Close

اسلاموفوبیا


اسلام میں قیدی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے

 

اسلاموفویبا کی اصطلاح اکثر وبیشتر سننے میں آتی رہتی ہے جو مسلمانوں کی متعارف کردہ ہے خاص کر جو لبرل مسلمان ہیں۔۔ اس اصطلاح کا مطلب مغربی اقوام کا اسلام سے بے جا اور ہیسٹریا کی حد تک پہنچا ہوا خوف ہے۔۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام سے خوف کی اصل وجہ یہودی انتہا پسندوں کا مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈا ہے گویا کہ اسے بھی مسلمان "یہودی سازش” ہی قرار دیتے ہیں جو کہ ان کی عادت بن چکی ہے۔

اس تصور کو رد کرنے کیلئیے کہ اسلام دہشت گردی اور قتل وغارت گری کا مذہب ہے یہ مسلمان اکثر وبیشتر کسی حد تک امن پسند ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جن میں خصوصی طور پر ترکی اور ملائیشیا جیسے سیکولر ممالک شامل ہیں۔ مگر یہ لوگ جان بوجھ کر طالبان کا ذکر نہیں کرتے جس کی ماضیء قریب میں افغانستان پر حکومت تھی اور جس نے افغانی قوم کے ساتھ کتوں سے بھی بدتر سلوک کیا۔


سعد الفقیہ کو یہ پسند نہیں۔ شاید وہ پوری قوم کا اجتماعی قتل چاہتا ہے

 

اس کے علاوہ یہ دھوکے باز طالبان جیسی دیگر حکومتوں کا ذکر بھی گول کر جاتے ہیں جو اگرچہ اسلامی شریعت کے اطلاق میں طالبان جیسا کمال نہیں رکھتے کیونکہ طالبان کا اسلام از حد صاف ستھرا اور خالص اسلام ہے تاہم یہ بھی کم نہیں جیسے سعودی عرب۔ سوڈان اور صومال کی اسلامی عدالتیں۔ سعودی عرب کی ہی اگر مثال لی جائے جہاں آج بھی خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ مغربی دنیا میں وہ خلائی جہاز بغیر کسی پرابلم کے چلاتی ہیں۔

درحقیقت اسلاموفوبیا کی اصطلاح بذات خود ایک اسلامی پروپگنڈا ہے ناکہ کوئی یہودی سازش جیسا کہ مسلمان دعوی کرتے ہیں۔۔ یہ اصل میں ترقی یافتہ ممالک میں اسلامی خطرے کے خلاف شعور کی بیداری ہے۔


جنگل کا اسلامی قانون اس عورت پر لاگو کیا جارہا ہے

 

گیارہ ستمبر سے قبل مغرب اسلام کو دیگر توحیدی مذاہب کی طرح کا کوئی مذہب سمجھتا تھا۔ بعض لوگ اسے تشدد پسند عیسائیت سے مشابہ کوئی چیز سمجھتے تھے جبکہ کچھ حلقے مسلمانوں کو امن پسند بت پرست سمجھتے تھے تاہم زیادہ تر اقوام کو اسلام کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں اور نا ہی وہ اسے کوئی اہمیت دیتے تھے۔ ہر کوئی اپنی روز مرہ کی زندگی میں مصروف تھا۔۔ مغرب پوری طرح غفلت میں تھا۔۔ برطانیہ نے تو انسانیت۔ جمہوری اقدار اور شخصی آزادی کی بنیاد پر کئی دہشت گردوں کو پناہ تک دے رکھی تھی جیسے ابی حمزۃ المصری اور سعودیہ کا مشہور تکفیری شیخ سعد الفقیہ جسے سعودی عرب کا حالیہ تکفیری قاتلانہ نظام پسند نہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اسلامی قاتلانہ شریعت پر اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے عمل کیا جائے۔

گیارہ ستمبر کے بعد مشرق ومغرب دونوں کو شدید دھچکا لگا۔۔ وہ ہزاروں بے گناہوں کی لاشوں پر خوابِ غفلت سے بے دار ہوئے۔۔ اوپر سے طرہ یہ کہ اس دہشت گردی پر مسلمانوں نے جشن منائے۔۔ سڑکوں پر نکل کر رقص کئیے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔

Free Image Hosting

فلسطین کے مسلمان گیارہ ستمبر کے واقعہ پر جشن مناتے ہوئے

 

اور اس طرح اسلام کے ساتھ مغرب کے تعلق نے ایک نیا موڑ لیا اور لوگوں نے دھڑا دھڑ قرآن خرید کر اس خطرناک مذہب کی تعلیمات جاننے کی کوشش کی۔ دوسری طرف میڈیا نے اسلام پر رپورٹیں تیار کرنا شروع کیں تاکہ اس مذہب کی تعلیمات کی بابت لوگوں میں شعور بیدار کیا جاسکے جس میں گردن کاٹنا۔ ہاتھ کاٹنا۔ کوڑے مارنا۔ عورتوں پر تشدد کرنا اور دیگر بربریت پر مشتمل تعلیمات شامل تھیں۔


مغرب کو واضح پیغام۔ پھر اسلاموفوبیا کہاں ہے؟

 

صلعم کے کارٹونوں پر اسلامی دنیا کے شدید ردِ عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس طرح مغرب کو اس شیطانی مذہب کی سنگینی اور اس سے درپیش خطرات کا احساس شدت سے ہونے لگا۔ جس وقت مغرب کو یہ احساس ہوا کہ آزادی۔ مساوات اور لبرازم پر مبنی ان کی اقدار کو اسلامی اژدہا سے شدید خطرات کا سامنا تھا وہیں اسلام کا دفاع کرنے والوں کو بھی اپنی بقاء خطرے میں نظر آنے لگی کیونکہ شہتوت کا وہ آخری پتہ جس نے ان کی شرمگاہ کو ڈھانپ رکھا تھا کھسک چکا تھا جس پر وہ مغرب کو اسلام سے بے جا خوف پر ملامت کرنے لگے۔

Free Image Hosting

 

شاید اگلے سو سال تک انسانیت کو درپیش خطرات میں سے اسلام سرفہرست رہے گا۔ کیونکہ زیادہ تر مسلمان تعلیمی اور شعوری لحاظ سے جاہل ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں نظامِ تعلیم اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھ ہے جسے وہ بچوں کی برین واشنگ کیلیئے استعمال کرتے ہیں اور یہ زہر نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔

1 Comment

  1. حقایق پر مبنی مضمون کی ثقاہت کو ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے.اگرچہ اس سے مضمون کا بنیادی خیال مجروح نہیں ہوتا. پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ درست نہیں کہ مغرب کو ٩/١١ سے پہلے اسلام کے خطرے کا اندازہ نہیں تھا سرد جنگ کے دور میں مسلمانوں کی نظریاتی خون آشامی کو نہ صرف جانا جاتا تھا بلکہ اسے سوویت یونین کے خلاف ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کیا گیا. اسی طرح اس سے مغربی تہذیب کو درپیش خطرات کا ادراک بھی پالیسی سازوں کو تھا اور اسی لئے سوڈان اور افغانستان میں اسامہ بن لادن کے اڈوں پر حملے بھی کے گئے جو ٩/١١ سے پہلے کی بات ہے. یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مسلمانوں نے کسی قابل ذکر پیمانے پر ٩/١١ کے بعد مسرت کا کوئی اجتماعی مظاہرہ کیا. یقینا دل میں بہت سے مسلمان اس پر خوش ہوۓ ہوں گے مگر یہ کہنا کہ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں یا سڑکوں پر رقص کیا، خلاف حقیقت ہے. فلسطینیوں کی مٹھائی بانٹتے ہوۓ جو تصویر لگائی گئی ہے، اسے بش اور بلیئر نے اسی عنوان کے تحت پھیلا کر عوام کے دلوں میں جنگی جانوں پیدا کیا مگر بعد میں ثابت ہوا کہ خوشیاں منانے کے یہ مناظر در اصل عراق کے کویت پر قبضے پر کچھ لوگوں کے خوشیاں منانے کے ہیں.

جواب دیں

1 Comment
scroll to top