Close

غیبی آوازیں

 

کیا آپ کو کوئی آوازیں سنائی دیتی ہیں؟ مجہول آوازیں جو آپ کے سوا کوئی دوسرا نہ سن سکتا ہو؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر آپ ایک صحت مند انسان ہیں جس کی دماغی حالت بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ جسے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہوں وہ دماغی مریض ہوتا ہے، پاگل خانے ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں جنہیں ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو ان سے بات کرتی ہیں.

کیا آپ نے کبھی ایسے کسی پاگل کو دیکھا ہے؟ میں نے بچپن میں ایسے کئی پاگل دیکھے تھے جو گلیوں میں آوارہ گھومتے پھرتے تھے، ان میں سے ایک کی پیش گوئی تھی کہ ہمارا شہر سمندر میں ڈوب جائے گا، یہ پیش گوئی وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کرتا تھا اور لوگ اس پر ہنستے تھے کیونکہ ہمارا شہر سمندر سے ہزاروں میل دور تھا اور اس کے سمندر میں ڈوبنے کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں تھے۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ نبی ہو جس کا ہم مذاق اڑاتے رہے اور اب اس کی پاداش میں اللہ ہمارے شہر کو غرقاب کردے گا؟ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ انڈین مرغا پاکستانی مرغے کو ہرا دے گا۔۔ اور سچ کہوں تو اس کی یہ پیش گوئی بالکل درست تھی کیونکہ کچھ ہی عرصہ بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم انڈین ٹیم سے ہار گئی تھی۔۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ شخص پوری طرح مالیخولیا کا مریض تھا اور عقل سے فارغ تھا۔

جب کوئی شخص کہے کہ اس نے ایک آواز سنی ہے جو کہہ رہی تھی کہ اپنی قوم کو ہدایت دو تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ بیمار ہے اور ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ میسنجروں کے میسنجر اور بارہ پروں والے جبریل نے ہی اس سے بات کی ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرشتے لوگوں سے بات کرتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جن بھی لوگوں سے بات کرتے ہیں، جبکہ کچھ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ شیطان بھی لوگوں سے بات کرتا ہے۔۔ امریکہ میں ہزاروں لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ایلینز نے ان سے بات کی جبکہ ان کے سوا کسی اور نے یہ شرفِ ملاقات نہیں دیکھی ہوتی، قرینِ قیاس یہی ہے کہ یہ لوگ پاگل ہیں انبیاء نہیں.

پوری دنیا میں نفسیاتی اور اعصابی ڈاکٹروں کے پاس ہر سال لاکھوں لوگ ایسی آوازوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں جو انہیں اپنے دماغ میں سنائی دیتی ہیں، ایسا انسان جسے اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہوں وہ یقیناً ایک مریض اور بے چارہ شخص ہے اور شاید دوسروں کیلئیے بھی خطرہ ثابت ہو۔۔ کچھ عرصہ قبل ایک خبر پڑھی تھی کہ ایک عورت نے اپنے بچوں کو قتل کردیا اور عدالت میں کہا کہ ایک آواز نے اسے ایسا کرنے کیلئیے کہا جسے اس نے یسوع کی آواز سمجھا۔۔ آپ بھی یہ قصہ سن کر یہی کہیں گے کہ یہ عورت پاگل ہے مگر۔۔۔ کیا ہزاروں سال قبل مشرقِ وسطی میں ایسا ہی ایک واقعہ نہیں ہوا؟

جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے۔۔ ابراہیم نامی ایک پاگل نے ایسی ہی ایک آواز سنی جس نے اسے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور وہ پاگل اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئیے پہاڑ پر چڑھ گیا۔۔ ذرا سوچیں اگر ایسا ہی کوئی ابراہیم آج کے زمانے میں آکر ایسی حرکت کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ لوگ اسے پاگل خانے میں داخل کروانے میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیں گے۔۔ مشرقِ وسطی ہی کا ایک اور پاگل بھی ابراہیم ہی کی طرح آوازیں سنتا تھا اور ان کی بنیاد پر لوگوں کی زندگی کے فیصلے کرتا تھا۔۔ اسے قتل کردو۔۔ اُس قبیلے کی عورتوں کو باندیاں بنا لو۔۔ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔۔ اس کی گردن کاٹ دو۔۔۔ کس بنیاد پر؟ محض ایک آواز جو اس سے بات کرتی تھی، یہ ہمارے شہر کے اس پاگل سے مختلف نہیں ہے جو ہمارے شہر کے ڈوبنے کی پیش گوئی کیا کرتا تھا۔۔ مگر پہلا نبی اور دوسرا پاگل کیوں قرار پایا؟

دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ لوگوں نے پہلے پر یقین کر لیا جبکہ دوسرے کی بات کسی نے نہیں مانی، بعض اوقات ایسے کسی نفسیاتی مریض کا تُکا لگ جاتا ہے جیسے کچھ سالوں پہلے کینیا میں ایک نبی آیا اور لاکھوں لوگ اس پر ایمان لے آئے۔۔ اس نے پیش گوئی کی کہ نیروبی شہر میں زلزلہ آئے گا اور اسے تباہ کردے گا، پھر اتفاق ایسا ہوا کہ واقعی نیروبی میں معمولی سے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیئے گئے چنانچہ اس نے لوگوں سے کہا کہ یسوع انہیں متنبہ کر رہا تھا، یوں لوگ جوق در جوق اس پر ایمان لانے لگے۔۔ کم از کم اس کی پیش گوئیاں صلعم سے تو بہتر ہی ہیں تو کیوں نا اس پر ایمان لایا جائے؟ آخر اسے بھی تو آوازیں سنائی دیتی ہیں؟

ان انبیاء کی کامیابی کا راز ماضی میں آنے والی ایسے ہی پاگلوں پر ہے، ہمارے شہر کو غرقاب کرنے کی پیش گوئی کرنے والے پاگل نے اپنے آپ کو سابقہ انبیاء سے منسلک نہیں کیا، جبکہ صلعم نے ایسا کیا اور کچھ سابقہ انبیاء کے دستیاب قصے بیان کردیئے، ساری Trick یہی ہے، اگر ماضی میں انبیاء کو آوازیں سنائی دیتی تھیں تو وہ کیوں نا آوازیں سنے؟ اور چونکہ وہ سابقہ انبیاء کا احترام کرتا تھا لہذا یہ بات یقینی ہے کہ اسے بھی آوازیں سنائی دیتی ہوں گی۔۔ اس طرح اس کی نبوت پر مہرِ تصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔

اپنے آپ کو ایک نبی کیسے ثابت کریں؟ یہ بہت آسان ہے۔۔ آپ کو پرانی کتابوں کی تصدیق کرنی ہوگی اور توریت، انجیل اور زبور کا راگ الاپنا ہوگا پھر ہزاروں سال پہلے مر کر سڑ جانے والے انبیاء کے کندھوں پر بندوق رکھ کر بہترین جھوٹے قصے سنانے ہوں گے، یہ بعینہ نئے آنے والے ڈکٹیٹر کی طرح ہیں جو اپنے اقتدار کو جواز دینے کیلئیے سابقہ ڈکٹیٹر کی تعظیم کرتا ہے تاکہ اپنا الو سیدھا کر سکے۔۔ عبد الناصر پھر انور السادات۔۔ سٹالن پھر لینن انقلاب کو جاری رکھتے ہیں اور پھر اگلے موڑ پر یو ٹرن لیتے ہیں۔

یہاں پہنچ کر جب یہ پاگل جسے آوازیں سنائی دیتی ہیں ہزاروں سال پہلے ایسے ہی پاگلوں کا حوالہ دیتا ہے جنہیں ایسی ہی آوازیں سنائی دیتی تھیں تو پھر اس کا انکار کفر بن جاتا ہے اور ایسے لوگوں کیلئیے جہنم کے دروغے سیخ کباب لیئے منتظر ہوتے ہیں۔۔ انسانیت کی تاریخ مضحکہ خیز ہے خاص طور سے جب ایسے پاگل لوگوں کو بے وقوف بنا کر دولت واقتدار تک پہنچ جاتے ہیں، یا پھر ایسے لوگ جو ایسے پاگلوں کی کہانیوں کو بنیاد بنا کر لوگوں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔۔ پاگلوں کو بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور ابنیاء کو بھی، یہ انبیاء بھی دیگر پاگلوں کی طرح پاگل ہی ہیں مگر وہ لوگوں کو یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ آواز اللہ کی ہے، ایسے پاگلوں کی شخصیت احمقوں کیلئیے کرشماتی شخصیت بن جاتی ہے اور وہ اسے پوجنے لگتے ہیں۔

جب یہ نفسیاتی نبی مرتا ہے اور جو کسی حد تک عیش و آرام کی زندگی گزار چکا ہوتا ہے تو اس کے بعد سیاستدان کی باری آتی ہے جسے سلطان یا خلیفہ کہا جاتا ہے، یہ خلیفہ یا سلطان بھاڑے کے راوی اور مؤرخ تعینات کرتا ہے جو احمقوں کیلئیے اس قصے کو عظیم بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔۔ وہ اسے ڈرامہ اور سیرتِ نبوی بنا دیتے ہیں جن سے احکامات کشید کر فقہ، شریعت اور لاہوت بنایا جاتا ہے اور پھر آگے چل کر یہ سب بکواس قانون بن جاتی ہے اور جو کوئی بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کی جرات کرتا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے، خلیفہ خدا کا سایہ بن جاتا ہے اور اس کا حکم خدا کا حکم اور اس کی معصیت خدا اور نبی کی معصیت بن جاتی ہے، یوں خلیفہ خدا کا نائب بن کر لوگوں پر طویل حکومت کرتا ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ ماضی میں لوگوں نے ان پاگلوں پر یقین کیوں کیا؟ جواب آپ کی سوچ سے بھی زیادہ آسان ہے۔۔۔

ماضی میں وکیپیڈیا نہیں تھا، تعلیم نہیں تھی، لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ معقول اور خیال میں کیسے تفریق کی جائے، آج کی طرح کی سائنس نہیں تھی جو آپ کو جوابات دے سکے، لوگوں کا سارا انحصار جادوگروں، نجومیوں، انبیاء اور خرافات پر ہوتا تھا، وہ انہی میں اپنے سوالوں کے جوابات ڈھونڈتے تھے۔۔۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔۔ قرآن بہت سارے قدرتی مظاہر کی بات کرتا ہے اور چودہ سو سال پہلے عرب کے صحراؤں میں بغیر گوگل کے رہنے والے ایک عرب بدو کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔ ہے نا؟ درست مگر قدرتی مظاہر کی کیا توجیہ پیش کرتا ہے یہی راز ہے؟ زلزلہ سزا ہے۔۔ بیماری امتحان ہے۔۔ چاند اور ستارے رات کو راستہ بتانے کیلئیے قطب نما کا کام کرتے ہیں۔۔ یہ سب انتہائی مضحکہ خیز ہے۔۔ خاص طور سے جب آپ قرآن کی دن اور رات کی توجیہ پڑھتے ہیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔۔ قرآن کا کاتب دن اور رات کو سورج جیسے چمکنے والے ستارے سے منسلک کرنے میں ناکام رہا اور دن رات کو سورج سے بالکل الگ کسی شئے کے طور پر پیش کیا، صلعم کو لگا کہ دن اور رات چادریں ہیں۔۔ رات کی چادر آکر دن کو ڈھک لیتی ہے اور دن کی چادر آکر رات کی چادر کو ڈھک لیتی ہے۔۔ کیا ہی عظیم سائنسی توجیہ ہے؟!

اعجازیوں کی تاویلوں پر کان نہ دھریں۔۔ کہانی بہت ہی آسان ہے، نہ سائنسدان تھے نہ سائنس تھی، وہ ایک قدیم دنیا تھی جس پر جادوگروں، نجومیوں، جعلسازوں اور لمبی لمبی داڑھیوں والے انبیاء کا راج تھا یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے پاگلوں پر یقین کر لیا.

یہاں کوئی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ یہ ساری کہانیاں جو قرآن سناتا ہے جو صلعم کو معلوم تھیں اور انجیل میں بھی لکھی ہوئی ہیں۔۔ وہ ساری پیش گوئیاں۔۔ ان سب کا کیا۔۔ ایسے شخص کو میں کہوں گا کہ ذرا آرام فرمائیں۔۔ لمبی سانس لیں۔۔ بیئر کا ایک گلاس پئیں اور میرے ساتھ سوچیں۔۔ کیا آج بھی ایسے کہانیاں لکھنے والے موجود نہیں جو ایسی کہانیاں لکھتے ہیں جو کبھی ہوئی ہی نہیں تھیں؟ یہ کہانیاں بالکل ایسی ہی ہیں۔۔ آوازیں سننے والا ایک پاگل + بادشاہ، سلطان، خلیفہ + خیالی کہانیاں گھڑنے والا مصنف = مذہب۔۔۔ کنگ آرثر یا جان ڈارک کا قصہ جنہوں نے اپنی قوم کو آزاد کیا۔۔ یہ موسی کا قصہ ہے۔۔ سورہ کہف میں موسی اور خضر کا قصہ شرلاک ہومز کا قصہ ہے۔۔ موسی کو ایک تابوت میں ڈال کر نیل میں بہا دینا اور اس کا مصریوں سے بچ جانا سوپر مین کے بچ جانے کا قصہ ہے جس کے باپ نے کریپٹن سیارے کے پھٹ جانے کی پیش گوئی کی اور سپر مین کو ایک جہاز میں بٹھا کر وہاں سے نکال دیا۔۔۔

خیالی کہانیاں جن کی بنیاد آوازیں سننے والے پاگل ہیں اور جو وقت کے ساتھ ساتھ ذہنوں میں پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں اور مصداقیت حاصل کر لیتی ہیں اور لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ خلاء سے آئی ہیں جہاں خدا رہتا ہے۔۔وہ ڈرپوک خدا جس کی آواز صرف پاگلوں کے دماغوں میں ہی گونجتی ہے۔

8 Comments

  1. موضوع اچھا ہے لیکن مصنف کی خود سے طے کردہ قطعیت نے اس کو محض ایک نعرے کی شکل دیدی ہے،جس کی وجہ سے پڑھنے والا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو دوسرے کنارے پر کھڑا محسوس کرتاہے۔غائب کی آوازیں سننے والوں پر پوری طاقت کے ساتھ ایمان لے آنے والوں نے صدیوں میں ایک دنیا تخلیق کی ہے جہاں وہ اپنے مرتب کردہ ایمان کے تحت مقدس اساطیر اور غائب سے درآمدہ مذہب کی چھتری تان کر زندہ رہتے ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ باقی کی دنیا نے اِن کی اس حیثیت کو تسلیم بھی کرلیا ہے اور اِنہیں مذہبی ہونے کا نام بھی دیدیا ہے۔اب ایسی صورت حال میں تقریباً تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقادات اور ایقان کو بھبھاکے سے اُڑا دینا آسان تو نظر آتا ہے لیکن آسانی کے ساتھ ہضم ہوتا نظر نہیں آتا۔
    میرا ذاتی خیال ہے کہ فاضل مصنف نے کسی قدر جذباتی پن کا ثبوت دیا ہے اورایسی تند روش اختیار کی ہے جو فوری طور پر اپنا اثر کھوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے کیوں کہ اس میں غائب کی آوازوں کو تسلیم کرلینے والوں کو کوئی راہ سجھانے سے زیادہ بے رحمی کے ساتھ رد کردیا گیا ہے۔کیوں کہ ایمان اور عقیدہ تہہ در تہہ تسلسل کے سہارے چلتے ہوئے نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں اور اپنا اثر بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔اب اِنہیں رد کرنے کے لیےبھی عقلی دلائل اور براہین کا باضابطہ تسلسل درکار ہے۔لیکن مذکورہ بالا مضمون اس تسلسل سے بہت حد تک تہی ہے اور ایمان ہی کی طرح کی کوئی جذباتی چادر اس پر لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔
    نفس مضمون کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں لیکن مضمون کے مطمع نظر کے بارے میں تحفظات کو بھی یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا میری استدعا ہے کہ اس مضمون کو دوبارہ لکھا جائے اور اس میں جہاں جہاں جذباتیت کا غلبہ ہے اس کو صاف کرکے استفہامیہ بنایا جائے تاکہ پڑھنے والا سوالات کی ایک قابل قدر تعداد کو اپنے ذہن میں سمیٹ کر مضمون کو ختم کرے۔
    خیر اندیش
    خامہ بگوش مدظلہ

  2. اپنی زبانی بڑ بڑ کر کے ” وحی” کا پیغام کیہ دینا کتنا آسان تھا..
    جنگ بدر میں ھزارون فرشتے منکروں کو تع تیغ کرنے آئے اور صرف 70 منکر قتل کر پاۓ..
    وہ فرشتے کسی نے نہیں دیکھے.
    ایک دن عائشہ پے جبرائیل سلام ٹھوک رھا تھا مگر اسے دکھائی تو کجا سنائی تک نہیں دیا.. بیچاری یہاں وہاں دیکھ کے خاموش ھوگئی.

  3. Mayray Sath takreban kafi saal yahe kefeyat rahi…Mujay aysay lagta tha kay mujay "Elhamaat” hotay hain…KHUDA ki taraf say…..but in the end i concived it was just an assumption…Mazhab aur apnay Aqeeday say Andaay Lagaoo ne mujay Lashaaori toor pay motasir keya tha…baki on ki hakikat kuch bi nahi the, jab main ne Rationaly ghooar keya to mehaz mayra weham nikla…

  4. شام کے وقت ڈرائیور ایک خالی وین دوڑائے چلا جا رھا تھا۔ اچانک گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور گاڑی آھستہ ھوتے ھوئے سڑک کے ایک طرف کھڑی ھو چکی تھی… نہایت صاف شفاف اور سفید رنگ کا سوٹ پہنے ایک باریش بابا جی آگے بڑھے اور وین کا دروازہ کھول کر ڈرائیور سے پچھلی سیٹ پر آبیٹھے…
    “کہاں جانا ھے آپ کو بابا جی؟“ ڈرائیور نے گاڑی دوڑاتے ھوئے سوال کیا۔
    “مجھے کہیں نہیں جانا ھے… صرف آپ کے پاس بھیجا گیا ھے مجھے…. میں موت کا فرشتا ھوں…“
    “ہاہاہا… خوب مذاق کرتے ھیں آپ بھی بابا جی۔“ ڈرائیور نے قہقہہ لگایا…
    تھوڑی دیر بعد ڈرائیور کو سڑک کے کنارے دو عورتیں کھڑی نظر آئیں۔ ایک نے وین کو رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ خوش تھا کہ چلو گھر جاتے ھوئے کچھ پیسے بن جائیں گے… اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو عورتیں بابا جی سے پچھلی سیٹ پر جا بیٹھیں…
    باجی! کہاں جانا ھے آپ کو؟“ ڈرائیور نے سٹیرنگ سنبھالتے ھوئے کہا۔۔
    “ہمیں حیات نگر جانا ھے“ ایک عورت نے جواب دیا…
    ٹھیک ھے باجی… اور بابا جی اب آپ بھی بتا ھی دیں کہ آپ کو کہاں جانا ھے“ ڈرائیور نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا..
    “میں آپ کو بتا تو چکا ھوں کہ میں موت کا فرشتہ ھوں… عزرائیل… اور یہ کہ تمھاری موت گاڑی میں لکھی ھوئی ھے… مجھے اور کہیں نھیں جانا۔“
    “ہاہاہاہا… ویگن میں ایک بار پھر قہقہہ بلند ھوا… “سنو سنو باجی! یہ بابا جی کہتے ھیں کہ میں موت کا فرشتہ ھوں… ہاہاہا…“ ڈرائیور نے خواتین کو مخاطب کر کے قہقہہ لگایا اور گاڑی مزید تیز کردی۔
    “موت کا فرشتہ؟ بابا جی؟ کون بابا؟ کون موت کا فرشتہ؟ یہاں تو کوئی بھی نھیں ھے۔۔۔“ عورتوں نے حیرت سے جواب دیا۔۔
    “ آپ دیکھو تو سہی… میرے پیچھے جو سفید کپڑے پہنے بابا جی بیٹھے ھیں… آپ سے اگلی سیٹ پر“ ڈرائیور نے دھیان سے گاڑی چلاتے ھوئے کہا…
    “ نہیں تو ادھر تو کوئی بابا جی نہیں ہے….. آپ مذاق کر رہے ھیں…“ عورتوں نے کہا تو ڈرائیور کا رنگ فق ھو گیا
    اس نے گاڑی روک دی… اب جو چپکے سے پیچھے دیکھا تو بزرگ کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رھی تھی… جب کہ دونوں عورتیں بےنیاز ھو کر اپنی باتوں میں مگن تھیں… ڈرائیور خوفزدہ ھو گیا اور ڈر کے مارے کانپنے لگا…
    “تیری موت اسی گاڑی میں لکھی ھوئی تھی… اب وقت آن پہنچا ہے…“
    موت کے فرشتے نے سرد لہجے میں کہا اور ڈرائیور کی طرف اپنا بھاری بھرکم ھاتھ بڑھا دیا… گاڑی میں ایک زوردار چیخ بلند ھوئی… ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا قریبی کھیتوں میں جاتی ھوئی پگڈنڈی پر دوڑ لگادی…
    دوڑتے ھوئے اچانک اس نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو موت کا جعلی فرشتہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا گاڑی بھگا کے لے جا رھا تھا، جب کہ پیچھے بیٹھی خواتین کے قہقہے بلند ھو رہے تھے… اور ساتھ ھی وکٹری کی علامت بنائی جارھی تھی… ڈرائیور اب موت کے فرشتے کی ساری حقیقت سمجھ چکا تھا..

جواب دیں

8 Comments
scroll to top