دوسروں کی بیویوں پر کون چڑھ دوڑتا ہے، مولوی یا سور؟
ہمارے امام، مولوی، اور ملا سور کے حرام ہونے کی درج ذیل وجوہات بتاتے ہیں:
1. سور دنیا کا غلیظ ترین جانور ہے، گندگی پسند کرتا ہے اور غلاظت اس کی مرغوب غذا ہے حتی کہ اپنا پیشاب اور پاخانہ بھی کھا جاتا ہے.
2. سور ہم جنس پرست جانور ہے، جنسی تسکین کے لیے نر اور مادہ میں تمیز نہیں کرتا.
3. سور نہایت بے غیرت، بے شرم، اور بے حیا جانور ہے. یہ دنیا کا واحد جانور ہے جو دوسرے سوروں کو اپنی بیوی سے ہمبستری کی دعوت دیتا ہے.
4. سور اس قدر زہریلا جانور ہے کہ اژدہے کے ڈسنے سے بھی نہیں مرتا.
ہم سادہ لوح مسلمان آنکھیں بند کر کے اپنے پیارے مولویوں کی باتوں بلکہ خرافات پر ایمان لے آتے ہیں، ہمیں اپنی یہ روش بدلنا ہوگی، آج کے بعد مولویوں کی کوئی بات بلا تحقیق اور بلا تصدیق ہرگز قبول نہ کریں، اب آپ مولویوں سے چند سوالوں کے جواب دریافت کریں:
آپ نے سوروں پر تحقیق کب اور کہاں کی؟
اس تحقیق میں کتنے سور شامل تھے؟
آپ نے اس تحقیق یعنی سوروں کی عادات اور حرکات کا مشاہدہ کرنے میں کتنے سال لگائے؟
کیا سوروں کی گندی فطرت اور بے حیائی کے مناظر آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھے؟
سوروں کا نکاح کون پڑھاتا ہے؟
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے مولویوں نے سوروں پر کبھی کوئی تحقیق نہیں کی، انہوں نے بس سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر سوروں پر الزامات بلکہ فتوے لگا دیئے، یوں مولوی حضرات قرآن کے ایک واضح حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں:
"اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی.” (عرفان القرآن 17:36)
مولوی سور پر الزامات تو لگاتے ہیں مگر انہیں ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی شہادت یا ثبوت نہیں ہے، نیز یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولوی سور سے جتنی نفرت کرتے ہیں اتنا بغض انہیں شیطان سے بھی نہیں ہے، کوئی سور بھول کر بھی مولوی کے سامنے آ جائے تو اس کا زندہ بچ جانا مشکل ہے، لھذا ہمیں مولویوں کی اندھی تقلید سے بچنا ہوگا، ہمیں وہی بات قبول کرنی چاہیے حقائق جس کی تصدیق کریں، سوروں کے بارے میں چند حقائق درج ذیل ہیں، یہ سائنسدانوں کی برسوں کی تحقیق کا نتیجہ ہیں، سور نہایت ذہین جانور ہے اور اس کی سیکھنے کی صلاحیت کتے سے بہتر ہوتی ہے.
سور کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہے.
سور کی زبان میں ذائقہ کی 15 ہزار کلیاں ہوتی ہیں جبکہ حضرت انسان کی زبان میں صرف 9 ہزار.
سور کی جلد میں پسینے کے غددود نہیں ہوتے، لھذا وہ پانی یا کیچڑ کے ذریعے گرمیوں میں اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے.
سور گندگی پسند نہیں کرتا مگر ضرورت کی وجہ سے گرمیوں میں بدن پر کیچڑ مل لیتا ہے جو کہ نہ صرف اس کی جلد کو سورج کی تپش سے بچاتی ہے بلکہ اسے مکھیوں اور حشرات سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے.
سور کا شمار صفائی پسند جانوروں میں ہوتا ہے، یہ اپنے کھانے پینے اور رہائش کی جگہ کے قریب کسی قسم کی گندگی یا غلاظت برداشت نہیں کرتا.
سور اپنے علاقے میں کسی غیر نر سور کی موجودگی پسند نہیں کرتا، نیز افزائش نسل اور علاقے کی حفاظت کے معاملے میں یہ سخت جنگجو ہے.
سور کی جسمانی ساخت اور بہت سے اندرونی اعضا کی بناوٹ اور فنکشن انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی انسان کے دل کا والو خراب ہو جائے تو ڈاکٹر اسے سور کے دل کا والو لگا دیتے ہیں.
سور کے دانت بھی انسانی دانت کی طرح مظبوط ہیں اور وہ اپنی غذا چبا کر کھاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سور کا نظام ہضم انسانوں کے نظام ہضم جیسا ہے، لہذا انسان کی طرح سور بھی صرف چبائی ہوئی غذا ہضم کر سکتا ہے.
کیٹ اسکین کی دریافت سوروں پر ہونے والی تحقیق کی مرہون منت ہے، اس ٹیکنالوجی کی بدولت ڈاکٹر سرجری کے بغیر ہی انسانوں اور جانوروں کے اندرونی اعضا کا معائنہ کر سکتے ہیں.
سوروں کے بارے میں مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں مولوی کے بیشتر دعوے غلط ثابت ہو چکے ہیں، مولوی بیچارے کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اژدہا زہریلا نہیں ہوتا، وہ اپنے شکار کو ڈستا نہیں بلکہ اپنے جسم کے شکنجے میں جکڑ کر مار دیتا اور سالم ہی نگل جاتا ہے.
مولوی کو کیسے معلوم ہوا کہ ہر سور کی ایک بیوی ہوتی ہے؟ کیا سوروں کا نکاح بھی مولوی پڑھاتے ہیں؟
ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں کہ کوئی سور دوسرے سوروں کو اپنی زوجہ سے ہمبستری کی دعوت دیتا ہے، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ مولوی دوسرے مردوں کی بیویوں پر چڑھ دوڑنے کا کوئی موقع کبھی ضائع نہیں کرتا، حلالہ بھی مولوی کی ایجاد ہے اور یہ اسے حلوے سے بھی زیادہ مرغوب ہے، حلالہ کے پردے میں مولوی دوسروں کی بیویوں سے صحبت یعنی بدکاری کرتا ہے اور ساتھ ہی اس "خدمت” کا بھاری معاوضہ بھی وصول کر لیتا ہے.
ہم نہیں جانتے کہ سور جنسی تسکین کے لیے نر اور مادہ میں تمیز نہیں کرتے، البتہ ہمیں معلوم ہے کہ بعض مولوی قرآن پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کو بھی نہیں بخشتے، ان کی جنسی ہوس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ بچہ اور بچی میں تمیز کرنا بھی بھول جاتے ہیں.
میری ایک امریکن دوست نے جس کا تعلق ایک کسان فیملی سے ہے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، ایک دن وہ گھر سے باہر نکلی تو اسے کھیتوں میں ایک نر سور کھلا ملا، وہ اسے ہانک کر باڑے میں لے گئی اور اس جگہ بند کر دیا جہاں ایک اور نر سور پہلے سے موجود تھا، تھوڑی دیر بعد اس کا باپ گھر آیا تو اس نے اسے نر سور کے بارے میں بتایا، باپ نے بیٹی کو سرزنش کی کہ دو نر سوروں کو کبھی ایک جگہ بند نہیں کرتے، وہ لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو مار ڈالتے ہیں، دونوں باڑے کی طرف چل دیئے، وہاں جا کر دیکھا تو دونوں سور لڑ بھڑ کر شدید زخمی ہو چکے تھے.