Close

حجر اسود اور قرامطہ

اسلام میں حجر اسود کی اہمیت اور فضیلت سے کون واقف نہیں ؟ اسلامی روایات کے مطابق یہ پتھر جبرائیلِ امین جنت سے لائے تھے اور تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم نے اسے بیت اللہ کے جنوب مشرقی کونے میں نصب کیا تھا۔ جب جنت سے حجر اسود کو لایا گیا تھا اس وقت اس کا رنگ برف سے بھی زیادہ سفید تھا، لیکن حاجیوں کے گناہوں کی بدولت یہ یکدم سیاہ رنگ کا ہوگیا۔ ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ” حجر اسود کو بوسہ دینے سے گناہوں کا کفارہ ادا ہوتا ہے“ ۔ طواف کے وقت طواف کے نقطہ آغاز کی علامت بھی حجر اسود کو ہی قرار دیا گیا ہے۔
چشم فلک نے حجر اسود کو زمانے کے بہت سے نشیب و فراز سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ کبھی یہ جنت میں ہوا کرتا تھا، کبھی یہ خدا کے حکم سے جبرائیل امین کے ہاتھوں حضرت ابراہیم کے ہاتھ منتقل ہوتا ہے، پھر اس پتھر کا نصیب دیکھئے کہ اسے اللہ کے گھر میں نصب ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے، اکناف عالم سے آئے ہوئے حجاج کرام کو حکم ربانی ہوتا ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے، جس کی بدولت حجاج کرام ڈھیروں ثواب سمیٹتے ہیں۔ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ کعبہ کی تعمیرِ نو کے وقت قریش کے قبائل اسے دوبارہ بیت اللہ میں نصب کرنے کی فضیلت حاصل کرنے کیلئے باہم جھگڑ پڑتے ہیں اور حجر اسود کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد خود اپنے دست مبارک سے اس خوش نصیب پتھر کو اس کے مقام پر نصب فرما کر ایک بہت بڑی جنگ کے امکان کا خاتمہ فرما دیتے ہیں۔
رسول اللہ کو اس دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ اس مقدس پتھر کے ستارے گردش میں آ گئے، اور اسے بہت برے دنوں اور سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 73 ھ میں عبدالملک بن مروان کے حکم پر حجاج بن یوسف نے عبداللہ بن زبیر کی بغاوت فرو کرنے کیلئے مکہ کا محاصرہ کیا، مکّیوں نے بیت اللہ میں پناہ لی، بیت اللہ پر منچنیقوں سے پتھراؤ کیا گیا، بیت اللہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور اسی دوران بیت اللہ میں آگ بھی لگ گئی اور بیت اللہ کے ساتھ ساتھ جنت سے آئے ہوئے پتھر کو بھی لمسِ آتش کے تجربے سے دوچار ہونا پڑا۔ ہم حجاج بن یوسف کی یورش کے وقت آسمان سے غول در غول ابابیلیں کیونکر نازل نہ ہوئیں؟ جیسے اہم سوال سے صرف نطر کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
خلافت عباسیہ کا دور ہے، قرامطیوں نے بڑا سر اٹھایا ہوا تھا، قرامطی (مذہباً اسماعیلی شیعہ) اپنے زمانے کے خود کش حملہ آور (فدائین) تھے اور گوریلا جنگ لڑنے کی مہارت رکھتے تھے۔ یک دم حملہ آور ہوتے اور شہر کے شہر اجاڑ کر رکھ دیتے تھے۔ اس دور کے قرامطہ کی سرکردہ شخصیات میں ابو سعید جنابی، ابو سعید مغربی، محمد علوی، برقعی اور ابنِ مقنع شامل ہیں۔ یہ سب ہم عصر تھے اور ان کے مابین دوستی اور خط و کتابت کا رشتہ قائم تھا۔ انہیں باطنیہ بھی کہا جاتا ہے، باطنی مختلف زمانوں میں خروج کرتے رہے ہیں۔ انہیں مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔ حلب و مصر میں انہیں اسماعیلی کہتے تھے، قم، کاشان اور طبرستان میں سبعی، بغداد و ما وراء النہر اور غزنی میں قرمطی کہا جاتا تھا، کوفہ میں مبارکی مشہور تھے، بصرہ میں روندی و برقعی کہلائے، رے میں خلقی اور باطنی، گرگان میں محمّرہ، شام میں مبیضہ، مغرب میں سعیدی، احساء و بحرین میں جنابی، اصفہان میں باطنی۔ یہ خود اپنے آپ کو تعلیمی کہتے تھے۔
اسی حکیم عطا ابن مقنع مروزی نے ترکستان میں ماہ نخشب کے مقام پر مصنوعی چاند بنایا تھا جو ہر روز پہاڑ سے طلوع مہتاب کے وقت ظاہر ہوتا تھا۔ اور لوگ بہت دور دور سے اس کا مشاہدہ کرتے تھے۔
خلیفہ معتصم کے کے دور میں ابو سعید بن بہرام الجنابی نے بحرین اور احساء کے مقام پر تسلط حاصل کرکے اسے اپنا مرکز بنایا، باطنی تعلیمات کی دعوت، عام کی اور بہت جلد خطے کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کیا۔ جب ابو سعید کو کافی طاقت حاصل ہوگئی تو اس نے آس پاس کے علاقوں پر چھاپہ مار کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔ ابو سعید اپنے ایک غلام کے ہاتھوں قتل ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا ابو طاہر اپنے باپ کا جانشین ہوا۔
ابو طاہر اپنے باپ کے برخلاف زیادہ مذہبی رجحان نہ رکھتا تھا۔ اس لئے وہ مذہبی سرگرمیوں اور لوٹ مار سے دور رہا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ابو طاہر کو فاطمی داعیین کے ہاں سے کتاب ”کنز البلاغة السابع“ منگوا کر پڑھنے کا موقع ملا، اس کتاب کو پڑھتے ہی ابو طاہر کے خیالات میں یک دم تبدیلی رونما ہوئی، اس نے بحرین و احساء کے تمام لوگوں کو ہتھیار بند ہونے کا حکم دیا اور کہا کہ مجھے عنقریب تمہارے ذریعے ایک اہم کام سرانجام دینا ہے۔ اس اعلان پر ابو طاہر کے گرد بے شمار لوگ اکھٹے ہوگئے۔
مقتدر باللہ کے زمانہ خلافت میں بمطابق 317 ھ جب حج کے دن آئے تو ابو طاہر ان سب کو لے کر مکہ کی طرف عازم سفر ہوا۔ مکہ پہنچ کر ابو طاہر نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ حاجیوں پر ٹوٹ پڑو، جس قدر خون ریزی کر سکتے ہو ہرگز گریز نہ کرنا۔ عازمین حج حواس باختہ ہو کر بیت اللٰ٘ه میں پناہ گزین ہوئے، بیت اللہ کے داخلی دروازے اندر سے بند کرکے عبادات میں مشغول ہوگئے گویا انہوں نے موت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اہل مکہ نے ابو طاہر کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا اور ہتھیار بند ہو کر ابو طاہر کے سامنے صف آراء ہوگئے۔
ابو طاہر نے اس موقع پر چال چلی اور مک٘یوں کو پیغام بھیجا کہ ہم حج کرنے آئے ہیں، کوئی دنگا فساد مچانے نہیں آئے، ہم پر حملہ ہوا تھا اس لئے ہم ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے تھے، ہمیں حج کرنے دو، حرم کے دروازے کھول دو، ورنہ بدنامی تمہارا ہی مقدر ہوگی کہ تم حاجیوں کو حج کرنے سے روکتے ہو۔ اہل مکّہ ابو طاہر کے اس جھانسے میں آگئے اور خیال کیا کہ کوئی توتکار ہوگئی ہوگی جس کی وجہ سے نوبت لڑائی تک جا پہنچی، غرض قصہ مختصر کہ عہد و پیمان ہوئے، فریقین سے قسمیں اٹھوائی گئیں۔ ہتھیار رکھوا دیئے گئے، پھر سے طواف شروع ہوگیا، ابو طاہر موقع کی تاڑ میں تھا، جب دیکھا کہ مک٘ی مطمئن ہوگئے ہیں تو ابو طاہر نے طے شدہ منصوبے کے تحت اپنے ساتھیوں کو ہلّہ بولنے کا حکم دیا۔

قرامطیوں نے لوگوں کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا جو بھی سامنے آیا قتل ہوا۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارے کنووں میں اتر گئے، یا پہاڑ پر بھاگ گئے۔ قرامطیوں نے بیت اللہ میں توڑ پھوڑ شروع کر دی، بیت اللہ کو نقصان پہنچایا، بیت اللہ کا غلاف اتار کر تار تار کرکے غارت کر دیا گیا، بیت اللہ کا دروازہ اکھاڑ ڈالا، حجر اسود کو بھی بیت اللہ کی دیوار سے اکھاڑ پھینکا۔ چاہ زمزم کو لاشوں سے پاٹ دیا گیا۔ قرامطیوں کا کہنا تھا کہ اگر اللہ خود آسمان پر ہے تو اسے زمین پر کسی گھر کی ضرورت نہیں اس لئے کعبہ کو لوٹنا ضروری ہے۔ وہ بیت اللہ کے صحن میں بآواز بلند پکارتے کہ کہاں ہے وہ خدا جس کا کہنا ہے کہ “من دخله کان آمنا“ (جو حرم میں داخل ہوا اسے امان حاصل ہوئی) اور جو کہتا ہے کہ ”آمنھم من خوف“ (اللہ نے انہیں (اہل مکہ) کو خوف سے امن میں رکھا) حاجیوں کو مخاطب کرکے کہا ”تم جو خانہ خدا میں داخل ہو ہماری تلواروں سے کیوں حفاظت نہیں پاتے؟ اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تو تمہیں ہماری تلواروں سے ضرور بچاتا۔ غرض اس طرح قرآنی آیات اور حاجیوں کو اپنے طنز، طعن اور مذاق کا نشانہ بنایا، مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنایا، لگ بھگ بیس ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ یہ تعداد ان کے علاوہ ہے جو از خود اپنی جان بچانے کیلئے کنووں میں کود گئے تھے، اور بعد میں قرامطیوں نے ان کنووں کو لاشوں سے پاٹ کر انہیں بھی ہلاک کر ڈالا تھا۔ غرض مکہ و اہل مکہ خوب اچھی طرح تاخت و تاراج کرتے ہوئے خوب لوٹ و کھسوٹ کا بازار گرم کیا۔ اور واپسی پر حجر اسود اور بیت اللہ کا دروازہ پنے ساتھ بحرین لے گیا۔
ابو طاہر نے احساء واپس پہنچ کر کتب سماوی یعنی تورات، انجیل اور قرآن کے نسخوں کو صحراء میں پھنکوا دیا اور قرامطی ان پر بول و براز کرتے رہے۔ ابو طاہر کہا کرتا تھاکہ ”تین افراد نے انسانوں کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ایک گڈریا تھا (ابراہیم)، ایک اتائی (عیسیٰ) اور ایک شتربان (محمد)۔ مجھے سب سے زیادہ غصہ اس شتر بان پر ہے کہ یہ شتربان باقیوں کی نسبت زیادہ بڑا شعبدہ باز تھا۔ ابو طاہر نے اپنے زیر اثر علاقے میں سب لوگوں پر لازم کر رکھا تھا کہ انبیاء و رسل پر لعنت بھیجی جائے۔

قارئین کرام!
اب ذرا جگر تھام کر بیٹھئے کہ وہ مقدس حجر اسود جو جنت سے اتارا گیا، جو انبیاء کے ہاتھوں بیت اللہ کی زینت بنا، جسے آج تک حاجی بڑی عقیدت کے ساتھ چومتے چاٹتے اور مَس کرتے ہیں اس حجر اسود کے ساتھ ابو طاہر نے بحرین میں کیا سلوک کیا؟ تاریخ کا یہ گمشدہ ورق آپ میں سے اکثر کی نگاہوں سے قصدا پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیونکہ اس گمشدہ ورق کے افشاء میں رسوائی ہی رسوائی مضمر ہے، گمراہ اذہان فورا سورہ فیل کے شان نزول کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، اور طرح طرح کے سوال داغنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے تاریخ کے اس گمشدہ ورق کی پوشیدگی میں حکمت ہی حکمت ہے، اور اظہار میں نری خجالت۔ تو سنئے! ابو طاہر نے حجر اسود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے بیت الخلاء کے گڑھے پر قدمچے کے طور پر نصب کرا دیا۔ ایک ٹکڑا ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف، جب قضاء حاجت کیلئے بیٹھتا تو ایک پاؤں ایک ٹکڑے پر رکھتا اور دوسرا پاؤں دوسرے ٹکڑے پر۔ تقریباً 22 برس تک حجر اسود اسی حالت میں ابو طاہر کے قبضے میں رہا۔
زیادہ تر مؤرخین کے مطابق عباسی خلیفہ کی درخواست پر مصر کے فاطمی خلیفہ کی مداخلت کی بدولت 22 برس کے بعد یعنی 339 ھ میں ابو طاہر نے بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد عباسیوں کے حوالے کیا۔ جبکہ نظام الملک طوسی کے مطابق قرامطیوں کی شرارتوں سے عاجز آکر عراق و خراسان سے بہت بڑے لشکر نے بحرین پر یلغار کا قصد کیا تو اس یلغار کے خوف سے گھبرا کر قرامطیوں نے حجر اسود کے ٹکڑوں کو کوفہ کی جامع مسجد لا پھینکا۔ کوفہ کے لوگوں نے لوہے کی سلاخ کے ذریعے دونوں ٹکڑوں کو آپس میں کس دیا اور لے جا کر بیت اللہ میں دوبارہ سے نصب کر دیا۔

(تمام تر تفصیل کیلئے سیر الملوک یا سیاست نامہ از ابو علی حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی، صفحہ نمبر 306 تا 311 ملاحظہ کیجئے)

22 Comments

  1. جی بالکل یہ کہانی صحیح ہے، ماضی میں قرامطہ نے حجر اسود خانہ کعبہ سے اکھاڑ دیا تھا اور اسکا جلا بھی دیا تھا نیز اسکو یرغمال بناکر اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ وہاں انہوں نے اسکو دو سے تین ٹکڑوں میں توڑ کر تقسیم کردیا تھا۔ اور اسی طرح اسکا استعمال کیا تھا جیسا اس کہانی میں بتایا گیا ہے۔ اگر آج بھی حجر اسود کو ذرا غور سے دیکھا جائے جو یہ سات سے آتھ حصوں میں واضح منقسم دکھائی دیتا ہے، اور اسمیں پائے جانے والے شگاف بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اسکے حصوں کو بعد میں جب اسکی واپسی ہوئی، سونے کے تاروں سے جوڑ کر واپس ایک حصے کی شکل ڈھالی گئی تھی، لیکن یہ اپنی پرانی اصلی حالت میں نہ لوٹ سکا تھا۔ درج زیل لنک سے اس کے ٹوٹنے کی تفضیل موجود ہے
    Important Note: The black stone is not the entire big black thing you see, but actually eight small pieces within it (because it was broken and damaged in the past). Make sure you actually aim right and kiss one of the actual seven stones, and not the black wax encasing. (See diagram below)

    http://cdn.muslimmatters.org/wp-content/uploads/2009/11/hajar-aswad.jpg

    http://www.vocfm.co.za/obscurity-of-al-hajar-al-aswad-an-enigma/

  2. میں نے نظام الملک کی سیر الملوک سے رجوع کر کے آپ کی باتوں کی تصدیق کرنی چاہی اور مجھے رتی بھر بھی فرق نہیں ملا، قرامطہ پر پورا ایک باب ہے، مذکورہ قصہ عربی نسخے میں صفحہ 269 سے صفحہ 271 تک ملاحظہ کیا جاسکتا ہے

     photo Untitled_zps7hyxnqpa.png

    1. میرے پاس فارسی نسخہ ہے جہاں یہ تمام تفصیلات بیان کی گئی ہیں، فارسی نسخے میں یہ تفصیلات صفحہ 306 تا 311 پر مذکور ہیں۔ سیر الملوک کا اردو ترجمہ مجلس ترقی ادب لاہور بھی سیاست نامہ کے عنوان سے شائع کر چکی ہے، اردو نسخے میں یہ تمام تر تفصیلات صفحہ نمبر 242 تا 246 پر درج ہیں

  3. تمام تر تفصیل کیلئے سیر الملوک یا سیاست نامہ از ابو علی حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی، صفحہ نمبر 306 تا 311 ملاحظہ کیجئے

    اس کتاب کی کیا اہمیت ہے – اور اس میں جو باتیں لکھی ہوئی ہیں – آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ سچ ہیں – اس کی سند کیا ہے –

    1. یہ کتاب عباسی دور کے ایران پر برسر اقتدار سلجوقیوں کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی کی لکھی ہوئی کتاب ہے، جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت اور مقام ہے، اگر یہ بات جھوٹ ہوتی تو اس دور کے دیگر مؤرخین ضرور اس کی تردید کرتے۔

      1. نظام الملک الطوسی ابو علی حسن بن علی سلجوقی حکمرانوں کا ایک وزیر تھا
        اس نے سیر الملوک کے نام سے کتاب لکھی جس میں بادشاہوں کا تذکرہ ہے

        کتاب میں لکھا ہے
        وشق الْحجر الاسود نِصْفَيْنِ وَوَضعه على حافتي مرحاض وَكَانَ يضع إِحْدَى رجلَيْهِ حِين يجلس على نصفه وَالْأُخْرَى على النّصْف الآخر
        حجر اسود کو بیچ میں توڑا اور حصوں کو کھڈی میں قدمچی کے طور پر لگوایا کہ ایک پیر ایک پر رکھتا اور دوسرا حجر اسود کے دوسرے حصے پر

        یہ بات جھوٹ ہے کیونکہ قرامطہ کی خبریں ان کے مخالفین نے ہم تک پہنچائیں ہیں قرامطہ شیعہ تھے کافر نہیں حجر اسود کو اکھاڑنے کا مقصد اس کو مسجد کوفہ لانا تھا
        شیعہ عالم کی کتاب خاتمة المستدرك – الميرزا النوري الطبرسی – ج 2 – ص 296 – 297 کے مطابق حجر اسود کو قرامطہ لے کر کوفہ پہنچے تاکہ علی کرم الله وجھہ کی بات سچ کر سکیں کہ قیامت سے پہلے یہ حجر اسود کوفہ کی مسجد میں نصب ہو گا لہذا یہ وہاں ایک ستون سے باندھ دیا گیا لیکن اثنا الاشعری شیعہ کا کوفہ پر کنٹرول تھا انہوں نے اس کو واپس قرامطہ کو دے دیا اور وہ اس کو الحسا لے گے وہاں ایک عبادت گاہ بنوائی جس میں اس کو نصب کر دیا

        نظام الملک اسی کتاب سیر الملوک میں کہتا ہے
        وَلما صَار الْمُسلمُونَ إِلَى مَسْجِد الْكُوفَة الْجَامِع إِذا الْحجر الْأسود ملقى هُنَاكَ
        اور مسلمان مسجد کوفہ پہنچے کہ حجر اسود وہاں پھینکا گیا

        نظام المک کی کتاب میں تاریخی غلطیاں ہیں
        حجر اسود کوفہ میں پھینکا نہیں گیا تھا قرامطہ اس کو کوفہ سے لے کر الحسا گئے اور وہیں انہوں نے کئی سال بعد اسکو عباسیوں کے حوالے کیا

        1. آج سینکڑوں برس بعد آپ کو معلوم ہوگیا کہ نظام الملک طوسی کی کتاب میں تاریخی غلطیاں ہیں، میں پہلے بھی آپ کو جواب دے چکا ہوں کہ اگر حجر اسود کو بیت الخلاء کے پائیدان کے طور پر استعمال کرنے کی بات جھوٹی ہوتی تو معاصر تاریخ دان نظام الملک کے جھوٹ پر ضرور محاسبہ کرتے۔ اپنے مقدسات کی ایسی بے حرمتی کو تسلیم کرنے کا بھلا کہاں من چاہتا ہے۔ اس لئے تاریخ کو بھی اپنی پسند یا ناپسند کے مطابق اختیار کرنے اور رد کرنے کا آج کل عام چلن ہے۔

          1. کتاب مآثر الإنافة في معالم الخلافة
            از أحمد بن علي بن أحمد الفزاري القلقشندي ثم القاهري (المتوفى: 821هـ) کے مطابق
            لِأَحْمَد بن أبي سعيد أَمِير القرامطة بعد موت أبي طَاهِر القرمطي برد الْحجر الْأسود إِلَى مَكَانَهُ فَرده فِي سنة سبع وَثَلَاثِينَ وثلاثمائة
            ابی طاہر القرامطی کی موت کے بعد امیر قرامطہ احمد بن ابی سعید نے سن ٣٣٧ ھ میں واپس کیا

            نظام الملک کی بیت الخلاء والی بات السمنانيّ کی تاریخ سے لکھی ہے الذھبی نے تاریخ الاسلام میں اس بات کو غلط قرار دیا ہے

            کتاب تاريخ مكة المشرفة والمسجد الحرام از ابو البقاء کے مطابق
            ثمَّ انْصَرف وَمَعَهُ الْحجر الْأسود وعلقه على الاسطوانة السَّابِعَة من جَامع الْكُوفَة
            حجر اسود کو نکال کر قرامطہ جامع کوفہ لائے ہے اس کو ساتویں ستون پر لٹکا دیا

            اسی طرح جب واپس کر نے لگے تو
            الكامل في التاريخ از ابن اثیر کے مطابق جب قرامطہ حجر واپس کرنے لگے تو اس کو کوفہ لائے اور اس کو جامع کوفہ میں لٹکا دیا
            فَلَمَّا أَرَادُوا رَدَّهُ حَمَلُوهُ إِلَى الْكُوفَةِ، وَعَلَّقُوهُ بِجَامِعِهَا حَتَّى رَآهُ النَّاسُ، ثُمَّ حَمَلُوهُ إِلَى مَكَّةَ

            کتاب تاريخ ابن الوردي
            کے مطابق
            ، وَقبل إِعَادَته علقوه بِجَامِع الْكُوفَة ليراه النَّاس وَالله أعلم.
            اور واپس کرنے سے پہلے حجر کو جامع کوفہ میں لٹکا دیا کہ لوگ دیکھیں

            کتاب كنز الدرر وجامع الغرر از الدواداري کے مطابق
            وكان قصدهم بذلك استمالة قلوب الناس. فنصبوه فى مسجد الجامع على الأسطوانة السّابعة فى القبلة مما يلى صحن المسجد. وكان فى ذلك آية عظيمة من آيات النبوة بيّن الله صدق رسوله صلّى الله عليه وسلم عند نجوم الأشكال فيه. فوطّى الله بذلك حجة نبوة محمد صلى الله عليه وسلم، ومكّن به صحة شريعته بأن جاء عنه فى الخبر أنّ الحجر الأسود يعلّق فى مسجد الجامع بالكوفة فى آخر وقت. وجاء الخبر بذلك منقولا مشهورا عن محمد بن على بن الحسين بن على بن أبى طالب عليه السلام. ومثل هذا لا يكون عن منّجم، ولا يوصل إليه إلاّ بخبر من رسول ربّ العالمين.
            فهذا ما جرى من أبى سعيد الجنّابى وولده فى تلك الديار. وهم شعب من القرامطة.
            کوفہ لانے میں ایک عظیم نشانی تھی جو نبوت کی نشانیوں میں سے تھی اس کی ایک خبر رسول الله سے منقول تھی اور اسی طرح کی علی سے بھی

            کتاب نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار
            کے مطابق
            واپس کرتے وقت سنبر بن الحسن القرمطي جو قرامطہ کا سفیر تھا اس نے خود اس کو واپس کعبہ میں نصب کیا

            اتنے دلائل کی روشنی میں واضح ہے کہ حجر اسود قرامطہ کی جانب سے ایک عظیم نشانی کو پورا کرنے کے لئے نکالا گیا تھا اور واپس کرتے وقت بھی اس کو کوفہ لایا گیا تاکہ لوگوں کو علی کی بیان کردہ نشانی پر یقین آئے

          1. السمنانی ابو قاسم علی بن محمد المتوفی ٤٩٩ ھ نے اپنی تاریخ کی کتاب میں اس کا ذکر کیا یہ اور نظام الملک ہم عصر ہیں
            الذہبی نے اس پر تاریخ الاسلام میں لکھا کہ حجر اسود کو بیت الخلا میں پھیکنے کا حکم دیا لیکن غلام بھول گیا

            ثمّ ذكر السِّمْنانيّ خرافات لا تصح
            اس کے بعد السمنانی نے خرافات ذکر کیں جو صحیح نہیں ہیں

            نظام الملک ایک وزیر تھا کوئی مورخ نہیں تھا اس کے مقابلے پر کتب اہل سنت اور کتب شیعہ میں مسجد کوفہ کے حوالہ جات اس قدر ہیں کہ الطوسی کی بات منفرد ہونے کی بنا پر شاذ ہے یہ اس کے بیت الخلاء تک کیسے پہنچے ؟ خود ١٢٠ سال بعد اس نے یہ سب لکھا ہے جبکہ قرامطہ حجر اسود کو جامع الکوفہ لے گئے اور وہیں سے واپس مکہ لائے
            بعض لوگوں کو مرض ہوتا ہے کہ عجیب بات بیان کریں لہذا صحیح بات معلوم بھی ہو تو اسی چیز کو لیتے ہیں جو شاذ ہو
            اس کا علاج نہیں ہے

            ابو طاہر القرامطی اصلا اپنے آپ کو امام المہدی ثابت کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے اس کو اثنا الاشعری شیعوں پراتمام حجت کرنا تھا اس کی وجہ شیعوں کی روایات تھیں کہ آخری دور میں مہدی مسجد کوفہ میں آئے گا اور وہاں حجر اسود بھی آئے گا
            اس کو ثابت کرنے کے لئے یہ سب کشت و خون ہو رہا تھا لیکن اثنا الاشعری اس کو مہدی نہیں مان سکے کیونکہ یہ اسماعیلی شیعہ تھا اور اہل بیت کی نسل سے نہ تھا

            يه وقت بہت اہم تھا گیارہویں امام حسن العسکری کی وفات ٢٦٠ ھ میں ہوئی اور بارہویں امام غیبت میں تھے لہذا اس وقت اثنا الاعشری اگر ابو طاہر کو مہدی مان جاتے تو آج اسماعیلی اور اثنا الاشعری ایک ہوتے

          2. آپ کے جواب سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ کو صرف جواب دینے کا شوق ہے، چاہے بات بنے یا نا بنے۔آپ نے اپنی طرف سے جو ”دفاعی جواب“ عنایت فرمایا ہے اس سے کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ کون سی عبارت سمنانی کی ہے اور کون سی الذہبی کی،آپ کو شائد بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ جب کتابوں کے اقتباسات سے حوالے درج کئے جائیں تو انہیں کس طرح پیش کیا جانا چاہئے۔ کیا غلام کے بھول جانے سے وہ پتھر جسے بدقت تمام ابو طاہر مکہ سے اٹھا کر لے آیا غلام کو حکم دینے بعد خود بھی بھول گیا تھا کہ اس نے حجر اسود سے متعلق غلام کو کیا حکم دیا تھا ؟ ٹھیک ہے کہ حجر اسود کے بیت الخلاء میں نصب ہونے سے مسلمانوں کو شرمندگی کا سامنا ہے، لیکن اس شرمندگی سے بچنے کیلئے کوئی معقول کہانی تو گھڑیئے۔
            نا آپ کو شیعہ تاریخ کا علم ہے جو آپ کی اس بات سے بالکل واضح ہے کہ ”اس وقت اثنا عشری اگر ابو طاہر کو مہدی مان جاتے تو آج اسماعیلی اور اثنا عشری ایک ہوتے“ آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اسماعیلی اور اثنا عشری شیعوں میں اصل وجہ اختلاف کیا ہے ؟ ورنہ اس قدر لغو استدلال کبھی نا کرتے۔ پھر آپ نے یہ دعویٰ بھی بغیر دلیل کے داغ دیا کہ ابو طاہر قرامطی خود کو امام مہدی ثابت کرنا چاہتا تھا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے فرمان کو بس بغیر دلیل کے ”مستند“ مان کر علی الفور تسلیم کر لیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ابو طاہر نے خود کو امام مہدی ثابت کرنے کیلئے کوفہ کی جامع مسجد میں حجر اسود کے ساتھ ظاہر ہونا تھا، لیکن حجر اسود حاصل کرنے کے باوجود ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ ابو طاہر مکی نے حجر اسود کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں ظہور کی کوشش کی ہو، یہ کیسا امام مہدی تھا جو بیت اللہ کا دروازہ اکھاڑ دیتا ہے، آسمانی کتابوں کی بے حرمتی کرتا ہے، ان پر بول و براز کرتا ہے، بیت اللہ کے صحن میں کھڑا ہو کر پوچھتا ہے کہاں ہے تمہارا اللہ ؟ کہاں ہیں ابابیلیں ؟ چاہ زمزم کو لاشوں سے بھر دیتا ہے لیکن خود کو مہدی ثابت کرنے کیلئے حجر اسود ساتھ لے جاتا ہے تاکہ حجر اسود کے ساتھ کوفہ کی مسجد میں ظاہر ہو سکے۔ عزیزم ! کوئی شعور ہوتا ہے، کوئی عقل ہوتی ہے، لیکن آپ کو کیا معلوم کہ وہ کیا ہوتی ہے!
            یہ بھی خوب فرمایا کہ نظام الملک طوسی ایک وزیر تھا کوئی مؤرخ نہیں، جناب عالی ! آپ کو کس کتاب میں یہ پڑھایا گیا ہے کہ کوئی وزیر مؤرخ نہیں ہو سکتا، یا کوئی مؤرخ وزیر نہیں ہو سکتا۔ کوئی عقل کو ہاتھ ماریں۔
            120 سال بعد لکھنے والی بات بھی خوب کہی، پھر ذرا یہ بھی حساب لگا لیجئے کہ آپ کی صحاح ستہ آپ کے رسول کے مرنے کے کتنے سال بعد لکھی گئیں۔
            آخری بات یہ یہ لفظ اثنا الاشعری نہیں ہوتا اثنا عشری ہوتا ہے۔

          3. آپ نے اپنا آخر والا جواب دیا لیکن وہ وہاں جواب والے آپشن disable کر دیا – کوئی جواب نہیں –

            یہ پڑھ لیں –

            ابو طاہر قرامطی اہل سنت کے نزدیک ایک جاہل اور جھوٹا تھا کیا اسماعیلی شیعہ بھی اس کو ایسا ہی مانتے ہیں
            کیا وہ اس کو فرقہ اسماعیلیہ سے الگ کوئی فتنہ قرار دیتے ہیں؟
            نہیں ان کے
            نزدیک یہ ایک اسماعیلی ہی تھا اور اس وقت اس فرقہ کا زور عرب شام عراق میں تھا
            یہاں تک کہ اس کا حجر اسود کو مسجد کوفہ پہنچانے کا ذکر کتب شیعہ اہل سنت اور اسماعیلی فرقوں کے جانب سے بھی کیا جاتا ہے
            لہذا صرف ایک جھوٹی من گھڑت بات کو بیان کر کے آپ نے اس پر جو اصرار کیا ہے وہ نے معنی ہے

            اسماعیلی فرقے کی ویب سائٹ پر بھی یہی تفصیل ھے

            http://www.ismaili.net/histoire/history05/history510.html

            اسماعیلی فرقہ شیعوں کے ان فرقوں میں سے ہے جن میں شریعت اور اس کے ظاہری اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ امیر کی جانب سے ان کی حدود بدل جاتی ہیں لہذا حج میں قتل کرنا اور کعبه کی تعظیم نہ کرنے کے باوجود بھی یہ مسلمان ہی سمجھتے ہیں یہ ایک عجیب غالی فرقہ ہے لہذا بہت سے کاموں کا حکم قرآن جو صآمت یا گونگا ہے سے لینے کی بجائے قرآن ناطق یا امام سے لیا جاتا ہے
            ابو طاہر اسی نوعیت کا اسماعیلی شیعہ تھا جو علی کے اقوال کو اہمیت دیتا ہے جس میں حجر اسود کا کوفہ پہنچنا بیان ہوا تھا اس کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی کوئی اہمیت نہیں تھی کیونکہ وہ شارع نہیں بلکہ علی اصل شارع تھے

            ابو طاہر قرامطی لا دین ملحد نہیں تھا لیکن آپ کا مسلسل اصرار ہے کہ گویا اس کو ملحد ثابت کرنا آپ کر فرض ہے پھر ایک شاذ قول کو نقل کر کے اس کو بلا دلیل مان لینا بھی خوب ہے

            حجر اسود کی بے حرمتی کی گئی اس سے کسی مسلمان کو کیوں شرمندگی ہو گی ؟ حجر اسود سے بھی بڑھ کر کعبہ ہے جس کے منہدم کیے جانے کا ذکرصحیح مسلم میں ہے لہذا تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرنے کی بجائے اس کے تمام پہلو دیکھیں کعبہ الله کا گھر ہے- صحیح مسلم کی روایت ہے اس کو حبشی منہدم کریں گے – الله چاہے گا تو یہ مہندم بھی ہو سکتا ہے لیکن اس گناہ کا بار وہیں سمیٹیں گے جو اس کو کریں گے بہت سے لوگ اس روز ملحد ہو جائیں گے یہ ان کا نصیب ہو گا لہذا اس سے مسلمانوں کو چندان پریشانی نہیں ہے یہ تو ١٢٠٠ سال سے ہماری کتب میں لکھا ہے

            ایک سو بیس سال بعد اگر حدیث کی کتب لکھی گئیں تو ان کے ساتھ سند لگی ہوئی ہے کہ کس نے کس سے بیان کیا
            نظام الملک کی بات کے ساتھ کون سی سند لگی ہے یہ دیکھا دیں

            تلفظ کی غلطی کی نشاندہی کا شکریہ-

            —–

            قرامطہ نے حجر اسود کو ایک مقناطیسی قوت کا مالک سمجھا
            تاريخ ابن الوردي کے مطابق
            أَنه لما أَخذ الْحجر الْأسود قَالَ: هَذَا مغناطيس بني آدم وَهُوَ يجرهم إِلَى مَكَّة وَأَرَادَ أَن يحول الْحَج إِلَى الإحساء
            انہوں نے حجر اسود کو لیا اور کہا یہ مقناطیس ہے بنی آدم کا جس سے یہ مکہ تک جاتے ہیں انکا ارادہ حج کو الآحسا لانے کا تھا

            کتاب اتعاظ الحنفاء بأخبار الأئمة الفاطميين الخلفاء از المقريزي کے مطابق
            وقلع الحجر الأسود وأخذه معه وظن أنه مغناطيس القلوب
            حجر اسود کو اکھاڑا اور ساتھ لیا اور گمان کیا کہ دلوں کا مقناطیس ہے

            الذھبی تاریخ الاسلام ج ٢٥ ص 9 میں ابو طاہر کے لئے لکھتے ہیں
            وزعم بعض أصحابه به أنّه إله المسيح، ومنهم مَن قالَ هو نبيّ. وقيل: هو المهديّ، وقيل: هو الممهّد للمهديّ.
            اور اس کے اصحاب میں سے بعض کا دعوی تھا یہ مسیح رب ہے اور بعض کہتے نبی ہے اور کہا جاتا ہے یہ المہدی تھا اور کہا گیا مہدی کی راہ دکھانے والا

            كتاب النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة أز آبن تغري کے مطابق
            وكان زنديقا ملحدا لا يصلّى ولا يصوم شهر رمضان، مع أنه كان يظهر الإسلام ويزعم أنه داعية المهدىّ عبيد الله
            یہ زندیق ملحد تھا نماز نہ پڑھتا تھا نہ روزہ رکھتا تھا….. اور دعوی کرتا تھا کہ یہ المہدی عبید الله کا داعی ہے

            تاریخ ابن خلدون کے مطابق عبید الله فاطمی اس سے خود نالا تھے
            وبلغ الخبر إلى المهدي عبيد الله بإفريقية وكانوا يظهرون الدعاء له، فكتب إليه بالنكير واللعن
            ابو طاہر کی خبر المہدی عبید الله تک پہنچی افریقہ میں کہ ان کے لئے لوگ ظاہر ہوئے ہیں پس انہوں نے خط لکھا اور نکیر اور لعنت کی

            الذھبی نے تاریخ الاسلام میں ابو طاہر کے اشعآر نقل کیے ہیں
            أَنَا الدّاعي المهديّ لَا شكَّ غيرُه … أَنَا الضَّيْغَمُ [3] الضِّرُغام والفارسُ الذَّكَرْ
            أُعَمَّرُ حتّى يأتي عيسى بْنُ مريمَ … فيحمَدُ آثاري وأرضى بما أمَرْ

            میں المہدی کا داعی ہوں اس میں شک نہیں

            عیسیٰ ابن مریم کا انتظار کرتے ایک عمر ہوئی پس میں نے اپنی تعریف کی اور اپنے ہی حکم پر راضی ہوا

            لہذا یہ بھی تاریخ میں ہے کہ ابو طاہر اسماعیلی امام عبید الله (المہدی) کا داعی تھا اور خود اس کے بعض اصحاب ابو طاہر کو ہی مہدی ماننے لگ چکے تھے

            ————-

            ابی طاہر کے بعد اس کے بیٹے منصور نے المہدی ہونے کا دعوی کیا اور بقول
            عماد الدين أبو حامد محمد بن محمد الأصفهاني (المتوفى 597 هـ کے
            المهدي المنصور أمير المؤمنين
            کے نام کے سکے ڈھالے گئے
            البستان الجامع لجميع تواريخ أهل الزمان

            کتاب : الروضتين في أخبار الدولتين النورية والصلاحية از ابی شامہ کے مطابق
            وَقَامَ بعده ابْنه الْمُسَمّى بالمعز فَبَثَّ دعاته فَكَانُوا يَقُولُونَ هُوَ الْمهْدي الَّذِي يملك وَهُوَ الشَّمْس الَّتِي تطلع من مغْرِبهَا
            ابو طاہر کے پوتے معز نے بھی المہدی کا دعوی کیا اور سورج ہونے کا جو مغرب سے طلوع ھوا

            محمد بن سنبر العامري القرمطي نے حجر اسود کو واپس کعبہ میں نصب کیا جو ابو طاہر کی موت پر واپس کیا گیا
            ظاہر ہے ابو طاہر نہیں تو اس کے بیٹے یا پوتے جو مہدی ہونے کے دعویدار تھے انہوں نے اس کو کوفہ کے راستے مکہ پہنچایا تاکہ اپنا سیاسی اثرورسوخ بڑھا سکیں

  4. ضعیف روایات میں آتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو ہند یا سندھ میں اتارا گیا اور ان کے ساتھ جنت کا حجر تھا-

    صحيح ابن خزيمه ، ترمدی اور نسائی كي ابن عباس سے مروی روایت ہے

    نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ أَشَدَّ بَيَاضًا مِنَ الثَّلْجِ

    حجر الاسود جنت سے نازل ہوا اور یہ برف سے زیادہ سفید تھا

    البتہ اس کا مقصد حدیث میں بیان نہیں ہوا- ایک مشھور قول ہے کہ اس کا مقصد آدم کو مقام کعبہ دکھانا تھا اور طوفان نوح کے بعد یہ اسی مقام سے نکلا جب ابراہیم نے کعبہ کی بنیاد رکھی-

    مستدرک حاکم کی روایت ہے جس کو حاکم اور الذھبی مسلم کی شرط پر کہتے ہیں

    حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّيْرَفِيُّ، بِمَرْوَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُلَاعِبِ بْنِ حَيَّانَ، ثنا عُبَيْدُ الله بْنُ مُوسَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، قَالَا: ثنا إِسْرَائِيلُ، ثنا خَالِدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَرْعَرَةَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَلِيًّا رَضِيَ الله عَنْهُ عَنْ {أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا} [آل عمران: 96] أَهُوَ أَوَّلُ بَيْتٍ بُنِيَ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ أَوَّلُ بَيْتٍ وُضِعَ فِيهِ الْبَرَكَةُ وَالْهُدَى، وَمَقَامُ إِبْرَاهِيمَ، وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمَنَّا، وَلَإِنْ شِئْتَ أَنْبَأْتُكَ كَيْفَ بَنَاهُ الله عَزَّ وَجَلَّ، إِنَّ الله أَوْحَى إِلَى إِبْرَاهِيمَ أَنِ ابْنِ لِي بَيْتًا فِي الْأَرْضِ فَضَاقَ بِهِ ذَرْعًا، فَأَرْسَلَ الله إِلَيْهِ السَّكِينَةَ، وَهِيَ رِيحٌ خَجُوجٌ، لَهَا رَأْسٌ، فَاتَّبَعَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ حَتَّى انْتَهَتْ، ثُمَّ تَطَوَّقَتْ إِلَى مَوْضِعِ الْبَيْتِ تَطَوُّقَ الْحَيَّةِ، فَبَنَى إِبْرَاهِيمُ فَكَانَ يَبْنِي هُوَ سَاقًا كُلَّ يَوْمٍ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَكَانَ الْحَجَرِ، قَالَ لِابْنِهِ: أَبْغِنِي حَجَرًا فَالْتَمَسَ ثَمَّةَ حَجَرًا حَتَّى أَتَاهُ بِهِ، فَوَجَدَ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ قَدْ رُكِّبَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُهُ: مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا؟ قَالَ: جَاءَ بِهِ مَنْ لَمْ يَتَّكِلْ عَلَى بِنَائِكَ جَاءَ بِهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ السَّمَاءِ فَأَتَمَّهُ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخْرِجَاهُ»

    خَالِدِ بْنِ عَرْعَرَةَ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا کہ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكً میں کیا یہ زمین پر بننے والا پہلا گھر ہے ؟ علی نے کہا نہیں لیکن پہلے گھر میں برکت اور ہدایت ہے اور وہ مقام ابراہیم ہے جو اس میں داخل ہو امن میں ہے اور اگر چاہو تو میں تمہیں خبر دوں کہ الله نے یہ کیسے بنوایا بے شک الله نے ابراہیم پر الہام کیا کہ زمین پر میرے لئے گھر بناو پس ان کا دل تنگ ہوا پس الله نے سکینہ کو بھیجا جو ایک تند و تیز ہوا تھی جس کا سر بھی تھا پس اس کے پیچھے ابراہیم کا ایک ساتھی لگا یہاں تک کہ وہ رک گئی اور بیت الله کا ایک زندہ کی طرح طواف کرنے لگی پس ابراہیم اس مقام پر روز بیت الله بناتے یہاں تک کہ (بنیاد کھودتے ہوئے) کہ ایک (بڑے) پتھر تک پہنچ گئے پس انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا یہ پتھر دو اور انہوں نے اس کو اٹھایا تو اس کے نیچے حجر الاسود تھا جس پر ابراہیم بیٹھ گئے تو ان کے بیٹے نے کہا یہ آپ کو کہاں سے ملا؟ یہ ان سے ملا جن تک تمہاری نگاہ نہیں جاتی – جبریل آسمان سے لائے اور یہ پورا کیا

    يه روایت تفسیر طبری میں بھی نقل ہوئی ہے

    حجر الاسود کو رکن بھی کہا جاتا ہے – کیونکہ اس کو ایک کنارہ میں نصب کیا گیا تھا – علی رضی الله عنہ رسول الله کی نبوت سے ١٣ سال پہلے پیدا ہوئے – بعض روایات کے مطابق نبوت سے پانچ سال قبل کعبہ میں آگ لگی اور اس کا ایک حصہ جل گیا اور اس کی تعمیر کی گئی – روایات کے مطابق ایک ڈوبی ہوئی رومی کشتی کی لکڑی سے بنایا گیا جو حبشہ جا رہی تھی لیکن جدہ کے ساحل پر آ لگی اور مسافروں کو عربوں نے بچایا ( مصنف عبد الرزاق) لہذا اس کو نبوت سے پانچ سال پہلے بنایا گیا جس میں یہ جھگڑا پیدا ہوا کہ کعبہ میں حجر الاسود کہاں نصب ہو گا؟ اس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی حکمت سے حرم میں قتل و غارت گری روک دی اور اہم قبائل کے سرداروں نے چادر کے حصے پکڑے جس پر حجر الاسود کو رکھا گیا اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کعبہ میں نصب کیا

    إس کو البيهقي نے شعب الإيمان (3 – 436) میں ذکر کیا ہے اور مسند احمد میں بھی اس طرح کی ایک روایت ہے-

    بخاری مسلم میں ہے کہ پتھروں کو کعبہ تک لے جایا جا رہا تھا کہ آپ کے چچا عباس نے کہا کہ اپنا آزار دو تاکہ اس پر رکھ کر لے جائیں آپ نے آزار کھولا تو غشی آ گئی – شارحین کے مطابق یہ واقعہ ہوا جب اپ کی عمر ١٥ سال تھی اگر یہ قول درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حجر الاسود کو کعبہ سے نکالا اور واپس لگایا جاتا رہا ہے –

    کتاب أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار از الأزرقي کے مطابق

    هَدَمَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْبَيْتَ حَتَّى سَوَّاهُ بِالْأَرْضِ

    ابن زبیر نے کعبہ کو منہدم کیا حتی کہ زمین کے برابر کر دیا

    اور وَجَعَلَ الرُّكْنَ فِي تَابُوتٍ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ رکن یا حجر کو ایک تابوت میں رکھا جس میں ریشمی کپڑا تھا

    قَالَ عِكْرِمَةُ: فَرَأَيْتُ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، فَإِذَا هُوَ ذِرَاعٌ أَوْ يَزِيدُ

    عکرمہ نے کہا میں نے حجر الاسود کو دیکھا وہ ایک ہتھیلی یا اس سے بڑا تھا

    ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں قرامطہ کے حوالے سے جو لکھا ہے اس کا خلاصہ ہے

    قرامطہ ٣١٧ ھ میں ایام ترویہ میں حرم میں داخل ہوئے ٣٠ ہزار حجاج کا قتل کیا اور لاشوں کو اٹھا کر زمزم میں پھینک دیا ان کا سردار ابو طاہر بولا کہاں ہیں ابابیل ؟ کہاں ہیں سجیل؟ پھر حجر الاسود کو اکھاڑ کر نکالا جس میں اس کے ٹکڑے ہو گئے ان کو وہ بحرین لے گئے اور ٢٢ سال ان کے پاس رہا- سن ٣٣٩ ھ میں خلیفہ مقتدر کو ٣٠ ہزار دینار میں واپس کیا –

    حنبلی عالم ابی بکر الجراعی المتوفی ٨٨٣ ھ کتاب تحفة الراكع والساجد بأحكام المساجد میں لکھتے ہیں

    إنهم باعوه [أي القرامطة] من الخليفة المقتدر بثلاثين ألف دينار. ولما أرادوا تسليمه، أشهدوا عليهم ألا تسلّموا الحجر الأسود، وقاله لهم بعد الشهادة: يا من لا عقل لهم، من علم منكم أن هذا هو الحجر الأسود ولعلنا أحضرنا حجرا أسودا من هذه البرية عوضة، فسكت الناس، وكان فيهم عبد الله بن عكيم المحدث، فقال لنا في الحجر الأسود علامة، فإن كانت موجودة : فهو هو، وإن كانت معدومة، فليس هو، ثم رفع حديثا غريبا أن الحجر الأسود يطفو على وجه الماء ولا يسخن بالنار إذا أوقدت عليه، فأحضر القرمطي طستا فيه ماء ووضع الحجر فيه فطفى على الماء، ثم أوقدت عليه النار فلم يحس بها فمد عبد الله المحدث يده وأخذ الحجر وقبله وقال: أشهد أنه الحجر الأسود، فتعجب القرمطي من ذلك، وقال: هذا دين مضبوط بالنقل. وأرسل الحجر إلى مكة

    قرامطہ نے خلیفہ المقتدر سے معاہدہ کیا کہ ٣٠ ہزار درہم میں اس کو دیں گے …. ( جب وہ دینے لگے تو کہا) اے احمقوں تم کو کیسے پتا کہ یہ ہی حجر الاسود ہے؟ اور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی زمین سے کوئی کالا پتھر لے آئیں ہوں اور دے دیں پس لوگ چپ ہو گئے- ان میں محدث عبد الله بن عكيم تھے انہوں نے کہا کہ اس حجر الاسود کی ہمارے پاس ایک نشانی ہے اگر اس میں ہوئی تو یہی ہے اور اگر نہیں تو یہ وہ نہیں ہو سکتا پھر ایک غریب حدیث بیان کی کہ اگر حجر الاسود کو پانی میں ڈالو تو ڈوبے گا نہیں اور اگ میں ڈالو تو گرم نہیں ہو گا پس …( یہ سب کیا گیا)…. اور محدث عبد الله نے کہا میں شہادت دیتا ہوں یہی حجر الاسود ہے پس ابو طاہر کو تعجب ہوا اور بولا یہ دین روایت میں بہت مظبوط ہے پس حجر کو واپس مکہ بھیجا گیا

    ابی بکر الجراعی یہ بھی کہتے ہیں کہ ابن دحیہ کہتے ہیں کہ عبد الله بن عكيم نامعلوم ہیں- البتہ اصلی حجر الاسود کو کیسے ثابت کیا گیا کہ وہی حجر اسود ہے کسی اور روایت میں نہیں

    الغرض حجر الاسود جنت کا پتھر ہے اور اس کو رکن کہا جاتا ہے اسی قدر معلوم ہو سکا ہے

    ہاب ثاقب کے پتھر پانی میں ڈوب جاتے ہیں اور لاوا والے کچھ پتھر پانی میں کچھ عرصے تیرتے ہیں لیکن وہ بھی بعد میں

    ڈوب جاتے ہیں جن کو پومس(١) کہاجاتا ہے

    (١)Pumice

    یہ صرف حجر الاسود ہے کہ ہزاروں سال بعد بھی تیر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کو اس دنیا کا نہیں سمجھا جاتا تھا اور عربوں کو اس کا پتا تھا

    1. Mene Ap Dono ki behas Aur Dlaiel be Daikhay, aur Ayaz Nizami sahib ka intekhab be mukammal Parha, Lykin Main jo Baat samjha K Rashid sahib aur Nizami sahib dono Aik Baat per tuh Muttafik hain K Abu Tahir Qaramti ne Ka’aba per Hamla kiya aur Hajar e aswad ko Lay geya, Zahir see baat hai Jab Qaramti ne hamla kiya Bhalay he vo Jahal thaa Murtad thaa, Kuchh be thaa, Usne Hamla Tuh Ka’aba per kiya, behurmati tuh Ka’aba Sharif ki hoi, Mera Sawal yeh hai K Kya Allah SWA sirf Saza Aqalmandoon, aur Moominoo ko hee detay hain?? Q nahi Ababeels Ayeen?? Q Khuda ne Apni Qudrat ka nazara diya? Abraha ne Jab Hamla Kiya Comparing to Abu Tahir Qaramti kya Abraha ne koi masters degree lay Rakhi thee Ager Abu Tahir jahil aur Murtad thaa Tuh Kya Abraha wakeel aur Moomin thaa??
      Kisi be jaga per Hamla karna kisi be insan ko qatal karna jahalat aur Buri baat hee mani jaati hai,

      Lykin Hamla Hova, Hajar e aswad be Aghwa hova, Aur Haram K Andar Qatal O Gharit be hoi,

      Sawal yeh hai K Allah Pak ne Uss Waqt Q koi Moojeza koi Karamat nahi ki ??
      Main Aur Ap Apnay Ghar Ki Baher ki devaar K saath kisi ko Poster nahi Laganay detay, wahaan Aag Lagi Janab… hum insaan hain aur Vo Qul Kayenaat ka Khaliq O Malik ,,
      Please Mujhy Clear farma Deyn, Yaa Mujhy MULHID Hoonay ki Ejazat Farma deyn, Main is waqt Waqie Pareshan ho chukka hoon.

      1. آپ کے ملحد ہونےیا بےدین ہونے سے کسی کا کوئ نفح نقصان نہیں اور نہ ہی خدا نے کسی پر زبردستی اسلام مسلط کیا ہے.
        رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب کعبہ پر حملہ ہوا تب مسلمانوں کی کوئ جماعت موجود نہ تھی اور نہ ہی کوئ اسلامی حکومت و سلطنت تھی جو ابرہا کے مقابل اسے روکنے کے لیے مزاحمت کرتی . اس لیے خدا نے خود تحفظ کیا.
        اور جب کرامتی حملہ آور ہوا اس وقت دنیا میں اسلام پھیل چکا تھا مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی جو مکمل اسلامی احکامات اور ﺫمے داریوں سے واقف تھے جن پر کرامتی جیسے قانون فطرت کے باغیوں کی سرکوبی فرض تھی جو نہ کر سکے اس لیے کہ اسلامی طرز زندگی کو پس پشت ﮈال کر طرح طرح کے فتنوں میں پڑے ہوۓ تھے اور مزاحمت کے قابل نہ تھے جس کی ان سے خدا بازپرس کرے گا اور دنیا میں بھی انہوں نے رسوائ اپنا مقدر کرلی.

      2. ابرہہ کا کعبه پر حملہ تھا جو ایک نصرانی تھا اس کے برعکس ابو طاہر کا حملہ کعبه پر اس میں سے حجر اسود کو لینا تھا تاکہ علی سے منسوب قول کو سچا دکھا کر وہ اسماعیلی اماموں کی مدد کرے

        دونوں میں فرق ہے الله تعالی نے یہ ہونے دیا تاکہ ابو طاہر خوب گناہ سمیٹ لے

        کعبه پر حجاج بن یوسف نے بھی پتھر برسانے تاکہ ابن زبیر کو قتل کیا جا سکے

        مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی بھی عمل اس کی نیت پر منحصر ہے

  5. بقول بے عقل الامہ نظامی صاحب گستاخ کی معافی کے بغیر عرض ہے کہ واقعی آپ کا پالتو کہیں رفوچکر ہوگیا ہے یا بقول بے عقل انوارالحق صاحب نۓ نام سے میدان میں اترے ہیں اسی طرح آپ بھی بے عقل کے فرضی نام سے اپنے حریفوں کو کاٹنے کے لیے اپنے پالتو کی صورت میں رکھا ہوا تھا اور پھرکسی مصلحت کے تحت اس کی چھٹی کردی?
    عرض مقرر ہے برا مت مانیۓ گا صرف جواب سے نوازدے خادم مشکور ہوگا.

    1. جی ہاں کچھ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اگر حجر اسود کو پانی میں ڈالا جائے تو وہ ڈوبے گا نہیں، لیکن اس کی بنیاد بہت ضعیف روایت پر ہے، یہ روایت صرف حجر اسود کی فضیلت بیان کرنے کے کام آتی ہے، ورنہ مومنین کو چیلنج ہے کہ وہ حجر اسود کو پانی میں ڈال کر دکھا دیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ Rashid کے دعوے کو خود مسلمان بھی تسلیم نہیں کریں گے۔

جواب دیں

22 Comments
scroll to top