Close

اسلام اور جدیدیت کا خوف

گذشتہ 1400 سالوں میں اسلام کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جیسے پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعد خلافت کا مسئلہ، ارتداد کی تحریک، نت نئے مدّعیان نبوت کا سامنا، تسنن و تشیع کا اختلاف، خلافت کا ملوکیت میں تبدّل، فکر اعتزال، فلسفۂ یونان کا عربی میں ترجمہ کے باعث فکری بحران، تاتاری یلغار، صلیبی جنگیں، عرب و عجم کے اقتدار کی چپقلش، وغیرہ۔ مسلمانوں نے کہیں عسکری قوت کی بدولت، کہیں انتظامی جوڑ توڑ کے ذریعے، کہیں مصلحت و حکمت کے ذریعے اور کہیں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے جیسے تیسے ان مشکل حالات کو بالآخر اپنے حق میں موڑ ہی لیا۔
جب مسلمانوں کو جزیرہ نما عرب سے باہر کی ثقافتوں کے ساتھ میل جول کا موقع میسر آیا، تو ایسے نئے نئے مسائل نے جنم لینا شروع کیا، جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی رہنمائی میسر نہیں تھی۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال تھی اس صورت حال میں علماء اسلام نے بدلتی ہوئی صورت حال کے تقاضوں کے مطابق اسلام میں ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی جسے “فقہ” کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ اس سے قبل اسلامی تعلیمات میں فقہ نامی کسی اصطلاح کا وجود نہیں تھا، لیکن اس زمانے کے فقہاء، علماء، اور محدثین نے اسلام کو جمود کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے اسلامی تعلیمات کی تشریحات کا رخ موڑتے ہوئے “کتاب و سنت” کے علاوہ “قیاس” اور “اجماع” کی نئی اصطلاحات کو متعارف کروایا اور اسلامی تعلیمات کو بانجھ ہونے سے بچانے کیلئے “کتاب و سنت” کے علاوہ “قیاس” اور “اجماع” کو اسلامی قانون سازی کے بنیادی مصادر میں شامل کر اسلام میں ایک نئی روح پھونک دی گئی۔
خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام کا مشہور قول ہے کہ “تركت فيكم ما ان تمسكتم به لن تضلوا بعدي كتاب الله وسنتي ” یعنی “میں تم میں اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے” پیغمبر اسلام کے اس قول کی روشنی میں بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اسلام میں قانون سازی کیلئے قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور مصدر کا اضافہ کیا جاسکے۔ لیکن اس زمانے کے علماء نے اس بات کا بخوبی ادراک کرلیا کہ قیاس اور اجماع کو شریعت کے مصادر میں جگہ دیئے بغیر آگے بڑھنا ناممکن ہے اور اس رکاوٹ کو ختم کرنے کی خاطر قول رسول پر اضافہ بھی کرنا پڑ جائے (یا بالفاظ دیگر معروف تشریح کو تبدیل بھی کرنا پڑجائے) تو اسے گوارا کئے بغیر کوئی اور راستہ نہیں۔
اس زمانے کے علماء کرام نے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسلام کو درپیش ایک بہت اہم چیلنج سے بخوبی نبٹتے ہوئے دانشمندانہ قدم اٹھایا۔ اس موقع پر ایسا بھی نہیں ہوا کہ فقہاء نے اصول شریعت میں قیاس اور اجماع کے اضافے کی ضرورت سمجھی اور بغیر کسی مزاحمت کے یہ اضافہ کر دیا گیا، بلکہ قیاس اور اجماع کو اصول شریعت میں اضافہ کرنے کے خلاف بھی آواز تو اٹھی، لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے کے مترادف کوئی اور چارہ بھی نہ تھا، اس لئے ان “بدعتی علماء” کے خلاف آواز زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہو سکی اور ان بدعتی علماء کے فیصلے کو قبول عام کا درجہ حاصل ہوگیا، اور مخالفانہ آواز دم توڑ گئی۔
تمام مشکل مراحل سے بخوبی گذرنے والے اسلام کو آج جدیدیت کا چیلنچ درپیش ہے، اور یہ چیلنچ سابقہ تمام چیلنچز سے مشکل ترین چیلنچ ثابت ہوا ہے، یہ چیلنچ اس لئے مشکل نہیں ہے کہ یہ واقعتاً ایک مشکل چیلنج ہے بلکہ یہ چیلنچ اس لئے مشکل ترین ثابت ہو رہا ہے کہ آج اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کیلئے اہل علماء دستیاب نہیں ہیں، علماء اسلام کی اکثریت جمود پسند ہے اور جمود کو توڑے بغیر جدیدیت کے چیلنچ کا سامنا ممکن نہیں۔ آج عالم اسلام جدیدیت کے خوف میں مبتلا ہے اور جدیدیت، اسلام کیلئے ایک ڈراونے خواب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
مسلمان انتہائی فخر کے ساتھ دنیا کو بتاتے ہیں کہ جدید سائنس کی عمارت جن بنیادوں پر قائم ہے یہ بنیاد سائنس کو مسلمانوں نے فراہم کی، اور مغرب نے تمام تر سائنسی علوم مسلمانوں سے ہی حاصل کئے، مغرب کی تمام تر سائنسی ترقی کی ابتداء مسلمانوں سے ہی ماخوذ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آپ کی ہی میراث ہے، اس عمارت کی بنیادیں آپ کی ہی فراہم کردہ ہیں، آپ نے ہی ان علوم کو بنیادی معیارات عطا کئے تھے، تو آج مسلمان اپنی اسی میراث کو اپنانے میں دنیا بھر سے پیچھے کیوں ہیں؟ جس عمارت کو بنیادیں آپ نے فراہم کیں اگر وہ عمارت آج ایک پرشکوہ نمونے میں ڈھل چکی ہے تو آپ کو اس عمارت سے کفر و بدعت کی بدبو کیوں آنے لگی؟ اگر گذشتہ کل اہل مغرب آپ سے سائنسی علوم مستعار لے رہے تھے تو یہ گذرا ہوا ماضی آپ کیلئے اس حد تک قابل فخر ہے کہ اسے بیان کئے بغیر آپ کی عظمت رفتہ کی داستان مکمل نہیں ہوتی، اور آج اگر آپ کو وہی علوم اہل مغرب سے حاصل کرنا پڑ رہے ہیں تو آپ شرمندگی، ہچکچاہٹ، جھجک، احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور آپ کی جھوٹی خود ساختہ عزت نفس مجروح ہونے لگتی ہے۔ آج اہل مغرب سے اپنی گم گشتہ میراث کو دوبارہ حاصل کرتے ہوئے آپ کو اپنا ایمان خطرے میں محسوس ہوتا ہے۔
یہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے کہ ایک طرف عالم اسلام کے ممتاز علماء کرام قرآن سے سائنس کو ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور دوسری جانب کچھ ایسے علماء کرام بھی ہیں جو قرآن سے ہی سائنس کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اور یہ صورت حال اس مغالطے کی وجہ سے ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کے درست اور غلط ہونے کیلئے قرآن کو معیار بنا لیا ہے، حالانکہ سائنس کو درست ثابت کرنے کیلئے یا غلط ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کو سائنسی علوم میں مہارت اختیار کرنا ہوگی، اگر آج مسلمانوں کو چارلس ڈارون، آئن اسٹائن، اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات سے اتفاق نہیں ہے اور انہیں غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی صفوں میں انہی کے پائے کے سائنسدان پیدا کرنا ہوں گے نا کہ شیخ عبداللہ بن باز، شیخ طنطاوی،ذاکر نائک، ہارون یحییٰ۔
دنیا میں جو مذاہب تبدیلی کے چیلنج کا سامنا نہ کر پائے وہ اپنی افادیت یا اپنا وجود کھو بیٹھے، ماضی میں یہی صورت حال عیسائیت کو بھی درپیش ہوئی، اور عیسائیت کو پاپائیت کے شکنجے سے نجات نصیب ہوئی، اگر آج عالم اسلام کو مطلوبہ صلاحیت کے افراد میسر آ جائیں، تو جدیدیت کے گرداب سے نکلنا کچھ خاص مشکل نہیں، بلکہ امت مسلمہ کو تعلیم اور ترقی کی نئی راہیں دستیاب ہو سکتی ہیں، اور عالم اسلام، اقوام عالم کے درمیان اپنا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

22 Comments

  1. ایاز نظامی صاحب! آپ کے دلائل منطقی اور غوروفکرپر مجبور کرنے والے ہیں۔ اسلامی تاریخ کا میرا علم نہایت محدود ہے،اس لیے تبصرہ تو نہیں کر سکوںگی، البتہ ایک سوال ہے جو عرصے سے دل میں کھٹک رہاتھا۔ آپ کا مضمون پڑھ کر پھر کلبلانے لگا. مجھے یقین ہے آپ نے اس پر ضرور سوچا یا لکھا ہوگا.
    کچھ دن پہلے سعید اختر مرزا کا ایک ناول پڑھا تھا : The Monk, the Moor and Moses ben Jalloun. اس میں بھی اسلامی تاریخ کا یہی زریں باب کھولا گیا ہے کہ اسلام میں سائنس، ریاضی، فلسفہ ،علوم و فنون،ترجمہ اور ایجادات کی زبردست روایت رہی ہے۔ ماضی کی تصویر کشی کا مقصد مغرب کو اسلامی تاریخ سے متعارف کرانا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کوسفّاک، غیر مہذب اور بنیاد پرست سمجھنا چھوڑ دے . مرزا نے ابو ریحان البرونی، ابن رشد، فارابی، الکندی، ابن سینا، المعری ، ابن خلدون وغیرہ پر کافی محنت سے مواد جمع کیا ہے. فضا بندی میں ذہنی کشادگی کا خیال رکھا ہے جس سے ایک ماڈرن منطقی ذہن کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ اسلامی آئیڈیالوجی اور سیاسی اسلام کا پھیلنا اور علوم و فنون کے فروغ کو مرزا نے ایک ربط اور تسلسل کے ساتھ منطقی توجیہ کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سب درست، لیکن اس سوال پر مرزا بھی خاموش ہیں کہ آخر علم کی جستجو کی یہ خواہش اچانک کیسے ختم ہو گئی؟ ان علما اور دانشوروں اور سائنسدانوں اور ریاضی دانوں نے اپنے پیچھے کیا کوئ روایت نہیں چھوڑی؟یہ منطقی ذہن والے روشن خیال لوگ کیا ہوئے؟اندلس سے لے ایران تک ، جس کلچر نے فروغ پایا تھا اس کے زوال کا سفر کون سا ہے؟ اور یہ زوال کیا سیاسی زوال کا جزوِ لازم تھا؟ کیا بے پایاں دولت، عسکری کامرانیوں اور اقتدار نے مسلمانوں کو خراب کیا؟ اگر ہاں، تو یہ حال دوسری کامیاب قوموں کا کیوں نہیں ہوا؟ کچھ رہنمائی کریں کہ دانش وری کی روایت کو کیا اس طرح بھی زنگ لگ سکتا ہے؟

    1. محترمہ ارجمند آراء صاحبہ
      جرات تحقیق پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
      آپ کے سوال کا جواب عرض ہے کہ فاضل مصنف سعید اختر مرزا صاحب نے جن نامور مسلمان نابغہ روزگار ہستیوں کی مثالیں دے کر اسلام کو ایک ترقی پسند اور روشن خیال مذہب کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، یہ بہت بڑی علمی بد دیانتی ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے محمد بن قاسم کو ایک ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس عظیم مسلمان ہیرو کے انجام کو تاریخ بیان کرتے ہوئے قصداً پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ بعینہ یہی معاملہ ابن رشد، فارابی، الکندی، ابن سینا، المعری ، ابن خلدون، زکریا الرازی وغیرہ کا ہے۔ آج کل کے مؤرخ انہیں فلک اسلام کے درخشندہ ستارے تو قرار دے دیتے ہیں، لیکن ان نابغۂ روزگار ہستیوں کے ساتھ ان کے ہم عصر شریعتی علماء نے کیا سلوک کیا اسے بیان کرنے کرتے ہوئے ان جدید مؤرخین کے قلم کو قبض لاحق ہو جاتی ہے۔یہ تمام روشن خیال ہستیاں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے اپنی روشن خیالی کے باعث "کافر” قرار دیئے گئے، اور بدترین سلوک کے مستحق ٹھہرے۔ان تمام روشن خیال ہستیوں کے حالات زندگی بآسانی ویکیپیڈیا پر دستیاب ہیں، براہ کرم آپ ان کا ضرور مطالعہ کیجئے گا۔
      جب ان جیسی نابغۂ روزگار ہستیوں کو شریعتی ملاؤں کے ہاتھوں کافر قرار دے بدترین سلوک کا شکار بنایا گیا تو ترقی اور روشن خیالی کا سفر کیسے جاری رہ سکتا تھا، آج امام غزالی کو ہر مسلم گھرانے کا بچہ بچہ جانتا ہوگا، لیکن ابن رشد سے کون واقف ہے، ابن رشد کی ضرورت صرف اسی وقت پیش آتی ہے جب مغرب کو یہ دکھانا ہوتا ہے کہ "پدرم سلطان بود”۔
      آج تحریک اعتزال سے کون واقف ہے؟ میں نے اوپر جتنے نام گنوائے ہیں یہ سب معتزلی تھے، تحریک اعتزال کی بنیاد عقل شعور اور آگہی پر مبنی تھی، شریعتی علماء کو عقل، شعور اور آگہی سے وہی بیر تھا اور آج بھی ہے جو تخریب کو تعمیر سے ہوتا ہے۔ انہی شریعتی ملاؤں کی کاوشوں سے تحریک اعتزال کا بھی خاتمہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں اسلام اور عقل و شعور کا رہا سہا تعلق بھی ختم ہو کر رہ گیا۔
      یہ سب جاننے کے بعد اب اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہ ہوگا کہ:
      آخر علم کی جستجو کی یہ خواہش اچانک کیسے ختم ہو گئی؟ ان علماء اور دانشوروں اور سائنسدانوں اور ریاضی دانوں نے اپنے پیچھے کیا کوئی روایت نہیں چھوڑی؟یہ منطقی ذہن والے روشن خیال لوگ کیا ہوئے؟ اندلس سے لے ایران تک، جس کلچر نے فروغ پایا تھا اس کے زوال کا سفر کون سا ہے؟ اور یہ زوال کیا سیاسی زوال کا جزوِ لازم تھا؟ کیا بے پایاں دولت، عسکری کامرانیوں اور اقتدار نے مسلمانوں کو خراب کیا؟ اگر ہاں، تو یہ حال دوسری کامیاب قوموں کا کیوں نہیں ہوا؟ کچھ رہنمائی کریں کہ دانش وری کی روایت کو کیا اس طرح بھی زنگ لگ سکتا ہے؟
      مزید کوئی تشنگی باقی ہو تو ضرور مطلع کیجئے گا۔

      1. ایاز نظامی کے مضمون (اسلام اور جدیدیت) سے مکمل اتفاق کرتا ہوں اور تقاضا کرتا ہوں کی نبی پاک کے بعد جو خرابیاں پیدا ہوئ ہیں انھیں اجاگر کریں کہ یہ نقلی مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے ضروری ہے مگر نبی پاک اور خلفاء راشد کے متعلق زبان درازی ہر گز قبول نہیں.

  2. (نظامی صاحب )جرأت تحقیق کی تمام تحریریں میرے لئے ہمیشہ مشعل راہ ہیں .
    یہ تحریریں ایک ایسا خزانہ ہیں کے جن کی کوئی قیمت ہی ادا نہیں کر سکتا .
    آپ کی تحریریں پڑھ کر ہمیشہ میرے ذھن میں یہ جملہ آتا ہے .
    (گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو )

    فقیر صاحب.

  3. میں علامہ نظامی صاحب سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسلام میں "کتاب و سنہ” کے علاوہ "اجماع و قیاس” کی اہمیت مرکوز کروانے کا سہرا کن مسلمان علماء کے سر ہے؟ نیز کن کن مسلم فقہاء نے "کتاب و سنت” کی صریح روگردانی کرتے ہوئے "اجماع و قیاس” کے ہتھیاروں کے ذریعے مسلم فکر کو جمود میں ڈالا؟ اگر ایک مختصر سی تحریر میں کچھ بیان کرسکتے ہیں تو ضرور عرض کریں۔

    1. رسول الله کے انتقال کے فورا بعد سے ہی ایسے مسائل میں جن کی صراحت رسول اللہ سے منقول نہیں تھی اجتہاد کی ضرورت پیش آ گئی تھی، لیکن چونکہ خلفاء کو رسول اللہ کا خلیفہ اور امام وقت تصور کیا جاتا تھا، اس لئے ان کے اجتہاد کو قیاس سے نتھی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، اجماع و قیاس کو دین میں داخل کرنے کا اصل سہرا فقہاء اسلام کے سر ہے، جن میں چاروں فقہوں کے ائمہ خصوصا شامل ہیں، میرے خیال سے اجماع اور قیاس کو دین میں شامل کرنا مسلم فکر کو جمود میں ڈالنا نہیں تھا، بلکہ فقہاء کی کوششوں نے ایک گرتی ہوئی عمارت کو سہارا دینے کا کام سر انجام دیا۔ البتہ بعد میں اجتہاد کی روایت کو ختم کرکے اسلامی فکر ضرور جمود کا شکار ہو گئی، جو اب تک جاری ہے

    1. جرات تحقیق کی تمام تحریرں بغیر کسی اجازت کے کہیں بھی بلا اجازت شئیر /کاپی پیسٹ کرنے کی اجازت ہے۔ صرف دو باتوں کا خیال رکھیں :
      1- ہر تحریر کے ساتھ اس تحریر کے مصنف کے نام کی نشاندہی ضروری ہے۔
      2ٓ- تحریر کے آخر میں جرات تحقیق کی تحریر کا لنک بطور حوالہ شامل کر دیں۔

    1. مطلوبہ تحریر کو پہلے فیس بک پر کاپی پیسٹ کر دیں، تحریر کے آغاز میں عنوان اور مصنف کا نام درج کر دیں، آخر میں متعلقہ تحریر کا لنک درج کر دیں۔ نمونہ درج ذیل ہے:

      مضمون کا عنوان
      تحریر: جو بھی مصنف ہوں ان کا نام درج کریں
      گذشتہ 1400 سالوں میں اسلام کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جیسے پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعد خلافت کا مسئلہ، ارتداد کی تحریک، نت نئے مدّعیان نبوت کا سامنا، تسنن و تشیع کا اختلاف، خلافت کا ملوکیت میں تبدّل، فکر اعتزال، فلسفۂ یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
      https://realisticapproach.org/اسلام-اور-جدیدیت-کا-خوف/

  4. محترم ایاز نظامی! ایک عرصے بعد اس سائیٹ کا وزٹ کیا ہے۔ حسب دستور اور حسب روایت آپکی تازہ تحریر معلوماتی بھی ہے اور طرز تحریر بھی بہت اعلیٰ ہے۔ واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ تحریر میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے بلکہ رہنمائ ہے۔ اسی لئے تو آپکی تحریریں دل میں اُتر جاتی ہیں۔

    1. جب ان لوگوں کے خلاف واجبِ قتل یا واجبِ تعذیب ہونے کے فتوے مذہبی عمائدین صادر کریں گے یا مقتدر طبقہ انہیں سزا کا مستحق قرار دے تو آپ سوچ سکتے ہیں انہیں کون بچانے آ سکتا تھا۔
      اس صورت حال سے نکلنے کا حل یہی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی منشور پر دستخط کر رکھے ہیں اسے ہر حال میں نافذ کیا جائے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہی ایک بہتر معاشرے کا ضامن ہے۔

جواب دیں

22 Comments
scroll to top