Close

بعرہ اور بعیر

ایمان اور عقیدے کے مسائل کا عقل سے کوئی تعلق نہیں چاہے مذہب کو عقلیانے کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لی جائیں، اگرچہ بعض مذہب پرست مذہب اور علم کو ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں تاہم یہ مراد حاصل کرنا قطعی نا ممکن ہے کیونکہ مذہب کی بنیادیں افسانوی ہیں جبکہ علم انتہائی پختہ بنیادوں پر قائم ہے، اسی طرح مذہب تقدس پر قائم ہے جبکہ علم میں تقدس کی کوئی جگہ نہیں… مذہب میں مطلق سکون وثبات ہے جبکہ علم کسی ثوابت کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ دائمی متغیر پر انحصار کرتا ہے چنانچہ مذہب اور علم کو نا تو یکجا کیا جاسکتا ہے اور نا ہی ان میں کسی طرح سے ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے، اس کے برعکس ہم آہنگی کی یہ کوششیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ مذہب کو اپنے اثبات کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی جواز کی تلاش رہتی ہے کیونکہ علم کے ساتھ تضاد میں رہنے کا مطلب ہے کہ مذہب ہمیشہ عقلی تضاد کا شکار رہے گا اور یوں وہ ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنتا رہے گا.

مذہب کو عقلیانے کی مذہب پرستوں کی کوششیں حد درجہ سادہ لوح کوششیں ہوتی ہیں، در حقیقت مذہب کو بنیادی طور پر اس سے زیادہ سادہ لوحی کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ علوم کی بے پناہ ترقی کے اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے ایسے فرسودہ اور مضحکہ خیز مقولوں پر انحصار کرتے ہیں، ان مضحکہ خیز مقولوں میں عربی کا ایک بڑا مشہور مقولہ ہے کہ "البعرہ تدل علی البعیر” یعنی اونٹ کا فضلہ (بعرہ) اونٹ کی موجودگی کی دلیل ہے، یہ بوسیدہ دلیل پیش کرتے ہوئے یہ حضرات انسان کی آج تک کی ساری علمی وثقافتی ترقی کو دیوار پر دے مارتے ہیں جس کے ذریعے انسان نے اپنی اُس فرسودہ اور سادہ لوح ذہنیت سے نجات حاصل کر لی ہے جس نے یہ اور ایسے کئی دیگر مقولے ایجاد کیے تھے، دیہاتی بدووں کی ثقافت کی عالمِ طبعی سے ابتدائی تعلق نے اس طرح کے مقولے ایجاد کیے جبکہ علم ایسی ذہنیت سے کہیں آگے نکل کر اس سے کہیں پیچیدہ ذہنیتیں تشکیل دے چکا ہے کیونکہ اس کی کائناتی اور عالم طبعی کی فہم تبدیل ہوچکی ہے اور اسے پتہ چلا ہے کہ عالم طبعی علم ومعرفت سے عاری ایک دیہاتی بدو کی سمجھ سے کہیں پیچیدہ ہے.

یہ مقولہ اپنی حد درجہ سادہ لوحی کے باوجود مذہب پرستوں کے ہاں کافی مقبول ہے، اگر یہ مقولہ خدا کو ثابت کرنے کے علاوہ کسی اور بات پر پیش کیا جاتا تو اس کی سخت مذمت اور تردید کی جاتی کیونکہ یہ مقولہ بڑی سادگی سے اس خدا کی ذات کی توہین کرتا ہے جسے یہ ثابت کرنے کی سعی کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ نا تو کائنات فضلہ ہے اور نا ہی خدا اونٹ ہے جس نے یہ فضلہ خارج کیا ہے، اس سے صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ مذہبی ذہنیت کی پراگماٹی Pragmatism ایک مصلحت کے حصول کے لیے اتنے بڑے کھڈے میں گرنا گوارہ کر لیتی ہے..!! بہرحال اس مقولے کو کچھ اعتدال کے ساتھ زیرِ بحث لاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا واقعی اونٹ کا فضلہ اس کی موجودگی پر دلیل ہے؟

میں اس مقولے میں وارد ہوئے فضلے اور کائنات، اور اونٹ اور خدا کے درمیان وجہ تشابہ پر بحث نہیں کروں گا، بلکہ اس مقولے کو پیدا کرنے والی ذہنیت کی اس کی اپنی حقیقت حال کے تناظر میں اس پر بحث کروں گا، پھر اسے اس انسانی ذہنیت کو پیش کروں گا جس نے اس کائنات کو چلانے والے قوانین اور عالم طبعی کا مزید گہرا اور پیچیدہ علم حاصل کر لیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ مذہب پرستوں کا ایسے مقولوں سے اب تک چمٹے رہنا دراصل ان کی سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایسے مقولوں میں اب کوئی جان باقی نہیں رہی.

در حقیقت یہ مقولہ (البعرہ تدل علی البعیر) اونٹ اور اس کے فضلہ کے اخراج کے پیشگی علم پر منحصر ہے یہی وجہ ہے کہ بدو اونٹ کے فضلے (بعرہ) اور دیگر جانوروں کے فضلے میں تفریق کرتا ہے، یہ سادہ سا پوسٹ مارٹم ہی اس مقولے پر قائم کسی بھی منطقی استدلال کو کائنات اور اس کے لیے کسی خدا کی موجودگی جیسے پیچیدہ مسئلے پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کافی ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ اونٹ کا بعرہ یعنی فضلہ کا اخراج کوئی شعوری عمل نہیں ہے جبکہ کائنات کی تخلیق کے لیے وہ ممکنہ ارادہ اور شعور درکار ہے جو مومنین کے خیال میں ان کے خداؤں میں موجود ہے، یہ معاملہ بھی اس مقولے سے استدلال کو منطقی طور پر نا قابلِ قبول بنا دیتا ہے.

ایک چھوٹی سی مثال سے اس مقولے کی فرسودگی دیکھتے ہیں، اگر کسی دریا کے کنارے کسی کو ایک بدبودار مادہ ملے تو یقیناً وہ یہی اندازہ لگائے گا کہ یہ مادہ کسی جانور کا فضلہ ہوگا مگر اس شخص کا یہ جاننا نا ممکن ہے کہ یہ فضلہ کس جانور کا ہے الا یہ کہ اسے پہلے سے ہی پتہ ہو، مگر دریا کے اس علاقے کے لوگ یقیناً جانتے ہوں گے کہ یہ فضلہ مثال کے طور پر ایک مگرمچھ کا ہے کیونکہ وہ اس علاقے میں رہتے ہیں اور مگرمچھ کے فضلے کی شکل اور بدبو جانتے ہیں چنانچہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ مگرمچھ کا فضلہ مگرمچھ کی موجودگی کی دلیل ہے یا کچھوے کے انڈوں کی موجودگی کچھوے کی موجودگی کی دلیل ہے مگر یہاں ایک شرط لازم ہے اور وہ ہے پیشگی علم ورنہ دریا کے علاقے کے رہائشی مگرمچھ اور دریائی گھوڑے (Hippopotamus) کے فضلے میں کیسے تفریق کریں گے؟ کیا مومنین کو خدا کا پیشگی علم ہے تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ کائنات خدا کے وجود کی دلیل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی کے پاس بھی یہ پیشگی علم نہیں ہے.

لیجیے جناب یہاں تو رولا ہی ہوگیا اور کائنات کے وجود کے مسئلے پر مومن اور ملحد ایک دوراہے پر آگئے، دراصل یہاں ہمیں الحادی ذہنیت اور ایمانی ذہنیت کی میکانیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں بنیادی مسئلہ یا فرق سوالات وضع کرنے کی ترکیب یا انداز کا ہے، جہاں مومنین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "کائنات کو کس نے تخلیق کیا؟” وہاں ملحد اس طرح سوچتے ہیں کہ "کائنات کیسے وجود میں آئی؟” کیونکہ "کس” سے سوال کرنے کا مطلب کسی ہستی کی پیشگی موجودگی فرض کرنا ہے جس نے "تخلیق” کا یہ عمل انجام دیا، ملحدین کا مومنین کے ساتھ مسئلہ "کس” لفظ کا نہیں بلکہ عقل وادراک وشعور وارادے کے حامل ایک (یا بہت سارے) خدا کا رینڈم مفروضہ ہے جو اس کائنات کے وجود کے پیچھے کہیں کھڑا ہے چنانچہ جب مومن سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے تو سب سے پہلا سوال جو وہ کرتا ہے وہ ہے "تو پھر کائنات کو کس نے تخلیق کیا؟” جیسے وہ یہ توقع کر رہا ہو کہ آپ اس کے خدا کے علاوہ کسی اور خدا کو فرض کر رہے ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی ذہنیت کو اسی نہج پر پروگرام کیا گیا ہوتا ہے جس کے لیے یہ فرض کرنا لازمی ہوتا ہے کہ کائنات کا لازماً کوئی خدا ہے.

حیرت انگیز طور پر اس مقولے کی علمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر ریاضیاتی بنیادوں پر از سرِ نو تشکیل کی گئی ہے جسے سببیت یا علت کا اصول کہا جاتا ہے جو کہتا ہے کہ ہر موجود کا کوئی موجد ہے مگر مذہبی ذہنیت کی کرشمہ سازیاں دیکھیے کہ وہ اس اصول کو اپنی تمام تر کلیات سمیت لاگو کرنے سے انکار کرتے ہوئے خدا کو اس سے مستثنی قرار دے دیتا ہے چنانچہ جب یہ منطقی سوال کیا جاتا ہے کہ "اگر اونٹ کا فضلہ اونٹ کی موجودگی کی دلیل ہے تو اونٹ کس کی موجودگی کی دلیل ہے؟” یا خدا کس کی موجودگی کی دلیل ہے؟ یا بہت ہی سادہ لفظوں میں "خدا کو کس نے بنایا؟” تو یہاں عقل کو صدمہ دینے والا جواب ملتا ہے کہ جناب خدا ہی وہ واحد چیز ہے جو بغیر کسی موجد کے وجود میں آیا ہے!! مومنین نے اس عام اصول کی اس ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ کلی موافقت اور دوستی اختیار کر رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملحدین کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ انسان ہی خدا کو تخلیق کرتا ہے نا کہ برعکس، کیونکہ انسان اپنے ارادے اور عقل سے ان تضادات سے اوور ٹیک کر جاتا ہے جنہیں ایک ایسی ہستی تھوپتی ہے جس کا کوئی موجد نہیں.

بعض مومنین کا ارشاد ہے کہ جناب خدا سببیت کے قانون سے ماوراء ہے کیونکہ اسی نے اسے تشکیل دیا ہے، تو کیا واقعی کوئی خدا ہے جس نے سببیت کا قانون بنایا ہے؟ کس کتاب یا لوح میں اس خدائی قانون کا ذکر ہے؟ کیا انسان نے اپنی عقل وفکر سے اس قانون کو دریافت نہیں کیا؟ اور کیا اسی انسان نے اس قانون میں تب تبدیلی نہیں کردی جب اس کی علمی ومعرفتی حیثیت بڑھی اور اسے پتہ چلا کہ سبب اور مسبب کے درمیان تعلق ہمیشہ براہ راست نہیں ہوتا بلکہ اتفاق بھی اس تعلق کو پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے؟ مذہب پرستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ علم کے ساتھ ایک دائمی جنگ میں ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ علم کفر کا ایک ہتھیار ہے جسے مذہب اور ایمان کو نشانہ بنانے کے لیے خصوصی طور پر تسخیر کیا گیا ہے، مومنین احمقانہ طور پر علم کے تعاقب کے جال میں پہنس جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ علم جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کسی ثابت یا مستقل کو نہیں مانتا بلکہ متغیرات کو تسلیم کرتا ہے، اگر آج علم کوئی بات ثابت کردے تو مومنین فوراً ہی شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ معرفت ان کی مقدس کتابوں میں پہلے سے ہی ثابت شدہ ہے، پھر کچھ دیر بعد سابقہ نظریے سے ایک اور بڑا اور وسیع نظریہ دریافت کر لیا جاتا ہے تب ان کا ردِ عمل زبان کی گردن مروڑنے کی شکل میں سامنے آتا ہے تاکہ مقدس کو نئی معرفت سے ہم آہنگ کیا جاسکے اور اس طرح یہ لوگ مقدس مُتون کے ساتھ یہ شعبدہ بازی کھیلتے رہتے ہیں، یہی خدا کو بناتے ہیں اور یہی اس کا جواز پیدا کرتے ہیں.

مومنین جس چیز سے چمٹے رہنے پر مصر ہیں وہ ایک "وہمی سببیت” ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے، یہ سند مومنین خود ہی اپنے ذہن میں تخلیق کرتے ہیں اور یہ یقین کر لیتے ہیں کہ کسی واقعے میں اور ان کے وہمی خدا میں کسی منطقی سببیت کا تعلق ہے اور یہ در حقیقت ایک نفسیاتی مرض کے سوا کچھ نہیں، مثلاً شیزوفرینیا Schizophrenia کا مریض یہ یقین دلا سکتا ہے کہ کوئی ہستیاں یا لوگ اس سے باتیں کر رہے ہیں جبکہ دوسرے لوگ ان ہستیوں کو دیکھنے یا ان کی آوازیں سننے سے قاصر ہوتے ہیں، علم میں نفس میں یہ ایک جانی پہچانی بیماری ہے جو مریض میں بصری اور صوتی وہم پیدا کر دیتی ہے.

اب میں کہہ سکتا ہوں کہ "صجحان” نامی ایک ہستی ہے جو میرے ساتھ میرے کمرے میں رہتی ہے، یہی ہستی بار بار بجلی منقطع ہونے کی وجہ ہے، اسی کی وجہ سے مجھے ایک جلدی بیماری لاحق ہے جس کا بڑے سے بڑا ڈاکٹر علاج نہ کر سکا، جب جلد پر سے دھبے ختم ہوتے ہیں تو ممکنہ طور پر "عثبوم” نے مجھے اس عجیب وغریب مرض سے نجات دلائی ہے، اسی کی وجہ سے لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں اور اسی کی وجہ سے مجھے ہر چیز بھولنے لگی ہے، مزید برآں اسی کی وجہ سے بے موسمی برسات ہوتی ہے اور سمندر میں حیرت انگیز طور پر لاکھوں مچھلیوں کی موت کا ذمہ دار بھی وہی ہے جس کی وجہ سائنسدان لاکھ کوشش کے باوجود نہ سمجھ سکے، اور اب میں تمام مومنین وملحدین کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور عقلی یا علمی طور پر مجھے ثابت کر کے دکھائیں کہ یہ "صجحان” موجود نہیں ہے.

یقیناً کوئی بھی اس کی عدم موجودگی ثابت نہیں کر سکتا، اور اگر ایسا ہوجائے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ واقعی موجود ہے؟ کسی چیز کی موجودگی یا غیر موجودگی پر دلیل کا محال ہونا اس کی موجودگی یا عدم موجودگی کے امکان کو یکساں نہیں کردیتا، اس طرح واقعات کو اس وہمی سبب سے منسلک کرنا آسانی سے ممکن ہے کیونکہ اسے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، اس کی اکلوتی دلیل دراصل متوہم یا وہم شدہ ہے کیونکہ یہ ایک مریض ذہنیت کا شاخسانہ ہے.. مومنین یہی کچھ کرتے ہیں، وہ اس کائنات کی ہر چیز کے وقوع پذیر ہونے یا نہ ہونے کا سہرا ایک ایسی چیز کے سر ڈال دیتے ہیں جسے وہ خدا کہتے ہیں جبکہ اصل میں وہ اسے ثابت کرنے پر ہی قادر نہیں ہیں.

ایمان عین وہم ہے، ہم شيزوفرينيا کے مریض کو کبھی قائل نہیں کر سکتے کہ جو کچھ وہ دیکھ یا سن رہا ہے اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی جائے تو مریض کی حالت جارحانہ ہیسٹیریا میں بدل جاتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ لوگ اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں، "یہودی سازش” کا نظریہ اور "اسلاموفوبیا” کی اصطلاح اسی کی تاکید ہے، مغرب جو کچھ بھی کرتا ہے مسلمانوں کو اس میں اسلام کے خلاف سازش نظر آتی ہے اور یوں وہ ہمیشہ ایک دائمی وہم کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں، ان اوہام سے وہ تب تک جان نہیں چھڑا سکتے جب تک کہ وہ عقلیت پسندی سے کام نہیں لیتے جس کا مطلب مقدس مُتون اور شخصیات کا تقدس ختم کر کے ان کا غیر جانب داری سے مطالعہ کرنا ہے تب ان پر اصل حقیقت آشکار ہوگی اور انہیں پتہ چلے گا کہ وہ در حقیقت کسی طویل فکری نیند میں تھے.

2 Comments

  1. most of the renowned scientists and inventors in the world are jews and christians, as per your reserach all of these brilliant minds are also suffering from this schezopherenia, even einstein himself was suffering from it. It is absolutely impossible for me to believe that all these scientist and researchers are unable to think in the direction shown by your goodself in this blog of yours.

    1. سعید صاحب سب سے پہلے تو خوش آمدید 🙂

      بصد ادب عرض ہے کہ شیزوفینیا کو صرف بطور مثال کے استعمال کیا گیا ہے، لوگوں کو شیزوفینیا کا مریض قرار نہیں دیا گیا 🙂

      باقی اگر ساری اقوامِ عالم کا تمام باتوں پر اتفاق ہوجائے تو جینے کے لیے یہ دنیا از حد بور جگہ ثابت ہوگی.. آپ کا کیا خیال ہے؟

      آتے رہیے گا 🙂

جواب دیں

2 Comments
scroll to top