Close

دماغیات

Realistic Approach, جرات تحقیق,

آغاز میں انسان کو دماغ کے ایک اہم عضو کے طور پر موجودگی کی خبر نہ تھی، چنانچہ غور وفکر اور سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں قدیم انسان کے لیے ایک معمہ تھا، قدیم مصریوں (2500 قبل از عیسوی) کا خیال تھا کہ عقل دل میں ہوتی ہے اور دماغ بے فائدہ چیز ہے، یہی وجہ تھی کہ جسم کی تحنیط کے وقت وہ ناک کے ذریعے دماغ کو نکال باہر پھینکتے تھے حالانکہ تحنیط کے عمل کا مقصد ہی عالمِ سفلی تک منتقلی کے عمل کے دوران جسم کی حفاظت تھی، تاہم وہ دل کو نہیں نکالتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں دل روح اور عقل کا مرکز تھا، ہمارے پاس 1500 قبل از عیسوی کی ایک مصری طبیب کی دستاویز ہے جس میں پہلی بار دماغ کی ایناٹومی بیان کی گئی، بردی کے ورق کی اس دستاویز کو ایڈون سمتھ پیپرس Edwin Smith Papyrus کہا جاتا ہے جس میں دماغ کی کئی دیگر تفصیلات سمیت طبیب نے دماغ کی کوئی 26 بیماریاں اور ان کا علاج بیان کیا ہے.

اسی طرح دو ہزار سال پرانی ایسی انسانی کھوپڑیاں بھی دریافت کی گئی ہیں جن میں منظم طریقے سے چھریوں یا تیز دھاری پتھروں سے سوراخ کیے گئے تھے، اس عمل کو ٹریپیننگ Trepanning کہا جاتا ہے، علمائے آثارِ قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آپریشن مذہبی سرگرمیوں کا حصہ تھے جس کی مثالیں ساری دنیا میں پائی گئی ہیں، بعض کھوپڑیوں میں سوراخ منظم طریقے سے گول تھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صاحبِ کھوپری زندہ رہا اور ہڈی جزوی طور پر نمو پا سکی، سر سے جن بھوت بھگانے کے لیے کھوپڑی کھولنا قرونِ وسطی میں رائج تھا اور اس کے لیے خاص اوزار استعمال کیے جاتے تھے.

عظیم یونانی فلسفی ارسطو کا خیال تھا کہ عقل وفکر دل میں انجام پاتی ہے اور دماغ کا کام خون کو ٹھنڈا رکھنا ہے، دی مقراطیس کا خیال تھا کہ روح تین حصوں پر منقسم ہے: عقل سر میں، احساسات دل میں اور لذت جگر میں، بابائے طب بقراط اپنی کتاب On the Sacred Disease میں رقم طراز ہیں:

"Men ought to know that from nothing else but the brain come joys, delights, laughter and sports, and sorrows, griefs, despondency, and lamentations. And by this, in an especial manner, we acquire wisdom and knowledge, and see and hear, and know what are foul and what are fair, what are bad and what are good, what are sweet, and what unsavory”

"انسان کو جان لینا چاہیے کہ کچھ نہیں سوائے دماغ کے ہی مسرت، خوشی، ہنسی، کھیل اور غم، رنج، یاسیت اور ماتم آتا ہے. اور اسی سے ہی خصوصی انداز میں ہم حکمت اور علم حاصل کرتے ہیں اور دیکھتے اور سنتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے، کیا برا اور کیا اچھا ہے، کیا میٹھا اور کیا بدمزہ ہے”

550 قبل از عیسوی میں یونانی طبیب اور فلاسفر الکمین Alcmaeon نے اندازہ لگایا کہ جانوروں کے برعکس صرف انسان ہی منطقی انداز میں سوچنے کے قابل ہے اور دل کی بجائے دماغ میں سوچ اور عقل کا عمل سر انجام پاتا ہے، اس کے کوئی 300 سال بعد یونانی طبیبوں ہیروفیلس Herophilos اور ایرے سسٹریٹس Erasistratus نے مل کر انسانی جسم کے آپریشن کیے اور دل ودماغ کو بیان کرنے سمیت اعصابی نظام کا نقشہ تیار کیا اور خلاصہ کیا کہ انسان کا دماغ جانوروں کے دماغ سے مختلف ہے کیونکہ یہ حجم میں بڑا ہے، مشہورِ زمانہ یونانی طبیب جالینوس نے دماغ اور اس کے اعصاب اور پٹھوں کے ساتھ تعلق کی اہمیت کو اجاگر کیا.

دوسری قوموں کی طرح عرب بھی یہ بات نہیں جانتے تھے کہ عقل دماغ میں ہوتی ہے بلکہ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ عقل اور فکر کی جگہ دل میں ہے، اسلام کی آمد کے بعد بھی صورتِ حال تبدیل نہ ہوئی، بلکہ اسلام خود اس مغالطے کے کھڈے میں گر گیا اور اس بات کو حقیقت جانتے ہوئے ان جانے میں اس خیال کو تقویت بخشی، قرآن اور حدیث میں ایسے متون موجود ہیں جن سے اس بات کی تصدیق بڑے آرام سے ہوجاتی ہے، سورہ اعراف کی آیت 179 میں یہ مغالطہ بڑے واضح انداز میں بیان ہے کہ سمجھ دل سے ہوتی ہے:

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾
اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں۔ انکے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں اور انکی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں۔ اور ان کے کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ بالکل چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ یہی وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اور سورہ حج کی آیت 46 اس بات کی مزید تصدیق کرتی نظر آتی ہے:

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ ﴿۴۶﴾
سو کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل ایسے ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ایسے ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہو جاتے ہیں۔

جبکہ صحیح مسلم میں درج ہے:

"ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا” (حوالہ 1 اور 2)

انجیل بھی اس مغالطے سے خالی نہیں، متی 15:13 اور یوحنا 40:12 میں درج ہے: "اور اپنے دلوں سے سمجھتے ہیں”

لسان العرب کھولیں تو معلوم پڑتا ہے کہ دماغ کا کام ہی مجہول ہے اور عقل وہی ہے جو آپ دل سے سمجھتے ہیں:

والعَقْلُ: القَلْبُ، والقَلْبُ العَقْلُ، ويقال: لِفُلان قَلْبٌ عَقُول، ولِسانٌ سَؤُول.
اور عقل: دل ہے، اور دل عقل ہے، اور کہا جاتا ہے: فلان کا عقل والا دل ہے، اور سوال کرنے والی زبان ہے.

اسی لسان العرب سے پتہ چلتا ہے کہ دماغ کا سوچنے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا سرے سے کوئی کام ہی متعین نہیں:

الدِّماغُ: حَشْوُ الرأْسِ، والجمع أَدْمِغةٌ ودُمُغٌ.
دماغ: سر کی بھرائی ہے، جمع ادمغہ اور دمغ ہے.

اس کے با وجود اگر کان کی میل اچھی طرح صاف کی جائے اور آنکھوں کے لیے کوئی اچھے سے قطرے استعمال کر کے تھوڑی سی تحقیق کرنے کا کشٹ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سر کے علاج کے اولین اوزار اندلس یعنی سپین کے مسلم طبیب ابو القاسم خلف بن عباس الزہراوی نے ایجاد کیے تھے، اگرچہ میں نے یہ تحریر شروع کرنے سے پہلے یہ تیر اندھیرے میں چلایا تھا جس کی دو وجوہات تھیں اور پہلی وجہ نے ہی دوسری وجہ کی تصدیق کردی، پہلی وجہ تو یہی ہے کہ کسی بھی طرح کے آپریشن کے سب سے پہلے اوزار الزہراوی نے ہی بنائے تھے اور یہ بات نہ صرف ریکارڈ پر ہے بلکہ اظہر من الشمس ہے، بچپن میں، میں نے الزہراوی پر مصر میں بنائی گئی ایک دستاویزی فلم دیکھی تھی جو مجھے آج بھی یاد ہے، یہی وجہ ہے کہ میری اس طرف توجہ گئی، لیکن آپریشن کے سب سے پہلے اوزار ایجاد کرنا اور سر کے آپریشن کے اوزار ایجاد کرنے میں تھوڑا فرق ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ الزہراوی نے سر کے آپریشن کے لیے بھی کوئی اوزار ایجاد کیا ہو، لیکن یہ غلط فہمی ان کی مشہورِ زمانہ کتاب "التصریف لمن عجز عن التالیف” کے سرسری مطالعے سے ہی دور ہوجاتی ہے خاص طور سے کتاب کا آخری باب جو جراحت سے متعلق ہے جس میں ہمیں کھوپڑی کھولنے کے اوزاروں کے نقشے ملتے ہیں، یعنی صاحب نے نہ صرف اولین آپریشن کے اوزار ایجاد کیے بلکہ سر کے آپریشن کے لیے بھی اوزار وضع کیے جو از حد متاثر کن کام ہے، ذیل میں میرے پاس دستیاب التصریف کے اس باب کا عکس ہے جو سر کے ٹوٹنے اور اس کے اوزاروں سے متعلق ہے:

اس مسلمان اندلسی طبیب نے طبی آلات کی اختراع میں کمال کا مظاہرہ کیا نتیجتاً اس کی کتابیں یورپ میں چار صدیوں تک پڑھائی جاتی رہیں، تاہم درست علمی انداز میں دماغ پر تحقیق نشاۃ ثانیہ کے دور کے بعد (1600 عیسوی) ہی شروع ہوسکی.

1664 میں انگریز طبیب تھومس ویلیس Thomas Willis نے کچھ اوزاروں، ایک عدد خرد بین اور ایک چوری شدہ لاش کی مدد سے دماغ کے اندرونی حصوں کو بخوبی بیان کیا جو اس کی سیریبری ایناٹومی Cerebri Anatome نامی کتاب میں درج ہے، اس نے بتایا کہ دماغ کے مختلف حصے عقل کی مختلف اقسام کو کنٹرول کرتے ہیں، اس کے علاوہ اس نے دماغ کے نچلے حصے میں دماغ کو خون فراہم کرنے والی شریانوں کو دریافت کیا جسے اب بھی اسی کے نام سے یعنی دورہ ویلیس Circle of Willis سے جانا جاتا ہے.

1848 میں امریکی ریلوے کے ملازم فینیاس گیج Phineas Gage کام کے دوران ایک حادثے کا شکار ہوا، ایک لوہے کا سریا اس کے سر کے اوپر کے حصے میں پیوست ہوکر ماتھے سے گزرتے ہوئے بائیں گال سے باہر نکل آیا، حادثے کے بعد فینیاس پر غصے کی کیفیات طاری ہونے لگیں اور اسے بھوت وغیرہ نظر آنے لگے، اس کی حالت سے اطباء نے اندازہ لگایا کہ شخصیت کی معلومات کا مرکز دماغ کے اگلے حصے میں ہوتا ہے، اور یہ کہ شخصیت کے عدم توازن کی وجہ سفید مادہ Lobotomi اور دماغ کے اگلے حصے میں رابطے کا فقدان ہے.

چوہوں پر تجربات کے دوران امریکی طبیب کارل لیشلی Karl Lashley نے پتہ لگایا کہ جس قدر دماغ کے کسی حصے کو زائل کیا جاتا ہے اسی قدر یادداشت متاثر ہوتی چلی جاتی ہے، اس کے لیے اس کا مطلب یہ تھا کہ یادداشت کسی مخصوص مقام پر نہیں ہے بلکہ اس کا پھیلاؤ پورے دماغ پر محیط ہے، یعنی یادداشت کا کوئی ایک مرکز نہیں ہے.

9 Comments

  1. میں قران پر یقین کرنے والا مسلمانوں میں سے ہوں
    لیکن اس بات کو سج کی اپ نے نشاندہی کی ہی
    اس باتکو قران میں سے سمجھ ناں سکا
    اور اس بات کے گمان میں ہوں کہ قلب کا لفظ ہی وہ لفظ ناں‌ہو
    جو اس چیز کے لئے استعمال ہوتا ہوں جس کو ہم دماغ کہتے ہیں
    یا ہ میں ابھی اس بات کی سمجھ نہیں رکھتا کہ اس بات کے شبے میں پڑ چکا ہوں
    جن کو متشابہات کہتے ہیں
    اور اگر قران میں لفظ دماغ آیا ہی نہیں تو ، پھر امکان غالب ہے کہ قلوب کا لفظ ہی
    دماغ کا متبادل ہو گا

  2. یہ حکمت بھی تو ہو سکتی ہے کہ لوگوں سے انہی کی زبان میں‌گفتگو کی جائے اور جس قدر ہو سکے انکے موجودہ "کونسیپٹ” کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ جوں‌جوں سائنس ترقی کرے گی اور ریسرچ ہوگی حقیقت خودبخود سامنے آ جائے گی، ایک طرف پوری دنیا کہہ رہی ہو کہ سوچ کا مرکز دل ہے اور ایک بندہ اٹھ کر کہہ دے کہ نہیں جناب، وہ تو دماغ ہے، ایک الگ ہی بحث اور تمسخر شروع ہوجاتا. کیونکہ مقصد سائنس بیان کرنا تو نہیں‌نا، بلکہ مقصد تو اللہ کی وحدانیت اور احکام و شریعت بیان کر

  3. یہ حکمت بھی تو ہو سکتی ہے کہ لوگوں سے انہی کی زبان میں‌گفتگو کی جائے اور جس قدر ہو سکے انکے موجودہ "کونسیپٹ” کو نہ چھیڑا جائے کیونکہ جوں‌جوں سائنس ترقی کرے گی اور ریسرچ ہوگی حقیقت خودبخود سامنے آ جائے گی، ایک طرف پوری دنیا کہہ رہی ہو کہ سوچ کا مرکز دل ہے اور ایک بندہ اٹھ کر کہہ دے کہ نہیں جناب، وہ تو دماغ ہے، ایک الگ ہی بحث اور تمسخر شروع ہوجاتا. کیونکہ مقصد سائنس بیان کرنا تو نہیں‌نا، بلکہ مقصد تو اللہ کی وحدانیت اور احکام و شریعت بیان کرنا ہے.
    اب دیکھیں جن جن چیزوں میں ضرر تھا، انکی نشاندہی کی گئی. مثلا سور کا گوشت جسکے بارے میں آج ہم جانتے ہیں کہ یہ دوسرے گوشت سے زیادہ مضر ہے اور قسم ہا قسم کے کیڑوں اور بیماریوں سے بھرا ہوا ہے. الکحل لے لیں، اسمیں کچھ میڈیکل فوائد ضرور ہیں، لیکن اسکا عام استعمال دماغ کو بری طرح متاثر کرتا ہے.

  4. actually i was bored by the repetitiveness of your views in articles and also the comments
    also i was worried about answering the matters of philosophy which came up during comments
    i have found a great book whose writer answers all of the matters which are raised by you and your articles…if you get time to read it then it will be a thing of benefit to u iam sure
    the name is ‘tablees-e-iblees’ and its writer is Abdul rahman Al jozi…
    it answers all sorts of issues which created deviation from the true islamic concepts… it also covers the aspects of philosophy and ilm-ul-kalam issues which u often copy paste in ur articles.
    if u can read it ,inshallah it will spare your ignorant readers from scholarary questions asked in your article….honestly they are very confusing for a simple ignorant muslim (which is most of today’s muslim population’s problem) . iam no one to pass any judgement on your faith and actions. i only want to share a good informative work with you which answers most of issues which people may have with islamic faith, it also explains how and why a certain wrong thought arises and how it’s answered and corrected by proper creed of islam.
    may Allah help everyone who is trying to reach to the right path ameen.
    Allah hafiz
    link for urdu translation of book:
    http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/181-total-books/430-talbees-e-iblees.html

  5. ایک بات میری سمجھ میں نہیں آیٌ
    وہ یہ کہ غم خوشی پیار اورنفرت کو آج بھی پوری دنیا کے لوگ ۔ دل۔ سے وابستہ کرتے ہیں
    اور آپ کا کہنا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں دماغ میں ہیں تو یہ
    ٹوٹا دل
    دل کی خوشی کیا چیز ہے پلیز سمجھائیے

  6. ایک بات میری سمجھ میں نہیں آیٌ
    وہ یہ کہ غم خوشی پیار اورنفرت کو آج بھی پوری دنیا کے لوگ ۔ دل۔ سے وابستہ کرتے ہیں
    اور آپ کا کہنا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی تمام تر صلاحیتیں دماغ میں ہیں تو یہ
    ٹوٹا دل
    دل کی خوشی کیا چیز ہے پلیز سمجھائیے

    جواب دیں

جواب دیں

9 Comments
scroll to top