خدا پرست:
کیا خدا ازل سے موجود ہے؟ …… ہاں
خدا کو کس نے بنایا؟……….. کسی نے نہیں
تو پھر خدا کہاں سے آیا؟ …… (کوئی جواب نہیں)
تو پھر اس کے وجود کی کیا علت ہے؟ ……. وہ ازل سے موجود ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے!
مادہ پرست:
کیا مادہ ازل سے موجود ہے؟ ……. ہاں
مادے کو کس نے بنایا؟ ………….. کسی نے نہیں
تو پھر مادہ کہاں سے آیا؟ ………. (کوئی جواب نہیں)
تو پھر اس کے وجود کی کیا علت ہے؟ ……. مادہ ازل سے موجود ہے اور اپنی ذات میں قائم ہے!
کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہمیں اس کی بنیادی باتوں کو مختصر ہی سہی بیان کرنا چاہیے.
ازل: شاید اس کا مطلب ہے وقت کی لامتناہی مقدار میں موجود ہونا یا وقت کی حدود سے باہر وجود رکھنا.
خدا: ایک غیر مادی اور اپنی صفات میں مطلق عاقل شخصیت جسے اس پر ایمان رکھنے والے ہر موجود چیز کی اصل اور علت قرار دیتے ہیں.
مادہ: ایک غیر عاقل بُلند حرارت وکثافت کا ڈھیر جس کے پھٹنے سے کائنات وجود میں آئی اور اسی سے کچھ خاص ماحول کے بننے سے اتفاق سے زندگی کی سادہ اشکال وجود میں آئیں اور ترقی کرتے ہوئے اس شکل تک پہنچیں جس طرح کہ اب نظر آتی ہیں.
آغاز کا مسئلہ
خدا کے آغاز کا مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب ہم اس کے وجود کی علت کا سوال اٹھاتے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ اس خدا سے بھی ایک اعلی مرتبے کا خدا ہے جس نے اس خدا کو بنایا ہے لیکن یہاں ایک اور پُر اسرار خدا کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے جس نے اس اعلی مرتبے کے خدا کو بنایا جس نے اس مادے کو بنانے والے خدا کو بنایا !! اگر ہم اسی طرح الٹی سمت میں چلتے چلے جائیں تو اس صورت میں ہمارے پاس دو راستے ہوں گے:
یا تو ہمیں کسی ایسی شخصیت کو قبول کرنا ہوگا جس نے اس تسلسل کا آغاز کیا یا پھر الٹی سمت میں اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا جہاں کسی جواب کے ملنے کا کوئی امکان نہیں چنانچہ اس بند گلی سے نکلنے کے لیے ہمیں اس اولین خدا اور اس لامتناہی سلسلے کو مسترد کرنا ہوگا.
لیکن اگر ہم اس اولین خدا کے نا ہونے پر اتفاق کر لیں تو کیا اس طرح لامتناہی تسلسل اور غیر ابدیت کا مسئلہ ختم ہوجائے گا؟
نہیں، بلکہ آغاز کا مسئلہ ایک بار پھر سر اٹھائے گا لیکن مادے کی صورت میں، اب چونکہ ہم اس کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے چنانچہ یہ سوال کہ یہ مادہ کہاں سے آیا پوری قوت کے ساتھ ہمارے سامنے ہوگا، تو کیا یہ مادہ اصل میں موجود ہی تھا اور اسے آغاز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یا یہ کسی اور طرح کے مادے کا نتیجہ ہے جو بذات خود کسی اور حالت سے تبدیل ہوا اور اس طرح اس مادے تک پہنچا جو پھٹ کر اس کائنات کے وجود کا سبب بنا؟ یہاں امکان جو بھی ہو دونوں صورتوں میں ہمیں ایک ایسی حقیقت کا سامنا ہے جس سے ہم راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتے اور وہ ہے کسی مادے کا وجود جو ممکنہ طور پر اصل اور آغاز ہوسکتا ہے.
اب ہمارا ایمان چاہے خدا کی ازلیت پر ہو یا مادے کی آغاز کا مسئلہ پوری قوت کے ساتھ دونوں طرف موجود ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہم مادے کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا اس سے روز پالا پڑتا ہے بلکہ ہم بذاتِ خود اس کا حصہ ہیں جبکہ خدا کے وجود کے اقرار کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ وہ – یعنی خدا – غیر مادی ہے.
اب یہاں ایک سوال اٹھتا ہے…
کیا ہمارا اپنی حواسِ خمسہ سے خدا کا ادراک نہ کر سکنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ موجود نہیں ہے؟ یا اس کے ادراک کے لیے کسی اور طرح کے حواس کی ضرورت ہے؟
اگر ہم اس کا ادراک اپنی حواس سے نہیں کر سکتے تو پھر کیسے کر سکتے ہیں؟
میں ان سوالوں کی مزید گہرائی میں نہیں جاؤں گا بلکہ انہیں بحث کے لیے کھلا چھوڑتا ہوں.
جب ہمیں کوئی سوال درپیش ہو اور باوجود کوشش کے ہم اس کا جواب نہ پا سکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہماری صلاحیتیں ابھی اتنی نہیں ہیں کہ ہم اس طرح کے کسی سوال کا جواب دے سکیں یا پھر سوال کو ہی دراصل کچھ ترمیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کا جواب پاکر ہم اپنے علم ومعرفت کی پیاس بجھا سکیں، یہ اقرار کہ اس کائنات کا کوئی نہ کوئی آغاز ہے ایک ایسی حقیقت ہے جس سے راہِ فرار اختیار نہیں کی جاسکتی اور اس ضمن میں یہ سوال کہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کے خدا کو کس نے بنایا یا مادے کو آغاز سمجھنے والوں کے مادے کو کس نے بنایا ایسا ہے جیسا کہ ہم یہ سوال کریں کہ اس آغاز کو کس نے شروع کیا جس سے یہ سارے عدم سے وجود میں آئے!؟ میرے خیال سے یہ سوال فضول ہے کیونکہ ہم اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے سوائے دیقچی میں چمچ گھمانے کے… چنانچہ خدا کے آغاز کے بارے میں جواب نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مادہ ہی آغاز ہے اور اسی طرح اس کا برعکس بھی درست ہے کیونکہ اس سوال کو ہم جس رخ پر بھی گھمائیں ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پائیں گے، سو ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ ہم سوال کے صیغے کو تبدیل کردیں تاکہ ہم کوئی قابلِ قبول جواب حاصل کر سکیں، کُل کے مصدر کا سوال اس کے بنانے والے کے بارے میں نہیں بلکہ اس کی ماہیت یا ساخت کے بارے میں ہونا چاہیے، یعنی اگر ہم سوال کا صیغہ بدل کر یہ کہیں کہ یہ مصدر کیا ہے یا اس آغاز کی طبعی صورت کیا ہے تبھی ہم اپنے سوالوں کے جواب پا سکیں گے.
کسی نہ کسی آغاز پر اتفاق کی صورت میں اور اس آغاز کی ساخت کی تلاش کے لیے ہمیں کچھ اختیارات تشکیل دینے چاہئیں جن پر بحث ہوسکے اور جن سے آگے کے راستے کا تعین ہوسکے جو کچھ اس طرح سے ہوسکتے ہیں:
1- ایک عاقل/سمجھدار ازلی شخصیت (خدا) کا وجود جو آغاز کی علامت ہے اور جس نے مادے کو وقت کے کسی خاص لمحے میں بنایا جس سے یہ کائنات اور پھر زندگی کا ظہور ہوا (یعنی مادہ ازلی نہیں ہے).
2- ایک غیر جاندار وغیر سمجھدار ڈھیر کا وجود (مادہ) جو آغاز کی علامت ہے جس سے زندگی کا ظہور ہوا اور کسی سمجھدار ازلی شخصیت کا کوئی وجود نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے ذہنوں میں جو اس پر یقین رکھتے ہیں (یعنی خدا موجود نہیں ہے).
3- مادہ اور خدا دونوں ایک ساتھ ازل سے موجود ہیں، یعنی دونوں ازلیت کے حامل ہیں اور ایک ساتھ ہی آغاز کی علامت ہیں یعنی دونوں میں سے کسی نے دوسرے کو نہیں بنایا، ان کے آپس میں کسی طرح کے تعامل کی وجہ سے زندگی وجود میں آئی اور اس حالت تک پہنچی، خیال رہے کہ ان کے آپس کے اس تعامل کی کئی صورتیں اور اختیارات ہوسکتے ہیں لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے.
اوپر کے تین اختیارات پر بحث کے لیے ظاہر ہے کہ کئی سوالات جنم لیں گے، یہاں پر میں کچھ سوالات ترتیب دینے کی کوشش کروں گا:
1- عدم سے وجود: اگر مادہ غیر عاقل ہے تو بے عقلی سے عقل کہاں سے آگئی؟ اور اگر موت زندگی کی نفی ہے تو زندگی موت سے کیسے آگئی؟ اور روشنی اندھیرے سے کیسے آئی جبکہ اندھیرے کا مطلب روشنی کا فقدان ہے؟
2- مادہ اور عدم: اگر خدا غیر مادی ہے تو اس نے مادی چیزیں کیسے تخلیق کر لیں؟ اور کیا مادے کو عدم سے وجود میں لایا جاسکتا ہے؟
3- مکان کی لامتناہیت: کیا ہماری کائنات کے باہر کوئی حدیں ہیں؟ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یہ کس کھاتے میں بڑی ہوئے جارہی ہے؟ یعنی ہماری کائنات کے گرد بھی کچھ ہے؟ اور کیا وجود کا حجم لامتناہی ہے اور ہماری کائنات محض اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے؟ کیا مکان کی لامتناہیت (اگر وہ ہے) مادے کی تابع ہے یا کسی اور مصدر کے وجود کی تابع ہے جو اپنے مکان میں لامتناہی ہے؟
4- زمان کی لامتناہیت: کس میں لامتناہی زمان میں موجود رہنے کی صلاحیت ہے؟ خدا یا مادہ؟
5- حرکت اور جمود: کیا آغاز کی صفت حرکت تھی یا جمود؟ کیا زندگی جمود سے ہے یا حرکت سے؟
یقیناً ان سوالات پر بحث کرنے سے مختلف نتائج سامنے آئیں گے، جس میں غور وفکر کرنے والے کی سوچ کا انداز، اس کی منطق اور اس کا ثقافتی پس منظر اہم کردار ادا کرے گا، یہ بات بھی یقینی ہے کہ مفکر کا مذہبی پس منظر بھی ان سوالوں کے جوابات میں کلیدی حیثیت کا حامل ہوگا چنانچہ میں ان سوالوں پر بحث اور غور وفکر کھلی چھوڑتا ہوں بلکہ مزید سوالات شامل کرنے کی بھی دعوت دیتا ہوں کیونکہ موضوع بہت بڑا ہے اور بندہ اور بلاگ بہت چھوٹا 🙂
آخری نقطہ نظر:
آخر میں، میں اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرنا چاہوں گا، کوئی اس کا پابند نہیں ہے بلکہ اسے بھی زیرِ بحث لایا جاسکتا ہے جو کچھ یوں ہے:
بے عقلی اپنا ادراک کر کے عقل کی حالت تک نہیں پہنچ سکتی، اسی طرح لازم ہے کہ زندگی بھی زندگی سے برآمد ہو اور روشنی روشنی سے، مادی دنیا کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ مادہ غیر مادی ” چیز ” سے برآمد ہو، زمان ومکان کی لامتناہیت میں صرف وہی رہ سکتا ہے جو دونوں لحاظ سے ان سے بھی کہیں زیادہ لامتناہیت کا حامل ہو.