Close

اسباب و حقائقِ غزوۂ بدر

عام روایتی مسلمان بہت سادے اور بھولے ہوتے ہیں، اسلام پر ان کا غیر متزلزل ایمان صرف اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے دینی علم کا اہم ترین ذریعہ اپنے گھر سے حاصل ہونے والی دینی معلومات اور جمعہ کے دن عربی خطبے سے قبل خطیب کی تقریر ہوتا ہے۔ غیر مسلموں سے نفرت اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ معصوم ناپختہ ذہنوں میں بچپن سے ہی بٹھا دی جاتی ہے، جو عموماً مسخ شدہ تاریخ کی صورت میں انہیں ازبر کرائی جاتی ہے۔ ان مسلمان بچوں کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے کہ اسلام کی شروعات سے ہی کافروں نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، اور ان پر ہر طرح سے عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ یہ بات ان بچوں کی ذہن میں اس قدر راسخ ہوجاتی ہے کہ ذہن اس کے برعکس کچھ سننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ بچپن کی یہ معلومات اس قدر پختہ ہوتی ہیں کہ دلائل کے انبار بھی بچپن سے نقش، اِن نقوش کو دھندلانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ مسلمان کبھی اس رخ پر نہیں سوچتے کہ جن ذرائع سے انہیں یہ معلومات فراہم کی گئیں آیا وہ ذرائع ”معتبر“ ہونے کے معیار پر پورا بھی اترتے ہیں یا نہیں؟ ان کی معلومات ”علم“ کا درجہ رکھتی بھی ہیں یا وہ مغالطوں کا شکار ہیں؟

ایسا ہی ایک مغالطہ ”غزوۂ بدر“ ہے، کسی بھی مسلمان سے پوچھ لیں کہ کفر و اسلام کا سب سے پہلا معرکہ کیسے ہوا؟ فٹ سے جواب آئے گا، ”کافروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تھا“۔ بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے ”غزوۂ بدر“ کی تمام تر ذمہ داری مکہ کے کافروں پر ڈال دی جاتی ہے کہ جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے تو کافروں کو مسلمانوں کا چین کی نیند سونا ایک آنکھ نہ بھایا اور انہوں نے اپنی شرارتوں کا دائرہ کار مکہ سے بڑھاتے ہوئے مدینہ تک پھیلا دیا، اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں،کیونکہ بچپن سے یہی گھٹی پلائی گئی ہے کہ کافر ہمیشہ ظالم اور جارح ہوتا ہےاور مسلمان ہمیشہ مظلوم اور دفاع کرنے والا ہوتا ہے۔

مسلمان علماء بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ ”غزوۂ بدر“ کے اسباب کیا تھے اور جارح کون تھا؟ لیکن پھر بھی اصل صورت حال اس لئے پوشیدہ رکھی جاتی ہے کہ حقیقت سامنے آنے سے معصوم ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں، اور 1400 سال سے مسلمانوں کی مظلومیت کی جو تصویر ہر مسلمان کے ذہن میں نقش کر دی گئی ہے وہ دھندلا سکتی ہے۔ اس لئے عموماً واقعات کو تفصیل اور تحقیق کے ساتھ بیان کرنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے حقیقی اسباب پر روشی ڈالے بغیر بدر کے میدان میں دونوں فوجوں کو ہاہم ٹکرا دیا جاتا ہے، اور پھر قوت ایمانی کے باعث 313 مجاہدین اسلام کی ایک ہزار کفار پر فتح مبین کے نقارے بجا دیئے جاتے ہیں۔

جنگ بدر اور 1965ء کی پاک وہند کی جنگ میں اس لحاظ سے کافی مماثلت ہے کہ ہماری نصابی کتابوں میں ہمیں ان دونوں جنگوں کے اصل محرکات کے بارے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہماری نصابی کتابوں میں درج ہے کہ 6 ستمبر 1965ءکو ہندوستان نے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اعلانیہ طور پر یک طرفہ جنگ کا آغاز کرتے ہوئے لاہور پر حملہ کر دیا تھا، لیکن یہ بات کہیں ذکر نہیں کی جاتی کہ 65ء کی جنگ کا اصل محرّک ”آپریشن جبرالٹر“ تھا، اسی طرح جنگ بدر کے بارے میں بھی اصل حقائق کو چھپاتے ہوئے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا تاکہ مسلمانوں کا خاتمہ کرکے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسلام کا نام تک مٹا دیا جائے، اور جنگ بدر کے اصل اسباب و محرّکات کا بالکل بھی ذکر نہیں کیا جاتا۔حالانکہ غزوہ بدر کا اصل محرّک کفار مکہ کا مدینہ پر حملہ آور ہونا نہیں تھا، بلکہ ہجرت کے بعد سے یکے بعد دیگرے مسلسل ایک سال سے مسلمانوں کی جانب سے قریش مکہ کے تجارتی قافلوں کو لوٹنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ کتنے مسلمانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ غزوہ بدر سے قبل پیغمبر اسلام نے تقریباً آٹھ بار قریش مکہ کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی کوششیں کیں؟ اور لوٹ مار کی انہی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر جنگ بدر کا میدان کارزار گرم ہوا۔

مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے مکہ سے یثرب ہجرت کی، کیونکہ پیغمبر اسلام کی 13 سالہ شب و روز کوششوں سے صرف 83 افراد شمع اسلام کے پروانے بن پائے تھے، پیغمبر اسلام مایوس ہوچکے تھے کہ مکہ کے مزید لوگ ان کی دعوت پر کان دھریں گے، نیز خدیجہ اور ابو طالب کے انتقال کے باعث پیغمبر اسلام کی پشت پناہی کرنے والا کوئی مضبوط سہارا بھی اب میسر نہ تھا، اس لئے اب مکہ کو خیرباد کہنے میں ہی عافیت تھی۔ سردارانِ قریش نے مسلمانوں سے ہرگز مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مسلمان مکہ چھوڑ کر کسی اور علاقے کی طرف منتقل ہو جائیں، بلکہ سرداران قریش نے پوری کوشش کی مسلمان مکہ چھوڑ کر نا جائیں، اس لئے جس کا جس پر بس چل سکا اسے ہجرت سے روکنے کی اپنی بھرپور کوشش بھی کی۔اس بات کی تصدیق کیلئے سیرت کی اولین کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے، میں طوالت کے اندیشے کے باعث اسے ذکر نہیں کر رہا۔

مسلمانوں کے یثرب ہجرت کر جانے کے بعد مسلمان مؤرخ یہ تو لکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد بھی کفار مکہ نے مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور مدینہ میں بھی انہیں نقصان پہنچانے کے در پے رہے، لیکن کوئی ایک واقعہ بیان کرنے سے قاصر ہیں کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کوئی ایک جارحانہ کاروائی سرانجام دی ہو ! ! ! جی ہاں کفار مکہ کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ہجرت کے بعد کسی ایک مسلح کاروائی کا ذکر نہیں ملتا،میں نے حتی المقدور تحقیق کی کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ کی جانب سے کوئی ایک ایسا فعل مل جائے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہو کہ کفار مکہ نے ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رکھا، اور انہیں مدینہ میں بھی سکون کا سانس نہ لینے دیا، لیکن مجھے اسلامی تاریخ کے مصادر میں سے کوئی ایک ایسی روایت نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر یہ مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہو۔

ہجرت کے بعد مسلمانوں اور کفارِ مکہ میں باہمی رابطہ ختم ہو گیا۔ مسلمان مکہ سے تقریبا ڈھائی سو میل دور مدینہ ہجرت کر گئے۔ مسلمانوں کو انصار کی شکل میں نئے ہمدرد اور حمایتی دستیاب ہو گئے اور ایک محفوظ جائے پناہ دستیاب ہوگئی جہاں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اب کفار مکہ اور مہاجرین مدینہ کے درمیان امن قائم ہو جانا چاہئے تھا۔ اور لكم دينكم و لي دين کے اصول پر کاربند رہنا چاہئے تھا، فریقین کو ایک دوسرے کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔ غیر جانبدارانہ رائے تو یہی ہونی چاہئے تھا کہ ہجرت کے بعد جس نے بھی نقص امن اور زیادتی کی طرف پہلا قدم اٹھایا اسے ہی قصور وار ٹھہرایا جائے۔ خواہ وہ کفار مکہ ہوں یا مسلمانان مدینہ۔
BadarMapاس کے برعکس ہجرت کے بعد وہی مظلوم، مسکین، بے یار و مددگار مسلمان ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں، امن و سلامتی کے داعی، ظلم کی مخالفت پر کمر بستہ مسلمان اب تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نئے رنگ و روپ میں نظر آتے ہیں۔ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جانے والی اسی تجارتی شاہراہ پر آمد و رفت رکھتے تھے جسے قرآن لإيلاف قريش إيلافهم رحلة الشتاء والصيف (سورۃ قریش) کہہ کر اس تجارتی شاہراہ کے پرامن ہونے کو قریش پر اللہ کے احسان کے طور پر ذکر کرتا ہے،لیکن اب رسول اللہ بذات خود قرآن کے احسان کو حرفِ غلط ثابت کرنے کیلئے میدان عمل میں اترتے ہیں۔ شجاعت اور بسالت کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر کفار مکہ سے کوئی انتقام لینا مقصود تھا تو کفار مکہ سے اعلان جنگ کرتے ہوئے مکہ پر حملہ کیا جاتا، لیکن یہاں دنیا دیکھتی ہے کہ اللہ کی رسالت کے ایک مدّعی، اپنے دین کی وسعت کیلئے ایک انوکھا راستہ اختیار کرتے ہوئے، ایک پرامن شارع تجارت کو میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ تمام مہذب اقوام تجارتی شاہراہوں کو محفوظ بنانا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتی ہیں، کیونکہ ایسی شاہراہوں سے انسانی ضروریات وابستہ ہوتی ہیں، لیکن اب ایسی صورت حال میں کیا کہا جائے جب یہ سب کچھ اخلاقیات کے نام پر ہی برپا کیا جا رہا ہو، اور یہ کارنامہ سرانجام دینے والا بھی کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کے نظام کی ”اصلاح“ کیلئےمامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی ذات خود ہو۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا اصل مقصد مسلمانوں کیلئےپر امن خطے کا حصول نہیں بلکہ مکہ پر حملہ آور ہونے کیلئے ایک محفوظ چھاؤنی کا حصول تھا۔رسول اللہ نے جہالت کے سر پر قائم اس دور کے قبائلی نظام کو ختم کرنے کے بجائے، اسی جاہلانہ نظام کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

محدثین، سیرت نگار، اور مؤرخین اسلام، غزوہ بدر سے قبل کل آٹھ مہمات کا ذکر کرتے ہیں، میں اختصار کے ساتھ ان کا یہاں ذکر کر رہاہوں، یہ آٹھ جنگی مہمات اس بات کا پول بہت طرح کھول کر رکھ دیتی ہیں کہ غزوہ بدر کے اصل محرّکات اور اسباب کیا تھے۔مسلمان محققین کوچیلنج ہے کہ ان آٹھ مہمات سے قبل، کفار مکہ کی طرف سے کسی ایک اشتعال انگیزمسلح مہم کا ذکر اپنی ہی کتابوں سے نکال کر دکھا دیں، تاکہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ سچا ثابت ہو سکے کہ ہجرت کے بعد کفار مکہ نے مدینہ میں بھی مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینے نہ دیا، اور یہ کہ غزوہ بدر دفاعی جنگ تھی نا کہ اقدامی۔

(نوٹ: جہاں جہاں بھی تجارتی قافلوں کے ”لوٹنے“ کا ذکر ہے، لوٹنے کا لفظ میں نے اپنی جانب سے شامل نہیں کیا ہے، بلکہ مسلمانوں کی مقدس کتابوں میں بھی ان مقامات پر یہی لوٹنے کا لفظ ہی استعمال ہو اہے۔)

1- سریۂ حمزہ
رسول اللہ نے سب سے پہلے ہجرت کے سات مہینے بعد رمضان المبارک 1 ھ ؁میں تیس مہاجرین کی جمیعت کو حضرت حمزہ کی سرکردگی میں سیف البحر کی طرف روانہ فرمایا تاکہ قریش کا قافلہ جو ابو جہل کی سرکردگی میں شام سے مکہ کی طرف واپس آ رہا تھااس کا تعاقب کریں۔ ہجرت کے بعد یہ پہلا سریہ تھا، اس سریہ کیلئے رسول اللہ نے باقاعدہ ایک پرچم بنا کر حضرت حمزہ کے حوالے کیا تھا، جسے اسلام کا سب سے پہلا پرچم قرار دیا جاتا ہے۔جب حضرت حمزہ سیف البحر پہنچے اور قافلے پر حملہ آور ہونا چاہا تو مجدی بن عمرو جہنی نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرایااور لڑائی کی نوبت نہ آنے دی، اس طرح ابو جہل قافلہ لے کر مکہ روانہ ہوا اور حضرت حمزہ کو خالی ہاتھ مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔

2- سریۂ عبیدہ بن حارث
ہجرت کے آٹھ ماہ بعد ماہ شوال 1ھ ؁میں رسول اللہ نے مہاجرین کے ساٹھ یا اسی سواروں پر عبیدہ بن حارث کو امیر بنا کر رابغ کے مقام کی طر ف روانہ کیا، وہاں پہنچ کر قریش کے قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو سو کی جمعیت پر مشتمل تھا، اس بار بھی لڑائی کی نوبت تو نہ آسکی البتہ سعد بن ابی وقاص نے ایک تیر چلایا ، یہ پہلا تیر قرار دیا جاتا ہے جو اسلام میں چلایا گیا۔ جس کا اعزاز بھی ایک ”مظلوم مسلمان“ کو حاصل ہوتا ہے۔ افسوس اوّلین جارحیت کا یہ اعزاز بھی کسی کافر کو نصیب نہ ہوسکا۔

3- سریۂ سعد بن ابی وقاص
پھر ماہ ذی قعدہ (واضح رہے کہ ذی قعدہ کے مہینے کا شمار ”اشہر حرم“ میں ہوتا ہے، جن میں اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی جنگ کی ممانعت ہے) میں بیس مہاجرین پر مشتمل ایک مہم سعد ابن ابی وقاص کی سرکردگی میں مقام خرّار کی طرف روانہ کی۔ یہ لوگ دن میں تو چھپ جاتے اور رات میں قافلہ کو تلاش کرتے، خرّار پہنچ کر معلوم ہوا کہ قریش کا قافلہ تو نکل چکا ہے، اس لئے ناکام و نامراد مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔

4- غزوہ ابواء
عام طور پر مسلمانوں کو یہی معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ بدر وہ پہلا غزوہ تھا جس میں رسول اللہ نے خود شرکت کی تھی، لیکن سیرت کی تمام تر معتبر کتابوں کے مطابق غزوہ ابواء کو رسول اللہ کا پہلا غزوہ ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے، صفرھ ؁ میں ساٹھ مہاجرین کے ہمراہ قریش کے ایک قافلے کی آمد کی خبر پاکر رسول اللہ اسے لوٹنے کی غرض سے روانہ ہوئے، افسوس جب آپ ابواء پہنچے تو قریش کا قافلہ نکل چکا تھا ۔ اس لئے مال غنیمت حاصل کئے بغیر ہی مدینہ واپس لوٹنا پڑا۔ اسی غزوہ کو غزوہ ودّان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ابواء اور ودّان قریب قریب مقام ہیں، جن کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے۔یہ مہم پندرہ روز پر مشتمل تھی۔

5- غزوہ بواط
اگلے ماہ یعنی ربیع الاول ۲ ھ ؁ رسول اللہ کو پھر وحی کے ذریعے اطلاع ملی کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ مکہ جا رہا ہے، اس لئے آپ دو سو کا لشکر لے کر اس قافلے پر حملے کی غرض سے بواط کی طرف روانہ ہوئے، قریش کے اس قافلے میں ڈھائی ہزار اونٹ تھے، اور امیہ بن خلف اس قافلے میں موجود تھے، قافلے کے کل شرکاء کی تعداد سو تھی، بواط پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ تو رسول اللہ کے بواط پہنچنے سے پہلے ہی وہاں سے آگے روانہ ہو چکا ہے، اس لئے بغیر جدال و قتال واپس مدینہ لوٹنا پڑا۔

6- غزوہ عشیرہ
جمادی الاولیٰ ۲ ھ ؁ میں آپ نے دو سو مہاجرین کو لے کر قریش کے قافلہ پر حملہ کرنے کیلئے عُشَیرہ کی طرف خروج کیا، جو ینبوع کے قریب ہے، اس مہم میں تیس اونٹ ہمراہ تھے، اس بار پھر حسب سابق رسول اللہ کے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی کئی روز پیشتر قافلہ آگے نکل چکا تھا، چنانچہ مشیت ایزدی کے خلاف بغیر مال غنیمت حاصل کئے مدینہ واپس لوٹ آنا پڑا۔

7- غزوہ سفوان (غزوہ بدر صغریٰ یا بدر اولیٰ)
غزوہ عشیرہ سے واپسی کے بعد تقریباً دس روز رسول اللہ نے مدینہ میں گزارے ہوں گے کہ کُرز بن جابر فہری نے مدینہ سے باہر ایک چراہ گاہ پر حملہ کیا اور اونٹ اور بکریاں لوٹ کر لے گیا۔ رسول اللہ یہ خبر سن کر اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور مقام سفوان تک گئے، مگر آپ کے اس مقام تک پہنچنے سے پہلے ہی کرز یہاں سے نکل چکا تھا، اس لئے مدینہ واپس لوٹتے ہی بنی۔سفوان نامی یہ مقام بدر کے قریب ایک جگہ ہے، اس لئے اس غزوہ کو بدر اولیٰ یا بدر صغریٰ بھی کہتے ہیں۔

کُرز بن جابر فہری کی جانب سے مدینہ کی چراہ گاہ پر حملہ ایک واحد مہم ہے جس کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ کفار مکہ کی جانب سے مدینہ کے خلاف رونما ہوئی، لیکن اول تو یہ اہل مکہ کی قیادت کی طرف سے باقاعدہ کوئی مہم نہیں تھی، دوسری بات یہ کہ کُرز بن جابر فہری ، مسلمانوں کی جانب سے قریش کے قافلے کے بار بار تعاقب سے سخت سیخ پا تھا۔ اس نے اپنی جانب سے مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کی کہ اگر قریش کے قافلوں کا تعاقب جاری رکھا گیا تو قریش بھی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا حق رکھتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ اسے کُرز بن جابر فہری کا غصے میں ذاتی اور انفرادی فعل قرار دیا جا سکتا ہے، اس سے زائد کچھ اور نہیں۔

8- سریۂ عبد اللہ بن جحش
اس غزوہ کی تفصیل میری گذشتہ تحریر قرآن میں انسانی تصرف کی نشاندہی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، اختصار کے ساتھ ذکر ہے کہ غزوہ سفوان سے واپسی پر ماہ رجب 2 ہجری میں رسول اللہ نے عبد اللہ بن جحش کو گیارہ مہاجرین کے ہمراہ مقام نخلہ کی طرف روانہ کیا، یہ رجب کا مہینہ بھی ”اشہر حرم“ یعنی حرمت والے مہینوں میں شمار ہوتا ہے جس میں جنگ کی سخت ممانعت ہے، روانگی کے وقت عبداللہ بن جحش کو رسول اللہ نے ایک خط دیا اور کہا کہ دو دن کی مسافت طے کرنے بعد اسے کھول کر دیکھنا۔ چنانچہ دو رو ز کا فاصلہ طے کر نے کے بعد خط کھول کر دیکھا تو لکھا تھا ”مکہ اور طائف کے درمیان مقام نخلہ پر اترو، وہاں سے قریش کا ایک تجارتی قافلہ گذرنے والا ہے، اس قافلے کی خبرگیری رکھو، اور اس قافلے کی خبروں سے مطلع کرتے رہو“ عبداللہ بن جحش نے خط پڑھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا جس کو شہادت عزیز ہو وہ میرے ساتھ چلے، اور سب نے ان کے ساتھ جانا قبول کرلیا۔ جب قریش کا تجارتی قافلہ اس مقام سے گذرا تو حرمت کا مہینہ ہونے کے باوجود واقد بن عبداللہ تمیمی نے قافلہ کے سردار عمرو بن الحضرمی کے ایک تیر مارا جس سے وہ مر گیا، اس کے مرتے ہی قافلے والے پریشان ہو کر بھاگ اٹھے اور مسلمانوں نے قافلے کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کرلیا، اور اہل قافلہ میں سے عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان کو گرفتار کر لیا۔ عبداللہ بن جحش نے اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے غانمین کو دیئے اور ایک حصہ(خمس) رسول اللہ کیلئے رکھا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ :”یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور عمرو بن حضرمی پہلا شخص تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اور عثمان بن عبد اللہ اور حکم بن کیسان پہلے قیدی تھے جو مسلمانوں نے گرفتار کئے“ ابن ہشام کے الفاظ پر غور کر لیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ جارحیت میں پہل کس نے کی۔

قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا کہ ہجرت کے بعد پیغمبر اسلام نے مسلسل قریش کے تجارتی قافلوں کا تعاقب کرکے انہیں ہراساں کیا، جب کہ اس دوران سوائے کرز بن جابر فہری والےانفرادی واقعہ کے قریش مکہ کی طرف سے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی مسلح مہم جوئی نہیں کی گئی، اور کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے اجتناب برتا گیا، اس تمام تر تفصیل کو جاننے کے بعد مسلمان کس طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اہل مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا، اور مسلمانوں کی تمام تر مہمات دراصل ”دفاعی“ نوعیت کی تھیں۔

اب غزوۂ بدر کی حقیقت بھی جان لیجئے تاکہ یہ واضح ہو کہ جنگ بدر مسلمانوں کی طرف سے اہل مکہ کی جارحیت کے مقابلے کیلئے کوئی ”دفاعی“ اقدام تھا یا مسلمانوں کی جانب سے اہل مکہ کے خلاف خالصتاً جارحانہ جہادی کارروائی تھی۔

غزوہ بدر
ابن اسحاق کہتے ہیں:
”پھر یہ خبر رسول اللہ کے گوش گذار ہوئی کہ ابوسفیان ملک شام سے قریش کا بہت بڑا قافلہ لے کر آ رہا ہے، جس میں قریش کا بہت کثیرمال تجارت ہے اور تیس یا چالیس قریش کے آدمی ہیں ……….. جب رسول اللہ نے ابو سفیان کے شام سے آنے کی خبر سنی تو مسلمانوں سے فرمایاکہ قریش کا قافلہ ملک شام سے بہت سے مال کے ساتھ آ رہا ہے تم اس سے جنگ کے واسطے چلو کہ خدا ان کا مال تم کو دلوا دے………..ابو سفیان جب مدینہ کے قریب پہنچا تو ہر ایک آتے جاتے شخص سے رسول اللہ کا حال دریافت کرتا تھا، کیونکہ اس کو رسول کریم کی طرف سے فکر لگا ہوا تھا۔ چنانچہ ایک شخص سے اس کوخبر پہنچی کہ آپ صلعم نے اس قافلے کیلئے ساتھیوں کو نکلنے کی دعوت دی ہے۔ چنانچہ اسی وقت اس نے ضمضم بن عمرو غفاری کو کچھ مزدوری دے کر مکہ روانہ کیا تاکہ قریش کو بہت جلد اپنے قافلے کی حفاظت اور حمایت کیلئے بھیج دے۔ چنانچہ ضمضم بن عمرو فوراً نہایت سرعت کے ساتھ مکہ کو روانہ ہوا۔“………. ضمضم بن عمرو غفاری ابو سفیان کا فرستادہ آیا تھا (یعنی مکہ پہنچا) اور اس نے غُل مچایاتھا اور اپنے اونٹ کاکجاوہ الٹا کرکے اور کرتا پھاڑ کے کہہ رہا تھا: ”اے گروہ قریش! اللطيمة اللطيمة تمہارے مال ابوسفیان کے ساتھ ہیں اور محمد نے ان کے لوٹنے کا ارادہ کیا ہے، تم جلد ابو سفیان کی مدد کو پہنچو“

ابن اسحاق کی اس عبارت سے کئی باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں کہ :
1- غزوہ بدر کا اصل سبب مسلمانوں کی طرف سے قریش کے تجارتی قافلے کو لوٹنے کی منصوبہ بندی تھا، نا کہ قریش مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی عسکری کارروائی۔
2- مسلمان بڑے کرّوفرّ سے کہتے ہیں کہ 313 نے 1000 کو شکست دی، مزید تفصیل آگے بیان کروں گا، یہاں یہ جان لیں کہ یہ 313 اصل میں تیس یا چالیس افراد پر مشتمل ایک تجارتی قافلے کو لوٹنے کیلئے نکلے تھے، نا کہ کسی عسکری قوت کے خلاف۔وہ تو چونکہ ابو سفیان اپنا تجارتی قافلے اپنی دانشمندی سے بچا کر مکہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ورنہ ان 313 کا اصل منصوبہ تو تیس یا چالیس لوگوں پر مشتمل تجارتی قافلے پر شب خون مارنا تھا۔
3- رسول اللہ کا یہ فرمان”تم اس سے جنگ کے واسطے چلو کہ خدا ان کا مال تم کو دلوا دے“ غزوہ بدر کے تمام اغراض و مقاصد بہت اچھی طرح بیان کر دیتا ہے کہ ؏
غنیمت تھا مقصود و مطلوبِ مومن
ناشوقِ شہادت، نا خوفِ جگ ہنسائی
4- قریش مکہ، ضمضم بن عمرو غفاری کی اطلاع پر اپنے اموال بچانے اور ابوسفیان کی مدد کیلئے مکہ سے روانہ ہوتے تھے نا کہ مدینہ پر یلغار کرنے کیلئے۔جبکہ مسلمانوں کی طرف سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ قریش مکہ براہ راست مدینہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے مکہ سے روانہ ہوئے تھے۔

ابن ہشام کہتےہیں کہ:
”پھر آپ صلعم نے سب کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے لوگو! جس کی رائے ہووہ بیان کرو، اور اس سے آپ کا منشأ انصار کی رائے لینا تھا . . . . . . . . . حضور اکرم کو یہ اندیشہ تھا کہ انصار شائد میری اس مدد پر کفایت کریں گے کہ جو دشمن میرے اوپر مدینہ میں چڑھ کر آئے اس سے مجھے بچائیں اور جب میں اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے کیلئے نکلوں تو یہ اس میں شریک نہ ہوں“۔

یہاں دیکھ لیں خود رسول اللہ دشمن پر حملہ آور ہونے کا ذکر کر رہے ہیں، نا کہ کسی قسم کے دفاع کا۔نیز رسول اللہ کو یہ اندیشہ تھا کہ انصار نے تواس بات پر بیعت کی تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر چڑھ آئے گا تب رسول اللہ کی حفاظت کریں گے، لیکن یہاں تو خود رسول اللہ ہی دشمن پر چڑھ دوڑے تھے تو اندیشہ ہوا کہ اس صورت میں نا جانے انصار ساتھ دیں گے یا نہیں۔ کیا اب بھی غزوۂ بدر کی بابت ایک جارحانہ اقدام ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی رہ جاتا ہے ؟

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ:
”جب ابو سفیان اپنے قافلے کو لے کر نکل گیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ اب میں غازیان اسلام کی دست برد سے بچ گیا، اس نے قریش کو کہلا بھیجا کہ جس قافلے کی مخالفت اور حمایت کے واسطے تم آئے تھےوہ قافلہ اب دشمن کی زد سے محفوظ نکل گیا۔ لہذا تم بھی واپس مکے چلے جاؤ، ابوجہل نے کہا ”ہم ابھی مکہ نہ جائیں گے، ہم بدر میں چل کر خوب اونٹ ذبح کریں گے اور تین روز وہاں رہ کر خوب کھانے کھائیں گے، اور شرابیں اڑائیں گے، اور ناچ رنگ دیکھیں گے تاکہ ہمارے اس کرّ و فرّ کے ساتھ آنے کو دیکھ کر تمام عرب ہم سے خوف کریں اور جانیں کہ ہاں قریش ایسے ہیں“ کیونکہ ان دنوں میں میں بدرکے میدان میں بازار لگتا تھا اور عرب کے ہر ایک شہر کے لوگ یہاں آ کر جمع ہوتے تھے اور خرید و فروخت کرتے تھے۔“

ابن اسحاق کے اس بیان سے مزید اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ قریش مکہ کا جنگ وجدال کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا، ابو سفیان نے خود پیغام بھیجا کہ قافلہ بحفاظت مدینہ پہنچ گیا ہے اس لئے واپس آجاؤ، اور عمرو بن ہشام(ابوجہل) کا بدر جانے کا مقصد صرف بدر کے بازار میں شرکت اور ناؤ و نوش کی محفلیں منعقدکرنا تھا، تاکہ قریش کی دھاک باقی عرب پر جم جائے، ناکہ جنگ کے ارادے سے بدر کا قصد کیا تھا۔

ڈھول کا پول
ابو جہل کی یہ گفتگو سن کر اخنس بن شریق بن عمرو بن وہب ثقفی نے جو بنی زہرہ کا حلیف تھا مقام حجفہ میں اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی زہرہ اللہ تعالی نے تمہارے مال اور تمہارے آدمی یعنی مخرمہ بن نوفل کو جو ابوسفیان کے ساتھ تھا نجات دے دی، اب تمہیں کیا ضروری ہے کہ تم خوامخواہ پریشان ہو، جس کام کی خاطر تم آئے تھے، وہ کام ہوگیا، میرے نزدیک یہی مناسب ہے کہ تم اس (ابوجہل) کے کہنے میں نہ آؤ اور اپنے گھر کو چل دو، چنانچہ بنو زہرہ کے تمام لوگ اور بنی عدی بن کعب کے سب لوگ مکہ کو واپس ہوگئے، بدر میں ان میں سے ایک بھی شریک نہ ہوا۔ اسی طرح طالب بن ابی طالب بھی چند لوگوں ساتھ مکہ کو واپس ہوگئے، کیونکہ قریش نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی ہاشم! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے ہو مگر تمہارا دل محمد ہی کی طرف ہے۔ باقی قبائل قریش بدر کی طرف ابوجہل کی سرکردگی میں روانہ ہوئے۔

سیرت ابن ہشام کی مذکورہ بالا عبارت کی روشنی میں خود فیصلہ کیجئے کہ مسلمانوں کی طرف سے کس قدر شدّ و مدّ سے یہ کہا جاتا ہے کہ قریش مکہ کے ایک ہزار(ایک اور قول کے مطابق 900) کے مقابلے میں مسلمان محض 313 تھے، لیکن یہ بیان نہیں کیا جاتا کہ جنگ سے قبل ہی قریش کے قافلے سے بنو زہرہ ، اوربنی عدی بن کعب کے تمام لوگ، اور طالب بن ابی طالب اپنے ساتھیوں ہمراہ جنگ سے قبل ہی مکہ واپس لوٹ گئے تھے، اب ابن ہشام نے ان واپس لوٹ جانے والوں کی تعداد تو ذکر نہیں کی،(طبقات ابن سعد میں بنو زہرہ کے افراد کی تعداد ایک سو تا تین سو ذکر کی گئی ہے، اسی طرح بنو عدی بن کعب کی تعداد بھی قیاس کی جا سکتی ہے) لیکن بنو زہرہ اور بنو عدی بن کعب کے تمام لوگوں کی واپسی کے ذکر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ گنتی کے چند افراد تو نہیں ہو سکتے، جیسا کہ طالب بن ابی طالب کے ساتھ کے ساتھیوں کیلئے ”چند افراد“ کا ذکر کیا۔اس لئے دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس جنگ کو ایک ہزار (یا 900) بمقابلہ 313 قرار نہ دیا جائے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ قریش مکہ کی تعداد مسلمانوں کے برابر یا ڈیڑھ گنا زیادہ ہوگی۔نیز مسلمانوں کو تو کم از کم غزوۂ بدر کو 313 بمقابلہ ایک ہزار نہیں کہنا چاہئے کیونکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق غزوہ بدر میں پانچ ہزار فرشتے بھی مسلمانوں کی جانب سے شریک قتال تھے۔

18 Comments

  1. یہ تحقیق آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے، افسوس کہ ہم نے ہمیشہ مولوی کی زبانی سنے ہوئے اسلام پر اعتبار کیا، کبھی خود ان کتابوں کو کنگھالنے کی کوشش نہیں کی، جو خود مولوی کے علم کا بھی منبع ہیں، لیکن اب انٹرنیٹ کی سہولت کی بدولت یہ تمام کتابیں اور علوم عام آدمی کی پہنچ میں ہیں۔

  2. اس سائیٹ کے ایک حصے (فتنہ) سچائی ڈاٹ کام پر بنی قریظہ کو قتل کے متعلق بندہ ایک مختصر تحریر ثبوت کے طور پہ پیش کرتا ہے ۔
    قانون اساسی
    نوٹ ! یہ تمام حقائق کا مختصر خلاصہ مسلمانوں کی کسی کتب سے نہیں ایک یورپی محقق و مصنف، کانسٹنٹ ورجل جیورجیو (۱۵ستمبر۱۹۱۶ء ویلیا البا رومانیہ۔۲۲جون ا۹۹۲ء ، پیرس ، فرانس) کی کتاب(محمدؐ ﷺ) سے اخذ کیے ہیں۔
    باون نکات پر مبنی مدینہ کا پہلا قانون اساسی (۶۲۳ء) میں یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین سمجھوتے کے تحت وجود میں آیا ، ان قانون اساسی کی 25 شقیں مسلمانوں سے متعلق اور 27 دوسرے مذہب کے پیرو کاروں کے لیے تھیں وہ یہودی ہوں یا بت پرست ۔ اس قانون اساسی کی تدوین اس طرح کی گئی کہ دوسرے ادیانوں کے پیرو کار مسلمانوں کیساتھ مدینہ میں زندگی بسر کرسکتے تھے اور ہر ایک اپنے مذہبی وظائف کی بجا آوری میں آزاد تھا، بغیر اس کے کہ کوئی ایک دوسرے کے مزاہم ہو۔ اس قانون کے مطابق مدینہ شہر کا رہنے والا ہر قبیلہ اپنی دینی اقدار کی حفاظت کرے تو کوئی شخص اس پر اعتراض نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن تمام ادیان کے پیروکار مدینہ کے باسیوں پر ہنگامِ جنگ لاگوہوا کہ مدینہ پر کسی ممکنہ حملہ کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ باہم مل کر لڑیں گے ۔
    سابقہ ادیان کے بانیوں میں سے کوئی بھی محمدؐ کی مثل دوسرے ادیان کی نسبت رواداری اور مدارات کا قائل نہیں گزرا۔ یہ محمدؐ کی ایک اعلیٰ کوشش تھی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مدینہ میں مسلمانوں کیساتھ پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ اور سب باقی ادیان کے لوگوں کو یقین دلایا کہ کوئی ان کے مزاہم نہ ہوگا۔ مسلمانوں کے متعلق ایک شق یہ تھی کہ اگر ایک شخص گرفتار ہوجائے اور حریف اس کی آزادی کے لیے فدیہ مانگتے ہیں تو سب مسلم مل کر اپنے ساتھی کا فدیہ ادا کریں گے۔اور ہر گاہ کہ مسلمان کے ہاتھوں کسی کا قتل ہوجائے ( بشرطیکہ یہ قتل جنایت نہ ہو) تو مسلمان باہم مل کر خون بہا ادا کریں۔اسی طرح شق نمبر 13 قانون اساسی اس طرح ہے: ہر گاہ کوئی مسلم اگر قہر ظلم کرے یا جنایت کرے ،یا کسی کا حق پامال کرے، یا مسلمانوں میں نفاق پیدا کرے شق اول و دوئم میں جو حق اسے حاصل ہے اس سے محروم ہوجائے گا۔اس نوعیت کے مواقع پرتمام مسلم اسے سزا دینے کے لیے اٹھیں گے چاہے گنہگار ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔شق 15 میں قانون اساسی میں مرقوم ہے ایک غریب کا حق ایک امیر کے برابر ہوگا۔شق 16 میں جو کوئی عمداً قتل کرےیا قتل ہوجائے تو کسی کو حق نہیں کہ قاتل کی حمایت کرے سکے۔ شق 23 میں ہر نوع کے اختلاف پر خدا کے احکامات کی روشنی میں انھیں حل کرو۔ یہودی اپنے دینی اقدار کی حفاظت کریں اور مسلم اپنے دین کی نگہداری کریں۔ایک اور شق میں لکھا ہے حزینہ جو یہودیوں کے ذمہ ہوگا وہ خود ادا کریں گے اور جو مسلمانوں کے ذمہ ہوگا وہ مسلمان اداکریں گے۔جو کوئی اس قانون کے برعکس عمل کرے گا یہودی اور مسلمان مل کر اس سے جنگ کریں گے۔ مسلمان اور یہودی مکلف ہیں کہ ایک دوسرے سے نیک برتاو کریں اور حد سے تجاوز نہ کریں۔شق نمبر 43 : ساکنین مدینہ (مسلم اور یہودی) افراد قبیلہ قریش اور ان کے حلیفوں کی حمایت مسلمانوں سے جنگ کی صورت ہر گز نہیں کریں گے۔ اس شق میں قریش کے وہ لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں یا کوئی گزند پہنچاتے ہیں۔ایک اور قانون اساسی یوں ہے : سرزمیں مدینہ حرم تصور ہوگا اور اس میں جدال نہ کیا جائے گا۔ مدینہ کے عوام اس قانونِ اساسی سے بہت خوش ہوئے، کہ اس سے سب کی حیثیت مساوی ہوگئی تھی۔
    کفارِ مکہ نے مدینہ کے ایک شخص عبداللہ بن ابی جو بظاہر مسلمان تھا کے نام متعدد خط لکھے کہ ہمارے جو لوگ مدینہ میں سکونت رکھتے ہیں انھیں وہاں سے نکالو اور ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم یلغار کرکے تمھارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو غلام بنالیں گے لیکن اس شخص نے منافقت کے باعث خاموشی اختیار کی، عربوں میں اس شخص کو منافق کہا جاتا ہے جو نہ کھل کر حمایت کرے اور نہ مخالفت ، بلکہ اپنے آپ کو وقت پڑنے پر فاتح کا ساتھی ثابت کرے۔جب قریش کو کوئی جواب نہ ملا تو انھوں نے ایک خط مدینہ کے یہودوں کے نام لکھا اور ان سے مدد چاہی ، یہودوں نے صریحاً تو کوئی جواب نہ دیا کہ وہ مہاجروں سے لڑیں گے اور انھیں حوالے کریں گے لیکن یہ وعدہ کرلیا کہ ضرورت پڑنے پر وہ قریش کی مدد کریں گے اور مسلمانوں کا ساتھ نہ دیں گے۔قریش نے یہودیوں کے جواب کے پیشِ نظر مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو روکنے کے لیے اپنا ا ثر و رسوخ استعمال کیا اور ناکہ بندی کروادی ۔اور بھر پور تیاری کرکے مسلمانوں کو تہس نہس کرنے کے لیے مدینہ پر حملہ آوار ہوئے ، حملہ کے پیش نظر مسلمانوں نے مدینہ کے دفاع کے لیے دن رات ایک کر کے خندق کھودلی تھی ، مدینہ کے ایک طرف جہاں یہودیوں کی آبادکاری تھی وہاں اساسِ مدینہ کے مطابق یہودیوں نے تحفظ کرنا تھا مگر یہودیوں نے قریش کے ساتھ عہد باندھا یہودیوں اور قریش کے مابین تمام معاملات ایک شخص نعیم بن مسعود کے ذریعے طے پارہے تھے ، مسلمان اسے پکڑ کر محمدؐ کے پاس لے آئے اور اس نے اقرار کیا اور کہنے لگا کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ قریش آپ کو گرفتار یا قتل کریں ۔ مذکورہ شخص نے قریش اور یہودیوں کے مابین غلط فہمی پیدا کردی ، ادھر قریش کے کافلے سردی بڑھنے پر کافی پریشان ہوئے اور خوراک بھی کم پڑھ گئی پھر ایک روز تیز آندھی اور طوفان کے باعث قریش واپس پلٹ گئے اور مسلمان اپنے گھروں کو لوٹ آئے ۔ جنگِ احد میں محمدؐ نے خود ہی یہودیوں کو اجازت دے دی تھی کہ یہ ایک مذہبی جنگ ہے لہٰذا تم مجبور نہیں کہ ہمارا ساتھ دہ ۔ یہ بھی واضع ہے کہ محمدؐ نے جنگِ احد میں یہودیوں کو بے اعتمادی کی بنا پر واپس کردیا تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ احد میں شہر کے دفاع کا مسٔلہ نہیں تھا۔ لہٰذا جنگِ خندق کے دوران بنوقریظہ نےقانونِ اساسی کے خلاف روش اختیار کی تھی اور دشمن سے متحد ہونے کے لیے اقدام بھی کیے جب کہ مدینہ کے قانون اساسی کے مطابق انھیں مسلمانوں سے متحد ہوکر شہر کا دفاع کرنا تھا۔ جنگ کے خاتمے پر محمدؐ نے یہودیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا لیکن مسلمانوں نے ان کی روش کو فراموش نہ کیا اور مسلمانوں کا رویہ محمدؐ کی نسب بہر حال تبدیل ہوگیا تھا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر یہودی جنگ کے خاتمے پر مقابلہ کی غرض سے خودبخود اپنے قلعہ نما مکانوں میں محصور ہوگئے ۔ ادھر مسلمانوں کے اصرار پر محمدؐ نے علیؓ کو یہودیوں کی طرف ایک جماعت دے کر بازپرس کے لیے روانہ کیا لیکن یہودیوں نے کوئی بات کرنے سے انکار کردیا۔ علیؓ نے ان کےگھروں کا محاصرہ کرنے کے بعد یہودیوں کو پیش کش کی کہ وہ مسلمان ہوجائیں ۔ لیکن یہودیوں نے جواب دیا کہ ہم محمدؐ کو نبی نہیں مانتے اور نہ ہی تمھارا دین قبول کریں گے ویسے بھی محمدؐ ایک عربی ہے اور عربی پیغمبر نہیں ہوسکتا ، پیغمبر ہونے کی استعداد فقط بنی اسرائیل کے افراد میں ہے۔ تمام انبیا سلف بنی اسرائیل سے تھےاور اس کے بعد بھی نبی بنی اسرائیل سے ہی منتخب ہونگے۔ چھ ہفتوں کے محاصرے کے بعد جب ان کا راشن کم پڑنے لگا تو بنی قریظہ کے رئیس کعب بن اسد نے فصیل کے اوپر سے کہا ؛ اے علیؓ ہمارے شیر خوار بچوں کا دودھ ختم ہو گیا ہے لہٰذا ہمارا محاصرہ ختم کرو ؛ علیؓ نے کہا ہمیں تمھارے بچونکی کی فکر ہے ہمارے بھی بچے ہیں لیکن یہ ساری صورتِ حال تم نے خود پیدا کی ہے۔ اب ہم مجبور ہیں تم پر اعتماد نہیں کرسکتے ؛ کیا تم کوئی ثالثی مقرر کرنا چاہو گے؟کعب بناسد نے کہا میں اس کا جواب فوری نہیں دے سکتا مجھے مہلت دو تاکہ میں قبیلہ کے سرکردہ افراد سے مشورہ کرسکوں۔ یہ پیشکش علیؓ نے اپنے طور پہ یہودیوں کو دی تھی نہ کہ مسلمانوں کو ثالثی کی ضرورت تھی۔کعب بن اسد نے کوئی ساعتوں کے بعد فصیل کے اوپر سے آواز دی کہ ہم ثالثی پر امادہ ہیں۔علیؓ نے جواب دیا چونکہ ہمارا ارداہ تم پر ظل؛م کرنے کا نہیں اس لیے تم ثالث کے انتخاب میں آزاد ہو جسے چاہو مقرر کرلو، ثالث کے انتخاب کے بعد ہم دو نمائندے اپنی طرف سے اور دو تم اپنی طرف سے ثالث کے پاس بھیجوگے۔ قانون اثاثی کی خلاف ورزی جو تم نے کی ہمارے نمائندے اسکی بابت ثالث کو صورت حال بتائیں گے اور تمھارے نمائندے جس طرح چاہیں اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں۔اس کے بعد ثالث جو بھی فیصلہ کرے گا اس کی پابندی تم پر لازم ہوگی ۔ آیا کہ تمھیں قبول ہے؟ یہودیوں نے کہا ؛ہاں ، اے علیؓ ! علیؓ نے کہا ہم بھی اس فیصلہ کی پابندی کریں گے۔ثالثی کے فیصلہ کرنے سے قبل ہی محاصرے کے دوران علیؓ نے ایک ہفتہ کی خوراک جس میں بچوں کا دودھ اور ضرورت کی ہر شے شامل تھی یہودیوں کو پہنچائی دی گئی۔ بنوقرظہ کے یہودیوں نے باہمی مشورہ سے سعد بن معاذ کو ثالث منتخب کیا۔ سعد بن معاذ طرفین کا دوست اور قبیلہ اوس کا رئیس تھا۔
    ثالث کے سامنےتمام حالات و واقعات پیش ہوئے تو بنو قریظہ نے قریش کے سردارابو سفیان جو لشکرکشی کرنے آیا تھا سے معاملات کا انکار کیا ۔ثالث نے مسلمانوں سے گواہ طلب کیا جس پر مسلمانوں نے نعیم بن مسعود کو بطورِ گواہ پیش کردیا اور اس گواہ نے مذاکرات کی تمام تفصیل بیان کردی اور ان تمام یہودیوں کے نام بھی بتا دیے جنھوں نےابو سفیان کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔ثالثی کی کاروائی چند دن جاری۔ سعد بن معاذ نے طرفین کی ان شہادتوں کو سنا اور فیصلہ دیا۔ چونکہ بنو قریظہ کے یہودیوں نے قانون اساسی کی خلاف ورزی کی اور اسے پائمال کرکے چاہتے تھے کہ دشمن سے جو مدینہ(یثرب) کو تسخیر کرنے آیا تھا پیمان باندھے، مسلمانوں پر عقب سے حملہ کریں ، لہٰذا یہ سب مستوجب سزائے موت ہیں۔
    یہ فیصلہ شخص کا تھا جسے یہودی اپنا دوست سمجھتے تھے اور خود ہی ثالث منتخب کیا تھا۔
    فیصلہ صادر ہونے کے بعد حضرت علیؓ نے اعلان کیا : کہ نابالغ لڑکے اور لڑکیا ، بوڑھے مرد اور خواتین اس سزا سے معاف کیے جاتے ہیں ۔ دوسرے بھی اگر ایمان لے آئیں تو معاف کردیے جائیں گے اور ہمارے بھائی بن جائیں گے ، اس اعلان پر بہت سے یہودی مسلمان بھی ہوگئے۔
    اس کے بعد علیؓ کو ایک اور ماموریت(ذمہ داری) دی گئی اور وہ یہ تھی کہ مکہ کو روانگی کی تیاری کریں ۔ دوسری ماموریت پر جاتے ہوئے علیؓ کی آخری وصیت یہ تھی : کہ عورتوں ، لڑکیوں، شیر خوار اور نابالغ افراد کو اجازت ہے کہ وہ محاصرے سے باہر آجائیں ، تاکہ جب بنو قریظہ سے جنگ ہو تو وہ جنگ کی زد میں نہ آئیں ، اور قتل نہ کیے جائیں اور نہ بھوکوں مریں۔ بنو قریظہ نے اس پر عمل کیا اور بقیہ جنگ کرتے ہوئے قتل ہوگئے :۔
    نوٹ ! یہ تمام حقائق کا مختصر خلاصہ مسلمانوں کی کسی کتب سے نہیں ایک یورپی محقق و مصنف، کانسٹنٹ ورجل جیورجیو (۱۵ستمبر۱۹۱۶ء ویلیا البا رومانیہ۔۲۲جون ا۹۹۲ء ، پیرس ، فرانس) کی کتاب (محمدؐﷺ) ازسرِ نو جائزہ لینے والی شخصیت سے اخذ کیے ہیں۔ مجھے امید ہے جو مکمل ملحد و مرتد نہیں ہوئے انھیں تو کچھ یقین آئے گا بقایا جو سچے ملحد اور مرتد ہیں ان پر اثر ہونے کا نہیں۔

  3. الحمد اللہ میرے پاس ہر قسم کی تاریخ ہے قبل مسیح ، یورپی اور اسلامی ، لیکن مجھے لکھنے میں بہت دقت پیش آتی ہے کیوںکہ میری نظر کمزور ہے کمر میں مہرے کی تکلیف ہے، ہاتھ لکھتے ہوئے دکھنے لگتے ہیں ، اس لیے اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ مجھ سے بالمشافہ مل کر اپنی تسلی کرسکتا ہے اپنا ایمان بچا سکتا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا تضاد ہے اس سائیٹ پر، اتنا بغض ہے خدا ، اسکا دین اسلام اور نبیوںؑ پر، اور لوگوں کو بہکانے کے لیے مرتد بنانے کے لیے کہا ں کہا ں سے جھوٹ گھڑ کے لکھا جاتا ہے۔ غزوہ بدر کے بارے اتنا زیادہ جھوٹ لکھا ہوا ہے کہ عقل حیران ہے۔ میری تمام اس سائیٹ پر وزٹ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے ایمان کو بچاو ، اللہ آپ کو بچائے ، آمین۔
    اگر نام نہاد مسلمان صیہونی سازشوں کا شکار ہوکر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خدا کی زمین پر کشت و خون نہ بہاتے اور طرح طرح کی مذہبی پابندیاں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے نہ لگاتے تو نتیجہ اس کے برعکس ہوسکتا تھا۔
    خدا کے آخری سچے نبی محمدؐ مُصطفےٰ ﷺ نے فرمایا ہر امت کا کوئی فتنہ تھا جس کے باعث وہ ہلاک ہوئی ،لیکن مسلمانوں کا سب سے بڑا فتنہ ہوگا مال ، مسلمان مال کی خاطر اپنا دین ،ایمان ، حتٰی کہ اپنا ملک بیچنے کے لیے تیار ہیں اور دیتے ہیں۔ کچھ تو اسلام کا حلیہ ابلیس کے چیلے ملاؤں نے بگاڑ دیا، کچھ نقلی پیروں نے جعلی فقیروں نے، اور کچھ مغربی تہذیب جس میں فحاشی عریانی فیشن ہے ، رضامندی سے زنا جائز ہے ، مرد مرد سے بد فعلی کرسکتا ہے کے دلدادہ بےحیا و بے توقیر مسلمانوں نے۔

    1. جناب انوار الحق صاحب
      آپ نے غزوہ بدر سے متعلق اس تحریر کے بارے میں لکھا کہ:

      ”غزوہ بدر کے بارے اتنا زیادہ جھوٹ لکھا ہوا ہے کہ عقل حیران ہے“

      آپ کسی ایک جھوٹ سے اپنا مقدمہ پیش کیجئے، لیکن یہ بات میں آپ کو تکلیف دینے کیلئے نہیں حقیقت تک رسائی کیلئے کہہ رہا ہوں کہ کاپی پیسٹ مواد توجہ حاصل نہیں کر پاتا، اسلام کے دفاع کیلئے یہ تکلیف آپ کو خود اٹھانی ہوگی۔

      1. خدا دلوں کے بھد بہتر جانتا ہے ، اور یہ بھی کون کذب ہے، جس کتاب کا حوالہ دیا ہے اس میں اسلام کی مکمل تفصیل موجود ہے اور بندہ نے صرف مختصر خلاصہ اخذ کرکے 4 گھنٹے میں لکھا ہے ۔ لعین تم نے پڑھا نہیں کہ لکھا ہے کمزوریء نظر سے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں، کمر میں تکلیف زیادہ بیٹھنے نہیں دیتی ، 52 سال عمر ہے مجھے مرنا یاد ہے تم شائد قیامت تک زندہ رہو۔خود تو ملحد ، مرتد ہو دوسرے کم فہم لوگوں کو ورغلاتے ہو تمھیں خدا سمجھے گا۔

        1. میں نے کہا تھا کہ کوئی ایک بات ذکر کر دیں جو آپ کی نظر میں جھوٹ ہو، لیکن اچھی بات ہے کہ آپ ایک بات بھی ذکر نا کر پائے، مرنا تو سب کو ہے، کسی کو جلد کسی کو بدیر، لیکن ہمارا معاملہ یوں مختلف ہے کہ ؏
          بھلے شاہ اساں مرناں ناہی، گور پیا کوئی ہور
          میں مر جاؤں گا لیکن میری سوچ پھر بھی باقی رہے گی۔

          1. بیشک تو نہیں مرے گا ، تجھے موت نہیں آئے گی گستاخ رسولؐﷺ تجھے قومہ ہوگا ، تیری نسلیں تجھے قومہ کی حالت میں برداشت کریں گی ، اور آخر تجھے کسی بیابان جگہ میں پھینک آئیں گے جہاں تو حشرات العرض کی خوراک بنے گا، رہا تیرا تائب ہونا تو وہ بھی تیری قسمت میں نہیں ہوگا اور نہ ہی تیرا تائب ہونا خدا کو قبول ہوگا ۔ فرعون و نمرود ، عاد و ثمود ، ابلیس و یزید کی طرح تیرا زکر رہے گا اس میں کوئی شک نہیں۔
            فضل شاہؒ نے بھی تیرے جیسوں کے لیے لکھا ہے،
            ایتھے وی رکھیں انہاں نوں عقل دیاں انیّاں
            تے انیّاں وچ اٹھائیں سائیں ۔

        2. وہی مخصوص مذہبی طریقہ کار ! جب دلیل طلب کی تو دھمکیوں اور وعظ و وعید کا سہارا پکڑ لیا۔ دلیل کے جواب میں دلیل دی جاتی ہے، وعظ و وعید نہیں نہیں کی جاتی، خیر یہ عقل و دانش اور منطق کی باتیں ہیں، اور مسلمانوں کو تو ویسے بھی اپنی عقل استعمال کرنے کا نا حق ہے نا شوق۔ اب یہ حسرت دل میں رہے گی کہ آپ نے غزوہ بدر والی میری تحریر کی بابت الزام عائد کیا کہ اس میں جھوٹ لکھا ہے، جب مطالبہ کیا گیا کہ صرف جھوٹ کی نشاندہی کر دیں، تو اتنا سا کام بھی آپ سے نہیں ہو سکا، دلیل و برہان کا سلسلہ تو بعد کی بات تھی۔

          1. بھائ انوارالحق! بےحد افسوس ھوا آپکی گالم گلوچ پڑھ کے۔۔۔ میں آپکو عالم سمجھا تھا، مگر آپ مولوی نکلے۔۔۔ آپ صرف اور صرف مفت میں اپنی جنت پکی کرنا چاھتے ھیں۔۔۔ میرا برادرانہ اور عاجزانہ مشورہ یہ ھے کہ آپ انسانوں کی فلاح کے لیۓ کوئ تنظیم بنا لیں یا اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں کے لیۓ کچھ کریں، اللہ کی مخلوق کو گالیاں اور بدعایئں دینا کہاں کی دانائ ھے۔ اللہ سے معافی مانگیں ، پتہ نہیں اسے علامہ ایاز نظامی صاحب کی کوئ ادا پسند آ جاۓ اور ھم جیسے "نیک پاک” دیکھتے ھی رہ جایئں۔۔۔ویسے میرا اب بھی یہی خیال ھے کہ آپ بہت شریف ، بہت اعلی ظرف اور بہت ھی اچھے انسان ھیں، شائد غصے کی حالت میں یہ نامناسب الفاظ آپ سے سرذد ھوۓ ھیں۔۔۔ نظامی صاحب کو تو جب قومہ ھو گا سو ھو گا مگر آپ کی صحت صرف 52 سال کی عمر میں ھی جواب دے رھی ھے۔ ایسا عمومآ ھر وقت جلنے کڑھنے اور تنگ نظری کی وجہ سے ھوتا ھے۔ کوشش کریں کہ خوش رہیں اور خوشی صرف دوسروں کو خوش رکھنے سے ھی حاصل ھو سکتی ھے ۔۔۔ خود میں نے یہ اصول بنایا ھوا ھے کہ گھٹیا سے گھٹیا انسان کی گھٹیا ترین بات کا بھی مزا لیتا ھوں اور اس بات کا اندازہ آپ کو تو بخوبی ھو گیا ھو گا۔۔۔جہاں تک علامہ ایاز نظامی صاحب کے جنگ بدر والے مضمون کی بات ھے ، اگرچہ قران پاک کی آٹھویں سورۃ (سورۃ انفعال) اور اسکی تفصیر نظامی صاحب کے موقف کی تائید کرتی نظر آتی ھے مگر بحثیت مسلمان میں اسکی تائید ھرگز ھرگز نھیں کر سکتا۔۔۔ بہرحال آپ سورۃ انفعال کی تفصیر کا مطالعہ ضرور فرمائیں۔۔۔ اللہ آپ کو لمبی عمر عطا فرماۓ اور ھر قسم کے دکھ تکلیف خصوصآ قومہ سے محفوظ رکھے۔۔۔آمین۔۔۔واسلام۔

  4. فقیرانہ آئے گلہ کر چلے
    کفر میں رہو ہم بِلا کرچلے
    جب خدا کی پکڑ ہوگی تب معلوم پڑے گا کہ تم لوگ کتنے منافق تھے ،خدا کے دین ، اور اس کے پیغمؐبر ﷺ کے کتنے بے ادب ، گستاخ و نافرمان تھے ، تم نے سمجھ لیا ہے کہ ایسے ہی خوشحالی میں سدا زندہ رہو گے؟ اسلام کی اور پیغمبرؐ ﷺ کی تضحیق کرتے رہو گے؟ اگر زندگی میں کبھی کسی حادثے کا شکار ہوئے، کسی عذاب میں مبتلا ہوئے تو اس کم فہم کی باتیں یاد کرنا اور اندر ہی اندر دل و دماغ کے فتور سے سزا کا مزا چھکنا۔

  5. بدبختوں اگر اصلاح ہی کرنی مقصود ہے تو سیدھے کیوں نہیں کہتے کہ انسان انسان سے بھلائی کرے کہ انسان ہونے کا تقاضا یہی ہے ۔ مگر تم لوگ تو خدا کا انکار ، نبیوںؑ کا انکار ،مذاہب کا انکار ؟ کچھ شرم کرو ،کیوں کم فہم لوگوں کو ورغلارہے ہو شیطانوں ۔ یاد رکھوں تمھارے ساتھ بہت بھیانک قسم کا حادثہ پیش آئے گا اور میں نے زندگی میں جس کسی کی بھی ہٹ دھرمی کے نتیجے کا نتظار کیا اسے انجام سے دوچار ہوتے بھی دیکھا۔
    امید کرتا ہوں کہ تم بھی کسی حادثے میں اپاہج ہوکر اپنے زندگی میں سزا پاؤ گے ، کیوں کہ تمھارا آخرت پر تو یقین ہی نہیں ، لہٰذا زندگی میں تو بھگتو بعد میں آخرت میں بھی صلہ ضرور ملے گا۔

    1. ہم دلیلوں کے بھوت ہیں دھمکیوں کے نہیں، کیا ڈرانا دھمکانا کسی حقیقت کو قبول کرنے کیلئے آج تک کوئی کارگر طریقہ کار ثابت ہو سکا ہے؟ ماورائے حقیقت چیزوں کے انکار کئے بغیر انسان حقیقت کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتا، اس لئے ہم خدا، رسولوں، آسمانی کتابوں اور شیطان تک کا انکار کرتے ہیں۔

      1. ہم بھوت شیطانوں کو کہتے ہیں ، اور تم خود اقرار کررہے ہو ، اور دلیل ان کو دی جاتی ہے جو حقیقت پر یقین رکھیں ، تم نے تواب وقت اپنے دلائل سے یقین دلائے گا تم نے تو ہر حقیقت کی نفی کردی ہے ۔ لہٰذا اب وقت ہی تمھیں یقین دلائے گا لیکن وہ صرف یقین ہی ہوگا نجات دندہ نہیں۔ تم لوگ حقیقت کے انکاری ہو ، میں تمھارا اانسان ہونے کا انکار کرتا ہوں ، تم انسان کے بھیس میں شیطان ہو۔

        1. اسی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کس قدر حقیقت پسند ہیں، میں آپ کے انسان ہونے کا کسی طور بھی انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ آپ کا انسان ہونا ایک حقیقت ہے، لیکن میں آپ کے تصوراتی خدا، آپ کے رسول، آپ کی کتاب، فرشتوں، شیطان جنت، دوزخ، عذاب، ثواب سب کا انکار کرتا ہوں۔

جواب دیں

18 Comments
scroll to top