Close

چور مچائے شور (حصہ اول)

مسلمان، خواہ ناخواندہ ہوں یا تعلیم یافتہ، اعتدال پسند ہوں یا انتہا پسند، ایک بات پر متفق ہیں، اُس پر یقین رکھتے ہیں اور ہر دم اور ہر سطح پر اُسی کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور وہ بات یہ ہے کہ وہ ساری دُنیا میں خواہ وہ امریکہ ہو یا یورپ، آسٹریلیا ہو یا فلپائن، بھارت ہو یا چین سنکیانگ (رُوس) چیچنیا یا سربیا، تھائی لینڈ ہو یا نائیجیریا، ہر جگہ مسلمان اقلیتوں پر مظالم ہو رہے ہیں اور خصوصاً اسرائیل اور فلسطین میں تو مُسلمانوں پر قیامت ڈھائی جارہی ہے۔ اُن کے لیے یہ بات ایک آفاقی کُلیے کی حیثیت رکھتی ہے کہ مسلمان جہاں کہیں بھی اقلیتی گروہ ہیں، وہ وہاں حکومتوں یا اکثریتی آبادی کے مظالم کا شکار ہیں۔

اِس بُہتان تراشی میں اسلامسٹ (Islamist) پروپیگنڈہ مشینری کی مُنہ میں زُبان رکھنے والا دراصل مغربی دانشوروں اور سیاستدانوں کا اپنا ایک گروہ بھی ہے جس کا تعلق بائیں بازو یا آزاد خیال اُس طبقے سے ہے جو شروع سے ہی اُس مغربی معُاشرے کو گالیاں دیتا آیا ہے جس نے اُسے اظہارِ رائے کی یہ آزادی دی ہے۔ اِن میں سرِفہرست کئی مشہُور شخصیات ہیں جیسے رپورٹر رابرٹ فِسک، برطانوی سیاستدان جارج گیلووے، امریکی دانشور ایڈورڈ چرچل اور نوم چومّسکی، لندن کا سابقہ میئر کین لیونگ اسٹون اور دیگر بہت سے۔ یہ آگ اور پانی کا اتحاد بھی بہت عجیب ہے۔ متذکرہ بالا اور اُن کے قبِیل کے دوسرے افراد مُلّحد یا لادین ہیں جو اسلامی نظریات اور قوانین کے مُطابق سب سے زیادہ قابلِ نفرت اور لائق سزا ہیں۔ اگر مُلاؤں کے بس میں ہو تو اسلامی قوانین کے مُطابق اِن افراد کے ساتھ بدترین سلوک ہو جیسا کہ اِن جیسوں کے ساتھ اسلامی مملکتوں ایران، سعودی عرب اور طالبان کے زیرِ اثر افغانستان میں ہوا ہے۔

شاید بائیں بازو کے گروہ کو بالکل بھی یاد نہیں ہے کہ شہنشاہ ایران رضا شاہ کے ہٹائے جانے کے بعد اُن کے دسیوں ہزار کامریڈوں کا ایران کے آیت ﷲ حکمرانوں نے کیا حشر کیا۔ وہ یہ بھی بھول چُکے ہیں کہ افغانستان میں مُلاؤں نے ڈاکٹر نجیب کی لاش کو کابل کی سڑکوں پر کیسے گھسیٹا تھا۔ کیونکہ وہ مغرب کی آزاد اور محفوظ فضا میں اسلامسٹوں کی دسترس سے دور بیٹھے ہیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر نہایت آسانی سے مغرب کو گالیاں دے سکتے اور اسلامسٹوں کی براہِ راست یا گھُما پھرا کر حمایت کر سکتے ہیں۔

فلسطینیوں پر مظالم

مُسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم کی داستانوں میں سرِ فہرست فلسطین اور کشمیر کی دل خراش اور جذبات انگیز حکایات ہیں۔ لیکن یہ داستانیں اُس وقت تک حقیقی معلوم ہوتی ہیں جب تک آپ اُن کے پسِ منظر کے واقعات کا قریب سے جائزہ نہ لیں۔ حقائق کو کھُلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد نہ صرف حقیقت کُچھ مختلف بلکہ عام طور پہ پیش کردہ صورتحال کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔

اسرائیل کی مملکت اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے تحت 1948ء میں وجود میں آئی۔ اِسی قرار داد کے تحت ایک فلسطینی ریاست کا وجود بھی عمل میں آنا تھا۔ نہ صرف یہ کہ کسی عرب مُلک نے اقوام ِ متحدہ کی قرار داد اور اُس کے تحت بننے والی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے اعلان کے اگلے روز ہی پانچ عرب ممالک نے اُس پر تین اطراف سے حملہ بھی کر دیا۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ مشرقِ وسطیٰ کے متعلق اقوامِ متحدہ کی بُنیادی قررار داد کو تو تسلیم ہی نہ کریں لیکن یہ چاہیں کہ اسرائیل کے خلاف اقوامِ متحدہ میں نئی سے نئی قرار داد پیش ہوتی رہے اور اُس پہ عمل بھی ہو؟؟

پہ در پہ عرب ممالک نے 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں اسرائیل پر کئی حملے کئے جن کا مقصد اسرائیل کو صفحہء ہستی سے مٹانا تھا۔ اُن تمام جنگوں میں جارح عرب ممالک کو تقریباً پورے عالمِ اسلام کی حمایت حاصل رہی ہے۔

امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کے متعلق پالیسی کے نقاد کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر آج امریکہ اسرائیل کی حمایت نہ کر رہا ہوتا تو اسرائیل کا وجود کب سے مٹ چُکا ہوتا۔ عرب ممالک نے اسرائیل پر تمام حملے کسی فلسطینی ریاست کو آزاد کرانے کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل کو مٹانے کے لئے کیے۔ کیونکہ ایک فلسطینی ریاست کے حصول کے لئے کسی حملے یا جنگ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ صرف اقوامِ متحدہ کی اُس قرار داد کو تسلیم کرنا ہی کافی ہوتا جس کا مقصد ایک یہودی اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانا تھا۔

اِس دو ریاستی فارمولے پہ عمل درآمد کے لیے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا لازمی ہوتا جو عرب ممالک کو کبھی بھی قابلِ قبول نہ تھا اور نہ ہے۔ عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام میں کوئی دلچسپی رکھتے تو اردن خود فلسطین کے ایک بُہت بڑے حصّے پر قابض نہ ہو جاتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کبھی بھی اسلامی دُنیا نے اردن پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ فلسطینی علاقے پر اپنا قبضہ ختم کر دے۔ وہ تو اردن خود اُس مقبوضہ علاقے کا بیشتر حصہّ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ہار بیٹھا۔

بیشتر فلسطینی جو اپنے لیے ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں، اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ اِس رویے میں تھوڑی سی تبدیلی صرف کُچھ سال پہلے آئی جب 1990ء کے بعد پی ایل او کو اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اسرائیل کو جڑ سے مٹانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اُس نے اپنے بُنیادی مقصد یعنی اسرائیل کی بربادی سے کنارہ کش ہوکر دو ریاستی حل پر بات چیت کا راستہ اختیار کیِا۔ لیکن اِس حل کے راستے میں سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پی ایل او خود فلسطینیوں کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چُکا ہے۔ اُسے تنہا حماس کے ہاتھوں انتخابات میں شکست ہو چکی ہے۔ حماس کا نصب العین آج بھی اسرائیل کو نیست و نابود کرنا ہے۔ اگر آج دوسری فلسطینی انتہا پسند تنظیمیں جیسے اسلامک جہاد یا AL-Aqsa Martyrs Brigade، حماس کے ساتھ اتحاد کر لیتی ہیں تو پی ایل او کا وجود مکمل طور پر ختم ہو جائیگا۔ اُس صورت میں اسرائیل کو سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟؟ اسرائیل فلسطینی علاقے چھوڑ دے اور خود فلسطینی اور دیگر عرب، اسرائیل کے وجود کو ہی تسلیم نہ کریں؟ اسرائیل فلسطین کو ایک مُلک کے طور پہ آزاد کر دے تاکہ وہ خود اسرائیل کے وجود کیلیے خطرہ بن جائے؟ واہ کیا منطق ہے! کیا انصاف ہے جس کی باتیں اسلامسٹ اور لیفٹسٹ کر رہے ہیں۔

پاکستان اور اسرائیل کی تخلیق کا موازنہ

پاکستان 1947ء میں وجود میں آیا کیونکہ ہندوستان کے مُسلمان برطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کے وقت مُسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اُس مطالبے کے درُست ہونے کی نہ تو کوئی منطقی توجہیہ تھی اور نہ ہی کوئی مجبوریِ حالات۔

ہندوستان ہزاروں سال سے ہندؤوں کی سر زمین تھی۔ مسلمان یہاں پر حملہ آوروں کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہاں آکر اُنہوں نے جبر و استبداد کے ذریعے یہاں کی اکثریتی آبادی پر حکمرانی کی۔ برطانیہ کے تسلط سے آزادی کے وقت یہاں کے ہندؤں کو اِس بات کی اُمید نظر آئی کہ اب ہندوستان کے لوگ ہندوستان پر جمہوری طریقے سے حکومت کریں گے جس میں مُسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتوں کا بھی بحثیت ہندوستانی نہ کہ مذہبی بنیاد پر حصہّ ہوگا۔ لیکن مُسلمانوں کو یہ بات منظور نہ تھی کہ ہندو بحثیت افراد اپنی اکثریت کی وجہ سے حکومت میں سب سے زیادہ حصہ حاصل کر سکیں۔ اُن کے نزدیک یہ حق صرف اُن کا ہی تھا کہ باوجود اقلیت ہونے کے وہ تو دیگر مذاہب کے لوگوں پر حکومت کریں لیکن کوئی اُن پر حکومت نہ کر پائے۔

پاکستان کے بن جانے کے بعد بھارت نے پاکستان کو تسلیم کیا باوجود اِس حقیقت کے کہ پاکستان کا وجود اُس علاقے میں ظہور پذیر ہوا جو گذشتہ ہزاروں سال سے ہندوستان کا حصہ سمجھا جاتا رہا تھا۔ لیکن بھارت نے پاکستان پر حملہ نہیں کیِا جیسے کہ عربوں نے اسرائیل کی نو مولود ریاست پر ہلہ بول دیا۔ اِس کے برعکس اپنے وجود میں آنے کے کُچھ مہینوں کے اندر پاکستان نے قبائلی لشکر کی آڑ میں کشمیر کی ریاست پر حملہ کر کے جارحیت کا آغاز کیِا۔ یہ قبائلی لشکر آج کے طالبان کی ابتدائی شکل تھے اور یہیں سے اِن قبائلی مُجاہدین کو پاکستانی اسٹیبلشمینٹ نے اپنا سٹرٹیجک ہتھیار سمجھنا شُروع کر دیا تھا۔

پاکستان میں یہ تاثُر عام ہے کہ بھارت پاکستان کو مٹانا چاہتا ہے، جبکہ اب تک لڑے جانے والی تمام پاک بھارت جنگوں میں جارحیت کی ابتدا ء پاکستان کی طرف سے ہوئی۔ یہ بھی خوب حکمتِ عملی ہے۔

مارو بھی خود اور روؤ بھی خود

پاکستان بنائے جانے کے مقابلے میں اسرائیلی ریاست بنائے جانے کے لیے ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔ موجودہ اسرائیلی سر زمین ہزاروں سال سے یہودیوں اور عیسائیوں کا وطن رہی ہے جسِ کو ساتویں صدی عیسوی میں عربوں نے بزورِ شمشیر فتح کر لیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی میں ہولو کاسٹ کے واقعے نے، جس میں تقریباً 90 لاکھ یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، اقوامِ عالم کو شدت سے اِس بات کا احساس دلایا کہ یہودیوں کے رہنے کیلیے کوئی اپنا وطن ہونا چاہئے۔ چنانچہ ہنگامی بُنیاد پر ایک یہودی ریاست کے قیام کی ضرورت کو محسوس کیا گیا جہاں یہودیوں کو جان و مال اور شہری آزادی کا تحفظ حاصل ہو۔ ہندوستان کے مُسلمانوں کی جانوں اور شہری حقوق کو ایک متحدہ ہندوستان میں کوئی ایسا خطرہ لاحق نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے ایک جُداگانہ ریاست کی ضرورت محسوس ہوتی۔ تو بھی مسلمانوں کے نزدیک پاکستان کا بنایا جانا تو حق بجانب تھا، اسرائیل کا نہیں۔ پاکستان کا وجود صرف اِس لیے ہوا کہ یہاں کے مُسلمان ہندؤں کے ساتھ رہنے پر تیار نہ تھے۔ اسرائیلی ریاست کا وجود اِس لیے ہوا کہ یہودیوں کے لیے کُرہ ارض پر سر چھپانے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں کے مقامی حکومتیں اور لوگ اُن سے جیسا چاہے سلوک کر رہے تھے۔ یہاں تک بعض اُنہیں جینے کا حق دینے کو بھی تیار نہ تھے۔

اسرائیلی حکومت کے بارے میں بُہت کُچھ کہا اور سُنا گیا لیکن کیا کوئی اسلامی مُلک یا لیفٹسٹ مشرقی تیمور کے بارے میں کچھ بولا؟ اپنے 24 سالہ ناجائز قبضے کے دوران اسلامی ملک انڈونیشیا نے مشرقی تیمورEast Timor میں تقریباً دو لاکھ عیسائی آبادی کاقتل عام کیا۔

(source:International Watchdog)

کیا کسی اسلامی ملک یا نمایاں مسلمان شخصیت نے اِس سلسلے میں ایک لفظ مذمت کا بھی کبھی مُنہ سے نکالا؟ باوجود فلسطینیوں اور عربوں کی اسرائیل کے خلاف شدید جارحیت کے، کیا ساٹھ سالہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ میں اتنی جانوں کا زیاں ہوا ہے؟

اقلیتوں کے حقوق۔ اسرائیل بمقابلہ اسلامی ممالک

تمام اسلامی ممالک میں غیر مُسلم اقلیتوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے لیکن اسرائیل کی حدود میں رہنے والے مُسلمانوں کی آبادی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ایک اندازے کے مُطابق آئندہ آنے والی دو دہائیوں میں مسلمان اسرائیل میں اکثریتی مذہبی آبادی بن جائیں گے۔ باوجود اِس کے دُنیا کے مختلف گوشوں سے یہودی افراد مسلسل اسرائیل کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

2007 ء میں غزہ پر حماس کے غلبے کے بعد وہاں کی قدیم مقامی عیسائی آبادی پر حماس کے ارکان نے حملے کر کے اُن کے ذاتی املاک اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیِا ہے اور پُر تشدد کاروائیوں میں سینکڑوں افراد کو قتل کیِا۔ باوجود حماس کی حکومت کے عیسائی آبادی کو تحفظ دینے کے وعدوں کے، کوئی بلوائی وہاں پر گرفتار نہیں ہوا۔

اسلامی ممالک میں غیر مسلم آبادی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جارہا ہے؟ اِس کا اندازہ اِن اعداد و شُمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

– 1947ء میں پاکستان کی ہندو آبادی 15% سے گھٹ کر 1% رہ گئی ہے جو مسلسل ظُلم و ستم کا شکار ہے۔

– 1947ء میں بنگلہ دیش کی ہندو آبادی 30% سے گھٹ کر 10% رہ گئی ہے۔

– عراق میں آج سے دس سال پہلے 800,000 عیسائی آباد تھے اب صرف 150,000 رہ گئے ہیں۔

– پہلی جنگ عظیم کے وقت ترکی میں 20 لاکھ عیسائی آباد تھے جو اب گھٹ کے 1 لاکھ سے بھی کم رہ گئے ہیں۔

– حالیہ ‘عرب بہار’ (Arab Spring) کے بعد مصر میں عیسائی کوپٹ آبادی (Copts) پر حملے اور اُن کا قتلِ عام ایک معمول بن چُکا ہے۔

ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو اسلامی ممالک میں غیر مُسلموں کی زبوں حالی کو ثابت کرتی ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت وہاں پہ رہنے والے عربوں کو مساوی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مقامی فلسطینیوں کی خطرناک کاروائیوں کے باعث اسرائیلی حکومت کو یہودی اور عرب شہریوں کیلیے امتیازی قوانین بنانے پڑے۔ غیر معمولی تحفظاتی اقدام کے تحت اپنے شہری حقوق میں تخفیف کے باوجود اسرائیل میں آباد عربوں کو ‘آزاد’ عرب ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شہری حقوق حاصل ہیں۔ مثال کے طور پہ اُنہیں ووٹ کا حق حاصل ہے۔ اُنہیں مہذب حدود میں رہتے ہوئے اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پُر امن مظاہرے کرنے کا حق ہے۔ اُنہیں آزادیٔ صحافت کا اور حکومت پہ تنقید کا حق ہے۔ کیا سعودی عرب، کویت، عمان، قطر، بحرین،  یمن، متحدہ عرب امارات، شام، اردن کے شہریوں کو اُن کے اپنے ممالک میں یہ حقوُق حاصل ہیں؟ عراق میں شہریوں کو یہ حقوق صرف حال ہی میں حاصل ہوئے ہیں جب ‘کافر’ مُلک امریکہ نے وہاں حملہ کر کے ‘کافرانہ’ جمہوریت کو وہاں پر متعارف کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اِن جمہوری حقوق سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسرائیل میں آباد فلسطینی کھلے عام اسرائیلی ریاست کے مٹائے جانے کی بات کرتے ہیں اور اُس کے باوجود آزاد شہری رہتے ہیں جب تک کہ کسی پر تشدد کاروائی یا دہشت گردی میں ملوث نہ پائے جائیں۔

حال ہی میں اسرئیلی پارلیمنٹ (Knesset) کے مسلمان رُکن عظمیٰ بِشریٰ نے ایران کے صدر احمدی نژاد کے اِس مطالبے کی پُرزور حمایت کی ہے کہ اسرائیلی ریاست کو مشرقِ وسطیٰ سے اُٹھا کر یورپ مُنتقل کر دیا جائے۔ عظمی بشریٰ اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اور مُسلم رُکن محمد بارک نے شام کی موجودہ حکومت کی حمایت میں کئی جلوس نکالے۔ واضح رہے کہ ایران کے ہمراہ شامی حکومت بھی اسرائیل کے خاتمے پر یقین رکھتی ہے۔ یہاں بشریٰ نے اعلان کیِا کہ اگر ساری دُنیا بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے تو وہ پھر بھی اُسے تسلیم نہیں کریگا یعنی اُس مُلک کو جس کی پارلیمان کا وہ خود رُکن ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا کوئی اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والا رُکن پاکستان کو مٹانے کی بات کرے تو اُس پر غداری کا مُقدمہ نہ چلایا جائے۔

مُسلمان آج تک اُس افسوسناک واقعے پر آگ بگوُلا ہیں جس میں ایک مشکوک ذہنی حالت رکھنے والے یہودی فرد نے مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصے کو آگ لگا دی تھی۔ لیکن وہ اسلامی ممالک میں پیش آنے والے اُن واقعات کو معمول سے بھی کم سمجھتے ہیں جن میں آئے دن دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کردیا جاتا ہے۔ کیا کوئی گِن کے بتا سکتا ہے کہ پاکستان میں اب تک کتنے مندر ڈھائے گئے ہیں اور کتنے گِرجوں کو آگ لگا دی گئی ہے؟

مسجدِ اقصیٰ کی آتش زنی کے افسوسناک واقعہ کا ذکر کرنے والے اِس حقیقت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جبکہ بیشتر اسلامی ممالک میں دوسرے مذاہب کی عبادات پر مکمل یا جزوی پابندی ہے۔

سعودی عرب کا شہری صرف ایک مُسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب میں دوسرے مذاہب کے افراد کا اپنی عبادت گاہیں بنانا تو دوُر کی بات ہے، اپنے گھروں تک میں اپنی مذہبی رسوُم کی ادائیگی مُشکل ہے۔ وہ یوں کہ دسیوں لاکھ غیر مُسلم افراد کو جو سعودی عرب میں بغرض روزگار مُقیم ہیں اپنی مذہبی کتابیں جیسے گیتاَ یا بائبل یا مذہبی علامتی نشانات جیسے بُت یا صلیب وغیرہ سعودی بادشاہت کے اندر لانے کی اجازت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ دبئی جیسی امارت میں، جو اپنی آزاد شبانہ زندگی میں لاس ویگاس کو مات دیتی ہے، چالیس لاکھ غیر مُسلم غیر مُلکی کارکُنان کے لیے صرف ایک گرجے اور ایک مندر کی اجازت ہے۔ یہ دونوں عمارات اتنی چھوٹی ہیں کہ وہاں مُشکل سے چند سو افراد ہی سما سکتے ہیں اور اپنے روایتی بیرونی ساخت سے عاری صرف عام مکانوں کی طرح ہیں۔

جبکہ ایک اسلامی مُلک میں دوسروں کی مذہبی آزادی سے یہ سب کُچھ ہو سکتا ہے تو کیا ایک یہودی ریاست میں اسلامی رسوم کی ادائیگی پر پابندی نہیں ہو سکتی تھی؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ہوتا تو وہاں رہنے والے مُسلمان اب تک اسرائیل چھوڑ دیتے، وہاں رہ کر اپنی آبادی کو مسلسل بڑھا نہ رہے ہوتے۔

(یہ مضمون کچھ برس پیشتر ماہنامہ “نیا زمانہ” لاہور میں قسط وار شائع ہو چکا ہے۔ ہم اس مضمون میں پیش کیے گئے نقطہ نظر کی انفرادیت اور بے باکی کی بنا پر اسے اپنے قارین کی توجہ اور دلچسپی کے لیے یہاں شائع کر رہے ہیں۔ مضمون کے مصنف روش عام سے ہٹ کر پاکستان کے چند گنے چنے تجزیہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کو روشن خیال اور وسیع النظر کہا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی جرأت اظہار کی بنا پر پاکستان کے “بدنام” ترین کالم نگاروں میں سے ایک ہیں۔)

جاری ہے۔۔۔

0 Comments

جواب دیں

0 Comments
scroll to top