Close

مدینہ کی ریاست

ہم نے سوچا کہ مدینہ کی ریاست کی کچھ جھلکیاں اختصار سے قسطوں میں پیش کی جائیں، ایک تو ہم تاریخ پڑھتے نہیں ہیں، دوسرے تاریخ کے بارے میں جو بھی ہمیں پڑھایا گیا، وہ تقدیس میں لپیٹ کر سب اچھا کے طور پر پیش کیا گیا۔اس جائزہ میں کوشش کی گئی ہے کہ عقیدت کے حصار سے نکل کر ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ پیش کیا جا سکے۔

مدینہ کی ریاست کا آغاز

مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں پیغمبر اسلام نے اسلامی ریاست قائم کی۔ جو 41 ہجری تک قائم رہی۔ جس کے بعد اقتدار کا مرکزہ مدینہ سے دمشق میں منتقل ہوگیا۔ مدینے کی ریاست میں ابتدائی دور میں ہمیں قبائلی سادگی، قبائلی جمہوریت کے آثار ملتے ہیں، جنہیں ہمارے ہاں اسلامی اقدار اور خصوصیات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اور اسی میں ہمیں ایک رومان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب کہ ان کا تعلق صرف انفرادی اور جزوی سطح تک تھا۔ ہمیں مدنی معاشرے اور طرز سیاست میں یہ اقدار اور اخلاقیات نظر نہیں آتی۔ ریاست اور دولت کے پھیلاؤکے ساتھ ہی اسلامی حکمرانی ابتدائی قبائلی سادہ روی سےموروثی جاگیری شاہنشائیت میں بدل گئی۔

632 عیسوی میں پیغمبر اسلام کی وفات ہوئی۔ اس وقت تک مدینہ کی ریاست کا دائرہ کار ایران اور شام کی سرحدوں تک جا چکا تھا۔ مدینہ کی ریاست میں سیاسی استحکام کس قدر تھا اس کا اندازہ اس روایت سے کیا جا سکتا ہے کہ ابو ہریرہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا،میرے بعد فوراً فتنے پیدا ہو جائیں گے۔یہ خدشات کیوں تھے ؟ اس لئے کہ “مدنی ریاست” مختلف متضاد اور متحارب گروہوں پر مشتمل تھی۔ یمنی اور حجازی قبائل، مکہ اور مدینے کے قبائل، انصار اور مہاجرین، قریش کے امرءا اور غرباء کے درمیان،، بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان، حضرت عائشہ اور حضرت علی کے درمیان، نیز ازواج رسول دو گروہوں میں تقسیم تھیں۔ منافقین اور مسلمین کے درمیان وغیرہ۔ان سب کے درمیان سخت مخاصمت، لڑائی، اقتدار کی کشمکش پائی جاتی تھی،جس میں کسی لحاظ اور رواداری کی کوئی بات نہ تھی۔

اسلامی اخوت کی یہ تھی تصویر۔جو ہمارے ہاں کس طرح سنہرے دور کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کرنے، سازشیں کرنے، قتل کرنے، قبضہ کرنے سے کبھی گریز نہ کیا۔۔اور یہ کام پیغمبر اسلامکی وفات کے دن سے شروع ہو گیا۔ یعنی ہم سادہ لوح مسلمان جن مثالی اقدار کو اسلام کا شاخسانہ سمجھتے ہیں، ان پر پیغمبر اسلامکی زندگی کے فوری بعد عمل نہ ہو سکا ـــآج چودہ سو سال بعد کوئی اس پر روبہ عمل ہونے کا ذکر کرے ـــوہ یا سادہ لوحی ہو سکتی ہے، یا دھوکا

اسلام میں پہلا انتقال اقتدار

اسلام مکمل ضابطہ حیا ت ہے، اور اسلام کے پاس دنیا کا بہترین سیاسی نظام ہے، اس دعوے کے تناظر میں اسلامی ریاست کے پہلے انتقالِ اقتدار کی صورت حال کا اسلامی تاریخ کی روشنی میں جائزہ پیش خدمت ہے۔جون 632 عیسوی پیغمبر اسلام جب اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے۔وہ کافی تکلیف کی حالت میں تھے، روایات کے مطابق انہوں نے اشارے سے کچھ لکھوانے کی خواہش کا اظہار کیا، لگتا تھا، وہ جانشینی کے بارے میں کوئی ہدایت دینا چاہتے تھے۔ تاکہ ان کے بعد ممکنہ فتنہ و فساد پیدا نہ ہو۔ لیکن ان کے پاس جتنے بھی صحابہ کرام موجود تھے، ہر ایک نے اس ڈر سے ان کی بات سنی ان سنی کردی کہ وہ کوئی ایسا جانشین نہ نامزد کر دیں، جو ان میں سے کچھ کو قبول نہ ہو۔چنانچہ سب نے لیت لعل سے کام لیا۔بلکہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے آخری وقت ایسا رویہ اختیار کیا اور ایسے کلمات ادا کئےکہ اگر آج وہی کلمات کوئی شخص ادا کر دے تو توہین رسالت کے زمرے میں آتے اور اس کیلئے واجب القتل قرار دیئے جانے کا سبب بنتے۔

طبری کے مطابق کسی نے کہا، "آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ اور سرسامی کیفیت طاری ہے۔جس کی وجہ سے آپ غیر ارادی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کیا لکھوانا چاہتے ہیں۔آپ نے تنگ آ کر فرمایا، جاؤ "مجھے میرے حال پر چھوڑ دو"۔ چنانچہ 8 جون کو آپ کی روح مبارک نکلتے ہی انصار کا ایک گروہ سعد بن عبادہ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکھٹا ہو گیا۔ دوسری طرف علی، زبیر، طلحہ فاطمہ کے گھر جمع ہو گے۔ تیسری طرف مہاجرین ابوبکر کے ہاں جمع ہو گئے۔ عمر نے ابوبکر سے کہا، ہمیں انصاری بھائیوں کے پاس جانا چاہئے۔ انصاریوں نے تجویز کیا، کہ دو امیر ہونے چاہئے، ایک انصار سے اور ایک مہاجرین سے(اسلامی اخوت واتحاد کی کوئی بات نہیں ہورہی ) ابوبکر نے کہا، یہ ممکن نہیں ، ہم امیر ہونگے اور تم وزیر۔ عمر نے ابوبکر کی بیعت کر نے میں پہل کی۔

انصار میں سے کچھ نے کہا، ہم تو علی کی بیعت کریں گے۔ زیاد بن کلیب سے مروی ہے: عمر، علی کے مکان پر آئے۔وہاں طلحہ ،زبیر، اور دوسرے مہاجر موجود تھے، عمر نے کہا، چل کر ابو بکر کی بیعت کرو، ورنہ میں اس گھر کو آگ لگا کر تم سب کو جلا دوں گا۔زبیر تلوار نکال کر عمر کی طرف بڑھے۔مگر فرش پر پاوں الجھ جانے کی وجہ سے گر گے،اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی۔۔تب دوسرے لوگوں نے زبیر پر یورش کرکے ان کو قابو کر لیا۔ عبداللہ بن عبدالرحمان سے مروی ہے۔ ہر طرف سے لوگ آ آ کر ابو بکر کی بیعت کرنے لگے۔ اور قریب تھا، سعد کو روند ڈالتے۔عمر نے کہا، اللہ اس کو ہلاک کرے۔ اور اس کو قتل کر دو۔سعد نے عمر کی داڑھی پکڑ لی۔ عمر نے کہا اسے چھوڑو، اگر اس کا ایک بال بھی بیکا ہوا۔تو تمھارے  منہ میں ایک دانت نہ رہے گا۔ابو بکر نے کہا عمر! خاموش رہو۔اس موقعہ پر نرمی برتنا زیادہ سودمند ہے۔ عمر نے سعد کو چھوڑ دیا۔ سعد نے کہا اگر مجھ میں اٹھنے کی طاقت ہوتی تومدینے کی تمام گلی کوچوں میں اپنے حامیوں سے بھر دیتا۔ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے ہوش و حواس جاتے رہتے۔ روایات میں لکھا ہے، سعد نے اس کے بعد کبھی ابو بکر کی امامت میں نماز نہ پڑھی۔ نہ ان سے کلام کیا، ان کا انتقال بھی بہت پراسرار انداز میں ہوا۔

ابن ہشام، طبری اور ابن خلدون کے بیانات سے یہ حقیقت عیاں ہے، کہ ابھی رسول اللہ کا جسد خاکی دفنایا بھی نہ گیا تھاکہ صحابہ کرام میں خلافت پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ اس سلسلے میں شیعان علی کا اپنا موقف ہے۔ ان کے مطابق حضرت علی نے حضرت ابو بکر کی مجبوراً بیعت کی تھی،اس لئے کہ حضرت فاطمہ کا گھر جلا دینے کی دھمکی دی گئی تھی۔۔ایک روایت میں لکھا ہےکہ ابو سفیان، علی کے پاس آ کر کہنے لگے، میں مدینے میں ایک عجیب شورش دیکھتا ہوں، جس کا نتیجہ صرف کشت و خون ہے۔ حکومت قریش کے سب سے کم تعداد والے قبیلے میں چلی گئی ہے۔

خلافت ابو بکر

خلاصہ یہ کہ اسی افراتفری میں حضرت ابوبکر کو خلافت مل گئی۔ ان کو جن جھگڑوں سے سامنا ہوا، ان میں ایک حٖضرت فاطمہ کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے حضرت محمد کی اولاد ہونے کے ناطے وراثت سے اپنا حصہ مانگا ـــ جو ان کو نہ دیا گیاــــاس سلسلے میں باغ فدک کا واقعہ مشہور ہے۔حضرت فاطمہ سے کہا گیا ،کہ رسول اللہ کی نسل کو وراثت میں حصہ دینا منع ہے۔

شورش ارتداد

دوسری شورش یہ ہوئی۔ کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد کچھ قبائل اور لوگ تیزی سے اسلام کو چھوڑنا شروع ہو گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ فتح مکہ تک اور اس کے بعد جو لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر گئے تھےوہ وقتی جبر کا نتیجہ تھا۔ حضرت ابو بکر نے فتنہ ارتداد کے انسداد کے لئے گیارہ فوجی مہمات کا بندوبست کیا۔ لوگوں کو خوف اور دہشت سے دوبارہ اسلام لے آنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جو لوگ اسلام چھوڑ گئے، انہوں نے مسلمانوں پر مظالم کئے۔ان کو جلایا، اور ان کے جسموں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ خالد بن ولید نے بھی اسی طرح ان کو جلایا، سنگسار کیا، اور بعض کو پہاڑوں سے گرایا۔کچھ کو کنووں میں ڈال کر تیروں سے چھلنی کیا۔ روایات میں درج ہےکہ خالد بن ولید کی جانب سے بدوی وحشت اور ہوسِ غنیمت کا مظاہرہ عہد رسالت میں بھی ہوا تھا۔ جب کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد اسے تبلیغ اسلام کے لئے بنی جذیمہ کی جانب بھیجا تھا۔ اور جنگ کا حکم نہیں دیا تھا۔ خالد بن ولید کی ان کے ساتھ پرانی خاندانی دشمنی تھی۔ خالد کے کہنے پر سارے قبیلے نے ہتھیار ڈال دئے، ان کے نہتے ہونے کے بعد خالد بن ولید نے ان کی مشکیں بندھوایں اور پھر بہت سوں کو قتل کر دیا۔ اس کی اطلاع جب رسول اللہ کو ملی تو انہوں نے علی ابن طالب کو حکم دیا، کہ وہ ان لوگوں کے پاس جا کر ان لوگوں کا خون بہا ادا کرے۔

مسیلمہ کذاب کے خلاف مہم جوئی کی قیادت خالد بن ولید کے پا س تھی۔ جس میں مسیلمہ کی فوج کے ستر ہزار لشکری مارے گے۔ یمامہ کے ایک قبائلی سردار مجاعہ سے خالد نے آدھا مال و اسباب، مزروعہ و غیر مزروعہ ، باغات ، قیدی کرنے کی پیش کش کی۔ مجاعہ نے ربع مال و اسباب پر صلح کی پیش کش کی۔ خالد نے اس کی بیٹی کو مانگ لیا۔ جب ابو بکر کو اطلاع ملی ، تو انہوں نے خالد کو غصہ میں خط لکھا، کہ تم عورتوں سےنکا ح کر رہے ہو۔ حالانکہ 1200 مسلمانوں کا خون تمہارے صحن میں اب تک تازہ ہے۔ ایک مہم میں مسلمانوں نے دس ہزار مشرکوں کو قتل کیا۔ بہت سے لونڈی غلام اور مال غنیمت حاصل کیا۔ جس کو امرا ءاسلام نے مسلمان مجاہدین میں تقسیم کر دیا اور خمس (پانچواں حصہ) ابوبکر کو بھیج دیا۔۔مسلمانوں نے کفار کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا۔ اور مال غنیمت میں دو ہزار تیز رفتار اونٹنیاں ملیں۔

قبائلی عصبیت صرف بدؤوں میں غالب نہ تھی، مدینہ اور مکہ کے صحابہ اور قریش بھی اس میں اسی طرح مغلوب تھے۔ مرتدین کے خلاف پے در پے کامیابیوں نے حضرت ابوبکر کی حکومت کو مستحکم کر دیا۔ پورے عرب میں وقار اور دبدبہ قائم ہو گیا۔ اور قریش کے لئے خوشحالی کے دروازے کھل گے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر نے اسلامی لشکر میں بہت اضافہ کرکے اسے بیرونی فتوحات پر لگا دیا۔خالد بن ولید کی ہرمز پر فتح کی خبر اتنی خوش کن تھی کہ ابو بکر نے ہرمز کا ایک لاکھ درہم کا تاج خالد کو بخش دیا۔ پھر خالد نے ایران کے شہنشاہ کو خط لکھا۔ "اللہ کا شکر ہے۔ جس نے تمہارے نظام کو قتل اور تمہاری تدابیر کو ابتر کر دیا ہے۔ تم ہمارے دین میں داخل ہو جاؤ، ہم تم کو چھوڑ دیں گے۔ میرے ساتھ وہ لوگ ہیں جو موت کے اس قدر عاشق ہیں جس قدر تم زیست کے عاشق ہو۔ اسلام لے آو، ورنہ جزیہ ادا کرو۔

دریائے یرموک کے نزدیک ایک اور مہم میں رومیوں کے ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو پانی میں غرق کر دیا گیا۔ جس سے شام اور لبنان پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ حضرت ابوبکر 63 سال کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ آپ کا عہد دو سال تین مہینہ رہا۔ ان کی وصیت تھی کہ مسلمان جہاد میں مصروف رہیں اور خلافت میں کوئی فتنہ برپا نہ ہو۔

جاری ہے . . . . . . . . . .

5 Comments

  1. Rmazanul mubaarak par bhee kujh bahas karen,Aap ki kaafee baaten research par mabnee haen or kaafee baaten ta’sub par mabnee haen. esaa naheen honaa chaaheete. misaal ke tor par shattur murgh Allah se shikaayat kar rahaa hae k urrnaa naheen sikhaayaa to phir parindah kiyoon banaayaa. Agar Khuda hae to phir uskee marze jo pedaa karey or Agar naheen to shikaayat ek chootyaaip hae!!1

جواب دیں

5 Comments
scroll to top