسرے سیاروں پر اس کی تبلیغ کرنی چاہیے، تاہم اس آپشن کے بھی اپنے مسائل ہیں، سب سے پہلا مسئلہ تو یہی ہے کہ کسی دوسرے سیارے کا رہائشی جس کی شکل وشباہت بھی ممکنہ طور پر انسان جیسی نہیں ہے اور اس تعریف میں وہ "انسان” ہی نہیں ہے وہ گزرے زمانوں میں کسی چوتھے سیارے پر آئے کسی انسانی نبی کی نبوت پر کیوں یقین کرے گا؟ (اس کی مت ماری گئی ہو تو الگ بات ہے) اس کے علاوہ اگر ہم مادی رکاوٹوں کو مدِ نظر رکھیں جس میں کائنات کا بے پناہ حجم اور انسان کی محدود عمر شامل ہے اور اسلام کے اپنے مسائل بھی پیشِ نظر رکھیں جن کی وجہ سے وہ محض کرہ ارض پر ہی اپنے دین کو پھیلانے میں ناکام رہے ہیں تو یہ آپشن ناممکن ہے.
مومنین کا تیسرا موقف جس کے بارے میں وہ شاید سوچنا بھی پسند نہ کریں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ یہ اعتراف کر لیں کہ وہ تمام تر آیات جو زمان ومکان، واقعات اور انسان سے متعلق ہیں کائناتی نہیں ہیں اور صرف زمین پر لاگو ہوتی ہیں اور یہ کہ ہر وہ سیارہ جس پر کوئی ذہین مخلوق موجود ہے کا اپنا الگ قرآن ہے، بات کو ذرا گھما پھرا کر اگر نتیجہ نکالا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہیں معتزلہ کے تخلیقِ قرآن کے موقف سے مشابہ موقف اختیار کرنا پڑے گا، اس موقف سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ زیادہ تر قرآن جس زمانے میں اترا اسی کے زمان ومکان میں محدود ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اجتہاد کرتے ہوئے زمان ومکان میں محدود قرآن کو الگ کریں اور اسے ترقی دیں اور آفاقی قرآن کو محدود قرآن سے الگ کرتے ہوئے اس پر بھی اجتہاد کی چھری چلائیں اور اس میں جو کچھ عقل اور منطق کے مطابق ہو اسے یاد کریں.
آخر میں ایک سوال.. کیا خدا کوئی ایسا کائناتی قرآن "نازل” کر سکتا ہے جو ہر زمان ومکان کے لیے کارآمد ہو؟
عقل مندوں کو سلام !