Close

غلامی – ایک پیدائشی جرم

غلاموں کی تاریک کوٹھڑیوں میں جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا مالک خدا نہیں ہوتا تھا؟ ان غلام بچوں کی پیدائش پر ان کے غلام ماں باپ کو خوشی ہوتی تھی ؟ میں اس بات کا ادراک نہیں کر سکتا، باپ غلام ، ماں غلام ، بہن بھائی غلام، جانے کب مالک کا دل آئے تو ان میں سے کسی کو کسی نئے مالک کے ہاتھ بیچ دے اور اس غلام خاندان کا شیرازہ بکھر جائے، کب کسی مندر کی قربان گاہ پر وہ بچہ قربان کردیا جائے یا مالک کی قبر میں زندہ دفن کر دیا جائے، کوئی کام کرتے ہوئے مر جائے، کوئی بیماری سے مر جائے، عمر سے پہلے لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہو جائے، لڑکوں کو نامرد بنا دیا جائے، ایک غلام یا لونڈی کے ساتھ کیا کیا ہوتا تھا یہ سوچ کر ہی میری روح کانپ جاتی ہے۔
جب ماؤں سے ان کے لخت جگر چھینے جاتے ہوں گے، جب مالک کو آنکھ دکھانے پر کوئی نوجوان غلام جان سے جاتا ہو گا، جب شوہر کے سامنے اس کی بیوی اور باپ کے سامنے اس کی بیٹی بے آبرو ہوتی ہو گی، اس بے بسی کے عالم کا تصور بھی ناممکن ہے۔ بوڑھے ماں باپ کا بوجھ دنیا نہیں اٹھاتی، عمررسیدہ غلاموں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا ؟
غلاموں کو دی جانے والی سزائیں حضرت مسیح کی  سولی سے سنگین تر ،غلاموں پر ٹوٹنے والی آفتیں فرعون اور مصر پر ٹوٹنے والی دس آفتوں سے کہیں گراں، حضرت امام حسین پر ٹوٹنے والے مظالم ان کی زندگی کا روز مرہ معمول، فاقہ کشی ، کال اور بُھک مری روز کا  کاروبار ، غلاموں پر ہونے والے مظالم بیان کرنے کے لئے نا تو  میرے پاس الفاظ ہیں اور نا ہی  مثال ۔
غلامی کے معاملے میں مذہب ہمیشہ سے خاموش تماشائی بنا رہا، خدا نے عاد و ثمود کو تو ان کے  گناہوں کے باعث نیست و نابود کیا، کاش ایسی کوئی سنگین سزا غلامی کے لئے بھی کسی شہر پر نازل کر دیتا، شریعتِ موسوی سے لے کر شریعت محمدی تک غلامی کو ترک کرنے کے بارے میں کوئی  حکم صادر نہیں کیا گیا، غلاموں کے بارے میں مذہبی کتب کے اوراق سفید ہیں، دنیا کے وہ مذاہب جو ہماری نظر میں بت پرستانہ اور گناہ پر مبنی ہیں اور وہ مذاہب جو الہامی ہیں غلامی کے معاملے میں ایک جیسی چپ سادھے بیٹھے رہے، غلامی پر بات کرنے سے آنکھ چراتے رہے ، عصر حاضرمیں  معاش اور توانائی کا  دارومدار تیل کمپنیوں پر ہے ، حکومتیں اور مذاہب ان کے سامنے سر تسلیمِ خم ہیں اسی طرح ماضی کی دنیا اور اس کا معاشی دارومدار غلامی اور اس سے حاصل ہونے والے دولت و توانائی پر تھا۔ اس لئے کوئی مذہب اس کے خلاف نہیں بولا۔
غلامی کی لعنت کے خلاف اگر آواز اٹھانے کا سعادت حاصل بھی ہوئی تو ایک کافر، مرتد، لادین ابراہام لنکن کے حصے میں۔ غلامی کے خلاف امریکا میں پرزور تحریک ابراہام لنکن نے چلائی، انہوں نے غلامی کو امریکا سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اور حقیقتاً ان کو ہی غلامی کے خلاف کھڑے ہونے والے ”شہید اعظم“ کا درجہ نصیب ہوا، ایک ایسا درجہ جو کہ اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء اور پیغمبروں کو بھی حاصل نہ ہو سکا، اس لحاظ سے دکھی انسانیت پر ابراہام لنکن کا احسان عظیم ترین ہے، کیونکہ پیغمبروں اور نبیوں نے کسی حد تک غلاموں سے متعلق قوانین اور ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک تو بیان کیا مگر کبھی بھی غلامی کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش نہ کی۔ کئی مذاہب کے پیروکار بڑے فخر سے اپنے مذہب میں غلاموں سے رحم سے پیش آنے کے حکم کا ذکر کرتے ہیں، غلاموں کو دیئے جانے والے حقوق کا راگ الاپتے ہیں، مگر یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ غلام سے لاکھ نرمی برتیں اس کو لاکھ حقوق دیں جب تک آزادی کا حق نہ دیا تب تک اس کی ذات پر کوئی احسان نہیں کیا، کیونکہ آپ ایک انسان کو سب کچھ بھی دے دیں اور خود اپنی ذات کے مالکانہ حقوق نہ دیں تو سب خاک ہے۔ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے باقی تمام ہی حقوق کی بات آزادی حاصل کرنے کے بعد آتی ہے، جس کو آپ بیچ یا خرید سکتے ہیں وہ انسان نہیں بلکہ ایک ملکیت ہوتا ہے، اور کسی بھی خریدی ہوئی شے کا کوئی حق نہیں ہوتا اس کی ایک قیمت ہوتی ہے، چیز اچھی حالت میں ہو تو اچھی قیمت بری میں تو کم قیمت، اور جو جتنی قیمت ادا کرتا ہے اس سے اتنا ہی فائدہ اٹھاتا ہے۔
جیسے آج مشینوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں اسی طرح غلاموں کے کوئی حقوق نہیں تھے، مشینوں کو تیل دیا جاتا ہے، آرام دیا جاتا ہے کہ کل صبح صحیح طرح سے کام کر سکیں ، اگر خراب ہو جائیں تو کاٹھ کباڑ میں بیچ دیا جاتا ہے، لوہے کی بھٹی میں پگھلا دیا جاتا ہے، اور کوئی ان کے نیست ہونے پر آنسو نہیں بہاتا۔ غلاموں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا تھا، مگر ان میں مشینوں جتنی برداشت نہیں تھی، روتے بھی تھے، خدا سے التجائیں دعائیں بھی مانگتے تھے، مگر خدا  بھی انہیں کوئی مشین ہی سمجھتا تھا؟  خدا نے گناہ سے رہائی اور نجات کی تو بہت باتیں کیں مگر غلامی سے نجات کی کوئی خاص بات نہیں کی، غلاموں کو پیدا کرنے والے خدا نے غلامی کی مد میں ہر گناہ پر چپ سادھے رکھی۔ شائد غلامی کسی پیدائشی جرم کی سزا تھی، جو موت تک پیچھا نہیں چھوڑتی تھی، شائد جہنم کے بدلے وہ مظلوم انسان دنیا میں آگئے تھے۔
غلام کی کوئی مرضی نہیں،
نام، عزت ، ملکیت، گھر، مذہب، لباس نہیں،
پہچان، محبت، ایمان، امید نہیں،
وطن اور سوچ نہیں، نہ اس کا حسن اپنا نہ وجود اپنا،
نہ ہنسی اپنی نہ خوشی اپنی،
بے بس دعائیں اور بے کس التجائیں،
اور کوئی ہے تو بس اِک گونگا، بہرا خدا جو ان کی ہر ایک التجاء سے بے فکر غلاموں کے نیک آقاؤں پر اپنی برکات کے آسمانی چھپر پھاڑتا رہا تا کہ روتے دھوتے غلاموں پر قہر فراوانی سے نازل ہوتا رہے۔

1 Comment

  1. i salute mr abraham linkin, he has done great job, and other person we know him ghulam murtaza sayyed from sann sindh who also withdraw from this profitable business of piri muridi, like slavery is todays most commonly used method of exploitation of uneducated people of the world of thesism. mr kamal has also done good job while drawing attention of people like us.

جواب دیں

1 Comment
scroll to top