اکثر مسلمانوں کو جن کی دینی معلومات، جمعہ کے دن مولوی صاحب کے خطبے، کسی اخبار میں جمعہ کے دن شائع ہونے والے دینی صفحے، یا الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے حاصل ہونے والی معلومات تک محدود ہوتی ہیں یہی باور کرایا جاتا ہے کہ جب مکہ میں پیغمبر اسلام نے نبوت کا دعویٰ کیا اس وقت اسلام قبول کرنے والوں پر بلا امتیاز ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس ظلم کی داستاں کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ گویا کفار مکہ اپنی روز مرہ کی تمام تر مصروفیات ترک کرکے صرف اسلام قبول کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کی منصوبہ بندیوں اور سازشیں تیار کرنے میں تمام تر وقت صرف کیا کرتے تھے۔ اکثر اوقات صرف اس طرح کے مبالغہ آمیز جملے سننے کو ملتے ہیں کہ کافروں نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا، ان کا جینا دوبھر کر دیا، ہر وقت انہیں ایذاء رسانی کی منصوبہ بندی کرتے رہتے لیکن تفصیلی واقعات بیان نہیں کئے جاتے کہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے والے واقعات کی تفصیلات کیا ہیں؟ محض مبالغہ آرائی پر تمام تر دعوے دائر کر کے کفار مکہ کو ظالم و جابر قرار دے کر بے چارے عقیدت پسند مسلمانوں کی تمام تر ہمدردیاں مسلمانوں کیلئے حاصل کی جاتی ہیں اور مکہ کے وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا (جنہیں عرف عام میں مشرکین مکہ کہا جاتا ہے) کے حصے میں ان سادہ لوح مسلمانوں کا غصہ، بغض کدورت اور نفرت ہی آتی ہے۔
یہ واقعات کس قدر مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں؟ اور کس قدر حقیقت پر؟ ہمارے پاس ظالم (مشرکین مکہ) کی طرف سے تو کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ ان کا موقف کیا تھا؟ اگر ان کی طرف سے کوئی ریکارڈ موجود بھی ہوتا تو یقیناً وہ اپنی صفائی ہی بیان کرتے اور ان واقعات کی تردید کرتے، ظلم کو کون اپنی وراثت قرار دینا چاہتا ہے؟ دو سگے بھائی آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں میں سے ہر ایک والدین کے سامنے مظلوم ہونے کا ہی دعوے دار ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ان ایام کی تاریخ کنگھالنے کیلئے صرف مظلومین یعنی مسلمانوں کی بیان کردہ روایات ہی موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ مظلوم ہمیشہ ظلم کو مبالغہ آرائی کے ساتھ ہی بیان کرے گا جو انسانی طبیعت کا تقاضا ہے۔ دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ جب ہم ظلم کی اس داستان کی چھان بین کرنے کیلئے مسلمانوں کی ہی یک طرفہ روایت کردہ تاریخ کو کنگھالتے ہیں تو انتہائی حیران کن صورت حال سامنے آتی ہے، جو مسلمانوں کی طرف سے بیان کردہ صورت حال سے قطعاً مختلف ہے۔
مجھے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کیلئے نہ تو ابو الحکمہ عمرو ابن ہشام (جنہیں پیغمبر اسلام نے اپنے بُغض کی وجہ سے ابو جہل کہہ کر پکارا)، نہ عبدالعزیٰ (جنہیں قرآن عورتوں کی طرح کوسنے سناتے ہوئے ابو لہب کہہ کر پکارتا ہے) نہ ولید بن مغیرہ اور نہ ہی نضر بن حارث کی احادیث اور روایات کی ضرورت ہے، بلکہ مجھے یہ تمام تر سہولت احادیث مبارکہ اور “رحمۃ للعالمین” کی شان میں لکھی گئی سیرت کی کتابوں سے بآسانی دستیاب ہے۔
یاد رہے کہ پیغمبر اسلام کا دعویٰ نبوت سے لے کر ہجرت تک کے درمیان کا عرصہ تیرہ سال پر محیط ہے، مسلمان علماء جس مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کفار کے مظالم اور مسلمانوں کی مظلومیت بیان کرتے ہیں کہ اس عرصہ میں کفار کی جانب سے اہل اسلام کو ہر ممکنہ ایذاء رسائی کا سامنا کرنا پڑا، ہر دن تکلیف، مشقت اور جبر کا ایک نیا سورج لے کر طلوع ہوتا تھا، اس صورت حال کے پیش نظر ظلم و ستم کے واقعات کی اس قدر بھر مار ہونی چاہئے تھی کہ ان واقعات کو رقم کرنے کیلئے ایک باقاعدہ دیوان مرتب کرنا پڑتا، لیکن دیوان تو درکنار، کیا کسی مسلمان نے آج تک معمولی ضخامت کی کوئی ایک کتاب بھی دیکھی جس میں ظلم و ستم کے صرف وہ واقعات قلم بند کئے گئے ہوں جن کا سامنا اہل اسلام کو مکی دور میں کرنا پڑا؟، حالانکہ اسلامی کتب خانے “آداب مباشرت” سے لے کر “دجال کی آمد” اور “موت کا منظر بمعہ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ جیسے موضوعات پر مبنی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں۔
قارئین کی سہولت کیلئے میں نے اس موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، اس حصے کو میں ان دعووں کی حقیقت بیان کرنے کیلئے مختص کر رہا ہوں جن میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنے مکی دور میں کن “مصائب و آلام” اور ظلم کے “سیل رواں” کو جھیلنا پڑا۔ اور عنقریب اگلے حصے میں پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کو اسی طرح کے جن “اذیت ناک” حالات و واقعات سے گذرنا پڑا انہیں بیان کروں گا۔
مشرکین مکہ کی مخالف کا سبب
اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل اگر پیغمبر اسلام اور مشرکین مکہ کی مخالفت کے اصل اسباب کا بھی ذرا جائزہ لے لیں تو صورت حال کی وضاحت میں کافی حد تک آسانی ہو جائے گی۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ: “مجھ کو جو روایات پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوا ہے کہ جب رسول اللہ نے اپنی دعوت کا اعلان کیا، مشرک آپ کے کچھ مزاحم نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے ان کے معبودوں کو برا نہیں کہا، اور جب آپ نے برا کہنا شروع کیا جس سے وہ نہایت خفا ہوئے اور حضور کی دشمنی پر اتفاق کیا۔(سیرت ابن ہشام: جلد اول، باب 32، اعلانیہ دعوت اسلام، صفحہ: 170)
ابن اسحاق کی اس صراحت کے بعد کہ مشرکین مکہ نے اس وقت تک پیغمبر اسلام کی مخالفت پر کمر نہیں باندھی جب تک کہ پیغمبر اسلام نے ان کے معبودوں کو برا بھلا نہیں کہا، پھر جب پیغمبر اسلام نے کفار مکہ کے معبودوں کو برا بھلا کہنا شروع بھی کر دیا تو کفار مکہ نے پیغمبر اسلام کو “توہین معبودان” کا مرتکب ہونے کے باوجود ان کے خلاف 295Cکی طرز کا نہ تو کوئی مقدمہ دائر کیا اور نہ ہی “ماورائے عدالت” قتل کی منصوبہ بندی کی بلکہ ایک نہایت مہذب جمہوری انداز اور قبائلی روایت کے مطابق پیغمبر اسلام کے سرپرست ابو طالب کے پاس معتبرین قریش کا ایک وفد بھیجا، اور براہ راست پیغمبر اسلام سے کوئی مؤاخذہ نہ کیا، چنانچہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ:
”یہ سب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا اے ابو طالب! یا تو تم اپنے بھتیجے یعنی حضور کو منع کرو کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہے اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ بتائے، ورنہ ہم کو اجازت دو کہ ہم خود اس سے سمجھ لیں، کیونکہ اس کی مخالفت میں تم بھی ہمارے شریک ہو، یعنی تم بھی ہماری طرح ہی مسلمان نہیں ہوئے ہو، پس تم ہمارے اور اس کے درمیان میں دخل نہ دینا۔“ (سیرت ابن ہشام۔ جلد اول، باب 32۔ اعلانیہ دعوت اسلام، صفحہ: 170)
مندرجہ بالا عبارت سے اندازہ کیجئے کہ کفار مکہ کا مطالبہ کیا تھا؟ کفار مکہ نے ابو طالب کے سامنے صرف یہ مطالبہ رکھا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے مقدس معبودوں کو برا بھلا نہ کہے، اور ہمارے باپ دادا کو جاہل اور گمراہ نہ کہے، کفار مکہ نے ابو طالب سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اپنے بھتیجے کو اپنے دین کی دعوت دینے سے روکو۔ حالانکہ حکمران طبقہ ہونے کی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرداران قریش کو پاکستان کے پینل کوڈ295AB&C جیسے کسی کالے قانون کے تکلف کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن ان کی قبائلی روایات نے انہیں اس طرح کے کسی بھی اقدام سے باز رکھا۔
حضرت عباس کی شہادت
جب پیغمبر اسلام نے مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا تو اس وقت محمد صلعم کے چچا حضرت عباس نے اہل یثرب سے جو گفتگو فرمائی اسے ملاحظہ کر لیا جائے واضح ہو جاتا ہے کہ مکہ میں پیغمبر اسلام کی جان، مال اور آبرو کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں کہ:
پہلے حضرت عباس نے اہل یثرب سے اس طرح گفتگو شروع کی: “تم اچھی طرح جانتے ہو کہ محمدکا مقام و مرتبہ ہمارے ہاں کیا ہے ہم نے ابھی تک انہیں ان کے مخالفین سے محفوظ رکھا ہوا ہے”وہ اپنی قوم اور شہر میں رہتے ہوئے باعزت اور محفوظ ہیں“ لیکن اب یہ اصرار کر رہے ہیں کہ تمہارے ساتھ تمہارے شہر جائیں گے۔ خوب اچھی طرح سوچ لو اگر تم سمجھتے ہو کہ ان سے کیا ہوا عہد پورا کر سکتے ہو اور انہیں ان کے مخالفین سے محفوظ رکھ سکتے ہو تو بخوشی یہ ذمہ داری اٹھاؤ ورنہ انہیں رہنے دو۔ یہ اپنی قوم اور شہر میں عزت اور حفاظت سے رہ رہے ہیں۔” (سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 294)
گویا محمد صلعم کو قریش کے مقتدر قبیلہ بنو ہاشم سے تعلق کے استحقاق کا مکمل فائدہ حاصل تھا، اور اسکے باعث کسی کی مجال نہیں تھی کہ انہیں کسی قسم کا گزند پہنچا سکے۔ دوسری طرف نصابی کتب اور دیگر ذرائع میں گمراہ کن طور پر یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ گویا مکہ میں گزارے گئے نبوت کے 13 سال میں سے ہر دن محمد صلعم پر گذشتہ دن سے زیادہ بھاری تھا۔
ابن اسحاق کی شہادت
ابن اسحاق مزید لکھتے ہیں کہ:”پھر قریش حضور کی عداوت پر نہایت سخت ہوگئے اور جس گروہ میں سے جو چند مسلمان ہوئے تھے ان کو سخت تکلیفیں پہنچانے لگے (حسبِ روایت صرف تکلیفیں پہنچانے کا دعویٰ ذکر کیا، لیکن بطور ثبوت کوئی تفصیل بیان نہیں کی) مگر رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابو طالب کے سبب سے ان کی گستاخیوں سے محفوظ رکھا”۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے یحییٰ بن عروۃ بن زبیر نے اپنے باپ عروۃ بن زبیر سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے کہا کہ تم نے قریش کی سب سے بڑی زیادتی اور عداوت کا رسول اللہ کے ساتھ کون سا واقعہ دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا ایک روز میں موجود تھا کہ قریش کے سب بڑے بڑے لوگ حجر اسود کے پاس خانہ کعبہ میں اکھٹے ہوئے اور رسول اللہ کا ذکر کرنے لگے اور کہتے تھے کہ جیسا ہم نے اس شخص پر صبر کیا ہے ایسا کسی پر نہیں کیا، ہمارے دین کو برا کہتا ہے اور ہمارے بزرگوں کو گمراہ بتلاتا ہے، ہم نے اس پر بڑا ہی صبر کیا ہے۔ یہ لوگ ایسی ہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور تشریف لائے اور آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور طواف میں مشغول ہوئے اور جب آپ طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گذرتے تو یہ آپ پر آوازہ کرتے، چنانچہ تین بار ایسا ہوا اور اس کا ملال حضور کے چہرۂ مبارک پر مجھ کو معلوم ہوا، اور تیسرے آوازہ پر آپ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے اے گروہِ قریش! تم سنتے ہو خبردار ہو جاؤ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں تمہارے پاس ذبح کے ساتھ آیا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور کے اس کلام کا ایسا اثر ہوا کہ قریش سکتہ کی حالت میں ہوگئے اور جو شخص کہ ان میں زیادہ گفتگو کر رہا تھا وہ حضور سے نرمی سے باتیں کرنے لگا اور عرض کیا کہ آپ تشریف لے جائیں، چنانچہ آپ تشریف لے گئے پھر دوسرے روز یہ لوگ اکھٹے ہوئے اور ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہمارے معبودوں میں عیب نکالتے ہو اور ہمارے دین کو برا کہتے ہو، رسول اللہ نے فرمایا ہاں میں ہی کہتا ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے حضور کی چادر مبارک پکڑ لی، ابوبکر یہ حالت دیکھ کر روتے ہوئے کھڑے ہوئے اور قریش سے کہنے لگے کہ کیا تم ایسے شخص کو قتل کرتے ہو کہ جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، تب قریش آپ کو چھوڑ کر چلے گئے، راوی کہتا ہے کہ یہ سخت واقعہ ہے جو قریش کا میں نے حضور کے ساتھ دیکھا اور کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
ابن ہشام کہتے ہیں کہ قریش کا ایک سخت واقعہ حضور کی ایذاء رسانی کا مجھ کو یہ پہنچا ہے کہ ایک روز جو آپ اپنے دولت خانے سے باہر تشریف لائے تو ہر فرد بشر آزاد اور غلام، اور چھوٹے اور بڑے سب نے آپ کو جھوٹا اور کذاب کہا، اور آپ کو اذیت پہنچائی۔ آپ واپس چلے آئے اور سخت رنجیدگی کی حالت میں منہ لپیٹ کر لیٹ رہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
یا ایھا المدثر قم فانذر ”اے منہ لپیٹنے والے کھڑے ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراؤ“۔(سورۃ المدثر)
بیان کردہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کو محض قریش مکہ کی طرف سے زبانی طور پر “تشدد” کانشانہ بنایا گیا، یا ایک واقعہ میں ایک شخص نے چادر پکڑ کر کھینچا، اور ابن اسحاق واضح طور پر گواہی دے رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام کو اس سے زیادہ “جسمانی تشدد” کا سامنا نہیں کر پڑا۔ مسلمانو! کیا تمہارے لئے خود پیغمبر اسلام کے سگے چچا حضرت عباس اور عالم اسلام کے سب سے پہلے سیرت نگار ابن اسحاق کی یہ گواہی کافی نہیں کہ “رسول اللہ کو اللہ نے ان کے کافر چچا کے سبب سے کافروں کی گستاخیوں سے محفوظ رکھا”؟
کیا یہ مقام فکر نہیں ہے کہ اگر پیغمبر اسلام کے ساتھ کوئی ناروا سلوک پیش آیا ہوتا تو کیا صحابہ کرام اسے روایت نہ کرتے؟ ابن اسحاق ایسی کوئی روایت کیونکر اپنی سیرت کی کتاب میں بیان نہ کرتے، جبکہ انہوں نے اپنی کتاب میں ہر باریکی کو بیان کیا؟ حضرت عباس اور ابن اسحاق کی شہادت اس امر کی طرف کافی اشارہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو ایذاء رسانی کے کئی واقعات دور صحابہ کے بعد اختراع کئے گئے۔
سردار قریش پر پیغمبر اسلام کی وجہ سے تشدد
ایک طرف تو پیغمبر اسلام اپنے کافر چچا کی بدولت خصوصی پروٹوکول سے استفادہ فرماتے ہیں اور دوسری جانب پیغمبر اسلام کی ہی وجہ سے قریش کا سب سے بڑا سردار عمرو بن ہشام (ابو جہل) پیغمبر اسلام کے ایک دوسرے مسلمان چچا حضرت حمزہ کے ہاتھوں جسمانی تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ:
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے قبیلہ اسلم کے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ ایک روز حضور صفا پہاڑ کے پاس تشریف رکھتے تھے، ابو جہل نے آپ کو بہت ناسزا کہنا شروع کیا، اور بہت کچھ ”زبانی اذیت“ آپ کو پہنچائی، آپ خاموش سنتے رہے اور کچھ نہ فرمایا، وہیں عبداللہ بن جدعان بن عمرو بن کعب کی آزاد لونڈی کا گھر تھا وہ اپنے گھر میں سے ابو جہل کی ساری باتیں سن رہی تھی پھر ابو جہل حضور کو کہہ سن کر خانہ کعبہ کے پاس قریش کی ایک مجلس میں جا بیٹھا اور حضور بھی اپنی دولت سرا میں تشریف لے گئے۔ اس کے بعد تھوڑی دیر بعد حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اپنی کمان لئے ہوئے صفاء پر آئے کیونکہ آپ روزانہ تیز اندازی کی مشق کے واسطے تشریف لے جاتے تھے اور وہاں سے فارغ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرکے پھر گھر جاتے تھے اور راستہ میں جس جگہ سے گذرتے وہاں لوگوں سے سلام علیک کرکے ان سے بات چیت بھی کرتے اور قریش میں آپ نہایت بہادر اور شجاع جوان تھے، غرضیکہ جس وقت آپ صفاء پر تشریف لائے اس عورت نے ابو جہل کے، حضور کو برا بھلا کہنے کا سارا قصہ آپ سے بیان کیا (کاش کوئی راوی یہ بھی بیان کر دیتا کہ ابو جہل نے کیا کہا تھا، مگر یہاں سارے راوی خاموش ہیں) جس کے سنتے ہی حضرت حمزہ برانگیختہ ہوگئے، آپ وہاں سے فوراً مسجد حرام میں ابو جہل کی تلاش کے واسطے تشریف لائے، دیکھا تو وہ لوگوں میں بیٹھا تھا، حضرت حمزہ اس کے قریب آئے اور اس زور سے اپنی کمان اس کے سر پر ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور فرمایا کہ تو میرے بھتیجے کو سخت سست کہتا ہے۔ میں بھی اسی کے دین پر ہوں اور جو وہ کہتا ہے وہی میں بھی کہتا ہوں، اگر تجھ میں کچھ طاقت ہے تو مجھ کو جواب دے۔ بنی مخزوم کے چند آدمیوں نے چاہا کہ ابوجہل کی حمایت پر کھڑے ہوں مگر خود اس نے ان کو منع کر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واقعات ابن ہشام نے ”نبوت کی شہرت اور قریش کی ایذاء رسانیاں“ کے عنوان سے بیان کئے ہیں لیکن پورے باب میں کفارِ قریش کی نسبت مسلمانوں کی جانب سے جسمانی ایذاء رسانی کے واقعات زیادہ بیان ہوئے۔
عبد العزیٰ (ابو لہب) کی اخلاقی حمایت
طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ ابو طالب کے انتقال کے بعد پیغمبر اسلام گھر میں ہی رہنے لگے اور باہر نکلنا کم کردیا ، قریش کو وہ کامیابی حاصل ہوگئی جو اب تک حاصل نہ ہوئی تھی اور نہ انہیں توقع تھی۔ تو عبدالعزیٰ (ابولہب) جسے انتہائی شقی القلب دشمنِ اسلام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کو معلوم ہوا تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہا اے محمد! آپ جہاں چاہتے ہیں جایئے، جو کام آپ ابوطالب کی زندگی میں کرتے تھے کیجئے، لات کی قسم جب تک میں زندہ ہوں کسی کی آپ تک رسائی نہ ہوگی۔ ابن الغیلطہ نے رسول اللہ کو برا بھلا کہا تھا، ابو لہب اس کے پاس آیا اور اسے برا بھلا کہا۔ تو وہ چلاتا ہوا بھاگا کہ اے گروہ قریش ابوعتبہ (ابولہب) بے دین ہوگیا۔ قریش آگئے اور ابو لہب کے پاس کھڑے ہوگئے، ابو لہب نے کہا میں نے دین عبدالمطلب کو ترک نہیں کیا۔ مگر میں ظلم سے اپنے بھتیجے کی حفاظت کرتا ہوں یہاں تک کہ یہ جس کام کا ارادہ کرتے ہیں اس کیلئے چلے جائیں۔ قریش نے کہا: تم نے اچھا کیا، خوب کیا اور صلہ رحم کیا۔
اب اس واقعہ میں ذرا اخلاق بولہبی اور اخلاق محمدی کا موازنہ بھی کرلیجئے کہ چچا نے کیسے ہزار مخالفت کے باوجود محض قرابت کی بنیاد اپنی اخلاقی ذمہ داری کا پاس کیا، اور کیسے بھتیجے نے اس حسن سلوک کا جواب ابو لہب کا لقب عطا کرکے دیا، اور قریش کا جواب بھی ملاحظہ کیجئے کہ قریش نے عبدالعزیٰ کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس کے حسن سلوک کی ستائش کی۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے ؏
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
لیکن یہ واقعہ جاننے کے بعد انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ یہ شعر کچھ یوں پڑھا جائے ؏
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
شرار مصطفوی سے چراغ بو لہبی
پیغمبر اسلام کے قتل کی سازش
سادہ لوح مسلمانوں کو یہی باور کرایا جاتا ہے کہ کفار مکہ نے بارہا پیغمبر اسلام کے قتل کے منصوبے بنائے، لیکن اگر سیرت کی کتابوں میں ان واقعات کی تفصیل دیکھی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قریش اپنی قبائلی روایات کے ہاتھوں مجبور تھے اور اسی مجبوری نے انہیں پیغمبر اسلام کے خلاف کسی بھی انتہائی اقدام سے باز رکھا۔ قریش کو معلوم تھا کہ اگر انہوں نے پیغمبر اسلام کو قتل کردیا تو سب سے پہلے تو پیغمبر اسلام کا پورا قبیلہ بنو ہاشم جو سردست تو مشرکین مکہ کا ہم مذہب ہے بعد میں قبائلی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام کے قصاص کیلئے کمربستہ ہوگا، اور ان کے ساتھ ان کے تمام قبائلی حلیف بھی اپنے نظریاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر محمد کے لواحقین کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے۔ چنانچہ قریش مکہ کی اسی اصول پرستی کا پورا پورا فائدہ پیغمبر اسلام کو حاصل ہوا اور وہ 13 سال تک مشرکین مکہ کی “مذہبی دلآزاری” کرتے رہے، ان کے معبودوں کی توہین فرماتے رہے، اور ان کے آباء و اجداد کو جہنمی اور لعنتی قرار دے کر ان کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔
اسلامی روایات ہی کی روشنی میں ہجرت یثرب کے وقت ایک واحد موقع نظر آتا ہے جہاں قریش اور اس کے ذیلی قبائل پیغمبر اسلام کے قتل پر عملی طور پر آمادہ نظر آتے ہیں، لیکن اس کی منصوبہ بندی کیلئے جو مجلس منعقد ہوتی ہے اس کا احوال پڑھ لیں کہ قبائلی روایات کی موجودگی میں یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔
ابن ہشام کے مطابق قریش کے زعماء نے قصی بن کلاب کے مکان جسے دارالندوۃ کہا جاتا تھا ایک مجلس مشاورت کے انعقاد کا انتظام کیا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد یہ ترکیب طے پاتی ہے کہ مکہ کے تمام قبائل میں سے ایک ایک جوان چھانٹ کر مسلح تیار کریں۔ اور جب محمد سو رہے ہوں تو وہ سب جوان یکبارگی ایک ہاتھ تلوار کا ان پر ماریں اس طرح انہیں قتل کردیں پھر اگر محمد کی قوم قصاص لینا چاہے گی تو اتنے قبائل سے نہ لڑ سکے گی۔ لامحالہ خون بہا پر معاملہ طے پائے گا۔”
ابن ہشام کی اس عبارت سے بخوبی علم ہو سکتا ہے کہ قریش کو اپنی قبائلی روایتوں کا کس قدر پاس تھا اور کس طرح بدقت تمام انہوں نے سوچ بچار کے بعد ایک ایسا طریقہ نکالا کہ قبائلی قوانین پر آنچ بھی نہ آئے اور اپنے معبودوں کی حرمت کی حفاظت کا بندوبست بھی ہوجائے۔
سفر طائف
پیغمبر اسلام پر کفار کے مظالم کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ہم محمد صلعم کے سفر طائف کو کس طرح بھول سکتے ہیں؟ انتہائی دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ابن اسحاق اپنی سیرت میں سفر طائف کے دوران محمد صلعم پر کسی پتھراؤ کا سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے، بلکہ اسکے برعکس یہ ذکر کیا کہ “جب محمد صلعم طائف والوں سے مایوس ہو کر عتبہ اور شیبہ (جو محمد صلعم کے بدترین دشمن تھے) کے باغ کی ایک دیوار کے پاس انگور کی بیل کے سائے میں تشریف فرما ہوگئے تو عتبہ اور شیبہ نے حضور صلعم کو اس حالت میں دیکھا تو ان کو آپ صلعم پر ترس آیا اور انہوں نے اپنے نصرانی غلام عداس کو کہا کہ انگور کے خوشے طباق میں رکھ ان کے پاس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ نوش کریں، عداس نے ایسا ہی کیا”
طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق محمد صلعم 10 روز تک اور ایک اور روایت کے مطابق ایک ماہ تک طائف میں قیام فرما رہے، اگر پتھراؤ والا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا پیغمبر اسلام 10 روز یا ایک ماہ تک طائف میں قیام فرماتے؟ طائف سے واپسی پر جنات کے سے ملاقات کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن سرور کائنات کے زخمی ہونے کا کسی ایک بھی روایت میں ذکر تک نہیں۔ نیز یہ بھی واضح ہو ہی چکا ہے کہ اس دور کی قبائلی روایات کس قدر مستحکم اور عصبیت پر مبنی تھیں، اگر پتھراؤ کا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا محمد صلعم کا قبیلہ اس پر خاموش رہتا؟ ابو سفیان جو کہ اس وقت قریش کا سردار تھا، اپنی قبائلی ذمہ داری کی بدولت وہ بھی خاموش نہ رہتا، بلکہ حتی المقدور ردّ عمل ضرور ظاہر کرتا۔ پیغمبر اسلام کے جانثار چچا حضرت حمزہ اور حضرت عباس اور انکے دیگر حمایت کنندہ اس اندوہ ناک واقعہ پر کیوں خاموش رہے؟ اگر طائف میں پتھراؤ سے زخمی ہونے کے واقعہ کو مان بھی لیا جائے تو پیغمبر اسلام نے ہجرت یثرب کے بعد اپنے مخالفین کے ساتھ جو منتقمانہ روح فرسا سلوک روا رکھا اس سے موازنہ کیا جائے تو اس واقعہ کی چنداں اہمیت بھی باقی نہیں رہ جاتی۔
درسی کتب میں مذکور جھوٹا واقعہ
ہمارے ہاں کی درسی کتابوں میں ایک واقعہ عرصہ دراز سے معصوم ناپختہ اذہان میں نقش کرایا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام جب نماز پڑھنے جاتے تو ایک بڑھیا ان پر روزانہ کچرا پھینکا کرتی تھی، ایک روز جب اس بڑھیا نے کچرا نہ پھینکا تو پیغمبر اسلام اس کی خیریت دریافت کرنے اس کے گھر جا پہنچے، جو علیل تھی تو محمد صلعم نے اس کی عیادت کی۔ یہ واقعہ کسی حدیث کی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کا ”مصلح کل“ قسم کا کردار ابھارنے کیلئے جھوٹ تک کا سہارا لینے میں کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔
یہ سب احادیث جھوٹی ہیں۔ قرآن میں ایسا کچھ نہیں لکھا ہے۔
1- "جھوٹی حدیث” کیا ہوتی ہے؟
2- اکیلے آپ کے کہنے سے کیا فرق پڑ جائے گا کہ "یہ سب احادیث جھوٹی ہیں” یعنی وہ کیا کہتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے تو سمجھدار آپ خود بھی ہوں گے۔
3- میری تحریر میں کوئی ایک حوالہ بھی غلط ثابت کرکے دکھا دیں۔
جھوٹی حدیث وہ ہوتیں ہیں جنکی وجھہ سے بخاری شریف کو صحیح بخاری میں تبدیل کیا جاتا ہے. اور اگر اصل بخاری پوری صحیح تھی تو علم حدیث کا کیا ڈرامہ ہے؟
آپ نے ابن اسحاق کا نام ضرور شایع کیا ہے مگر کوئی حوالہ تو پیش ہی نہیں کیا – بس اپنی ذہنی اخترہوں کا اظہار ہے جسمیں آپ نے رسول الله پے حملے کیہ، انکے چچا کو کافر کا فتویٰ لگایا اور جو بھی دشمنانان رسول تھے اور اسلام دشمن، انکو ہیرو بنانے کی کوشش کی ہے. مجھے حیرت اس بات پے ہے کے کس ڈھٹائی سے اپنے تاریخ کی بیسیوں کتب کا انکار کر کے کفّار مکہ اور منافقین کے کالے کرتوتوں پے پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور دنیا خاموش بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے کے ایک شخص نے بھی ١ سال میں کوئی جواب نہ دیا اس گھٹیا تحریر کا! یہ تحریر آج پہلی بار میری نذر سے گزری، انشا الله آپکو محمد اور آل محمد پے ہونے والے مظالم کی تفصیل، اہل سنت ہی کی کتب سے حوالاجات سمیت دکھاؤنگا