Close

چور مچائے شور: کشمیر (حصہ دوم)

 

 

مظلوم نما ظالم:
اس مضمون کے پہلے حصے میں اس بات کی وضاحت کی جا چکی ہے کہ اقوام عالم نے مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی فارمولے کو وہاں رہنے والے یہودی اور عربوں کے لئے ایک قابل عمل حل قرار دیا تھا۔ عربوں نے اس فارمولے کو رد کیا اور اسرائیل پہ چڑھ دوڑے۔ بجائے پُر امن بقائے باہمی کے عربوں نے اسرائیل کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کر کے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا آغاز کیا اور تنازعے کو بات چیت سے حل کرنے کی بجائے طاقت کے ذریعے نپٹانے کی ٹھان لی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت جتنا علاقہ اسرائیل کے پاس تھا اس سے چار گنا زیادہ علاقہ آج اسرائیل کے پاس ہے۔ یہ علاقہ عربوں نے اسرائیل سے جنگوں میں ہارا ہے۔ ہر دفعہ جنگ کا آغاز عربوں نے ہی کیا اور ہر دفعہ شکست کھا کر اسرائیلی ریاست کو مزید توسیع دینے میں مدد کی۔

لطف یہ ہے کہ آج اسرائیل سے مقبوضہ علاقہ کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ مغربی کنارے کی ساری پٹی پر اردن نے پہلے قبضہ کیا۔ بعد ازاں اردن کی اپنے خلاف جارحیت کے نتیجے میں اسرائیل نے یہ سارا علاقہ اردن سے چھینا۔ آج اسرائیل کو توسیع پسند اور غاصب قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کا فیصلہ کس کا تھا؟ عربوں نے اسرائیل پر ہر حملہ اس سے پیار محبت بڑھانے یا وہاں کے شہریوں میں مٹھائی تقسیم کرنے کے لئے تو کیا نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ حملے اسرائیل کو مٹانے کے لئے کئے گئے۔ اس سے اس کی زمین چھیننے کے لئے کئے گئے۔ اس کے شہریوں کو اپنی رعایا بنانے کے لئے کئے گئے۔ اُنہیں پھر دربدر کرنے کے لئے کئے گئے۔ عربوں کو کیا پتہ تھا کہ الٹی آنتیں گلے پڑ جائیں گی۔ کھیل آپ نے خود چنا۔ اگر بساط الٹ گئی تو کیسا شکوہ۔ جو اسرائیل عربوں کے ساتھ کر رہا ہے اُس پہ رونا دھونا کیوں؟ یہی سب کچھ تو آپ اسرائیل کے ساتھ کرنا چاہتے تھے، اور اب بھی یہی کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کو اپنے ہی کھیل میں شکست ہوگئی ہے۔ اِسے کہتے ہیں ‘‘مظلوم نما ظالم’’۔

مسئلہ کشمیر:
غیر تقسیم شدہ ہندوستان میں 1946ء کے انگریزوں کے پیش کردہ کیبنٹ مشن پلان کے تحت کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت بنائے جانے پر دونوں فریقین میں اتفاق ہوچکا تھا۔ کانگریس کی منظوری کے باوجود پنڈت نہرو نے اس پلان کو مسترد کر کے ہندوستان کی تقسیم کا راستہ کھول دیا۔ نہرو نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی سب سے اہم وجہ جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نہرو زرعی اصلاحات کے ذریعے ہندوستان سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتا تھا۔ لیکن جاگیرداروں پہ مشتمل مسلم لیگ کو یہ بات منظور نہ تھی۔ انہی اختلافات میں ایک یہ اختلاف بھی تھا کہ نہرو کی خواہش تھی کہ Princely States کی عوام اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا اُسے ایک آزاد ریاست کے طور پہ رہنا ہے یا ہندوستان میں الحاق کرنا ہے۔ جبکہ نو آبادیاتی برطانیہ یہ حق ریاست کے نواب یا راجہ کو دینا چاہتا تھا جس کو مسلم لیگ کی پُرزور تائید حاصل تھی۔ بہرحال انڈیپنڈنس آف انڈیا 1947 کے ایکٹ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ نوابی ریاست یا رجواڑے کا حکمران ہی آزاد رہنے یا بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرے گا۔ جناح اس طریقۂ کار کے زبردست حامی تھے۔

اسی ایکٹ کے تحت کشمیر کے راجہ نے کشمیر کو ایک آزاد ریاست رکھنے کا فیصلہ کیا (تفصیلات کے لئے شیخ عبد ﷲ کی خود نوشت ‘‘آتشِ چنار’’ ملاحظہ کیجئے) اِسی طرح حیدر آباد دکن کی دولت مند ریاست نے بھی آزاد رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ابھی پاکستان بنے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ پاکستان کی جانب سے قبائلی لشکر نے کشمیر کی کمزور ریاست پر حملہ کردیا جسے جہاد کشمیر کا نام دیا گیا۔ جنرل اکبر نے اپنی کتاب “Raiders of Kashmir” میں اس بات کا کُھل کے اعتراف کیا ہے کہ دراصل اُس قبائلی لشکر کو پاک فوج کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل تھی۔ آپ اُنہیں اُس وقت کا طالبان سمجھ سکتے ہیں۔ اُسی وقت سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور قبائلی مجاہدین کا اتحاد شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

اکثر پاکستانی مفکر اور تاریخ دان امریکہ کو 1979-1988ء کے افغان جہاد کے دوران مجاہدین اور طالبان کا خالق قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے پروردہ قبائلی مجاہدین کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ اُسی وقت سے شروع ہوجاتی ہے جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا اور جب کہ اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے بین الاقوامی اتحاد جیسے  Seato یا Cento میں شریک تک نہ تھا۔

جب ریاست کشمیر کے حکمران ہری سنگھ نے یہ دیکھا کہ اُس کی کمزور ریاست ایک بڑے ملک کی Proxy فوج سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتی تو اُس نے بھارت سے مدد طلب کر لی۔ بھارت نے اس موقعے سے فائدہ اُٹھایا اور نہرو نے بھارتی فوج کی مدد کو کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے ساتھ مشروط کیا۔ ناچار ہری سنگھ کو بھارت کی یہ شرط ماننی پڑی۔ یوں انڈیپنڈنس آف انڈیا 1947 کے ایکٹ کی رو سے بھارت کو ریاست کشمیر کو اپنے ملک میں شامل کرنے کا قانونی حق مل گیا۔ بھارتی فوج نے قبائلی لشکر کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ سیز فائر کے تحت اُسے رک جانا پڑا اور کشمیری ریاست کے ایک بڑے حصے کو وہ واپس لینے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہی حصہ اب پاکستان میں‘‘آزاد کشمیر’’ کہلاتا ہے جبکہ بھارت میں اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے اپنے کئی بیانات میں پاکستانی قبائلی لشکر کشی کو پاکستان کی ایک بہت بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق طاقت کا یہ کھیل شروع کر کے پاکستان نے از خود بھارت کو کشمیر پہ قبضہ کرنے کا جواز مہیا کیا۔ دراصل پاکستان نے انڈپنڈنس آف انڈیا 1947ء کے ایکٹ کی پاسداری میں بدنیتی سے کام لیا۔ وہ دونوں جہانوں کا مزا لوٹنا چاہتا تھا۔ ایک طرف تو اُس کا خیال تھا کہ حیدر آباد دکن کا حکمران نظام برطانیہ سے اپنے مضبوط تعلقات کی بنا پر اپنی ریاست کو آزاد رکھنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اسی لئے جناح نے برطانیہ کے پیش کردہ اُس تجویز کی حمایت کی جس کے تحت نوابی ریاست کے حکمران کو ہی ریاست کی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ نظام اپنی بے پناہ دولت سے نومولود پاکستان کی کفالت کررہا تھا۔ اس لئے پاکستان حیدر آباد کو آزاد ریاست کے طور پہ دیکھنا چاہتا تھا۔ دوسری جانب پاکستان کا خیال تھا کہ وہ اپنی پڑوسی ریاست کشمیر پر بزور شمشیر قابض ہوجائے گا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔

ایک جانب تو پاکستان نے کشمیر پر فوج کشی کر کے خود اُسے بھارت میں شامل ہونے پہ مجبور کیا۔ دوسری جانب بھارت نے طاقت کے ذریعے دکن پر اُسی طرح قبضہ کرلیا جیسے کہ پاکستان نے قلات کی ریاست پر قبضہ کیا۔ اسے کہتے ہیں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ یہاں کے رہے نہ وہاں کے رہے۔ یہاں پر بھی عربوں کی طرح پاکستان نے ہی جنگ وجدل کے کھیل کی ابتدا کی اور لو اپنے دام میں خود صیاد آگیا۔

بھارت کی بلیک میلنگ کے تحت کشمیر کے الحاق پر کشمیری عوام میں غم و غصہ پایا گیا۔ اُنہیں اس بات پر غصہ تھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک لوٹ کا مال بن گیا تھا۔ چنانچہ کشمیر میں اپنی ریاست کی آزادی کے لئے ایک قومیت پرست، جمہوری اور سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا جس میں کشمیری مسلمان اور ہندو شانہ بہ شانہ شریک تھے۔ جبکہ پاکستان نے کشمیر پہ قبضے کے خواب کو کبھی بھی فراموش نہ کیا۔ وہاں پائی جانے والی سیاسی بے چینی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پاکستان نے ایک بار پھر 1965ء میں کشمیر پہ حملہ کیا۔ اس بار پاکستان نے سوچا کہ کیونکہ لائن آف کنٹرول ایک متنازعہ سرحد ہے اس لئے یہاں حملے کے نتیجہ میں جنگ یہاں تک ہی محدود رہے گی۔ لیکن اس دفعہ بھی اندازے میں غلطی ہوئی اور بھارت نے پاکستان کو فل سکیل جنگ کی صورت میں جواب دیا۔ پاکستان کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔

پاکستان نے کشمیریوں کی قومی جد وجہد (نیشنلسٹ موومنٹ) کو مذہبی جد وجہد میں تبدیل کر کے اُسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا نقطہ عروج ضیاء الحق کا دورِ آمریت ہے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ جہادی تنظیمیں مسلسل پاکستانی نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر کشمیر میں در اندازی کے لئے بھیجتی رہی ہیں۔ اس بیرونی مداخلت کی وجہ سے بھارتی حکومت کو کشمیر میں بنیادی شہری حقوق معطل کرنے کا جواز مل گیا جس کی لپیٹ میں کشمیر کے عام شہری بھی آگئے۔ مجاہدین نے ہندو کشمیریوں کا قتل عام کیا جس کی وجہ سے ہندو آزادیٔ کشمیر کی تحریک سے علیحدہ ہونے اور اپنی جان بچانے کے لئے ہماچل پردیش، ہریانا، پنجاب اور بھارت کے دیگر علاقوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ایک المیہ تھا کہ کشمیر کی آزادی کے نام پر غیر کشمیریوں نے کشمیریوں کا قتل عام کیا۔ کشمیر کے Cause کو بین الاقوامی سطح پر نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اب تک اس تحریک کو مقامی کشمیریوں کی قومی جد وجہد سمجھا جارہا تھا لیکن اس مہذب اور جمہوری طریقے سے چلائے جانے والی تحریک کو دہشت گردی میں تبدیل کردیا گیا۔ دنیا کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ کشمیر میں گڑبڑ مقامی شہری نہیں بلکہ پاکستان سے آئے ہوئے جہادی پھیلا رہے ہیں۔ کشمیری جد وجہد کا حال بھی تحریک آزادی فلسطین جیسا ہوا۔ ایک قومی تحریک کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔ یوں کشمیریوں کو عالمی ہمدردیوں سے محروم ہونا پڑا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی بات زیادہ تر پاکستان کے فوجی آمروں نے کی ہے جن میں ضیاء الحق سرفہرست ہے۔ دنیا اس بات پہ کتنا ہنستی ہوگی کہ پچاس لاکھ عوام کے حقِ خود ارادیت کی بات کرنے والے خود اٹھارہ کروڑ عوام کے حق خود ارادیت (Right of Self-detevnination) پامال کر کے اقتدار پہ قابض ہوجاتے ہیں۔ فوجی آمروں نے بار بار عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے منتخب حکومتوں کو گرایا۔ اُس وقت خود پاکستانی عوام کا حقِ خودارادیت کہاں گیا تھا؟

اسی طرح بھارت دوسرے ملک سے آئے ہوئے گوریلا لڑاکوں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال نہ کرے تو کیا کرے؟ اکثر اسلامی ملکوں بشمول عراق، یمن، سعودی عرب، شام، ایران وغیرہ میں تو خود اپنے ملک کے باغی شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ کیا پاکستان نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں اپنے ہی شہریوں کا قتل نہیں کیا تھا؟ کیا 1992-3ء میں کراچی میں تخریب کاروں کے خلاف آپریشن میں پاکستانی رینجرز نے ماورائے عدالت قتل نہیں کئے؟ کیا آج بھی بلوچستان میں قوم پرست بلوچوں کا خون نہیں بہایا جارہا؟ کیا 1985-6ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران ضیاء الحق نے سندھ کی عوام کے خلاف فضائی بمباری نہیں کرائی؟ آج بلوچی اور کل کو کسی اور علاقے کے لوگ پاکستان سے علیحدگی چاہیں تو کیا پاکستان اُنہیں حقِ خود ارادیت دے گا؟ اسلامی ملک تو اپنے شہریوں کےخون سے ہولی کھیلیں تو درست لیکن بھارت باہر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے تو غلط ہے؟ جیسے گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس جاتا ہے اسی طرح بد قسمتی سے بھارتی فوج کی کاروائی میں بہت سے بے قصور کشمیریوں پر بھی نزلہ گرا۔ لیکن اس میں بھارتی فوج جتنی قصور وار ہے اُس سے زیادہ پاکستانی جہادی تنظیمیں اور اُن کی سرپرست قوتیں ہیں۔ اُن کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر وہاں کے عوام کی قسمت کا فیصلہ کریں؟ اگر آج کسی اور ملک سے رضا کار بلوچ قوم پرستوں کی مدد کے لئے آجائیں تو کیا پاکستان اُسے برداشت کرے گا؟ کیا پاکستان اُسے پوری قوت سے کچلنے کی کوشش نہ کرے گا؟

یہ المیہ ہے کہ جنہیں اپنے ملکوں میں انسانی اور شہری حقوق کی الف بے کا پتہ نہیں ہے وہی فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں؟ جبکہ وہاں صورتحال کو بگاڑنے کے ذمہ داری بھی وہ خود ہی ہیں۔ اسے کہتے ہیں‘‘اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے’’۔

یورپی نو آبادیاتی نظام کا ردِ عمل:
اسلامی دنیا میں پچھلی صدی کے یورپی نو آبادیاتی راج کے خلاف بہت سی شکایات اور رنجشیں پائی جاتی ہیں۔ وہ اسے اپنے ممالک میں ہونے والے تمام مسائل کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ نومبر 2005ء میں فرانس میں ایک ہفتے تک مسلم تارک الوطن نوجوانوں نے سخت ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی۔ اس ہنگامہ آرائی کا عذر بھی اسی شکایت کو بنایا گیا، کئی نمایاں فرانسیسی نژاد مسلم شخصیات نے فرانسیسی حکومت سے ماضی کے نو آبادیاتی گناہوں کی معافی کا مطالبہ بھی کیا جو اُن کے نزدیک ہنگاموں کو روکنے کے لئے ضروری تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یورپی نو آبادیاتی نظام کی عمر تو بہت مختصر سی ہے۔ یہ تقریباً 1850ء میں شروع ہوکر 1920ء میں زوال پذیر ہوگئی۔ جبکہ ہم اسلامی تاریخ کے اُس طویل دور کو کیوں بھول جاتے ہیں جب ساتویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک تقریباً ایک ہزار سال تک مسلم توسیع پسندی اور سامراجیت کا دور دورہ رہا؟ جس کا نقطہ عروج قرونِ وسطیٰ کی سلطنتِ عثمانیہ تھی۔

اس سلطنت کا دور اپنی نو آبادیوں کے لئے کتنا منصفانہ تھا۔ اس کا اندازہ اس چھوٹی سی مثال سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ کے مفتوحہ ممالک کی عوام پر یہ فرض تھا کہ وہ اپنی نرینہ اولاد کا پانچواں حصہ (ہر پانچ بچوں میں سے ایک) سلطنت عثمانیہ کو غلام کی حیثیت سے حوالے کریں۔ یورپی نو آبادیاتی نظام تو کئی لحاظ سے اپنی نو آبادیوں کے لئے ایک نعمت ثابت ہوا۔ مثلاً یہ برطانوی راج ہی تھا جس نے ہندوستان میں جمہوریت، آئین، قانون کی بالادستی اور جدید علوم وغیرہ کو متعارف کیا۔ اگر وہ نو آبادیاتی نظام بُرا بھی تھا تو بھی اُس کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں رہے بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ مثلاً ہندو، بدھسٹ، سکھ وغیرہ بھی اُس کے زیر اثر رہے ہیں۔ لیکن آج ہندو یا بدھسٹ تو یورپ میں ہنگامہ آرائی نہیں کر رہے۔ وہ تو وہاں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث نہیں ہیں۔ اسلامی دنیا ہی برطانیہ یا یورپ کو اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار کیوں ٹھہراتی ہے؟

اس مضمون کے پہلے حصے میں یہ بات تفصیل سے لکھی جا چکی ہے کہ اسلامی دنیا کے اپنے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کی کہانیاں نہ صرف مبالغے پر مبنی ہیں بلکہ اکثر تو با لکل بے بنیاد ہیں۔ مسلمان اقلیتیں غیر مسلم ممالک میں نہایت امن وسکون کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اگر کہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ خود اُن کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جبکہ اسلامی دنیا میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے جس میں جدید مسلم ممالک جیسے ملائشیا، انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

مسلم دنیا کی بے بنیاد شکایات صرف وہاں تک ہی محدود نہیں جہاں مسلمان اقلیتی مذہبی گروہ کی حیثیت سے رہ رہے ہیں بلکہ وہاں بھی ہیں جہاں وہ اکثریتی آبادی رکھتے ہیں۔ مثلاً افغانستان اور عراق جہاں امریکہ کے زیر قیادت بین الاقوامی اتحادی افواج اُن دہشت گرد قوتوں سے بر سرپیکار ہیں جو خود اسلامی ممالک کے لئے بھی انتہائی سنگین خطرہ ہیں۔ ان حملوں کو جواز بناکر مغربی ممالک کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ تو محض ایک حجتِ ناتمام ہے۔ ورنہ یہ نفرت تو اُس سے کہیں پرانی ہے۔ ماضی قریب میں مسلمانوں نے جس میں القاعدہ اور اُس کا لیڈر اسامہ بن لادن سرِ فہرست تھے، امریکی فوج کی سعودی عرب میں موجودگی کو امریکہ کے خلاف نفرت کا جواز بنایا۔ گویا یہ بھی مغرب کا اسلامی دنیا پر ایک ظلم تھا۔ حالانکہ امریکی فوج سعودی عرب میں خود سعودی عرب کی درخواست پر آئی تھی کیونکہ سعودی عرب کو ایک اور اسلامی ملک عراق سے جان کے لالے پڑگئے تھے۔ یعنی مغرب کا کسی اسلامی ملک کی مدد کے لئے فوج بھیجنا اور اُس خطے کی حفاظت اور استحکام کے نقطہ نظر سے وہاں قیام بھی اُس کا ایک جرم ہے۔ آج جب عراق سے خطرہ ٹلتا نظر آتا ہے تو سعودی عرب کو یمن میں موجود القاعدہ کی عسکری قوت اور ایک دوسرے اسلامی ملک ایران سے خطرہ ہے۔

کیا افغانستان اور عراق پر امریکی اور اُس کے اتحادیوں کی فوجی کاروائی ہی اسلامی دنیا میں مغرب کے خلاف پائے جانے والے غم وغصہ کی وجہ ہے؟ کیا اسلامسٹوں کی دہشت گرد کاروائیاں انہی کا ردعمل ہیں؟ مضمون کے اگلے حصے میں ان نقاط کا جائزہ لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

چور مچائے شور (حصہ اول)

جواب دیں

0 Comments
scroll to top