Close

مکالمہ علم و عقیدہ

مسلم: تم خدا کو نہیں مانتے؟
ملحد:نہیں میں خدا کو نہیں مانتا !
مسلم: تعجب ہے، کیسے کوئی خدا کا انکار کر سکتا ہے۔
ملحد: جو چیز وجود رکھتی ہے وہ اپنا وجود خود منوا سکتی ہے، اگر خدا موجود ہوتا تو اپنا وجود خود منوا سکتا تھا، اور مجھے اسے ماننے میں کوئی عار نہ ہوتا۔
مسلم:عجیب آدمی ہو، خود ہی کہتے ہو خدا اپنا وجود خود منوا سکتا ہے، اور وہ منواتا  بھی ہے، پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ہو۔
ملحد:دیکھو ! نے یہ کہا ہے کہ ”اگر خدا موجود ہوتا تو اپنا وجود بھی منوا سکتا تھا“ میرے خدا کو نا ماننے اور تمہارے خدا کو ماننے میں فرق یہ ہے تمہیں کوئی بات بطور عقیدہ  بتائی جاتی ہے تو تم اس پر فوراً یقین کر لیتے ہو کہ یہ تو عقیدے کا مسئلہ ہے، اور تمہاری دینی تریبت میں یہ بات شامل ہے کہ عقیدے کے بارے میں سوال کرنا، غور و فکر کرنا اور اسے کسی عقلی معیار پر پرکھنا شجر ممنوعہ ہے، اس لئے تم عقیدہ کے ماننے والے ہو، تمہیں ہوش سنبھالتے ہی یہ بتایا گیا کہ خدا ہے، اور تم نے اسے مان لیا، کبھی اس پر شک نہیں کیا، کبھی دوسرے پہلو پر غور و فکر ہی نہیں کیا کہ سچائی تمہارے عقیدے کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔
مسلم:تو تم عقیدے کو نہیں مانتے ہو؟
ملحد: نہیں میں عقیدے کو نہیں مانتا۔
مسلم:پھر تم کسی بات کا یقین کیسے کر لیتے ہو؟
ملحد: میں علم کو مانتا ہوں۔ جو بات معلوم ہو سکے میں اسے مانتا نہیں بلکہ اسے جانتا ہوں۔ ماننے اور جاننے میں یہی فرق ہے، یہی فرق ہے عقیدے اور علم میں۔
مسلم: دنیا میں بہت سی چیزیں ہوں گی جو تم نے خود نہیں دیکھی ہوں گی مگر تم اسے مانتے ہو، پھر یہ جاننا کیسے ہوا؟ میرے دوست تم بھی عقیدہ پرست ہو، تم بھی باتوں کو مانتے ہو، اور جانے بغیر ان پر یقین بھی رکھتے ہو۔ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے، تم صرف باتوں کو گھمانا جانتے ہو۔
ملحد: ایسا نہیں ہے، میں عقیدہ نہیں علم پر یقین رکھتا ہوں۔
مسلم: اچھا ایک بات بتاؤ ؟ تم خدا پر تو یقین نہیں رکھتے، لیکن کیا تم ایٹم پر یقین رکھتے ہو؟
ملحد: ہاں رکھتا ہوں۔
مسلم: تو پھر تو تم ایٹم میں موجود الیکٹران، پروٹان پر بھی یقین رکھتے ہوگے؟
ملحد: ہاں رکھتا ہوں
مسلم: کیا تم نے کبھی اپنی آنکھوں سے ایٹم کو دیکھا ہے۔ تم نے خود کبھی الیکٹران یا پروٹان کا مشاہدہ کیا ہے ؟
ملحد: نہیں میں نے کبھی ایک سنگل ایٹم کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی الیکٹران اور پروٹان کا مشاہدہ کیا ہے۔
  مسلم: تو بس پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ تم ایٹم اور الیکٹران اور پروٹان کو صرف عقیدہ کی بنیاد پر مانتے ہو، نہ خود کبھی دیکھا، نہ مشاہدہ کیا، نہ کبھی ان کے وجود پر شک کیا، نہ کبھی تحقیق، کی، نہ کبھی چھان پھٹک کرنے کی کوشش کی۔ ہا ہا ہا ہا تم تو چاروں شانے چت ہو گئے ہو۔
ملحد: دیکھو جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں ایٹم کے وجود کے پر یقین رکھتا ہوں اور الیکٹران اور پروٹان کے وجود کا قائل ہوں اگرچہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ان کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عناصر کبھی انسانی مشاہدے میں نہیں آئے۔ انسان نے ان کا مشاہدہ کیا ہے اپنے حواس  خمسہ سے انہیں محسوس کیا ہے۔ ایٹم کا مشاہدہ عام حالات میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کیلئے ایک لیبارٹری کی ضرورت ہوتی ہے، کچھ آلات کی ضرورت ہوتی ہے جن کے بغیر ایٹم اور اسکے اجزاء کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جن انسانوں کو یہ سہولیات دستیاب ہیں انہوں نے بلاشبہ یہ مشاہدہ کیا ہے۔تو سائنسدانوں نے بنفس نفیس یہ مشاہدہ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ ایٹم کی ساخت کیسی ہوتی ہے۔ تو چونکہ ایٹم اور اس کی ساخت کا علم مجھ تک ایک ایسے معتبر ذریعے  سے پہنچا ہےجسے جھٹلایا نہیں جا سکتا اس لئے میرے پاس کوئی اور اختیار موجود ہی نہیں ہے۔
مسلم: ایک منٹ!ایک منٹ!بس یہیں رک جاؤ ابھی ابھی تم نے کہا تم نے خود کبھی ایٹم اور اس کے اجزاء کا مشاہدہ نہیں کیا تمہیں سائنس دانوں کے ذریعے معلوم ہوا جنہوں نے ایٹم اور اسکے اجزاء کا بذات خود مشاہدہ کیا انہوں نے اپنا علم تم تک منتقل کیا اور تمہیں یہ حقیقت معلوم ہوگئی کہ ایٹم اور اسکے اجزاء وجود رکھتے ہیں، یعنی ایک معتبر ذریعہ سے تمہیں یہ علم حاصل ہوا اور تم اس پر یقین کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک سچا نبی آیا جس نے جبرائیل کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا، جو فرشتوں اور جنات کو دیکھنے کی قدرت رکھتا ہے، جسے اللہ نے جنت و دوزخ کی سیر کرائی، پل صراط کا مشاہدہ کرایا، پچھلے گذرے ہوئے انبیاء سے ملاقات کرائی، سابقہ کتابیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اور پھر یہی ساری باتیں ہمیں بتائیں، تو تمہارا اس سائنسدان کی بات پر یقین کرنا اور میرا اپنے پیغمبر کی بات پر یقین کرنا ایک ہی بات تو ہے، تم بھی سائنسدان کی بتائی ہوئی بات پر یقین رکھتے ہو اور میں بھی اپنے پیغمبر کی بتائی ہوئی بات پر یقین رکھتا ہوں، جیسے تم ایٹم اور اسکے اجزاء کے وجود پر بن دیکھے سائنسدانوں پر بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہوئے یقین رکھتے ہو ایسے ہی میں بھی اپنے پیغمبر کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھتے ہوئے اللہ، فرشتے، انبیاء، الہامی کتاببوں، جنت دوزخ، پل صراط، لوح محفوظ، اور جنات پر یقین رکھتا ہوں۔ اب تو تم اپنے ہی بیان کردہ اصولوں کے جال میں پھنس گئے ہو، اب ذرا اس جال سے نکل کر تو دکھاؤ، آج تو تمہیں کلمہ پڑھوا کر ہی چھوڑوں گا۔
ملحد: میرے بھائی! میرے بھولے دوست! اگر میں بھی محنت کروں اور سائنس کا علم حاصل کرلوں، پھر مجھے لیبارٹری اور مطلوبہ آلات بھی دستیاب ہوں تو میں بذات خود بھی ایٹم اور اسکے اجزاء کا مشاہدہ کرسکتا ہوں، کیا تم علم حاصل کرکے یا محنت ،ریاضت یا عبادت کر کے یا کوئی اور طریقہ اختیار کرکےاپنے مذہبی عقائد کی تصدیق کے حصول کیلئے اپنی کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہو؟   جیسے سائنسدان ایٹم اور اس کے اجزاء کا مشاہدہ کرتا ہے، تم بھی مذہبی دعووں کا مشاہدہ کرسکتے ہو  ؟ کیا تمہارے پیغمبر نے جو دعوے کئے ان کی تصدیق کسی آزاد ذریعہ سے کی جا سکتی ہے؟۔ جبکہ سائنس داں جو بھی دعویٰ کریں تو اس دعویٰ کی آزاد ذرائع سے تصدیق بالکل ممکن ہے، بلکہ اگر آزاد ذرائع سے اس دعویٰ کی تصدیق نہ ہو تو ایسا دعویٰ مسترد کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی سائنسدان  جھوٹ بول کر گمراہ کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ دنیا میں لاکھوں دیگر سائنسدان موجود ہیں جو لیبارٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر اس کے کھرے کھوٹے کو الگ کر دکھا سکتےہیں۔ مگر افسوس تمہارے پاس ایسا کوئی معیار، کوئی ذریعہ، کوئی بنیاد موجود نہیں جو کسی نبی کے دعویٰ کے تصدیق کر سکے۔ کیا آج تک تمہارے پیغمبر کے دعووں کی مسلمانوں کے علاوہ کسی آزاد یا غیر جانب دار ذریعہ نے تصدیق کی ہے؟
مسلم  :تمہارے ہر اعتراض کا جواب ہمارے قرآن میں موجود ہے، لیکن ابھی مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے، میں پھر کبھی بعد میں تمہارے تمام اعتراضات کا جواب قرآن سے دوں گا، ابھی مجھے اجازت دیں۔
ملحد: بالکل اجازت ہے، میں جواب کا بھی منتظر رہوں گا لیکن جاتے جاتے اپنے ایمان سے ایک بات تو بتا جاؤ۔
مسلم: ہاں پوچھو!
ملحد: سچی سچی بتانا تم نے آج تک خود ترجمے کے ساتھ مکمل قرآن سمجھ کر کبھی پڑھا بھی ہے۔
مسلم:عربی میں قرآن تو بہت بار پڑھا ہے، ،لیکن سچی بات یہ ہے کہ ترجمے کے ساتھ خود کبھی نہیں پڑھا۔

facepalm

4 Comments

  1. واہ واہ مزا آگیا علامہ صاحب – بس آخر میں بات ذرا جلد ہی لپیٹ دی !

    ویسے قرآن کے ترجمے پر یاد آیا : آخر یہ بھی تو انسانوں کا لکھا ہوا ہے – آخر قاموس بھی غیر معصوم کی مرتب شدہ ہے ، تو اس پے کامل ایمان لانا چہ معنی دارد ؟ مسلمانوں میں ‘ضرب ‘ یا ‘مولیٰ ‘ جیسے الفاظ پر صدیوں سے بحث چلی آرہی ہے اور اسکی وجہ یہی ہے کہ قرآن کے ساتھ اسکی شرح نازل ہرگز نہیں ہوئی تھی – رہ گئے پیغمبر تو وہ اپنی حکومت پکّی کرنے کی تگ ودو میں لگے رہے – ان سے تو قرآن ایک کتابی حالت میں محفوظ نہ ہو پایا چہ جائکہ اسکی تفصیلی شرح یا تفسیر مہیا کر دی جاتی –

جواب دیں

4 Comments
scroll to top