Close

شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار

حمزہ کاشغری، ایک سعودی شاعر اور صحافی جو سعودی عرب کے اخبار “البلاد” میں کالم لکھا کرتا تھا، 1989ء میں پیدا ہوا۔ 2011ء سے حمزہ کاشغری اپنی جمہوریت پسند سرگرمیوں کی بدولت سعودی خفیہ ایجنسی (مباحث) کی نظروں میں کھٹک رہا تھا، پھر معروف سوشل نیٹ ورک ٹیوٹر پر پیغمبر اسلام کے بارے میں اپنے تین توہین آمیز ٹویٹس شائع کرنے کی وجہ سے متنازعہ شخصیت بن کر ابھرا۔ انتہاء پسند ملاّؤں کے دباؤ کے باعث سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ نے حمزہ کاشغری کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے، کیونکہ ان تین ٹویٹس کی بدولت حمزہ کاشغری “توہین رسالت” کا ارتکاب کرکے سعودی حکمرانوں اور مسلمانوں کی قوت برداشت کی حد کو پار کر چکا تھا۔

4 فروری 2012ء کو میلاد النبی کے موقع پر حمزہ کاشغری نے اپنی اور پیغمبر اسلام کے مابین ہونے والی تصوراتی ملاقات کے بارے میں اپنے اُن مشہور و معروف ٹویٹس میں لکھا تھا کہ:

1- فی یوم مولدک سأقول: ننی احببت الثائر فیک، لطالما کان ملھماً لی، و اننی لم احب ھالات القداسۃ، لن اصلی علیک۔

(ترجمہ) تمہاری سالگرہ کے موقع پر میں یہ کہوں گا کہ: تمہارے اندر پائے جانے والا باغی مجھے پسند ہے، جب تک کہ تم میرے لئے متاثر کن شخصیت رہے، لیکن میں نے تمہارے گرد تقدیس کے ہالوں کو کبھی پسند نہیں کیا۔ میں ہرگز تم پر درود نہیں پڑھوں گا۔

2- فی یوم مولدک أجدک فی وجھی أینما اتجھت ساقول أننی أحببت أشیاءً فیک، و کرھت أشیاءً …… و لم أفھم الکثیر من الأشیاء الأخریٰ۔

(ترجمہ) تمہاری سالگرہ کے موقع پر میں جہاں بھی دیکھتا ہوں تمہیں ہی پاتا ہوں، مجھے تمہاری بعض باتیں پسند ہیں ، اور کچھ باتیں ناپسند، اور بہت ساری دوسری باتیں سمجھ سے بالا تر ہیں۔

3- فی یوم مولدک لن أنحنی لک، لن أقبّل یدیک، سأصافحک مصافۃ الندّ للندّ، و ابتسم لک کما تبتسم لی، و أتحدّث معک کصدیق فحسب . . . . لیس أکثر۔

(ترجمہ) تمہاری سالگرہ کے موقع پر، میں تمہارے لئے ہر گز نہیں جھکوں گا، نہ تمہارے ہاتھ چوموں گا، میں تم سے ایسے ہی ہاتھ ملاؤں گا جیسے کوئی حریف اپنے حریف سے ہاتھ ملاتا ہے، اور میں بھی تمہارے لئے ایسے ہی مسکراؤں گا جیسے تم میرے لئے مسکراؤ گے، (زیادہ سے زیادہ) میں تم سے اپنے

کسی ساتھی کی طرح پیش آؤں گا، بس ۔ ۔ ۔ اس سے زیادہ نہیں۔

حمزہ کاشغری کے ان ٹیوٹس نے بہت جلد سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کر لی اور ان تین ٹیوٹس پر تیس ہزار سے زائد ٹیوٹس کا ردّ عمل دیکھنے کو ملا، جن میں سے اکثر ٹیوٹس میں حمزہ کاشغری کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں تھیں، یقینی طور پر زمینی حقائق حمزہ کاشغری کے حق میں نہ تھے، حمزہ کاشغری اپنے طور پر انتہائی خاموشی سے سعودی عرب سے پرواز کر کے ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور پہنچ گیا، وہ ملائشیا سے نیوزی لینڈ جا کر وہاں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ 7 فروری 2012ء کو سعودی آن لائن اخبار “العربیۃ” نے خبر دی کہ حمزہ کاشغری سعودی عرب چھوڑ کر جا چکا ہے، جس کے بعد انتہاء پسند عناصر کے دباؤ پر سعودی فرمانروا شاہ عبد اللہ نے عبد اللہ کاشغری کی حراست کے احکامات جاری کر دیئے، چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سعودی عرب سے ملائشیا روانہ ہوا ہے، سعودی عرب کے کہنے پر ملائشیا حکومت نے 9 فروری 2012ء کو حمزہ کاشغری کو گرفتار کر لیا،سعودی عرب اور ملائشیا کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہ ہونے کے باوجود غالباً سعودی دباؤ پر حمزہ کاشغری کو سعودی حکومت کے حوالے کر دیا، حالانکہ اس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیمیں سرگرم عمل ہو چکی تھیں اور وہ بھی ملائشیا حکومت سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ حمزہ کاشغری کو کسی طور پر سعودی عرب کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ یقینی طور پر اسے سعودی قانون کے مطابق موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ حمزہ کاشغری کے وکیل کی درخواست کے باوجود اس وکیل کو حمزہ کاشغری سے ملنے نہیں دیا گیا، بعد ازاں حمزہ کاشغری کے وکیل نے ملائشین ہائی کورٹ سے حمزہ کاشغری کی جبری حوالگی کے خلاف حکم التواء بھی حاصل کر لیا تھا، لیکن اس کے باوجود حمزہ کاشغری کو سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا، بعد ازاں ملائشین حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے حکم التواء کے اجراء سے پہلے ہی ملائشین حکومت حمزہ کاشغری کو سعودی عرب کے حوالے کر چکی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعہ کے خلاف بھر پور احتجاج بھی کیا لیکن لگتا یہی ہے کہ ملائشین حکومت کو سعودی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے، بالآخر 12 فروری 2012ء کے دن حمزہ کاشغری کولے کر ایک جہاز سعوی عرب روانہ ہوااور دارالحکومت ریاض میں اسے سعودی حکام نے گرفتار کر لیا ۔ حمزہ کاشغری کو اس واقعہ کی بناء پر عالمگیر شہرت حاصل ہوئی، مذہبی انتہاء پسند حمزہ کاشغری کو سزائے موت دلانے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حمزہ کاشغری کی رہائی کیلئے سرگرم عمل ہوگئیں۔ حمزہ کاشغری کی رہائی کیلئے متعدد ویب سائٹس بنائی گئیں اور آن لائن پٹیشن دائر کی گئی جس پر دنیا بھر سے پچیس ہزار سے زائد افراد نے حمزہ کاشغری کی رہائی کی حمایت کی۔ سعودی انتہاء پسند علماء نے حمزہ کاشغری پر عدالت میں مقدمہ چلنے سے قبل ہی اسے گستاخ رسول، مرتد اسلام اور واجب القتل قرار دے دیا تھا۔

اپنے معروف ٹیوٹس کے تنازع کے دوران حمزہ کاشغری نے کہا تھا کہ:
”ان ٹویٹس کا مقصد آزادئ اظہار رائے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے،اور میں اپنے اس عمل کو آزادی کیلئے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھتا ہوں،میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کا طلب گار ہوں، کچھ بھی بلاوجہ نہیں تھا، بلکہ میں نے ایک بڑے تنازع سے بچنے کیلئے خود کو قربانی کا بکرا بنایا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں ہوں جو سعودی عرب میں آزادئ اظہار رائے اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کر رہا ہوں بلکہ میرے علاوہ میرے اور بھی بہت سے ہم سفر ہیں جو یہ لڑائی لڑ رہے ہیں“

سعودی خواتین کے حقوق کے حوالے سے حمزہ کاشغری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ:
“سعودی خواتین جہنم میں نہیں جائیں گی، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کوئی دو مرتبہ جہنم میں جائے”۔

20 ماہ تک قید رہنے کے بعد 29 اکتوبر 2013ء کو اچانک غیر متوقع طور پر ٹیوٹر پر حمزہ کاشغری کا ٹیوٹ نمودار ہوتا ہے: “امید صبح نو ! جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور کبھی فنا نہ ہوگی ۔ ۔ ۔ خداوند کا شکر ہے” یہ حمزہ کاشغری کی جانب سے اس کی رہائی کا اعلان تھا، حمزہ کاشغری کے وکیل عبد الرحمن اللاحم نے بھی حمزہ کاشغری کو رہائی کی مبارکباد دی،حمزہ کاشغری کو ماوراء عدالت خاموشی سے رہا کر دیا گیا، سعودی حکومت کی جانب سے حمزہ کاشغری کو رہا کرنے پر سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

ہمیں بے حد خوشی ہے کہ حمزہ کاشغری رہا ہوا، حمزہ کے خاندان کی خوشیاں لوٹ آئیں، سعودی عرب جیسی کٹّر عقائد کی حامل حکومت نے اس موقع پر خلافِ توقع نرم رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ملاّؤں کی خواہش کے برخلاف خاموشی سے حمزہ کاشغری کو رہا کر دیا۔ ایک موقع پر امریکی حکومت نے سعودی عرب سے کہا تھا کہ حمزہ کاشغری کا معاملہ سعودی حکومت کیلئے ایک آزمائشی کیس ہے۔اس لئے یہ کہنا خلاف ِمحل نہ ہوگا کہ اس موقع پر بھی سعودی حکومت نے اپنے غیر اعلانیہ آقاؤں کی ناراضگی مول لینے کی جسارت سے پوری طرح گریز ہی برتا۔

حمزہ کاشغری کی رہائی پر سعودی ملاّؤں پر سکتہ کی کیفیت طاری ہے، ان کی زبانیں گنگ ہوئی ہوئی ہیں۔ جو انتہائی شد و مد کے ساتھ حمزہ کاشغری کے خلاف شریعت اسلامیہ کے مطابق اس کے قتل کا مطالبہ کر رہے تھے وہ نہ جانے آج کیوں خاموش ہیں؟ پورے عالم اسلام میں کہیں بھی کوئی آواز سعودی حکومت کے اس اقدام کے خلاف نہیں اٹھی کہ آخر سعودی حکومت کو کیا حق پہنچتا تھا کہ ایک “گستاخِ رسول” مرتد اسلام اور واجب القتل شخص کو رہا کرکے کروڑ ہا فرزندانِ توحید کے جذبات کو مجروح کرے۔ انتہائی حیرت انگیر طور پر شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار کا کردار نبھانے والے “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی مذہبی جماعتیں اور ملّا ،جنہوں نے تاحیات اسلام کا ٹھیکہ باقاعدہ ٹینڈر پاس کرکے حاصل کیا ہوا ہے، سعودی عرب کے اس غیر اسلامی فعل پر انہیں بھی سانپ سونگھ چکا ہے، اور دم سادھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کی حکومت، سعودی عرب کے انتہاء پسند ملّاؤں، عالم اسلام بشمول عالم اسلام کے تاحیات چمپئن اور ٹھیکیدار اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں و تنظیموں کی خاموشی اور دم سادھنے پر کسی بھی طور پر اس تحریر کا مقصد حمزہ کاشغری کے خلاف اشتعال دلانا ہرگز مقصود نہیں ہے، کیونکہ حمزہ کاشغری تو آزادئ اظہار رائے کا علم بردار ہے، ہم حمزہ کاشغری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، لیکن اس خاموشی پر دراصل قارئین کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرانا ہے کہ ذرا دیر کیلئے سوچئے! ذرا تصور کیجئے کہ حمزہ کاشغری ایک پاکستانی شہری ہے، جسے پاکستان کی مذہبی تنظیموں کے احتجاج اور دباؤ پر حکومتِ اسلامی جمہوریہ پاکستان گرفتار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے، تو:

کیا صدر پاکستان کی جانب سے حمزہ کاشغری کیلئے معافی کا اعلان ممکن تھا؟
کیا یہ ممکن تھا کہ حمزہ کاشغری صدارتی معافی کے ذریعے نہ سہی عدالتی فیصلے کے تحت ہی رہا ہو جاتا؟
یا دوران حراست ہی جیل میں شارٹ کٹ کے ذریعے جنت کے کسی طلب گار کےہاتھوں بچ جاتا؟
چلیں فرض کر لیا کہ صدارتی حکم یا عدالتی کارروائی کے بعد حمزہ کاشغری رہا کر دیا جاتا تو ہماری مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا کیا ردّ عمل ہوتا؟
کیا ہم عربوں سے بھی زیادہ مسلمان ہیں؟
کیا پاکستان کو سعودی عرب سے بھی زیادہ اسلام کی ضرورت ہے؟

ڈنمارک میں شائع ہونے والے کارٹونوں اور The Innocence of Muslims نامی فلم پر سراپا احتجاج بن کر اپنی ہی قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے جذباتی پاکستانی آج سعودی عرب کے اس غیر اسلامی فعل پر کیوں خاموش ہیں؟

شاباش سعودی عرب کے حکمرانو! تم نے رواداری اور برداشت کا ثبوت دیا، ہمیں تم سے یہ توقع نہیں تھی لیکن پھر بھی تم نے سمجھداری کا ثبوت دیا،تم ہمارے لئے پسندیدہ نہیں ہو، لیکن یہ قدم اٹھا کر تم نے ہمارے دل موہ لئے ہیں۔کاش کہ تمہاری چاہت سے زیادہ تمہاری وفاداری کا دم بھرنے والی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اور عوام بھی تمہارے اس اقدام سے کوئی سبق حاصل کریں۔

اے سعودی حکمرانو! حالانکہ ہم اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ حمزہ کی رہائی میں تمہاری کسی نیک نیتی کا کوئی خصوصی عمل دخل نہیں ہے، اگر تمہارا بس چلتا تو تم یقینی طور پر حمزہ کاشغری پر اسلامی شریعت کے قوانین کے مطابق عمل کرتے، اسے توہین رسالت جیسے بدنام زمانہ، انسانیت کُش، اسلامی قانون کے مطابق تختۂ دار پر لٹکا دیتے، یہ تو بھلا ہو مغرب کا جس نے احترام انسانیت کے وہ ضابطے متعارف کرائے جوسیکولر بنیادوں پر قائم ہیں، اور مغرب کی طرف سے تم پر حمزہ کاشغری کے معاملے میں اس قدر دباؤ پڑا کہ تمہیں اپنے 1400 سالہ پرانے انسانیت کُش قوانین سے دستبردار ہونا پڑا، اور تمہارے لئے حمزہ کاشغری کو رہا کرنے کے سوا کوئی اور چارہ باقی نہ بچا۔

اب ذرا اپنے ملک کی ایک حالیہ صورت حال کا بھی جائزہ لیتے جہاں ہمارے وطن کی بیٹی ملالہ، جسے تعلیمِ نسواں کیلئے آواز بلند کرنے کے جرم میں خاموش کرانے کی ناپاک جسارت کی گئی، جسے ہمارے لئے باعث فخر و افتخار ہونا چاہئے تھا، آج ہمارے ملاّ اسے بھی “گستاخ رسول” ثابت کرکے مرتدِ اسلام اور واجب القتل قرار دینے کے درپے ہیں۔

مگر کیوں ؟ ؟ ؟

محض اس لئے کہ اس نے اپنی اس کتاب میں جسے اس نے خود سپرد قلم نہیں کیا ہے( بلکہ وہ محض ان حالات و واقعات کی روایت کرنے والی ہے جو اسے پاکستان میں رہنے کے دوران پیش آئے) پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ ﷺ درج نہیں کیا۔ اے عقل کے اندھو! اے دشمنان خرد و شعور! پورا اسلامی لٹریچر اٹھا کر دیکھ لو، اپنا قرآن اٹھا کر دیکھ لو، اپنی بخاری و مسلم و دیگر صحاح ستہ کی کتابیں اٹھا کر دیکھ لوسارے کے سارے صحابہ، صحابیات، یہاں تک تمہاری امہات المومنین تک پیغمبر اسلام کو صرف یامحمد! یا نبی ! یا رسول اللہ! کہہ کر پکارا کرتے تھے، کبھی کسی نے پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ ﷺ کا لاحقہ استعمال نہیں کیا، یہ پیغمبر اسلام کے نام کے ساتھ صلی اللہ علیہ و سلم کہنے کی “بدعت” بہت بعد میں ایجاد ہوئی ہے۔ کیا اب ان” بدعات” کے ارتکاب پر بھی “گستاخ رسول” قرار دیا جائے گا جو کسی صحابی تک سے ثابت نہیں؟ اگراتنے ہی اصول پرست ہو تو آگے بڑھو اور ان تمام صحابہ کو بھی “گستاخ رسول “ قرار دو جو پیغمبر اسلام کو صرف”او محمد!” کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

3 Comments

جواب دیں

3 Comments
scroll to top