Close

ابو ذر غفاری – تاریخ اسلام کا ایک بھولا بسرا ورق

تاریخ ہمیشہ حکمران اور مقتدر طبقے لکھتے ہیں، اسی لیئے تاریخ انہی کے قصے کہانیوں، کارناموں، کامیابیوں اور ناکامیوں کے گرد گھومتی ہے، اور انہی کی مدح سرائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب بھی کبھی کسی فرد یا گروہ نے ان جابروں کے خلاف آواز اٹھائی، جب بھی ان طبقات کے مفاد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی گئی تو تاریخ نے ان باغیوں کے ساتھ ایک سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا۔ ایسی آوازوں کا ذکر یا تو انتہائی متعصبانہ انداز سے کیا یا اس کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ تاریخ اسلام میں ایسی ہی ایک آواز ابو ذر نامی صحابی کی ہے، جنہوں نے غریبوں اور ناداروں کے حقوق کیلئے اپنے وقت کے فرعونوں کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجے میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک درد ناک موت مرے۔

ابو ذر ایک انتہائی معزز اور معتبر صحابی تھے، آپ کو ان صحابیوں کی صف میں شمار کیا جاتا تھا جو رسول اللہ کے سب سے زیادہ وفادار ساتھی گردانے جاتے تھے، یہ مرتبہ ابو ذر کے علاوہ حضرت سلمان فارسی، حضرت مقداد اور حضرت عمار بن یاسر کو حاصل تھا۔ آپ کا اصحابِ صفہ نامی گروہ سے تعلق تھا، یہ وہ لوگ تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کا مدینہ آ بسے تھے، ان کا کوئی گھر بار نہیں تھا، ان کی رہائش مسجد میں تھی، کھانے کے وقت انہیں مختلف صحابی اپنے گھروں میں لے جایا کرتے تھے۔ ابو ذر کا کھانا رسول کریم کے گھر ہوتا تھا۔ اصحاب صفہ ہر وقت پیغمبر کے کسی بھی حکم کی تعمیل کیلئے تیار رہتے تھے۔ وہ دنیاوی عیش و آرام کو تج چکے تھے۔

ابو ذر کی خدمات کی وجہ سے رسول انہیں انتہائی عزیز رکھتے تھے، روایتوں کے مطابق رسول اللہ نے ابوذر کے متعلق فرمایا تھا "وہ تنہا جیتا ہے، تنہا مرے گا اور روز محشر تنہا ہی اٹھایا جائے گا”۔ آپ بہت ہی کھرے اور منہ پھٹ واقع ہوئے تھے، آپ کی باتیں دوسروں کے ماتھے پر شکنوں کا باعث بنتی تھیں۔ ابو ذر اپنی پرہیز گاری اور حضرت عثمان اور حضرت معاویہ کی شدید مخالفت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ جہاں ابو ذر کمزور اور محروم مسلمانوں کے معاشی حالات کی بہتری کی بات کرتے تھے، وہیں حضرت عثمان کی حکومت مالداروں اور امرا کے مفادات کے تحفظ کا گڑھ بنی ہوئی تھی۔ ابو ذر کا ایک ہی کہنا تھا کہ یہ سونے چاندی اور مالیات جو دیگر ممالک سے آتے ہیں، تمام مسلمانوں میں برابر تقسیم ہونی چاہیئے۔ آپ کے سب مسلمانوں کو مساوی طور پر نوازنے اور غریبوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کی وجہ سے کئی مسلمان عالموں نے آپکو پہلا سوشلسٹ بھی قرار دیا ہے۔ ابو ذر نے جو جد وجہد شروع کی وہ زندگی بھر جاری رکھی جس کا نتیجہ آپ کی انتہائی دردناک حالات میں موت کی صورت میں نکلا۔

حضرت ابو ذر غفاری کا اصل نام جُندب بن جُنادہ تھا، ایک روایت کے مطابق قبول اسلام کے وقت نبی کریم نے انہیں عبداللہ کا نام دیا، لیکن آپ اپنی کنیت ابو ذر سے مشہور ہوئے۔ آپ کے قبیلہ کا شجرہ کنانہ بن خزیمہ سے جا ملتا ہے جو نبی کریم کے قبیلہ قریش کا بھی جد امجد تھا۔ قبیلہ بنو غفار ربذہ کے ایک صحرا میں واقع ایک بستی میں رہائش پذیر تھے۔ یہ بستی مدینہ سے 80 میل کے فاصلے پر تھی۔ قریش کے تجارتی قافلے اور خانہ کعبہ کے حاجیوں کے کاروانوں کی یہی گزرگاہ تھی۔ بنو غفار ایک غریب قبیلہ تھا اور ان کا سوائے اس کے کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا کہ رہزنی کریں، یہ لوگ قریش کے تجارتی قافلوں اور حاجیوں کو لوٹنے میں بہت بدنام تھے۔ اور لوٹ مار کے سلسلہ میں حرمت والے مہینوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ابو ذر نے بھی پہلے پہل اپنے قبیلے کے دیگر افراد کی طرح راہزنی کو اپنایا، لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ایک چرواہے کا پیشہ اختیار کیا جس کے باعث آپ کی زندگی انتہائی غربت کا شکار تھی۔

ابو ذر کا قبیلہ منات دیوی کو ماننے والا تھا، لیکن جب آپ کو نبی کریم کے دعویٰ نبوت کی خبر ملی تو اپنے بھائی کو مکّہ بھیجا کہ جا کر خبر لائے، بعد میں آپ خود مکّہ آئے اور اسلام قبول کیا۔ ایک روایت کے مطابق چوتھے جبکہ دوسری روایت کے مطابق ابو ذر پانچویں آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان دنوں مسلمان اپنی سرگرمیاں پوشیدہ رکھتے تھے ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ابو ذر کو نبی کریم نے ہدایت دی کہ اے ابو ذر اس بات کو چھپا کر رکھو، اور اپنے وطن واپس جا کر وہاں اپنے قبیلے میں تبلیغ کرو۔ لیکن ایک سابقہ راہزن کی غیرت نے اسے بزدلی جانا اور کعبہ کے ساتھ دار الندوہ جو قریش کے مشاورت کی جگہ تھی، وہاں بھرے مجمعے میں جا کر قریش کے بتوں کو برا بھلا کہا، نتیجہ میں لوگوں نے اس قدر مارا کہ ابو ذر ادھ موئے ہو کر نیچے گر پڑے، گرے ہوئے ابو ذر کو لوگ گھونسے اور ٹھڈے مار رہے تھے کہ عباس ابن عبد المطلب وہاں آ گئے۔ وہ ابو ذر کو اپنے قبیلے کے ہمراہ قریش کے کارواں لوٹتے وقت شمشیر زنی کرتے دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے ابو ذر کو چھڑانے کیلئے اپنے آپ کو ان پر گرا دیا۔ اور لوگوں کو ڈانٹ کر کہا، احمقو کیا تمہں پتہ ہے یہ قبیلہ بنو غفار سے ہے، اور تمہارے شام کے قافلے اسی راستہ سے گزرتے ہیں اور اگر تم نے اسے مار دیا تو غفار والے اس کا بدلہ ضرور لیں گے، اور تمہارا کوئی قافلہ اور شخص کبھی بھی وہاں سے سلامت نہیں گزر پائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ دوسرے دن بھی ابو ذر نے یہی حرکت دوبارہ کی اور لوگوں نے آپ کو جی بھر کر پیٹا، حتیٰ کہ آپ بے ہوش ہو گئے۔ ابو ذر کی تیسرے دن بھی اسی طرح پٹائی ہوئی، جس سے تنگ آ کر نبی کریم نے انہیں مکّہ چھوڑنے کا حکم دیا۔ نبی کریم کے سمجھانے بجھانے پر ابو ذر یثرب جانے کا وعدہ کر کے اپنے علاقے میں واپس چلے گئے۔

ابو ذر نے دور نبوی اور اس کے بعد کی تمام زندگی انتہائی سادگی اور غریبی میں گزاری، عہد خلافت میں جب اسلام چاروں اطراف پھیل رہا تھا، اور مال غنیمت کی فراوانی سے تمام صحابہ کرام بہت مالدار ہو رہے تھے۔ ابو ذر تب بھی سادگی اور تنگدستی کی زندگی میں خوش تھے۔ ابو ذر کی اگر کسی نے مدد کرنے کی بھی کوشش کی تو ابو ذر نے اس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور وہی چند بکریاں ہی ذریعہ معاش رکھیں۔ ایک دفعہ حاکم شام حبیب بن مسلم نے تین سو دینار بھیجے جسے ابو ذر نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا:

۔”ہمارے لیئے صرف ایک چھت ہی کافی ہے جس کے نیچے ہم نے پناہ لے رکھی ہے اور چند بکریاں اور ایک خادم، جو کہ ہمارے حقوق میں سے انہوں نے دیا ہوا ہے، اس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے”۔ ( ماخوذ غریب ربذہ)۔

حضرت عمر کے دور میں جہاد کے نام پر بہت زیادہ غارت گری اور لوٹ مار ہوئی، انصار اور مدینہ ہجرت کرنے والے صحابی سماجی طور پر معزز تو تھے ہی لیکن اب وہ ہزاروں غلاموں اور بے شمار مال و دولت کے ذخیروں کے مالک بھی بن گئے۔ دولت کی اس بے پناہ آمد کے ساتھ معاشی ناہمواری میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ حضرت عثمان کے دور میں خلافت نے ملوکیت کا روپ دھار لیا۔ حکومت اسلامی میں تمام بادشاہی کروفر اور تکلفات نمودار ہو گئے۔ خلیفہ کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ ہو جانے سے مال غنیمت، جزیہ اور دیگر مالیات کو اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کرنے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا۔ عثمان نے اپنے رہنے کیلئے ایک شاہی محل بنوایا۔ محل کے سامنے دربان اور محافظ مقرر ہوئے، عثمان کے دور میں ہی بیت المال خلیفہ کے قبضے میں آیا، کیونکہ بیت المال کے نگران نے مسجد میں آ کر سب کے سامنے چابیاں عثمان کے حوالے کر دیں۔

حضرت عثمان کے دور میں معاشی تفریق بہت شدت سے ابھر کر سامنے آئی۔ اس دور میں جہاں ایک طرف عام مسلمان غربت کی چکی میں پس رہے تھے، وہیں دوسری طرف دولت کے انبار جمع ہو رہے تھے۔ خلیفہ کے علاوہ بہت سے معتبر اصحاب کرام کی ہیئت ہی بدل گئی تھی۔ مدنی دور کی سادگی کا اب دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کی بیوی کا گلوبند افریقہ کی مالیات کے تیسرے حصے کے برابر تھا۔

۔”ایک دن لوگوں میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ حضرت عثمان نے بیت المال کے جواہرات میں سے کچھ لے لیا ہے۔ اور اپنے گھر کے لیئے کسی کا زیور بنا لیا ہے۔ لوگ اس بات پر ناراض ہوئے اور حضرت عثمان پر اعترضات کیئے۔ حضرت عثمان غصے میں آئے اور خطبہ دیتے ہوئے کہا: "ہم اس خراج کے مال سے اپنی ضروریات کے مطابق ضرور لیں گے، کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوں”۔ اس پر حضرت علی نے کہا: "آپ کو اس سے روکا جائے گا”۔ حضرت عمار بن یاسر نے کہا: "میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ سب سے پہلا ناراض میں ہوں”۔ حضرت عثمان نے کہا: "مجھ پر تیری یہ جرأت لونڈی کی بچے، پکڑو اس کو”۔ چنانچہ وہ پکڑے گئے، حضرت عثمان نے انہیں اس قدر مارا کہ وہ بے ہوش ہو گئے۔ (حضرت عثمان، صفحہ 176: ڈاکٹر طہٰ حسین)

۔”صحابہ نے جائداد اور مال اچھا خاصا پیدا کر لیا تھا۔ خود حضرت عثمان کے خازن کے پاس جس دن آپ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے، ڈیڑھ لاکھ دینار اور دس لاکھ درہم تھے۔ اور وادی قریٰ اور جنین وغیرہ میں آپ کی جائیداد دو لاکھ دینار کے لگ بھگ تھی اور آپ نے بہت سے اونٹ اور گھوڑے چھوڑے تھے۔ حضرت زبیر کے ایک ترکہ کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی اور آپ نے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈیاں چھوڑی تھیں۔ حضرت طلحہ کی عراق سے روزانہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی اور سراۃ کے نواجی سے اس سے بھی زیادہ تھی۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے تھے اور آپ ایک ہزار اونٹوں کے اور دس ہزار بکریوں کے مالک تھے۔ اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ترکہ کا چوتھا حصہ چوراسی ہزار تک پپہنچا تھا، اور حضرت زید بن ثابت نے سونے اور چاندی کے ڈلے چھوڑے تھے جو کلہاڑیوں سے کاٹے جاتے تھے اور ایک لاکھ کی جائیداد بھی چھوڑی تھی۔ حضرت زبیر نے اپنی عمارتیں بصرہ میں، مصر میں، کوفہ میں اور اسکندریہ میں بنوا رکھی تھیں۔ اس طرح حضرت طلحہ نے اپنا گھر کوفہ میں بنوا لیا تھا اور مدینہ میں بھی ایک پرانا گھر تھا جسے تڑوا کر از سرِ نو چونے، اینٹوں اور ساگوان کی لکڑی سے بنوا لیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنا گھر نہایت بلند و وسیع سنگِ سرخ کا بنوایا تھا جس کے اوپر کنگرے تھے۔ حضرت مقدار نے مدینہ میں اپنا گھر تعمیر کرایا اور اس کے اندر اور باہر چونے کا پلاستر کرایا۔ اسی طرح علی بن منبہ نے پچاس ہزار اشرفیاں چھوڑیں، اور جائداد وغیرہ چھوڑی جو تین لاکھ درہم کے لگ بھگ تھی۔ (مقدمہ ابن خلدون، صفحہ 335)

حضرت عثمان کے دور میں اقربا پروری انتہائی عروج پر پہنچ گئی۔ آپ نے اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دیئے، حتیٰ کہ اپنے چچا حکم بن العاص اور اس کے بیٹے مروان بن حکم کو بھی طائف سے واپس بلا لیا، اور مروان کو مشیر خاص بنا کر مہر خلافت بھی اس کے سپرد کر دی۔ اس کے علاوہ خیبر اور شمالی افریقہ کے مالیات کی وصولی بھی مروان کے حوالے ہوئی۔

یہ وہی حکم اور مروان تھے جنہیں رسول کریم نے طائف جلا وطن کیا تھا۔ حکم بن العاص حضرت عثمان کا چچا تھا، حکم نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور جا کر مدینہ بس گیا۔ لیکن ایک بار اس نے رسول اللہ کی چند خفیہ باتیں سن کر انہیں سب پر آشکار کر دیا، اس کے علاوہ وہ اور اس کا بیٹا مروان اپنی محفلوں میں آپ کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔ چنانچہ حضور نے اسے اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا تھا۔ رسول کریم کی وفات کے بعد حضرت عثمان نے پہلے حضرت ابو بکر اور پھر حضرت عمر سے مروان کو مدینہ واپس بلانے کی اجازت مانگی مگر ناکام رہے۔ لیکن جونہی آپ نے خلافت سنبھالی اپ نے اپنے چچا کو اس کے بیٹے سمیت واپس بلا کر نوازا۔
ایک دن ابو ذر کو پتہ چلا کہ عثمان نے قلعہ خیبر اور افریقہ کی تمام مالیات کا پانچواں حصہ جو بیت المال کی ملکیت تھا، اپنے چچا زاد مروان بن حکم کو بخش دیا، اور اس کے علاوہ ثابت بن مروان کو تین لاکھ درہم، زید بن ثابت کو ایک لاکھ درہم حارث بن ابی العاص کو تیس ہزار درہم دیئے، تو ابو ذر نے یہ آیت مسجد میں پڑھی۔

وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اور جو لوگ جمع کر کے رکھتے ہیں سونے اور چاندی کو اور نہیں خرچ کرتے اسے اللہ کی راہ میں، سو خبر دے دو انہیں درد ناک عذاب کی۔ سورۃ التوبۃ، آیت 34

جب مروان تک یہ خبر پہنچی کہ ابو ذر اس پر اور حضرت عثمان پر تنقید کر رہا ہے تو اس نے جا کر حضرت عثمان کے کان بھرے۔ عثمان نے ابوذر کو بلا کر ڈانٹا لیکن ابوذر نے سنی ان سنی کر دی اور معاشی نا ہمواری اور عام مسلمانوں کی حالت زار کے حوالے سے عثمان اور اس کی سلطنت پر حملے جاری رکھے ۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے:

۔”اے عثمان، تو نے غریبوں اور بے نواؤں کو اور محتاج بنا دیا اور مالداروں کو اور دولت مند بنا دیا”۔ (ماخوذ، غریب ربذہ)۔

abuzarMasjidابو ذر غفاری کے نام سے منسوب جنوبی لبنان کی ایک مسجد

کوئی عام مسلمان ہوتا تو ڈر، لالچ یا کسی اور حیلے سے اس کا منہ بند کیا جا سکتا تھا۔ عثمان عجیب مخمصے میں تھا، لوگ ابو ذر کے مرتبے اور ان کی نبی کریم کی دوستی سے واقف تھے، لہذا ان کا قتل ایک چوائس نہیں تھا۔ مبادا یہ کسی فساد کو جنم دینے کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ بہت سوچ بچار کے بعد حضرت عثمان نے یہی مناسب جانا کہ اس مصیبت سے جان چھڑانے کیلئے اسے کہیں بھیج دیا جائے، چنانچہ آپ نے ابوذر کو شام بھیج دیا۔

معاویہ بن ابو سفیان شام کے حاکم تھے۔ وہ حضرت عمر کے زمانہ سے ہی عیش و عشرت، شاہانہ کروفر اور آن بان کے عادی ہو چکے تھے۔

۔”جب فاروق اعظم ملک شام تشریف لے گئے اور آپ سے معاویہ نے شاہانہ کروفر اور آن بان کے ساتھ ملاقات کی تو آپ کو حضرت معاویہ کی یہ ادا پسند نہیں آئی اور فرمایا معاویہ یہ کسریٰ کی ادائیں کہاں سے سیکھ لیں۔ حضرت معاویہ نے جواب دیا، امیر المومنین میں سرحدوں پر ہوں، اور ہر وقت دشمن کے مقابلہ پر ہوں، ہمیں جہاد و طاقت اس شاہانہ عصبیت سے ان پر رعب ڈالنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ جواب سن کر فاروق اعظم خاموش ہو گئے اور ان کے جواب کی تردید نہیں فرمائی”۔ (مقدمہ ابن خلدوں، صفحہ 332)

جب ابو ذر شام پہنچے تو وہاں معاویہ سبز محل بنوا رہا تھا۔ جس کو تعمیر کرنے کیلئے رومی اور ایرانی معماروں کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ معاویہ کو یہ محل اس قدر عزیز تھا کہ اس نے تعمیر کے کام کی نگرانی کسی اور کے سپرد نہیں کی بلکہ روز کاریگروں کے سر پر کھڑا ہو کر کام کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ ابو ذر سے یہ نہ دیکھا گیا اور آپ نے کہا:

۔”اے معاویہ اگر یہ محل تم اپنے پیسے سے بنا رہے ہو تو اسراف میں داخل ہے اور اگر مسلمانوں کے پیسے سے بنا رہے ہو تو یہ خیانت ہے”۔ (ماخوذ غریب ربذہ)۔

شام کے محروم طبقوں نے ابوذر کی باتیں سنیں تو وہ ابوذر کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن اہل ثروت لوگوں میں کھلبلی سی مچ گئی، سب نے حضرت معاویہ سے شکایت کی، جنہوں نے ابوذر سے پیچھا چھڑانے کی ترکیب یہ ڈھونڈی کہ ابوذر کو جہاد پر بھیج کر گلو خلاصی کرا لی جائے۔

حضرت عمر کے دور خلافت میں معاویہ شام کے گورنر تھے، انہوں نے حضرت عمر کو قبرص کے بارے میں لکھا کہ حمص سے قبرص اس قدر نزدیک کی آبادی ہے کہ کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کی اذانیں سنائی دیتی ہیں، لہذا اس پر حملہ کیا جائے، لیکن چونکہ درمیان میں سمندر پڑتا تھا اور حضرت عمر کو پتہ نہیں تھا کہ سمندر کیا ہوتا ہے لہذا انہوں نے عمر نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ سمندر اور کشتی کے مناظر میرے لیئے بیان کرو، یعنی اس کا نقشہ کھینچو۔ عمرو بن العاص نے لکھا۔

۔”سمندر ایک ایسی چیز ہے جس کو خدا نے بہت ہی بڑا بنایا ہے اور اس کے اندر اس کی ایک چھوٹی سی مخلوق سفر کرتی ہے۔ اس میں سفر کے دوران پانی اور آسمان کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا، سمندر جب پر سکون ہو پھر بھی اس کو دیکھ کر ہول آتا ہے، اور اگر اس کی موجیں بپھری ہوئی ہوں تو اس وقت انسانی عقل اسے دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتی ہے۔ سفر کے دوران امید بہت کم ہوتی ہے، زیادہ تر خوف لاحق رہتا ہے، جو کوئی سمندر میں سفر کرتا ہے وہ ایک کیڑے کی مانند ہوتا ہے، جو لکڑی کے ایک ٹکڑے پر رکھ دیا گیا ہو، جیسے ہی لکڑی ٹیڑھی ہوئی وہ وہیں غرق ہو جاتا ہے۔ اگر طوفان سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی حیران کن”۔ (غریبِ ربذہ، صفحہ 154)

حضرت عمر نے حملہ کرنے کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اب امیر معاویہ نے سوچا کہ اگر قبرص فتح ہو گیا تو یہ اس کے لیئے ایک فخر کی بات ہو گی اور اگر ہار گئے تو ابو ذر وہیں کہیں مر کھپ جائے گا، اور اس مصیبت سے پیچھا چھوٹ جائے گا۔ لیکن امیر معاویہ کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا، قبرص کی مہم کامیاب ہوئی اور معاویہ کی چھاتی یر مونگ دلنے کیلئے ابو ذر پھر واپس شام آ گئے۔

ابو ذر نے دوبارہ معاویہ کے محل کے سامنے جانا شروع کر دیا: "اے دولتمندوں کے گروہ، خدا کے بندوں کا مال اس کے بندوں کے حوالے کر دو۔ آتش جہنم کے شعلے تمہارے نصیب میں لکھے ہیں، اے خدا جو منکرات کا انکار کرتے ہیں، ان پرلعنت کر، اے خدا جو امر بالمعروف کا انکار کرتے ہیں، ان پر لعنت کر” ( ماخوذ، غریب ربذہ)۔ معاویہ نے ابو ذر کو اندر بلایا اور چاہا کہ معاملہ کسی طور نپٹ جائے، مگر وہاں بھی ابوذر نے مکالمہ دہرایا: "اے معاویہ تو نے امیر کو امیر تر اور فقیر کو فقیر تر کر دیا ہے۔ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں اپنے اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہو سکتا تا آنکہ دولتمند اپنے مال کو غریبوں میں تقسیم کر دیں”۔( ماخوذ، غریب ربذہ)۔

معاویہ تنقید سے زچ ہو کر دھمکی پر اتر آیا: "ابو ذر، اگر پیغمبر کے اصحاب میں کسی ایک کو عثمان کی اجازت کے بغیر مجھے مارنا ہوتا تو وہ تو ہوتا، لیکن تمہارے قتل کے لیئے مجھے عثمان سے اجازت لینی پڑے گی، کیونکہ یہ جو تو ناداروں اور غریبوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتا ہے، اس سے تمہارے اور ہمارے درمیان جدائی بڑھ جائے گی”۔ (ماخوذ غریب ربذہ)۔

معاویہ بہت تنگ تھا کہ اس ضدی بڈھے کے ساتھ کیا کیا جائے۔ معاویہ نے اپنے غلام کے ہاتھ پیسے بھیجے جسے ابوذر نے نہایت سختی سے ٹھکرا دیا۔ معاویہ ابو ذر کو قتل کرنا چاہتا تھا لیکن ابو ذر کے مرتبے کی وجہ سے ہمت نہ ہوئی۔ ابو ذر کی وجہ سے غریب اور نادار لوگ بھی دلیر ہو رہے تھے۔ اور پھر ایک دن معاویہ جمعہ کی نماز کا خطبہ دے رہا تھا: "سبھی مال ہمارا ہے، ہم جسے چاہیں بخش دیں اور جسے چاہیں محروم رکھیں”۔ حاضرین میں سے ایک اٹھا اور بلند آواز میں دلیری سے بولا: "ہرگز نہیں، مال ہمارا ہے اور جو کوئی ہمیں اس سے محروم رکھے گا ہم اللہ کی عدالت میں اس سے جنگ کریں گے”۔ (ماخوذ غریب ربذہ) اس آدمی کی باتوں سے ابو ذر کی بو آ رہی تھی۔

معاویہ ایک انتہائی شاطر انسان تھا، اس نے محسوس کیا کہ ابو ذر اگر زیادہ عرصہ تک شام رہا تو اس کی موجودگی غریب اور نادار لوگوں کو کسی بڑے فساد پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اس نے عثمان کو لکھا کہ اگر تمہیں شام کی فکر ہے تو ابو ذر کو سنبھالو۔ اس نے مجھے بیچارہ کر دیا ہے، بخدا اگر اس کو چھوڑ دیا تو لوگ ہمارے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ حضرت عثمان نے معاویہ کو حکم دیا کہ ابو ذر کو واپس بھیج دیا جائے۔

اب پھر حضرت عثمان کو ابو ذر کی تنقید کا سامنا تھا، عثمان نے حضرت علی سے بھی شکایت کی اور پوچھا کہ میں اس بڈھے کا کیا کروں، کیا اسے قتل کر دوں۔ عثمان نے معاویہ کی طرح ابو ذر کو خادم کے ہاتھوں پیسے بھی بھجوائے، دھمکیاں دیں، لیکن ابو ذر اپنی موقف پر ڈٹے رہے۔ ایک دن حضرت عثمان اور ابو ذر میں بہت بد مزگی ہوئی، ابو ذر کہتے تھے کہ خدا کا مال خدا کے بندوں میں تقسیم کرو، عثمان نے جواب دیا کہ تم فسادی ہو اور تم پہلے بھی شام میں فساد کھڑا کر چکے ہو، میں تمہیں واپس لایا اور اب تم یہاں بھی شورش پیدا کرنا چاہ رہے ہو۔ آخر حضرت عثمان نے ابو ذر کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ابو ذر سے کہا: اے ابو ذر تمہاری اذیتیں بڑھتی جا رہی ہیں، یہاں سے چلے جاؤ، ابو ذر نے پوچھا کہ کیا مّکہ چلا جاؤں، عثمان نے کہا کہ نہیں، شام کا پوچھا تو عثمان نے کہا تم وہاں پہلے ہی خاصا فساد کھڑا کر چکے ہو، ابو ذر نے عراق اور مصر کا نام لیا۔ لیکن عثمان نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں بیابان میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ابوذر نے پوچھا کہ کیا بیابان نجد چلا جاؤں، عثمان نے کہا کہ نہیں، میں تمہیں مشرق کی جانب ربذہ بھیجتا ہوں۔ اس کے بعد عثمان نے حکم دیا کہ ابو ذر کو ایسے اونٹ پر بٹھا دیا جائے جس کے پالان پر کاٹھی نہ ہو، اسے نہایت سختی کے ساتھ بھیجا جائے کہ کوئی اس کو الوداع نہ کرنے جائے اور نہ ہی کوئی اس کے ساتھ جائے۔ لیکن علی بن ابو طالب نے حکم کی خلاف ورزی کی اور اپنے بیٹوں، بھائی عقیل اور بھتیجوں کے ساتھ ابو ذر کے ساتھ ساتھ تھوڑی دور تک چلے۔

رسول اللہ کے ایک بزرگ صحابی عبد اللہ بن مسعود کوفہ میں تھے جب انہوں نے ابو ذر کی جلا وطنی کی خبر سنی، تو انہوں نے اس کی مذمت کی، عثمان نے والی کوفہ ولید کو کہا کہ عبد اللہ کو دار الخلافہ بھیج دو۔ جونہی عبداللہ مدینے مسجد میں داخل ہوئے، ایک حبشی غلام نے حضرت عثمان کے اشارے پر انہیں اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ بعد میں عبد اللہ کو ایک گھر میں قید کر دیا گیا اور اسے کھانے کو کچھ نہ دیا گیا، بھوک سے عبد اللہ کی موت ہو گئی۔

ربذہ ایک جلا دینے والا صحرا تھا، جہاں پانی اور آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس راستے سے حج کو جانے والوں کے علاوہ وہاں کسی بندے بشر کا گزر نہیں تھا۔ ابو ذر نے وہیں ایک درخت ڈھونڈ کر اس کے نیچے ڈیرا ڈال لیا۔ یہ آپ کے لیئے انتہائی اذیت، مفلسی اور تکلیفوں کا دور ثابت ہوا۔ وقت گزرتا گیا، اور ناداری و مفلسی بڑھتی گئی، نوبت فاقوں تک آ گئی۔ آپ کا واحد سرمایہ چند بکریاں تھیں، جن پر آپ کا گزارہ تھا، وہ بھی ایک ایک کر کے مر گئیں۔ اس کے بعد صحرا کے اندر ابو ذر کے گھر والے بھی مرنے شروع ہوگئے۔ بھوک سے بلبلاتی آپ کی بیٹی نے آپ کے ہاتھوں میں جان دی۔ اور پھر ابو ذر کا بیٹا بیمار ہوا تو وہ اپنی جھکی کمر اور پھٹے کپڑوں کے ساتھ حضرت عثمان کے دروازے پر جا پہنچا، جو اس وقت اپنے خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں میں گھرے ہوئے تھے۔

۔”عثمان تو نے مجھے میرے گھر سے نکال کر ایک ایسی سر زمین پر بھیج دیا ہے جہاں نہ کچھ کھانے کو ملتا ہے نہ کچھ اگتا ہے، میری بکریاں بھی مر گئیں اور جو ہیں وہ دودھ دینے کے قابل نہیں ہیں۔ وہاں سوائے میری بیوی کے کوئی میرا غمگسار اور خدمتگار نہیں ہے۔ وہاں لق و دق صحرا میں میرا تنہا سائبان ایک درخت ہے۔ عثمان مجھے چند بکریاں اور ایک خادم دے دے تاکہ میں زندگی گزار سکوں”۔ ( ماخوذ غریب ربذہ)۔

عثمان نے حقارت سے منہ دوسری طرف کر لیا، ابو ذر دوسری طرف سے ہو کر پھر عثمان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور پھر تقاضا کیا، لیکن عثمان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، ابو ذر دل شکستہ واپس لوٹا، تو درخت کے نیچے اپنی بیوی کو دھاڑیں مارتے ہوئے پایا۔ بھوک ابو ذر کے بیٹے کو بھی نگل چکی تھی۔

اب ابو ذر اور بیوی ام زر باقی بچ گئے تھے۔ ایک دن بھوک سے تنگ میاں بیوی یہ سوچ کر نکلے کہ شائد کوئی گھاس ہی مل جائے جسے کھا کر وہ اپنی بھوک مٹا سکیں، لیکن اس بیابان صحرا میں دور دور تک کسی سبزے کا نشان نہیں تھا، بھوک اور کمزوری کے باعث ابو ذر اپنی بیوی کی بانہوں میں جھول گیا، بیوی نے پوچھا، ابو ذر یہ کیا۔ ابو ذر نے کہا میرا آخری وقت آن پہنچا ہے، تم میری لاش راہگزر پر رکھ دینا، شائد کوئی راہگیر میرا جنازہ پڑھنے کے علاوہ دفن کر دے۔

abzarGraveابو ذر غفاری کی آخری آرام گاہ

ام ذر دن بھر کبھی ٹیلے پر چڑھتی اور کبھی نیچے آتی، کافی دیر بعد اسے کچھ نقطے سے نظر آئے، یہ مسلمانوں کی ایک ٹولی تھی جو مکہ کی جانب جا رہی تھی، ان میں سے ایک نے اپنے پرانے کپڑوں سے ابو ذر کا کفن بنایا اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد وہیں صحرا میں دفن کر دیا۔

4 Comments

  1. مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے جن میں حرص، لالچ اور ذاتی مفاد کیلئے ایک دوسرے کا گلا گھونٹا گیا ہے۔نبی پاک کے بعد اگر مسلمان ایک دوسرے کے پیروں پر کلہاڑیاں نہیں مارتے تو شائد آج مسلمانوں کی حالت مختلف ہوتی۔

  2. itnay zalim khilfa thay samajh mein nahi aata log unhain kaisay jalil ul qadar sahabi samjhtay hein….Allah hum sab ko huq ka sath aor batil k khilaf awaaz uthanay waloon mein shumaar karay…Aameeeen….abu zar ghaffari k baray mein hum nai pehlay bhi suna tha magr aaj refrence k sath tafseel sai parha tu dil intihaee dukhi hua aor afsos howa Allah aapko ajer dai is haqeeqat ko ashkaar kernay ka…Aameeen

جواب دیں

4 Comments
scroll to top