Close

رسول اللّٰه کی آمدنی کے ذرائع

رسول اللہ جب تک مکہ میں تھے، ان کے سامنے نہ کوئی رہائشی مسئلہ تھا، نہ اقتصادی دشواری، نہ انھیں کسی اندرونی حریف یا بیرونی دشمن کا خطرہ لاحق تھا لیکن مدینے ہجرت کرکے یہ تینوں مشکلات مجسم ہو کر ان کے سامنے آگئیں۔ رسول اللہ کی مالدار بیوی خدیجہ اپنی پھلتی پھولتی تجارت سے اتنا وافر کمالیتی تھیں کہ رسول اللہ اور ان کے متعلقین کو ہر طرح کی آسائش میسر تھی اور اتنا روپیہ پس انداز بھی ہوجاتا تھا کہ وہ دوسروں پر صرف کرتے تھے۔ ہجرت کرکے وہ مدینہ آئے تو سات ماہ تک ایک انصاری مقرب کے گھر قیام کیا۔ ان کا نہ اپنا مکان تھا، نہ مکان بنانے کے وسائل ۔ ان کے میزبان اور دوسرے مقرب انصاری ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے۔ ان کے پاس اتنا پیسہ بھی نہ تھا کہ وہ اپنی دوسری ضروریات رفع کرسکتے۔ ہجرت کے چارماہ بعد انھوں نے بال بچوں کو مکہ سے بلالیا تو ان کے سفر خرچ کا بندوبست ابوبکر سے ڈھائی سو روپے (پانچ سو درہم) لے کر کیا۔ ابو بکر ہجرت کے وقت دو ڈھائی ہزار روپے مدینہ لے کر آئے تھے۔ رسول اللہ کی منگنی تین سال پہلے ابوبکر کی بیٹی عائشہ سے ہوئی تھی۔ عائشہ کو مدینہ آئے کئی ہفتے گذر گئے لیکن رسول اللہ انھیں رخصت کرکے گھر نہ لے جا سکے، کیوں کہ ان کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے روپیہ نہیں تھا۔ ان کے خسر ابوبکر نے جب یہ رقم خود ادا کی تو رخصتی عمل میں آئی۔ (بلاذری انساب، طبقات ابن سعد)

اپنی اور اپنے متعلقین کی بے سر و سامانی کے علاوہ رسول اللہ کی معاشی بدحالی میں مدینے کے ایک نو مسلم طبقے نے مزید اضافہ کردیا تھا۔ یہ طبقہ شہر کے بے سہارا اور ادھر اُدھر سے آئے ہوئے عربوں پر مشتمل تھا جو ایک خوش حال زندگی کی امید میں مسلمان ہوگیا تھا۔ ان کے ہاتھ میں نہ پیسہ تھا، نہ جسم پر کپڑا، نہ پاؤں میں جوتا۔ ان کی ایک جماعت کی نشست و برخاست مسجد نبوی کے سائبان میں تھی۔ کھانے، کپڑے اور پیسے کے لیے ان کی نظریں رسول اللہ کی طرف اٹھتیں لیکن وہ ان کی مدد کرنے سے خود کو قاصر پاتے۔

رسول اللہ کے درجنوں ہاشمی و مطلّبی رشتے دار اور دوسرے قریشی مع عیال مدینہ آگئے تھے، ان میں سے اکثر مکہ کے خوش حال تاجر ہوا کرتے تھے۔ معدودے چند کو چھوڑ کر مدینہ میں تقریباً سب ہی مختلف قسم کی معاشی، رہائشی اور ناخوشگوار معاملات سے پیدا ہونے والی پریشانیوں سے دو چار تھے۔ انصار نے انھیں اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا تھا اور ان کے کھانے پینے کا کلی یا جزوی بندوبست بھی کردیا تھا لیکن عرصے تک نوواردوں کے قیام و طعام سے عہد برآ ہونا ان کے بس سے باہر تھا۔ انصار کے چند خاندان ہی مرفہ الحال تھے، باقی کی معاشی بنیادیں کمزور تھیں۔

ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد یعنی سن دو ھجری میں رسول اللہ قریش سے لڑنے کے لیے روانہ ہوئے تو ان کی زبان پر یہ دعا تھی؛ ‘‘مالک! میرے مسلمانوں ساتھیوں کے پیروں میں چھالے پڑگئے ہیں، انھیں سواری عطا کر۔ ان کے پاس کپڑا نہیں، انھیں کپڑا دے۔ وہ بھوکے ہیں، انھیں پیٹ بھر کر کھانا دے۔ وہ مفلس ہیں، انھیں دولت عطا کر۔’’(طبقات ابن سعد)

ہجرت سے رسول اللہ کی جو توقعات تھیں، وہ بھی پوری نہیں ہو رہی تھیں۔ انھیں توقع تھی کہ مدینہ میں بودو باش رکھنے والے اوس و خزرج قبیلوں کے سب عرب انھیں نبی تسلیم کرکے مسلمان ہوجائیں گے اور ان کی بے چون و چرا اطاعت کرنے لگیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان قبیلوں کے ایک گروہ نے انھیں نبی ماننے سے صاف انکار کردیا اور ایک اقلیت جو شہر کے تہائی سے زیادہ افراد پر مشتمل تھی اور اکثریت کے دباؤ میں انھیں نبی مان کر مسلمان ہوگئی تھی، اپنے مقامی لیڈروں کے، جن کا قائد عبداللہ بن ابی بن سلول تھا، زیر اثر تھی اور سارے اہم معاملات میں رسول اللہ کی بات ماننے کی بجائے اپنے لیڈروں کا حکم بجا لاتی تھی۔ یہ نمائشی مسلمان تھے جنھیں قرآن میں منافق کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔

دوسر ی جانب رسول اللہ مدینہ کے یہودیوں کی طرف سے بھی پُر امید تھے ۔ان کا خیال تھا کہ وہ انھیں نبی تسلیم کرکے مسلمان ہوجائیں گے لیکن انھیں اپنی کوششوں میں یہاں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کوشش کا الٹا اثر یہ ہوا کہ یہودی اسلام کو اپنے مذہب کا ایک خطرناک حریف سمجھنے لگے۔

خاطر نشان رہے کہ عرب معاشرے میں اس شخص کی سرداری قبول کی جاتی تھی جو خوب مالدار، طاقتور اور فیاض ہوتا تھا۔ ایسے شخص کی عزت ہوتی تھی، اس کا رعب مانا جاتا تھا اور اس کی اطاعت کی جاتی تھی۔ رسول اللہ نے دیکھا کہ مدینہ کے اندر اور باہر بہت سے عرب ان کی بے بضاعتی کے باعث نہ انھیں نبی مانتے ہیں، نہ ان کی عزت کرتے ہیں، نہ ان کی اطاعت کرنے کو تیار ہیں۔ ان حالات میں انھیں مالی توانائی حاصل کرنے اور اپنی مادی طاقت بڑھانے کا شدت سے احساس ہوا۔ انھیں یقین ہوگیا کہ جب تک وہ ان کے مہاجر اقارب اور ساتھی مفلس و قلاش ہیں، کھانے پینے تک کے لیے انصار کے محتاج ہیں، اس وقت تک نہ ان کی بے چون و چرا اطاعت ہوسکتی ہے اور نہ اسلام فروغ پا سکتا ہے۔ انھیں یہ بھی یقین ہوگیا کہ موجودہ حالات میں معاشی توانائی حاصل کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ مخالفوں سے جنگ کی جائے اور انھیں شکست دے کر ان کی دولت اور دولت کے وسائل پر قبضہ کرلیا جائے۔ ہجرت کے ساتویں ماہ مخالفوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی بالآخر انھیں قرآن نے اجازت دے دی؛ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا۟ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (22:39) [طبقات ابن سعد، بلاذری انساب، طبری، شافعی، فتح الباری، احکام القرآن، زاد المعاد]

اگلے سال یعنی سن دو ھجری میں مخالفوں سے جنگ و قتال ایک مذہبی فریضہ قرار دے دیا گیا۔ وَقَتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ كُلُّهُۥ لِلَّهِ ۚ (8:39) ان کے بعد کئی آیتیں جنگ و قتال کی تاکید میں متواتر نازل ہوتی رہیں۔[طبری، تفسیر ابن کثیر]

ہجرت کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبیلے آباد تھے؛ بنو قینقاع، بنو النضیر اور بنو قریظہ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور گڑھیوں میں رہتے تھے جن کے آس پاس نخلستان اور زراعتی فارم تھے۔ رسول اللہ نے مدینہ آکر تینوں قبیلوں کو اپنی نبوت کے اقرار اور قبول اسلام کی دعوت دی لیکن جب وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے تو ان سے ایک معاہدہ کرلیا کہ وہ مسلمانوں کو اور مسلمان انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، نہ ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیاں کریں گے اور بیرونی خطرے یا حملے کے وقت ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔(ابن ہشام) ان قبیلوں نے معاہدہ تو کرلیا لیکن دل سے وہ نہ رسول اللہ کے خیر اندیش تھے، نہ اسلام کے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر رسول اللہ اور اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو ان کا مذہب، خوشحالی اور آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جنگ بدر میں رسول اللہ کی غیر متوقع کامیابی اور قریش مکہ کی شکست سے یہ تینوں یہودی قبیلے گھبرا گئے اور ان کے موہوم خطرے مجسم ہوکر سامنے آنے لگے۔ سب سے پہلے بنو قینقاع نے تیور بدلے۔ رسول اللہ نے ان سے کہا کہ یا تو مجھے نبی تسلیم کرکے مسلمان ہوجاؤ یا مدینہ چھوڑ دو۔ انھوں نے دونوں صورتیں مسترد کردیں۔ رسول اللہ نے ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کرلیا۔ چند دنوں بعد بنو قینقاع نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ رسول اللہ قینقاعی مردوں کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن مدینہ کے منافق اکابر اس کے خلاف تھے۔ ان کے اصرار پر رسول اللہ نے قینقاعی مردوں کی جان بخش دی اور وہ شام چلے گئے۔ ان کی گڑھیاں، مال و متاع اور کثیر مقدار میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ لے کر رسول اللہ نے باقی محاصرے میں شریک مہاجرین قریش میں بانٹ دیا۔ بنو قینقاع کے پاس اراضی اور نخلستان بہت کم تھے، وہ زیادہ تر سودی لین اور تجارت کرتے تھے۔ ان کی جلاوطنی سے مہاجرین قریش کو مال و دولت اور مکانات ہی نہیں ملے بلکہ انھیں ایک اقتصادی فائدہ یہ بھی ہوا کہ وہ ساری تجارت ان کے قبضے میں آگئی جس پر اب تک یہودی چھائے ہوئے تھے۔( طبقات ابن سعد، ابن ہشام)

سن چار ھجری میں ایک موقع پر بنو نضیر نے رسول اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ نے اس حرکت پر جو معاہدے کے بھی خلاف تھی، بنو نضیر کو جلاوطنی کا حکم دے دیا لیکن وہ گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے۔ رسول اللہ نے مہاجرین کی ایک فوج کے ساتھ ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کرلیا۔ بنو نضیر کی رسول اللہ سے پندرہ بیس دنوں تک معمولی جھڑپیں ہوتی تہیں۔ انھیں مدینہ کے نمائشی مسلمانوں (منافقوں) اور اپنے ہم مذہب بنو قریظہ سے مسلح حمایت کی پوری امید تھی لیکن جب وہ کوئی مؤثر مدد نہ کرسکے تو بنو نضیر کو مدینہ چھوڑنے ہی میں نجات نظر آئی۔ اونٹوں کی ایک مقررہ تعداد ، زاد راہ اور پرانے گھریلو سامان کے علاوہ انھیں ہرچیز چھوڑنا پڑی۔ ان کی گڑھیاں، فارم، نخلستان اور ہتھیار رسول اللہ نے اپنے قبضے میں لے لیے۔ ان کے بعض ممتاز مہاجر ساتھیوں نے درخواست کی کہ چونکہ بنو نضیر نے لڑ کر ہتھیار ڈالے ہیں، اس لیے بدر کے موقع پر نازل ہونے والے قرآنی ضابطے کے مطابق ان کی اراضی اور دولت کے پانچ حصوں میں سے چار فوج میں تقسیم کردیجیے۔ رسول اللہ نے یہ درخواست نامنظور کردی اور کہاں کہ خدا نے چند عرب بستیاں میرے لیے خالص کرنے کا وعدہ کرلیا ہے اور ان میں سے ایک بنو نضیر کی بستی ہے۔ وَمَآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْهُمْ فَمَآ أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍۢ وَلَا رِكَابٍۢ وَلَكِنَّ ٱللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُۥ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ. مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَمَىٰ وَٱلْمَسَكِينِ وَٱبْنِ ٱلسَّبِيلِ كَىْ لَا يَكُونَ دُولَةًۢ بَيْنَ ٱلْأَغْنِيَآءِ مِنكُمْ ۚ وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ (59:6-7)[طبقات ابن سعد، ابن ہشام، بلاذری انساب، فتح الباری]

چنانچہ ہتھیار، گھوڑوں، فارموں اور نخلستان کا کچھ حصہ رسول اللہ نے اپنے عزیز و اقارب (ہاشمی اور مطلّبی) نیز دوسرے مہاجرین میں بانٹ دیے، باقی اپنی تحویل میں رکھا۔
اگلے سال یعنی سن پانچ ھجری کے آخر میں تیسرے یہودی قبیلے بنو قریظہ کا استیصال ہوا۔ بنو نضیر کے بڑے لیڈر خیبر کے یہودیوں کے پاس مقیم ہوگئے تھے اور رسول اللہ سے انتقام لینے کے لیے ریشہ دوانیاں کیا کرتے رہتے تھے۔ ایک طرف تو انھوں نے مکہ کے قریش کو رسول اللہ کے خلاف بھڑکایا اور انھیں مدینہ پر حملہ کرنے کی دعوت دی اور دوسری طرف بنو قریظہ کو اکسایا کہ وہ قریش کے ساتھ تعاون کریں اور جب قریش کا مدینہ پر حملہ ہوا تو وہ خودبھی شہر پر حملہ کردیں۔ پہلے تو بنو قریظہ کے عمائد نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم محمد سے معاہدہ کرچکے ہیں اور اسے توڑنا مناسب نہیں سمجھتے لیکن بنو نضیر کے اکابر نے ان پر اتنا زور ڈالا اور کامیابی کے ایسے سبز باغ دکھائے کہ وہ معاہدہ توڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ خندق سے قریش کی بے نیل مرام واپسی پر رسول اللہ نے مہاجرین کی ایک فوج بھیج کر بنو قریظہ سے مطالبہ کیا کہ وہ خود کو ان کے حوالے کردیں اور جب انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو رسول اللہ نے ان کی گڑھیوں کا محاصرہ کرلیا۔ دو ہفتے تک دونوں طرف سے تیر اندازی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس اثنا میں توقع کے برخلاف جب بنو قریظہ کے حلیفوں اور شہر کے نمائشی مسلمانوں (منافقوں) نے ان کی مسلح مدد نہیں کی تو مایوس ہو کر انھوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ ان کے بیشتر بالغوں کو جو ایک رائے کے مطابق آٹھ نو سو اور دوسری رائے کے مطابق چھ سات سو تھے، قتل کردیا گیا، عورتیں اور بچے غلام بنا لیے گئے، پندرہ خاندانی عورتوں کو رسول اللہ نے اپنے اقارب میں بانٹ دیا اور ریحانہ نامی عورت اپنے لیے منتخب کرلی، باقی خواتین اور بچے جن کی تعداد سات سو تیس سے زیادہ تھی، تہامہ، نجد اور حجاز کے بازاروں میں بیچ دیے گئے۔ ان کی جو قیمت ملی، اس سے گھوڑے ، ہتھیار اور دوسرے فوجی سامان خرید لیے گئے۔ رسول اللہ نے بنو قریظہ کی اراضی، نخلستان، مکانات، کئی ہزار تلواریں، زرین، ڈھالیں اور دوسرے سامان اپنے مالکانہ تصرف میں لے لیا، اسے مہاجر غازیوں میں تقسیم نہیں کیا اور تقسیم نہ کرنے کی وہی دلیل پیش کی جو بنو نضیر کی منقولہ و غیر منقولہ دولت کو خالص قرار دینے کے حق میں پیش کی تھی۔ بنو قریظہ کے زراعتی فارموں اور مال و متاع کا بیشتر حصہ رسول اللہ نے مہاجرین قریش کو دے دیا اور باقی ذاتی خرچ، داد و دہش اور فوجی کاروائی کے لیے رکھ چھوڑا۔ بنو قریظہ کے پاس بہت سے گھوڑے بھی تھے۔ ان میں سے رسول اللہ نے سترہ گھوڑے نکال لیے اور اپنے اعزہ میں بانٹ دیے اور ایک خاصی تعداد گھوڑیوں کی عمدہ نسل کے گھوڑوں سے جنسی ملاپ کے لیے نجد اور دوسرے علاقوں میں بھیج دی۔ ان گھوڑیوں سے بہت سے بچے پیدا ہوئے جو جہاد کے کام آئے۔ (طبری، مغازی، طبقات ابن سعد، فتح الباری)

بنو نضیر کی جلاوطنی اور بنو قریظہ کے استیصال سے رسول اللہ اور مہاجرین کی معاشی خوش حالی کے دروازے کھل گئے اور وہ تیزی سے اقتصادی فروغ کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔ اب تک رسول اللہ اور مہاجرین انصار کے دیے ہوئے مکانوں میں رہتے تھے اور ساجھے کے نخلستانوں سے اپنے معاش کا انتظام کرتے تھے اور بڑی حد تک انصار ہی ان کے خورد ونوش کے کفیل تھے۔ لیکن اب مہاجرین نے انصار کے مکان اور زراعتی فارم اور باغ واپس کردیے اور اپنے کھانے پینے اور رہائش کا الگ انتظام کرلیا۔ (فتح الباری)

رسول اللہ کی معاشی حالت اتنی بہتر ہوگئی کہ انھوں نے624-627 عیسوی کے درمیان مزید چھ شادیاں کرلیں۔ بیویوں کی خدمت اور گھر کے کام کاج کے لیے کنیزیں اور غلام آگئے۔ رسول اللہ کے پاس ایسی بیس اونٹنیاں تھیں جو خوب دودھ دیتی تھیں اور مدینہ کے باہر غابہ نامی ایک بڑی چراگاہ میں چرا کرتی تھیں۔ ہر روز شام کو ان کا دودھ دو بڑی شکوں میں بھر کر آتا تھا اور بیویوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ (بلاذری انساب، طبقات ابن سعد، طبری)

پھر رسول اللہ نے خیبر پر چڑھائی کی۔ چند ہفتے پہلے رسول اللہ کو بذریعہ وحی خیبر کی فتح اور بڑی مقدار میں مال غنیمت حاصل ہونے کی خوش خبری ان الفاظ میں مل چکی تھی؛ لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَبَهُمْ فَتْحًۭا قَرِيبًۭا (48:18) گڑھیوں کے علاوہ خیبر میں سات قلعے تھے اور ہر قلعے کے ساتھ زراعتی فارم اور نخلستان جن سے قلعے کے باشندے سال بھر کی خوراک (غلہ اور کھجور) فراہم کرلیتے تھے۔ رسول اللہ نے تین چار ہفتوں میں پانچ قلعے اور متعلقہ اراضی و نخلستان فتح کرلیے۔ قلعوں کے باشندے آخری دو قلعوں میں جو بہت مستحکم اور باقی سارے قلعوں سے زیادہ بڑے تھے، منتقل ہوگئے۔ چند دن محاصرے اور جھڑپوں کے بعد رسول اللہ نے دونوں قلعوں میں پانی کی رسد بند کردی اور محصورین کے کئی سو کھجور کے درخت کٹوادیے تو ان پر مایوسی چھا گئی اور انھوں نے اس شرط کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے کہ وہ جسم کے کپڑوں اور بال بچوں کو لے کر جلا وطن ہوجائیں گے اور سارا مال و متاع، اراضی و نخلستان رسول اللہ کے لیے چھوڑ دیں گے۔خدا نے اس آیت کے بموجب؛ مَّآ أَفَآءَ ٱللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِۦ مِنْ أَهْلِ ٱلْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِى ٱلْقُرْبَىٰ جب عرب بستیوں کا وعدہ کیا تھا تو ان میں بنو نضیر اور بنو قریظہ کے علاوہ خیبر اور فدک کی بستیاں بھی شامل تھیں۔ اس لیے اگرچہ خیبر کا سارا علاقہ لڑ کر فتح ہوا تھا اور بدر کے موقع پر نازل ہونے والے ضابطۂ غنیمت کے مطابق اس کے پانچ حصوں میں سے چار حصے فوج کو ملنا چاہیے تھے، رسول اللہ نے اس ضابطے کے مطابق صرف منقولہ دولت ہی تقسیم کی اور خمس (پانچواں حصہ) لے کر باقی فوج میں بانٹ دیا لیکن غیر منقولہ دولت کا نصف سے بھی کم حصہ فوج میں تقسیم کیا۔(تفسیر ابن کثیر، زاد المعاد، طبقات ابن سعد، مغازی، بلاذری انساب)

یہودی جلاوطنی کی تیاری میں مشغول تھے تو رسول اللہ نے اس مسئلے پر غور کیا کہ ان کے جانے کے بعد خیبر کی زمینوں کی کاشت اور نخلستانوں کی دیکھ بھال کا کیا انتظام ہو۔ گھر سے پچاسوں میل دور اجنبی ماحول میں ان کے لیے کثیر تعداد میں خیبر کی مفتوضہ اراضی اور باغوں کے لیے بھروسے کے مزدور فراہم کرنا ممکن نہ تھا۔ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلمانوں کو جہادی سرگرمیوں سے ہٹا کر زراعت اور باغبانی میں مشغول کریں۔ ان کی رائے ہوئی کہ یہودیوں کو اس وقت تک خیبر میں ٹھہرنے اور زراعت و باغبانی کے لیے آمادہ کرلیا جائے جب تک وہ خود کوئی مناسب بندوبست کرنے پر قادر ہوں۔ رسول اللہ نے یہودی اکابر کو بلا کر کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ خیبر میں ٹھہرے رہو اور حسب سابق اراضی و نخلستانوں میں کام کرتے رہو اور پیداوار کا نصف ہمیں دے دیا کرو۔ یہ انتظام ہم جب تک چاہیں گے بحال رکھیں گے، اس کے بعد تمھیں علاقہ چھوڑنا ہوگا۔ یہودی اس وقت سخت پریشان تھے۔ ان کے پاس نہ سفر خرچ تھا، نہ سواری کے جانور، نہ کسی نئی جگہ جانے کی ان میں ہمت تھی۔ ان کے اکابر نے رسول اللہ کی تجویز مان لی۔ عمر فاروق کے عہد خلافت میں جب خیبر کے جاگیر دار مسلمانوں کے پاس بڑی تعداد میں غلام آگئے تو انھوں نے خیبر کے ان مزارع یہودیوں کو نکال دیا۔

خیبر کے مضافات اور وادی رمہ کے ایک دوسرے سرسبز زاویے میں فدک نامی یہودی بستی تھی۔ اس کا رقبہ خیبر سے خاصہ کم تھا لیکن وہاں غلہ اور کھجور خوب پیدا ہوتے تھے۔ مقامی یہودی رئیسوں کو جب معلوم ہوا کہ خیبر میں ان کے ہم مذہب ہار رہے ہیں اور ان کے پاس صرف دو قلعے رہ گئے ہیں تو وہ گھبرا گئے۔ انھوں نے رسول اللہ کے پاس سفیر بھیجے کہ ہم سے معاہدہ کرلیجیے۔ رسول اللہ تیار ہوگئے۔ جو معاہدہ ہوا، اس کی رو سے یہودیوں کو فدک کے مالکانہ حقوق اور اس کی نصف پیداوار سے رسول اللہ کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ یہودیوں کی حیثیت مزدوروں کی سی ہوگئی۔ وہ سال بھر زراعت کرتے، باغوں کی خدمت و نگرانی بھی اور اس کے عوض نصف غلہ اور پھل خود لے لیتے اور باقی رسول اللہ کو دے دیتے۔ چونکہ فدک لڑے بغیر فتح ہوا تھا اور ان عرب بستیوں میں سے بھی ایک تھا جنھیں خدا نے رسول اللہ کو دینے کا وعدہ کیا تھا، اسے فوج میں تقسیم نہیں کیا گیا۔ اس کی اراضی اور نصف پیداوار بنو نضیر، بنو قریظہ اور نصف سے زائد خیبر کے فارموں اور نخلستانوں کی طرح خالص ہوگئی۔ (بلاذری)

خیبر سے واپسی پر رسول اللہ مغربی حجاز کی تیسری یہودی بستی وادی القریٰ کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ بستی مدینے کے شمال میں اس شاہراہ پر واقع تھی جو یمن سے مدینہ ہوتی ہوئی شام اور مصر کو جاتی تھی۔ یہاں شاداب دیہاتوں کی خاصی بڑی تعداد تھی جہاں کھجور اور غلہ پیدا ہوتا تھا۔ وادی القریٰ ایک تجارتی منڈی بھی تھی جہاں شام، یمن اور عراق کا سامان لادا اور اتارا جاتا تھا اور حجاز و نجد کے مختلف بازاروں کو بھیجا جاتا تھا۔ زراعت کی طرح یہاں کی تجارت پر بھی یہودی چھائے ہوئے تھے۔ جب انھوں نے رسول اللہ کو نبی ماننے سے انکار کردیا تو ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا گیا۔ یہودی ہار گئے۔ زراعتی فارموں اور نخلستانوں کے علاوہ بہت سا روپیہ پیسہ، سامان تجارت اور اثاث البیت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ سامان اور نقد روپے کا خمس لے کر باقی رسول اللہ نے فوج میں بانٹ دیا لیکن خیبر کے برخلاف اراضی اور نخلستانوں کے حصے نہیں کیے اور دونوں یہودیوں کے پاس چھوڑ دیے۔ خیبر کے ہم مذہبوں کی طرح وادی القریٰ کے یہودی بھی مزدور ہوگئے۔ وہ پیداوار کا نصف رسول اللہ کو دے دیتے اور باقی اپنے استعمال میں لاتے۔ رسول اللہ غلے اور کھجور کا خمس رکھ لیتے اور باقی کے مساوی حصے ان غازیوں میں تقسیم کردیتے جنھوں نے وادی القریٰ کی جنگ میں شرکت کی تھی۔
خیبر ، فدک اور وادی القریٰ کی فتح رسول اللہ، مہاجرین اور انصار تینوں کی معاشی زندگی میں ایک اہم موڑ ہے۔ اب تک مدینہ سے نکالے ہوئے یہودیوں بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے املاک سے رسول اللہ، ان کے اعزہ اور مہاجرین ہی متمتع ہوئے تھے لیکن خیبر اور وادی القریٰ کی منقولہ اور غیر منقولہ املاک سے انصار کو بھی سہارا ملا۔ ان دونوں فتحوں سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار مسلمان جاگیردار ہوگئے۔ ان میں ایک خاصی بڑی تعداد خاندان نبوت سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگوں کی تھی جو بنو نضیر اور بنو قریظہ کے املاک سے بھی زراعتی فارم اور نخلستان پاچکے تھے۔ ان زمیندار مسلمانوں کے پاس ہر سال غلے اور کھجور کی ایک مقررہ مقدار آنے لگی جو ان کی ضروریات خوردو نوش سے زائد ہوتی اور جس کا فالتو حصہ بیچ کر وہ نقد روپیہ بھی کما لیتے تھے۔
رسول اللہ مدینہ کے نواح اور حجاز و نجد میں ستائیس مرتبہ جہاد کے لیے نکلے اور کوئی چار درجن جہادی مہمیں اپنے سالاروں کی قیادت میں نجد، حجاز، یمن اور سرحد شام کے مختلف گوشوں میں بھیجیں ۔ تقریباً سبھی جنگوں میں مسلمان جیتے اور ان کے ہاتھ مال غنیمت آیا جس کا خمس رسول اللہ کو دیا گیا۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ ان غزوات کے خمس کی مجموعی قیمت کیا تھی لیکن اس کا اندازہ دو ڈھائی لاکھ روپے لگایا جا سکتا ہے۔ اس اندازے کی تائید رسول اللہ کے ان غزوات و سرایا کے خمس سے کی جا سکتی ہے جن میں مال غنیمت بڑی مقدار میں حاصل ہوا تھا۔ (بیقہی، ابن ہشام، طبقات ابن سعد، بلاذری)

رسول اللہ کی مادی خوش حالی میں اس تیزی اور اتنے بڑے پیمانے پر ترقی ہو رہی تھی کہ جب انھوں نے شام پر چڑھائی کی (غزوۂ تبوک) تو ان کی فوج میں تیس ہزار اور ایک دوسری اطلاع کے مطابق چالیس ہزار غازی اور بارہ ہزار اونٹوں کے علاوہ دس ہزار مغربی گھوڑے تھے۔ خوش حالی کے اس مظاہرے کے مقابلے میں صرف سات سال پہلے جب بدر کا معرکہ ہو ا تھا تو ان کے سپاہی کچھ اوپر تین سو تھے، اونٹوں کی تعداد ستر تھی اور گھوڑے صرف دو تھے۔

یہ تو تھی وہ تفصیل جو صرف غزوات اور جہاد کے توسط سے معاشی خوش حالی کا اہم سبب بنی۔ لیکن ابھی تحفےتحائف، جزیہ اور زکوٰۃ وغیرہ جیسے ذرائع کا ذکر باقی ہے۔

‘‘عہد نبوی کا اقتصادی جائزہ’’ کی تلخیص

جواب دیں

0 Comments
scroll to top