Close

الحاد اور ضابطہ حیات

 

الحاد – پھر اس کے بعد کیا ؟
یہ سوال عموماً سامنے آتا ہے، لیکن کبھی آپ نے غور  کیا کہ یہ سوال کبھی ایسے شخص کی جانب سے سامنے نہیں آتا جو الحاد کے مراحل طے کر چکا ہوتا ہے، بلکہ یہ سوال عموما ان لوگوں کی طرف سے سامنے آتا ہے جو یا تو حالت ایمان میں ہوتے ہیں یا  ایمان اور الحاد کی دہلیز پر حالت تذبذب میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ایسا کیوں ہے؟
ملحد، الحاد کا مرحلہ بہت غور و فکر کے بعد طے کرتا ہے،  اس لئے الحاد کے بعد اسے اپنے ذاتی نظریات کے حوالے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، ہمارے معاشرے کے تناظر میں اسے صرف یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اب اسے اس کے نظریات کے ساتھ اس کا خاندان، عزیز و اقارب اور معاشرہ قبول نہیں کرے گا، اور اس کی جان کے درپے ہو جائے گا، اس لئے اسے صرف یہ مشکل در پیش آتی ہے کہ اپنے نظریات کو کس طرح دوسروں سے چھپا کر رکھے۔ وہ اپنے نظریہ کی سچائی کے بارے میں بہت واضح اور بااعتماد ہوتا ہے۔ جن معاشروں میں آزادئ اظہار رائے کا احترام کیا جاتا ہے ملحد کو اپنے الحاد کی وجہ سے کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ واضح رہے کہ الحاد بذات خود کوئی ضابطہ حیات نہیں ہے، بلکہ دلیل کو عقل کے معیار پر قبول کرنے کا نام ہے، اس لئے جو بھی قوانینِ حیات عقل اور شعور کی رہنمائی میں مرتب کئے جائیں گے، ایک ملحد کیلئے قابل قبول ہوں گے۔
جو لوگ ”ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر“ کی کیفیت میں ہوتے ہیں ان کے ذہن میں ممکنہ طور پر یہ مغالطہ جاں گزین ہوتا ہوگا کہ اخلاقیات کا منبع مذہب ہے اور مذہب سے سے باہر کی دنیا کا اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سوچ بہت حیران کن ہے، یہ صرف دنیا کے موجودہ حالات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ ایسے افراد کو اندازہ ہی نہیں آج کی دنیا فلسفہ اخلاقیات کی ترقی کے کس مقام پر کھڑی ہے کہ جہاں صدیوں سے رائج مذہبی اخلاقیات بھی معذرت خواہانہ کیفیت میں منہ چھپاتی نظر آتی ہے، یا بڑی ڈھٹائی سے یہ کہتی نظر آتی ہے کہ یہ جدید اخلاقیات دراصل مذہبی اخلاقیات سے ہی کشید کردہ ہے، حالانکہ مذہبی اخلاقیات اور جدید اخلاقیات میں تضاد اظہر من الشمس ہے۔  ان لوگوں کو کبھی توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں اخلاقیات کی تاریخ ہی اٹھا کر دیکھ لیتے۔ میں یہاں الحاد کے وقت اپنی کیفیت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ میں جب ایمان و الحاد کی دہلیز پار کرکے الحاد کی روشن دنیا میں داخل ہوا تو یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آپ نے کسی مشکل ترین معمّے (Puzzle) کی اہم ترین گتھی سلجھا لی ہو اور اس کے بعد کی تمام تر گتھیاں خود بخود سلجھتی چلی جائیں اور سوالوں کی کڑی خود بخود اپنے منطقی جوابات کی کڑی سے جا کر جڑتی چلی جائے۔ ایک مذہبی ہمیشہ اپنے مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلاء رہتا ہے لیکن ایک ملحد اپنی سوچ اور فیصلے کی سچائی کے بارے میں شواہد کی بنیاد پُر اعتماد ہوتا ہے، اور فکری و نظریاتی طور پر ایک مذہبی کی نسبت بہت اطمینان اور پرسکون زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔
اگر الحاد کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوتا کہ الحاد پھر اس کے بعد کیا ؟ تو اس سوال کا سب سے زیادہ سامنا مغربی ممالک میں ملحد ہونے والے افراد کو کرنا پڑتا، اور وہاں یہ سوال ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن کر ابھرتا۔ یہ سوال ہمارے معاشرے کے کم علم، باہر کی دنیا سے نا واقف انسان کے محدود ذہن کی پیداوار ہے۔

کیا آپ نے کبھی مغربی ممالک میں جہاں ہر طرح کے موضوعات پر کھل کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے کبھی اس موضوع پر بحث کے بارے میں سنا ہے ؟ وجہ اس کی بالکل واضح ہے کہ وہاں ایک عرصے سےانسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے اخلاقیات مذہب سے نہیں بلکہ اجتماعی انسانی عقل و شعور  سے کشید کی جا رہی ہے۔ مغرب میں انفرادی زندگی میں تو مذہب کارفرما ہو سکتا ہے اور وہ بھی آزادئ اظہار رائے کے سنہری اصول کی دین ہے، لیکن اجتماعی زندگی کے قوانین مرتب کرتے ہوئے مذہب کے بجائے اجتماعی انسانی عقل و شعور سے استفادہ کیا جاتا ہے، جنہیں سیکولر قوانین کہا جاتا ہے۔ دوسرا اہم ترین ادارہ جمہوریت ہے، جو معلوم تاریخ میں اب تک کا سب سے بہترین طرز حکومت ہے۔ سیکولرازم اور جمہوریت دونوں کسی مذہبی صحیفے نے متعارف نہیں کرائے، بلکہ انسان نے اپنی اجتماعی عقل و شعور کی بدولت دریافت کئے، جن کی برکات سے مذہبی اور لامذہبی دونوں بھرپور استفادہ کر رہے ہیں، اور ابھی تک کوئی اور نطام ان کو چیلنج نہیں کر سکا ہے۔
انفرادی زندگی کے حوالے سے انسان نے صدیوں کے مشاہدے اور تجربے کی بدولت اجتماعی انسانی عقل و شعور کی روشنی میں بلا امتیاز دنیا بھر کے انسانوں کیلئے بنیادی حقوق متعین کر لئے ہیں، جنہیں مسلمان ممالک سمیت تمام اقوام نے منظور کیا، یہ بنیادی انسانی حقوق اقوام متحدہ کے شائع کردہ ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، جو کل 30 دفعات پر مشتمل ہے۔ یہ مختصر سا کتابچہ دور جدید کا عظیم ”معاہدۂ عمرانی“ ہے، اس منشور پر اتفاق رائے دنیا بھر کے تمام مذہبی و لامذہبی انسانوں کے حقوق کے تعین اور تحفظ (بشرطیکہ ان کی اپنی حکومتیں اس پر عمل درآمد کرائیں) کا ضامن ہے۔ اس منشور کی موجودگی انسانیت کو کسی بھی مذہبی صحیفے سے بے نیاز کر دینے کیلئے کافی ہے۔ جو ممالک اس منشور پر عمل پیرا ہیں ان ممالک کے شہریوں کی زندگی کا معیار ان ممالک سے بہت بہتر ہے جو آج کے اس جدید دور میں بھی اخلاقی قوانین کیلئے آسمانی صحیفوں سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم الحادی زندگی کی توضیح کے اعتبار سے بہت آسان دور میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں الحاد کے بعد اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی خلاء نظر نہیں آتا، ہمارے پاس انفرادی و اجتماعی زندگی کے حوالے سے بہترین عملی مثالیں موجود ہیں۔ ہمیں سیاسی اسلام کی طرح تصوراتی دنیا کے جھوٹے خواب دکھانے کی ضرورت نہیں کہ پہلے اقتدار ہمارے حوالے کر دو، پھر ہم آپ کو یہ دنیا جنت بنا کر دکھائیں گے۔ ہم برملا کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے احکامات سے رہنمائی حاصل کرنے والے معاشروں کی نسبت، وہ معاشرے جو زندگی کے رہنما اصول عقل و شعور کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں، بہت مثالی معاشرے ہیں، اور خدا پرست ان معاشروں کی طرف ہجرت کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
جب ہم مذاہب پر عمل پیرا لوگوں کی خرابیاں بیان کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ پیروکاروں کی خرابیوں کو مذہب کی خرابی قرار نہیں دیا جا سکتا، گویا یہ بالفاظ دیگر مذہبی تعلیمات کی ناکامی کا اعتراف ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت میں انتہائی سخت سزاؤں کی وعید کے باوجود لوگ مذہبی قوانین و ہدایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہب معاشرے میں موجود خرابیوں کو زمینی حقائق کے بجائے بے جا خوف پیدا کرکے کنٹرول کرنا چاہتا ہے، خوف ایک وقتی سد باب تو ہو سکتا ہے ، مستقل علاج نہیں۔ جبکہ انسانی عقل و شعور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر معاشرتی سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرتی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کیا اسلام قبول کرنے کے بعد زندگی کے مسائل ختم ہو جاتے ہیں؟ یا انسان مسائل کے ایک بھنور میں پھنس جاتا ہے ؟ کبھی مسلمانوں نے بھی اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش کی کہ اسلام –— پھر اس کے بعد کیا ؟ ؟ ؟
ایک مسلمان ہونے والا فرد کون سا فرقہ اختیار کرے؟
کس فرقے کو کافر کہے گا تو اس کا اپنا اسلام معتبر مانا جائے گا؟
عورت پردہ کرے یا نا کرے، اگر پردہ کرے تو عین اسلام نقاب ہے یا حجاب ؟
صیام اور عیدین کیلئے کس کی رؤیتِ ہلال کو معتبر سمجھے اور کسے غیر معتبر ؟
تین طلاقیں تین معتبر ہوں گی یا ایک ؟
حضرت محمد  کو بشر مانے یا نور ؟
نماز رفع یدین کے ساتھ ادا کرے یا بغیر رفع یدین؟
متعہ کو حلال جانے یا حرام ؟
قرآن کے کس ترجمے کو درست مانے اور کسے غلط ؟
تراویح بیس پڑھنی ہیں یا آٹھ، یا سرے سے پڑھنی ہی نہیں ہیں ؟
غرض ایک لمبی چوڑی فہرست ہے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top