Close

یورپ کو اک نصیحت

 

کہا جاتا ہے کہ ایک مسلمان حاکم نے ایک آئینہ خریدا اور جب خود کو اس آئینے میں دیکھا تو اپنی بدصورتی دیکھ کر سخت غصہ اور کراہت محسوس کی، کسی قریبی نے اس غم وغصہ کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا: میں نے خود کو آئینے میں دیکھا، مجھے توقع نہیں تھی کہ میں اتنا بد صورت ہوں گا. اس پر چہیتے نے کہا کہ: آپ خود کو ایک بار آئینے میں دیکھ کر غصہ ہوگئے، ہم جو آپ کو روز دیکھتے ہیں ذرا سوچیے ہماری کیا حالت ہوتی ہوگی؟

جراتِ تحقیق کی تحریریں پڑھنے والوں کو عام طور پر غصہ آتا ہے کیونکہ انہیں ان تحریروں میں اسلام کا بد صورت چہرہ نظر آتا ہے، مجھے بذاتِ خود اسلام سے کوئی بغض نہیں ہے، عرض بس اتنی ہے کہ اس کی یہ بد صورت شکل دھو لیں، لیکن ایسے مسلمانوں کا کیا کیا جائے جنہیں بچپن سے ہی یہ سکھا پڑھا دیا جاتا ہے کہ دین اللہ کے ہاں اسلام ہے (آل عمران 19) اور اسلام کے علاوہ اگر کوئی کسی دین پر ہوگا تو اس سے قبول نہیں کیا جائے گا (آل عمران 85) لہذا وہ قتل کرتے ہیں، غلام بناتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، کفر کے فتوے دیتے ہیں، رجم کرتے اور دھماکوں میں بے قصور لوگوں کو انتہائی پُر چین ضمیر کے ساتھ اڑا دیتے ہیں کیونکہ یہی اللہ کا حکم ہے۔

ایک کرم فرما نے لکھا: جراتِ تحقیق کی تحریریں پڑھ کر میں خود سے بہت شرمندہ ہوا، کیا میرا چہرہ اتنا بھیانک تھا؟ شکر ہے میں نے یہ بد صورت ماسک اتار پھینکا ہے۔

میں نے جواب دیا: شکریہ، یقیناً اچھے مسلمان بھی ہیں ہاں اگر وہ اسلام کو صحیح معنوں میں نافذ کرتے تو ہماری مصیبت دیدنی ہوتی۔

جواب آیا: نہیں جناب، کوئی اچھا یا برا مسلمان نہیں ہوتا، بس ایک پڑھے لکھے با عمل مسلمان کے مقابلے میں ایک جاہل بے عمل مسلمان ہوتا ہے، جو مسلمان آپ کو بظاہر اچھا اور شریف لگتا ہے وہ خود کش بمباروں اور دہشت گردوں کی کاروائیوں پر خوش ہوتا ہے کیونکہ اس کی نظر میں وہ شریعت لاگو کر رہا ہوتا ہے۔

پھر مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ ایک کتاب لاگو کی جائے جسے وہ اللہ کی کتاب کہتے ہیں اور ایک ایسے شخص کی پیروی کی جائے جسے وہ اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں…

اللہ کی کتاب؟
اللہ کا پیغمبر؟

سوچ کر ہی ہنسی آتی ہے… تاہم یہ ماننے میں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں کوئی مضائقہ نہیں، ہندو ہاتھی کی شکل کے ایک خدا کو پوچتے ہیں جو 300 ملین خداؤں میں سے ایک ہے!!

پھر مسئلہ کہاں ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ جسے اللہ کی کتاب کہا جاتا ہے اور جسے اللہ کے پیغمبر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کی تعلیمات انسانیت اور انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتیں، آپ کو ایک ایسے دروازے میں سے گزرنے پر اکسایا جاتا ہے جس کے ماتھے پر بظاہر اللہ کی کتاب اور اللہ کا رسول لکھا ہوا ہوتا ہے.. پھر آہستہ آہستہ آپ کو آپ کی انسانیت سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور آپ کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ آپ کب ایک طالبانی داعشی مجرم بن گئے…!؟

اگر یورپ تہذیبی سطح پر خودکشی نہیں کرنا چاہتا تو اسے یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ جن لوگوں کا وہ بڑی خوش نودی سے استقبال کر رہا ہے اپنے مذہب اور رسول کو ہر تہذیبی، انسانی اور قانونی اعتبار سے اوپر رکھتے ہیں، لہذا اہلِ یورپ کو چاہیے کہ انہیں متنبہ کریں کہ ان کے ملکوں میں اسلامی تعلیمات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، یہ انتباہ تحریری ہونا چاہیے اور پناہ کے طالب کو ایک معاہدے پر دستخط کرنا چاہیے کہ وہ اسلام کی ان تعلیمات کو جو انسانی حقوق اور پناہ دینے والے ملک کے مروجہ قوانین کے خلاف ہیں انہیں ترک کردے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں اسے فوراً اس ملک کی سر زمین کو چھوڑنا ہوگا، یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ پناہ دینے والے ملک کے مروجہ قوانین اور اسلامی تعلیمات کے درمیان تضادات کی بھی نشان دہی کی جائے تاکہ ہر چیز واضح ہو، مزید برآں ان ممالک کو چاہیے کہ پناہ گزینوں کے بچوں کو واضح طور پر یہ تعلیم دی جائے کہ ان کی سر زمین پر اسلام کی ان تعلیمات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جو انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔

بہتر ہے کہ شروع میں ہی یہ ناراضگی مول لے لی جائے ورنہ آخر میں صرف تباہی وبربادی ہی ہاتھ آئے گی، یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام نے ہی ان ممالک کو تباہ وبرباد کیا جہاں سے یہ پناہ گزین آئے ہیں… یہی تعلیمات ان ممالک کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیں گی جو ان پناہ گزینوں کو محض انسانی بنیادوں پر پناہ دے رہے ہیں اگر ان ممالک نے اس کی روک تھام کے لیے بر وقت اقدامات نہیں کیے۔

جواب دیں

0 Comments
scroll to top