Close

قرآن اور قمری کیلنڈر

رمضان ”رمض“ سے مشتق ہے، اس کا معنی شدید گرمی، دھوپ کی شدت سے گرم ہو جانے والی زمین،  ” رمضاء“ صحراء کی تپتی ہوئی ریت کو کہتے ہیں، ماہ رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے علماء لغت نے صراحت کی ہے کہ رمضان کا مہینہ انتہائی سخت گرمی میں آیا کرتا تھا اسی لئے اس ماہ کا نام رمضان پڑ گیا۔ اسی طرح ”ربیع“ کا معنی عربی میں بہار کا ہے، ربیع الاول اور ربیع الثانی کے مہینے بہار کے موسم میں آیا کرتے تھے اسی لئے ان کے نام ربیع الاول اور ربیع الثانی رکھے گئے۔  پیغمبر اسلام کی ولادت قمری مہینے ربیع الاول میں ہوئی، جو شمسی کیلنڈر کے مطابق اس سال اپریل کا مہینہ تھا، موسم بہار، ہمیشہ اپریل کے مہینے میں ہی آیا کرتا ہے۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی مہینے ہر طرح کے موسموں آن وارد ہوتے ہیں، آج سے کوئی پندرہ سال قبل کی بات ہے، بہت سے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ رمضان کا مہینہ دسمبر اور جنوری کی سخت سردیوں میں آیا کرتا تھا۔ وجہ بالکل واضح ہے کہ قمری سال، شمسی سال کی نسبت 10 دن چھوٹا ہوتا ہے، تین سالوں میں یہ فرق تیس دن یعنی ایک ماہ کے برابر واقع ہو جاتا ہے اور چھتیس سال کے عرصے میں،یہ فرق  ایک سال کے برابر جا کر واقع ہو جاتا ہے۔ اور کوئی بھی قمری مہینہ چھتیس سال کے عرصے میں سال کے تمام موسموں کا چکر لگا پہلی حالت میں لوٹ آتا ہے۔
اگر ایسا تھا کہ رمضان کی آمد گرمی، سردی، خزاں اور بہار میں آتی جاتی رہتی تھی، اسی طرح ربیعین کے مہینے بھی گرمی، سردی، خزاں اور بہار میں آتے جاتے رہتے تھے، تو یہ وجہ تسمیہ بالکل فضول معلوم ہوتی ہے۔ اگر مہینوں کے نام موسموں کی مناسبت سے رکھے گئے تھے تو کیا یہ نام رکھنے والے عقل سے اتنے ہی گئے گذرے تھے کہ انہیں اس بات کا ادراک نہیں تھا یا اس کے درپردہ کوئی اور کہانی تھی؟ آج کی اس پوسٹ میں اسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلام سے قبل ہی عربوں میں قمری کیلنڈر رائج تھا، عربوں کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قمری سال، شمسی سال کی نسبت 10 دن کم ہونے کی وجہ سے سال کے مختلف موسم، متعین مہینوں میں آنے کے بجائے مختلف مہینوں میں آتے تھے، اس پریشانی کے باعث ذو الحج کا مہینہ جو حج کی وجہ سے ان کی معیشت کیلئے بہت اہمیت کا حامل تھا کبھی مناسب موسم میں آتا، کبھی سخت سردی میں اور کبھی سخت گرمی کے موسم میں، حالانکہ وہ چاہتے تھے کہ ذو الحج  کا مہینہ ہر سال مناسب موسم میں آئے تاکہ زائرین کو موسم کی سختی نہ جھیلنا پڑے۔ اس وجہ کے علاوہ بھی موسموں کا مخصوص مہینوں میں وارد نہ ہونے کی وجہ سے دیگر مسائل بھی پیش آتے تھے،  اس مسئلہ کا منطقی حل عربوں نے اس طرح نکالا کہ وہ ہر تیسرے سال میں ایک ماہ کا اضافہ کر دیتے تھے، اس سال 12 کے بجائے 13 ماہ کا ہوتا تھا کیونکہ قمری سال 10 دن کم ہونے کی وجہ سے تین سال میں ایک مہینے یعنی 30 دنوں کا فرق واقع ہو جایا کرتا تھا، اس طرح تین سالوں میں جو ایک ماہ کا فرق واقع ہوا کرتا تھا وہ تیسرے سال میں کھپ جاتا تھا۔چنانچہ اس طریقہ کار کی وجہ سے مخصوص موسم، مخصوص مہینوں میں ہی آتے تھے، اس طریقہ کار کو وہ ”نسیئ“ کہا کرتے تھے، ”نسیئ“ کا معنی بھول چوک ہے۔ گویا یہ ایک طرح کی تصحیح Correction تھی۔یہ ایک بالکل منطقی طریقہ تھا جس کے ذریعے قمری کیلنڈر کی اس خرابی  کو دور کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے عربوں کو مخصوص مہینوں کا مخصوص موسم میں نہ آنے کی پریشانی لاحق تھی۔
معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللّٰه صاحب اپنی تصنیف ”رسول اکرم کی سیاسی زندگی“ میں صفحہ ۴۷ پر رقم طراز ہیں کہ ”نسیئ (کبیسہ سال اور لوند کا مہینہ بڑھا کر قمری سال کو شمسی سال کے برابر کرنے) کا رواج مکہ میں پایا جاتا تھا، اور وہ حجۃ الوداع یعنی ۱۰ ہجری سے قبل منسوخ نہ ہوا تھا۔“
روایات کے جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیرہواں مہینہ سال کے مہینوں میں کس مہینے کے بعد شامل کیا جائےاس کیلئے عرب کے قبیلہ مضر کو اختیار دیا گیا تھا، جسے اسی وجہ سے اس قبیلہ کو مضر رجب بھی کہا جاتا تھا.
ڈاکٹر علی حسن خربوطلی اپنی کتاب ”تاریخ الکعبة“ میں لکھتے ہیں کہ : ”قریش مکہ کوشش کرتے تھے کہ حج، ان کے تہوار، اور میلے سردی، بہار اور خزاں کے موسموں میں آئیں، تو انہوں نے نسیئ کا نظام اختیار کیا، تاکہ قمری سال، شمسی سال کے برابر ہو جائے اور تہوار انہی موسموں میں آئیں جن میں وہ چاہتے تھے۔ اس وقت کے عربوں نے نسیئ کا نظام بلاوجہ اختیار نہیں کیا تھا، اس کی وجہ صرف حج کے دوران خوشگوار موسم کا حصول ہی نہیں تھا، بلکہ اس موسم میں زرعی پیداوار میں سے پھل اور اناج بھی پک کر دستیاب ہوتے تھے اور تاجر بھی اپنا سامان تجارت بازار میں فروخت کیلئے پیش کر دیا کرتے تھے جس سے جزیرہ عرب کے بدؤوں کے  معاشی فوائد وابستہ تھے جو اپنی معاشی زندگی اور ذرائع آمدن کیلئے تجارت پر انحصار کرتے تھے۔“
یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ قبل مسیح کے زمانے سےہی حساب دانوں نے شمسی کیلنڈر بنا لیاتھا  اور دنیا کی کئی اقوام تاریخوں کے تعین کیلئے چاند کی مختلف حالتوں کے بجائے، موسموں کی تبدیلی کا باریک بینی سے مشاہدہ کرکے 365 دنوں پر مشتمل کیلنڈر استعمال کر رہی تھیں، جولیس سیزر نے بھی شمسی کیلنڈر میں اصلاحات متعارف کرائی تھیں، اسی کیلنڈر کی آخری تصحیح پوپ گریگوری ہشتم نے  ۱۵۸۲ء میں کی جو آج تک رائج ہے، اور رائج الوقت عیسوی کیلنڈر اصطلاحی طور پر گریگورین Gregorian کیلنڈر کہلاتا ہے۔ہندوستان میں رائج بکرمی کیلنڈر بھی شمسی کیلنڈر ہے۔ یہ کیلنڈر صدیوں کے تجربوں کا نچوڑ ہے اور مکمل ترین کیلنڈر ہے جس میں لیپ یعنی لوند کے سال تک شامل ہیں۔ہندوستان میں رائج بکرمی کیلنڈر، عیسوی کیلنڈر سے بھی قدیم ہے۔
اس موقع پر اشہر حرم یعنی حرمت والے مہینوں کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ”نسیئ“ کا اشہر حرم سے گہرا تعلق ہے۔  عرب قبائل اپنی تجارتی و معاشی سہولت کیلئے اشہر حرم میں جنگ نہیں لڑا کرتے تھے، یہ کل چار مہینے ہیں جن میں سے تین مہینے یکے بعد دیگرے آتے ہیں یعنی ذو القعدہ، ذو الحجۃ اور محرم، جو بالترتیب قمری سال کا گیارہواں، بارہواں اور پہلا مہینہ ہیں اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو کہ ترتیب کے اعتبار سے ساتواں مہینہ ہے۔ قبل اسلام جب بھی تیسرا سال آتا جس میں تیرہواں مہینہ زائد کرنا ہوتا تھا تو اس تیرہویں مہینے کو عرب اپنی معاشی، تجارتی اور سماجی ضروریات کی بناء پر تیسرے سال میں کہیں بھی کھپا دیا کرتے تھے، اس تیرہویں مہینے کا کوئی متعین مقام نہیں تھا۔جس کی وجہ سے تیسرے سال میں اشہر حرم تقدیم و تاخیر کا شکار ہوا کرتے تھے۔
اب یہاں یہ بات ذہن میں رکھئے کہ نسیئ کا نظام اپنانے کی اصل وجہ قمری سال کو شمسی سال کے برابر لانا تھا، نہ کہ اشہر حرم کو آگے پیچھے کرنا، اب چونکہ عربوں کو ہر تیسرے سال ایک اضافی (تیرہویں) مہینے کا ایڈوانٹیج ملتا تھا تو وہ اس تیرہویں مہینے کو اپنی سہولت کے مطابق سال کے بارہ مہینوں میں کبھی شروع کے مہینوں کے درمیان، کبھی آخر کے مہینوں کے درمیان کھپا کر تیسرا سال 13 ماہ کا کر لیا کرتے تھے،اور اس زائد مہینے کو نسیئ کے مہینے کا نام دیا کرتے تھے۔ لیکن اس تیرہوں مہینے کو زائد کرنے کا اصل مقصد اشہرِ حرم کی تقدیم و تاخیر ہرگز نہ تھا۔
یہ سلسلہ اسلام کی آمد تک جاری رہا، یہاں تک کہ قرآن نے ”نسیئ“ کو کفر قرار دے کر تیسرے سال میں ایک ماہ کے اضافے کو منسوخ کر دیا، اور کہا کہ:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِين٣٦ إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّـهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ٣٧ سورة التوبة
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللٰ٘ه نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللٰ٘ه کے نوشتے میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللٰ٘ه متقیوں ہی کے ساتھ ہے(۳۶)  نسئ تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللٰ٘ه کے حرام کئے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللٰ٘ه کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللٰ٘ه منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا. (۳۷) (ترجمہ ابو الاعلیٰ مودودی)
یومِ آفرینش سے مہینوں کی گنتی اللٰ٘ه کی کتاب میں 12 ہی درج ہے، یہ تین سال بعد تصحیح کے 13 ویں مہینے یعنی نسیئ کے مہینے کی نفی تھی۔ نیز ان آیات میں نسیئ کی تنسیخ کی وجہ اشہر حرم کی تقدیم و تاخیر کو بیان کیا گیا ہے، جبکہ عرب ہر سال ایسا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ صرف تیسرے سال ایسا کیا کرتے تھے، ہر سال ان کیلئے ایسا کرنا ممکن بھی نہیں تھا۔ یہ پورا تجزیہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن نسیئ کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوا، نسیئ کا مقصد اشہر حرم کی تقدیم و تاخیر یا کسی مہینے کو حلال یا حرام قرار دینا ہرگز نہیں تھا،بلکہ نسیئ کا اصل مقصد ہم نے اوپر بیان کر دیا ہے۔  اشہر حرم میں سے صرف رجب کے مہینے کو ضرور مقدم یا مؤخر کیا جاتا تھا جو تیرہویں مہینے کو زائد کرنے کی وجہ سے مجبوری تھی۔ چنانچہ نسیئ کی منسوخی کے حکم کے باعث قمری کیلنڈر پھر اسی خرابی کا شکار ہوگیا جس سے بچنے کیلئے قبل اسلام کے عربوں نے تیسرے سال میں 13 ویں مہینے کا اضافہ کیا تھا۔
قرآن کا نسیئ کی اصل حکمت کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہونے کی وجہ اس حدیث سے بھی سمجھ آ سکتی ہے:
عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ قَالَ ‏”‏إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا ‏”‏‏.‏ يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ‏.‏
نبی کریم نے فرمایا ، ہم ایک ان پڑھ قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا ۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے ۔ آپ کی مراد ایک مرتبہ انتیس ( دنوں سے ) تھی اور ایک مرتبہ تیس سے ۔ ( آپ نے دسوں انگلیوں سے تین بار بتلایا ) ۔ صحیح البخاری، کتاب الصوم، حدیث ۱۹۱۳

1 Comment

جواب دیں

1 Comment
scroll to top