Close

النضر بن الحارث – ایک جلیل القدر صحابی

نازی وزیر اطلاعات جوزف گوبلز Joseph Goebbels سے ایک مشہور قول منسوب ہے کہ "جب بھی میں لفظ مثقف سنتا ہوں تو اپنے پستول کو محسوس کرتا ہوں” اسی طرح ہمیں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ محمد جب بھی النضر بن الحارث کا نام سنتا ہوگا اپنی تلوار کو ضرور محسوس کرتا ہوگا کہ اقتدار کے اس پیاسے کے دل میں جو نفرت اس مثقف کیلئیے موجود تھی اس کی یقیناً کوئی حد نہیں رہی ہوگی کیونکہ النضر بن الحارث ایک ایسی سیسہ پلائی دیوار تھی جو محمدی فراڈ کو مکی مرحلے میں ہی ناکام بنانے کی قدرت رکھتی تھی چنانچہ جیسے ہی وہ اس کے ہاتھ لگا اس نے اس کا خون بہانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا.

النضر بن الحارث بن کلدہ قریش میں اپنے زمانے کا مثقف اور تعلیم یافتہ ترین شخص تھا، اس نے ملکِ روم وفارس اور نجران کی سیر کر رکھی تھی اور ان کے علوم، تاریخ اور قصے کہانیوں سے اچھی طرح فیضیاب ہوچکا تھا.. ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتا ہے کہ النضر بن الحارث حیرہ آیا اور فرس کے شاہوں، رستم اور اسبندیار کے قصے سنے، برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولتھ David S. Margoliouth اپنی کتاب Mohammed and the Rise of Islam میں لکھتا ہے کہ اس نے یونان، فارس اور حیرہ کے عربوں کی کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کیا تھا..

محمد بن حبیب بن امیہ بن عمرو البغدادی کی "المنمق من تاریخ قریش” میں درج ہے کہ وہ قریش کے زنادقہ میں سے تھا جس نے حیرہ کے نصاری سے زندقہ سیکھا تھا.. اس شخص کے حوالے سے ایسی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف یہ شخص اپنے زمانے کے علوم سے اچھی طرح آگاہ تھا بلکہ اس نے پرانے قصے اور کہانیاں ان کے اصل مصادر سے حاصل کر رکھے تھے اور یوں اس نے محمد کے نبوت کے دعوے کو اس کے مکی دور میں ہی چیلنج کردیا تھا..

دوسری طرف ڈیماگوگی محمد تھا جو کسی بھی طرح سیاسی طاقت حاصل کر کے مطلق اقتدار کا خواہش مند تھا اور عرب وعجم پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا تھا.. محمد کے ان الفاظ پر غور کیجئیے جو اس نے اپنے چچا ابو طالب سے کہے تھے جب قریش کے سردار ابو طالب سے یہ کہنے آئے تھے کہ وہ اپنے بھتیجے کو لگام ڈال کر رکھے جیسا کہ ابن ہشام کی سیرت اور ابن سعد کی الطبقات الکبری اور دیگر میں آیا ہے: "اے چچا میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک لفظ کہیں اور عرب کے احسان مند اور عجم کی گردنوں کے مالک بن جائیں”

اور وہ ایک لفظ جو محمد چاہتا تھا وہ تھا "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” یعنی اگر وہ اس کی چودھراہٹ کو تسلیم کر لیں اور اس کی نبوت پر ایمان لے آئیں تو وہ تمام جزیرہ عرب اور ممالکِ عجم کو ان کے زیرِ نگیں کردے گا.. اگر ہم نبوت نامی کسی چیز کو مان بھی لیں تو بھی کیا یہ کسی نبی کا بیان ہوسکتا ہے؟ ایسی باتیں بس وہی کر سکتا ہے جس پر اقتدار کا بھوت سوار ہو…

دراصل برطانوی مستشرق مارگولتھ وہ پہلا شخص تھا جس نے محمد کو ایک ماہر سیاستدان قرار دیا جو اچھی طرح جانتا ہے کہ کس کام کیلئیے کون سا شخص مناسب ہے اور مواقع سے فائدہ اٹھانا اور عربوں کی کمزوریاں بھی اچھی طرح جانتا ہے دوسری طرف وہ اسے نبی کی تمام تر صفات سے عاری قرار دیتا ہے خاص طور سے اخلاقیات کے باب میں.

ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد پہلے درجے کا ڈیماگوگی تھا، یہی ڈیماگوگی ہی دراصل اس کے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ تھی، نبوت کا دعوی کر کے اور لوگوں کی نچلی خواہشات کو ابھار کر اس نے بڑے آرام سے ایک حکومت قائم کر لی کہ اگر لوگ اس کی بات مان جائیں تو جنت میں حوریں، غلام، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں ان کی منتظر ہوں گی بصورت دیگر ایک ایسا خطرناک خدا ان کا منتظر ہوگا جو منکرین کا گوشت بھون بھون کر خوش ہوگا اور جب ان کی جلد جل کر خاکستر ہوجائے گی اسے نئی جلد سے تبدیل کردیا جائے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ تک کیلئیے چلتا رہے گا… اپنی نبوت کی تصدیق کیلئیے اس نے آیتیں اگلنا شروع کردیں جس میں پرانے لوگوں کی خبریں اور قصے کہانیاں تھیں اور جاہلوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ یہ بکواس اس پر آسمان پر موجود ایک خدا کی طرف سے نازل ہو رہی ہے.. ان افسانوں کا تعلق کچھ تو اسرائیلیات سے ہے، کچھ ملکِ فارس، روم، یمن اور عراق سے ہیں، تاہم یہ سارے قصے اس کے پاس گڈ مڈ ہوکر پہنچے چنانچہ اس نے ان میں اپنے وسیع تصور کا استعمال کر کے اپنی طرف سے اضافے کئیے، کچھ کو نئے سرے سے ترتیب دیا، بعض کے کرداروں کا نام بدل دیا، کچھ کے زمانے بدل دیے اور کچھ کی شخصیات جیسے کنواری مریم کو ہارون کی بہن قرار دینا وغیرہ..

برطانوی مستشرق ایڈورڈ سیل اپنی کتاب HISTORICAL DEVELOPMENT OF THE QUR’AN میں لکھتا ہے کہ یثرب آنے تک محمد کو یہودیت اور عیسائیت کے درمیان فرق کا نہیں پتہ تھا، وہ سمجھتا تھا کہ دونوں کی تعلیمات یکساں ہیں، ایسی حالت میں ایک ایسا شخص جو ان کہانیوں کو اللہ کی وحی قرار دے کر لوگوں سناتا تھا اور ایک ایسے شخص میں جو ان قصے کہانیوں کی حقیقت جانتا تھا ٹکراؤ ہونا لازمی امر تھا جو اپنی قوم کو بتا رہا تھا کہ یہ سب محض سابقہ لوگوں کے قصے کہانیاں یعنی اساطیر الاولین ہیں.

محمد کے گلے میں کانٹا

مکہ میں محمد کی ناکامی اور وہاں سے ذلت آمیز فرار کی وجہ النضر بن الحارث ہی تھا جس نے اس کی خرافات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جن سے محمد مکیوں کو یہ کہہ کر کہ یہ اللہ کی وحی ہے بہکانا چاہتا تھا.. وہ پہلا شخص تھا جس نے قریشیوں کو بتایا کہ محمد جو کچھ کہہ رہا ہے وہ محض پرانے قصے کہانیاں ہیں، محمد نے اس کی اس بات کا جواب ایک آیت سے دیا (اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ – جب اسکو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو پہلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ – سورہ المطففین آیت 13) ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتا ہے کہ "جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس میں بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے اور اپنی قوم کو سابقہ قوموں پر پڑنے والے اللہ کے عذاب سے متنبہ کرتے، اور جب چلے جاتے تو النضر بن الحارث اس کی مجلس میں پہنچ جاتا اور کہتا: میں اللہ کی قسم اے قریش کی قوم اس سے اچھی بات کہتا ہوں تو میرے پاس آؤ میں تمہیں اس کی باتوں سے بہتر باتیں سناؤں گا، پھر وہ انہیں فارس کے شاہوں اور رستم اور اسبندیار کے بارے میں بتاتا اور کہتا: کس چیز میں محمد مجھ سے اچھی باتیں سنا سکتا ہے؟”

برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولتھ اوپر مذکور اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ النضر بن الحارث مکیوں سے کہتا تھا کہ اگر یہ کہانیاں جو محمد سناتا ہے نبوت کا معیار ہیں تو وہ بھی اس کی طرح نبوت کا دعوی کر سکتا ہے کیونکہ وہ اس سے اچھی کہانیاں سنا سکتا ہے.. مارگولتھ کا خیال ہے کہ جب محمد مکیوں کے مطالبہ پر کوئی معجزہ دکھانے میں ناکام ہوگیا تو اس نے قرآن کو ہی معجزہ قرار دے دیا اور چیلنج کردیا کہ وہ اس جیسی ایک سورت ہی لاکر دکھا دیں مگر وہ نہیں لا سکیں گے چاہے جنوں کی مدد ہی کیوں نہ لے لیں.. یہاں النضر بن الحارث سامنے آیا:

” One man, Al-Nadir Ibn Harith, accepted the challenge to produce anything as good, and either versified or put into rhyme the tales of the Persian kings which Firdausi some four centuries later rendered immortal or perhaps those of the kings of Hirah. These ” surahs ” he read out at seances similar to those in which the Prophet pub lished the Koran. The effect of this criticism must have been very damaging ; for when the Prophet at the battle of Badr got the man into his power, he executed him at once, while he allowed the other prisoners to be ransomed..”

"ایک ہی شخص تھا جس نے یہ چیلنج قبول کیا اور اعلان کیا کہ وہ اس سے اچھا کلام لاسکتا ہے اور وہ تھا النضر بن الحارث، چاہے وہ فارس کے شاہوں کے قصے ہوں جنہیں فردوسی نے چار صدیوں بعد محفوظ کیا یا حیرہ کے شاہوں کے قصے، وہ سورتیں جو النضر بن الحارث مجالس میں پڑھا کرتا تھا قرآن کی سورتوں سے انتہائی مشابہ تھے، اس طرح کی تنقید کا اثر یقیناً تباہ کن تھا چنانچہ جیسے ہی غزوہ بدر میں النضر بن الحارث محمد کے ہاتھ لگا اس نے اسے فورا ہی مار ڈالا جبکہ باقی قیدیوں کو اس نے فدیہ کے بدلے آزاد کردیا تھا”

النضر بن الحارث کے اس چیلنج کو قبول کرنے پر ابن ہشام لکھتا ہے "اس نے ہی کہا تھا جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے: میں ایسا کلام نازل کروں گا جیسا کہ اللہ نے نازل کیا ہے”.. محمد نے اس کا جواب ایک آیت سے دیا (وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ – اور جب انکو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ تو کہتے ہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا کلام ہم بھی کہدیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔- سورہ الانفال آیت 31) اس آیت کی تفسیر میں قرطبی لکھتا ہے "یہ آیت النضر بن الحارث پر نازل ہوئی، وہ وہ تجارت میں حیرہ کی طرف گیا اور کلیلہ اور دمنہ، کسری اور قیصر کی حدیثیں خریدیں اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزرے لوگوں کی خبریں سنائیں نضر نے کہا: اگر میں چاہوں تو اس جیسا کہہ سکتا ہوں، اور یہ کمینگی اور جھوٹ تھا، اور کہا گیا: ان کو وہم ہوگیا تھا کہ وہ اس جیسا لا سکتے ہیں جیسا کہ موسی کے جادو گروں کو وہم ہوگیا تھا، پھر جب ایسا کرنا چاہا اور نہ کر سکے تو ہٹ دھرمی میں کہا: یہ پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں” تفسیر البغوی میں درج ہے: "وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا یعنی النضر بن الحارث، قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ، وہ اس لیے کہ وہ تجارت کیلئیے فارس اور حیرہ جاتا تھا اور رستم اور اسبندیار اور عجم کی خبریں سنتا تھا اور یہود ونصاری کے پاس جاتا تھا اور انہیں تورات اور انجیل پڑھتے اور رکوع اور سجدے کرتے دیکھتا تھا، پھر جب وہ مکہ آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز اور قرآن پڑھتے دیکھا تو نضر نے کہا: قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ”

محمد کی دعوت، اس کے قرآن اور خرافات کیلئیے النضر بن الحارث کتنا بڑا خطرہ تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بنی ہاشم کے یتیم نے النضر بن الحارث کے جواب میں آٹھ آیات مختص کیں جیسا کہ ابن ہشام کی سیرت میں آیا ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ جو بھی نثر وشعر النضر بن الحارث نے محمد کے مقابلے میں لکھا وہ سب ضائع کر دیا گیا، جس طرح محمد کی ہجو میں کی جانے والی ساری شاعری ضائع کردی گئی جو مختلف شاعروں نے اس زمانے میں کی تھی، اس شاعری میں مسلمان ہونے سے پہلے حسان بن ثابت کی شاعری بھی شامل ہے .. کیونکہ جو ایسے شعر پڑھتا یا انہیں لکھ کر رکھتا اس کا انجام موت ہوتا.

اس طرح عربی اسلامی تاریخ میں صرف وہ اشعار اور قصے کہانیاں ہی باقی رہ گئے جن میں صرف اور صرف محمد کی تعریف ہے اور اس سے ایسے ایسے معجزے منسوب کیے گئے ہیں جو اگر وہ واقعی کر گزرتا تو اسے اپنے جھوٹے پیغام کو پھیلانے میں کچھ محنت نہ کرنا پڑتی، اور اس طرح تاریخ کی سب سے بڑی جعلسازی عمل میں لائی گئی اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ فتح پانے والا ہی لکھتا ہے اور محمد بزور تلوار فتح پا چکا تھا.

محمد کا امتحان

مکیوں نے جو امتحان محمد کیلئیے وضع کیا وہ مکی دور کے محمدی دعوت کی حد فاصل ہے جس میں ایک معمولی سے امتحان کے ذریعے محمد کو اپنی نبوت ثابت کرنے کا بھرپور موقع ملا، ابن ہشام کہتا ہے کہ قریشیوں نے النضر بن الحارث اور عقبہ بن ابی معیط کو یثرب کے یہود کی طرف بھیجا کیونکہ وہ اہلِ کتاب تھے اور انہیں انبیاء کا علم تھا تاکہ ان سے محمد کے بارے میں پوچھا جائے، یہودیوں نے النضر بن الحارث کو تجویز دی کہ وہ محمد سے تین سوال کرے اگر وہ جواب دے دے تو وہ نبی ہے ورنہ وہ جھوٹا ہے…

پہلا سوال "ان نوجوانوں کے بارے میں تھا جو پہلے زمانے میں گئے ان کے ساتھ کیا ہوا ان کا ایک عجیب واقعہ ہے (اہلِ کہف)” دوسرا سوال "ایک آدمی جس نے مشرق اور مغرب کا طواف کیا اس کی کیا خبر ہے اور وہ کون ہے (ذو القرنین)” اور تیسرا اور آخری سوال تھا کہ "روح کیا ہے”.

اور جیسا کہ ابن ہشام کہتا ہے کہ النضر اور عقبہ نے مکہ واپس آکر قریش سے کہا کہ "اے قریش ہم تمہارے اور محمد کے معاملے پر فیصلہ کن بات لائے ہیں” مگر برطانوی مستشرق مارگولتھ کہتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ ان سوالوں کی تجویز یہودیوں نے نہیں دی تھی کیونکہ پہلے سوال کا تعلق سات سونے والوں (اہلِ کہف) سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کا تعلق عظیم سکندر Alexander the Great سے ہے، مارگولتھ کو یقین ہے کہ یہ سوال النضر بن الحارث نے ہی ترتیب دیے تھے اور اس کیلئیے اسے یہودیوں کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسے تورات، انجیل، فارس اور روم کے قصوں کا پہلے سے ہی اچھی طرح علم تھا اس کے علاوہ وہ شاعر اور نثر نگار بھی تھا؟ کچھ بھی ہو یہ سوالات محمد کیلئیے تباہ کن تھے جس نے جوابات کیلئیے مکیوں سے اگلے دن کی مہلت طلب کر لی…!!

اگلا دن آیا اور گزر گیا مگر محمد نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا… دن گزرتے رہے اور محمد اپنی عاجزی سے نہیں نکل پایا.. اور جیسا کہ سیرت کی کتابیں کہتی ہیں لوگوں محمد کی اس عاجزی پر سخت افسوس ہوا اور انہیں یقین ہوچلا کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اور کوئی اسے سکھا پڑھا رہا ہے السیرہ الحلبیہ میں ہے کہ اس وقت لوگوں میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ یہ سکھانے والا دراصل یمامہ کا "الرحمن” نامی ایک یہودی ہے..

پندرہ دن بعد جو اس کی مدد کرنے والوں سے رابطے کیلئیے کافی تھے محمد کچھ آیات لے کر نمودار ہوا جن میں ان سوالوں کے جوابات تھے، ان جوابات پر نظر ڈالنے سے پہلے ذرا اس بے وجہ تاخیر کے بہانوں پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں جو انتہائی درجے کے احمقانہ بہانے ہیں.. پہلا بہانہ یہ تھا کہ اس نے جب مکیوں سے اگلے دن جواب دینے کا وعدہ کیا تو "ان شاء اللہ” نہیں کہا.. یہ بہانہ سورہ کہف کی آیت نمبر 23 میں آیا ہے کہ (وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا – اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کر دوں گا۔)

دوسرا بہانہ ابو ہریرہ کی ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جبریل نے ان دنوں نہ آنے کی یہ وجہ بتائی کہ اس کے گھر میں حسن وحسین کا ایک کتا تھا اور جس گھر میں کتے ہوں وہاں فرشتے نہیں آتے..!؟

جہاں تک جوابات کا تعلق ہے تو وہ محمد کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت تھے.. اہلِ کہف سے متعلق سوال پر مارگلوتھ لکھتا ہے کہ محمد نے ان کی تعداد کا کوئی تعین نہیں کیا… اور واقعی ایسا ہی ہے، آیت دیکھیے جو اللہ نے جواب کے طور پر بھیجی ہے:

(سَیَقُوۡلُوۡنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ خَمۡسَۃٌ سَادِسُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ رَجۡمًۢا بِالۡغَیۡبِ ۚ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَبۡعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمۡ کَلۡبُہُمۡ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ۬۟ فَلَا تُمَارِ فِیۡہِمۡ اِلَّا مِرَآءً ظَاہِرًا ۪ وَّ لَا تَسۡتَفۡتِ فِیۡہِمۡ مِّنۡہُمۡ اَحَدًا – بعض لوگ اٹکل پچو کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور بعض کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ اور بعض کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہدو کہ میرا پروردگار ہی انکے شمار سے خوب واقف ہے انکو جانتے بھی ہیں تو تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں تو تم انکے معاملے میں بحث نہ کرنا مگر سرسری سی بحث۔ اور نہ انکے بارے میں ان میں سے کسی سے کچھ دریافت ہی کرنا۔ – سورہ الکہف آیت 22)

یعنی محمد کے خدا کو ان کی صحیح تعداد نہیں معلوم کہ کیا وہ تین ہیں، پانچ ہیں یا سات… لیجیے محمد کنفیوز ہے اسے ان کی صحیح تعداد کا پتہ ہی نہیں.. مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اسی آیت میں اللہ محمد سے کہتا ہے کہ (کہدو کہ میرا پروردگار ہی انکے شمار سے خوب واقف ہے) اگر اللہ کو ان کی تعداد معلوم ہے تو بات کو گھمانے پھرانے کی بجائے انہیں ان کی صحیح تعداد کیوں نہیں بتا دیتا؟ یہ ساری جہالت کیوں؟ شاید تین، شاید پانچ.. شاید سات.. اس کا مطلب ہے کہ پندرہ دن بعد بھی محمد کوئی فیصلہ کن جواب نہیں لایا اور جس نے اسے یہ جواب دینے میں مدد دی اسے بھی دراصل غیر یقینی معلومات تھیں…

محمد کی بد قسمتی کہ وہ یہ جانے بغیر ہی مرگیا کہ اہلِ کہف کا قصہ دراصل ایک افسانوی قصہ ہے جسے بیزنطہ Byzantium (حالیہ اسطنبول) کے ایک پادری نے چھٹی صدی عیسوی میں تعلیمی مقاصد کیلئیے گھڑا تھا جو یورپ میں کافی مقبول رہا اور تاجروں کے ساتھ مشرق تک پہنچا..! مگر محمد نے اسے ایسے پیش کیا جیسے یہ واقعتاً ایک حقیقی قصہ تھا..

اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف جس کا جواب پہلے سوال کے جواب سے بھی زیادہ دھندلا اور فضول ہے، محمد کی آیت کہتی ہے:

(وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۳﴾ اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۴﴾ فَاَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۵﴾ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّ وَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿۸۶﴾ قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا ﴿۸۷﴾ وَ اَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَ سَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۸﴾ – اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہدو کہ میں اسکا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔ ہم نے اسکو زمین میں بڑا اقتدار دیا تھا اور ہر طرح کا سامان اسکو عطا کیا تھا۔ تو اس نے سفر کا ایک سامان کیا۔ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ والے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس چشمے کے پاس ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا ذوالقرنین! تم انکو خواہ تکلیف دو خواہ انکے بارے میں بھلائی اختیار کرو دونوں باتوں کی تمکو قدرت ہے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ جو کفر و بدکرداری سے ظلم کرے گا اسے ہم سزا دیں گے پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا۔ تو وہ بھی اسے بڑا عذاب دے گا۔ اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اسکے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں اس سے نرم بات کہیں گے۔ -سورہ کہف)

یہاں بھی محمد افسانے کے کردار کا حقیقی نام پیش کرنے میں ناکام رہا اور اپنے صحابیوں، سیرت دانوں اور مفسرین کو ایک نا ختم ہونے والے مخمصے میں ڈال گیا..

ابن اسحق کہتا ہے کہ "ذا القرنین اہل مصر میں سے تھا، اس کا نام مرزیان بن مرذبہ الیونانی ولد یونان بن یافث بن نوح تھا” ابن ہشام نے لکھا: "اس کا نام الاسکندر تھا اسی نے الاسکندریہ شہر بنایا تھا اور اسی سے منسوب ہوا” اس کے علاوہ ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتا ہے کہ جب علی بن ابی طالب سے ذو القرنین کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ "وہ اللہ کا ایک نصیحت کرنے والا بندہ تھا اس نے اپنی قوم کو اللہ کی دعوت دی تو انہوں نے اسے اس کے سینگ پر مارا اور وہ مر گیا تو اللہ نے اسے دوبارہ زندہ کیا اور اس نے اپنی قوم کو دوبارہ دعوت دی تو انہوں نے اس کے سینگ پر مارا اور وہ مر گیا تو اس کا نام ذا القرنین پڑگیا”…

الخطط المقریزیہ میں تو ذو القرنین پورا نسب درج ہے "الصعب بن ذی مرائد بن الحارث الرائش بن الہمال ذی سدد بن عاد ذی منح بن عار الملطاط بن سکسک بن وائل بن حمیر بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان بن ھود علیہ السلام بن عابر بن شالح بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام اور وہ حمیر کا شاہوں میں سے ایک یمن کا ایک بادشاہ تھا اور وہ عرب عاربہ ہیں”

کیا یہ سارے متضاد بیانات اس بات کا ثبوت نہیں کہ محمد کی آیت سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ سائلین کو کوئی جواب نہیں دے پائی حتی کہ اس کے داماد سے بھی جب پوچھا گیا تو اس نے بھی ایسی کہانی سنا دی جو عقل اور منطق سے بالکل منافی تھی..

رہا تیسرا سوال تو اس سے محمد کے خدا نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہا کہ "وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ – اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہدو کہ وہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے”.. یہ محمد ہی تھا نا جس نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس کے خدا نے کہا ہے کہ: (قُلۡ لَّوۡ کَانَ الۡبَحۡرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیۡ لَنَفِدَ الۡبَحۡرُ قَبۡلَ اَنۡ تَنۡفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیۡ وَ لَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِہٖ مَدَدًا – کہدو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی ہو تو قبل اسکے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور اسکی مدد کو لائیں۔ – سورہ الکہف آیت 109) تو پھر یہ خدا جس کے الفاظ کبھی ختم ہی نہیں ہوتے ان میں سے کچھ الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو روح کی حقیقت کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا؟ حیرت انگیز بات ہے..!

اور یوں محمد اس امتحان میں بری طرح ناکام رہا.. وعدہ خلافی کر کے اور پندرہ دن تک غائب رہنے کے بعد بھی وہ ان کے سوالوں کا کوئی حتمی جواب نہیں لا سکا، نا ہی وہ اہلِ کہف کی حقیقی تعداد بتا سکا اور نا ہی ذو القرنین کی شخصیت متعین کر سکا اور نا ہی یہ بتا سکا کہ روح کیا ہوتی ہے.. کیا ایسے بھونڈے جوابات جن سے خود اس کے صحابہ پریشانی کا شکار ہوگئے قریشیوں اور خاص کر النضر بن الحارث جیسے فلاسفر شخص کو قائل کر سکتے تھے؟ یہی وجہ تھی کہ مکیوں کو محمد کی جھوٹی نبوت کا یقین ہوگیا.. اس صورت میں اس کا یثرب بھاگ جانا کوئی تعجب خیز امر نہیں جہاں جاکر اس نے ایک لٹیرے کا روپ دھار لیا اور قافلوں کی لوٹ مار پر گزارا کرنے لگا اور اپنے دین کو لوگوں کی گردن پر تلوار رکھ کر منوانا شروع کردیا..

فلاسفر قاتل کے قبضے میں

غزوہ بدر میں جس کی چنگاری شام سے آتے ابی سفیان کے قافلہ پر محمد کے حملے سے بھڑکی، النضر بن الحارث دیگر ستر مکیوں کے ساتھ قید کر لیا گیا.. محمد نے دیگر قیدیوں کو فدیہ کے بدلے آزاد کرنے کا حکم دیا جبکہ غریب قیدیوں کا فدیہ اس کے دس صحابیوں کو لکھنا سکھانا طے پایا (کیونکہ جاہل ہی اس کے جھوٹ کے قائل ہوسکے تھے) مگر اس ڈیل سے النضر بن الحارث اور عقبہ بن ابی معیط کو مستثنی قرار دیا اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیا.. السیرہ الحلبیہ میں لکھا ہے کہ قید ہوجانے کے بعد النضر بن الحارث نے اپنے ساتھی قیدی کو کہا کہ: "محمد مجھے مارنے والا ہے کیونکہ اس نے مجھے موت بھری نظروں سے دیکھا ہے” اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محمد کے دل میں النضر کیلئیے کتنی نفرت اور کراہیت دفن تھی.. جب اس نے علی بن ابی طالب کو النضر بن الحارث کو قتل کرنے کا حکم دیا تو المقداد نے اس سے کہا کہ "النضر میرا قیدی ہے” کیونکہ اسی نے النضر کو قید کیا تھا مگر اسے قتل نہیں ہونے دینا چاہتا تھا مگر محمد نے اسے یہ کہہ کر خاموش کرا دیا کہ "یہ اللہ کی کتاب پر وہ کہتا تھا جو کہتا تھا..”

اور اس طرح "رحمت کے نبی” نے اپنی زہریلی نفرت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور النضر بن الحارث کو قتل کردیا کیونکہ وہ مکہ میں اپنی ناکامی پر النضر کے کردار کو نہیں بھولا تھا جس نے اس کی خرافات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نا ہی وہ امتحان بھولا تھا جس میں اسے ساری دنیا کے سامنے ذلت اٹھانی پڑی تھی.. النضر بن الحارث کے قتل کا دن تلوار اور جہالت کا عقل ومعرفت پر فتح کا دن تھا اور اسلام کی جاہلیت کی کامیابی کا آغاز تھا.. یہ تلوار آج بھی چودہ سو سال سے ہر اس شخص کی گردن پر لٹکتی رہتی ہے جو آزادی سے اور عقل کو راہنما بنا کر سوچنا چاہتا ہے اور کہنا چاہتا ہے کہ "یہ سب پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں”… محمد کا زمانہ یورپ میں گھڑ سوار تلوار بازوں کا زمانہ تھا ان تلوار بازوں کی اخلاقیات کا حصہ تھا کہ اگر ان کا دشمن ان کے قبضے میں آجائے تو وہ اسے قتل نہیں کرتے تھے.. محمد کی اخلاقیات اس زمانے کے تلوار بازوں سے تو کیا نیلسن منڈیلا جیسے آج کے ہیروز کے برابر بھی نہیں ہیں جس نے نصف صدی تک اسے قید میں رکھنے والے جلادوں کو اقتدار میں آنے کے بعد معاف کردیا…

ایک خودہ ساختہ جھوٹا نبی جو عام لوگوں کی اخلاقیات تو در کنار ممکنہ انبیاء کی اخلاقیات تک پر پورا نہیں اتر سکا اگر واقعی انبیاء ہیں!

جواب دیں

0 Comments
scroll to top